میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں
پھر اُن کو توڑتا ہوں اور نئے بناتا ہوں

پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا
نئے سفر کیلئے راستے بناتا ہوں

مقیمِِ دل ہوں میں ، امید نام ہے میرا
میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں

میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے
ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے بناتا ہوں

بس ایک سنگِ ندامت ہے اب مری توفیق
میں پانی تکتا ہوں اور دائرے بناتا ہوں

نہ سنگِ میل ، نہ منزل ، نہ رہنما ، میں تو
ستارے دیکھتا ہوں ، زائچے بناتا ہوں

مجھے خبرہے کہ جانا مجھے اکیلا ہے
تو پھر یہ قافلہ کس کے لئے بناتا ہوں ؟

۔۔۔۔ ۲۰۰۷۔۔۔۔۔۔​
 
بہت عمدہ ظہیر صاحب
پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا
نئے سفر کیلئے راستے بناتا ہوں

مقیمِِ دل ہوں میں ، امید نام ہے میرا
میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں

میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے
ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے بناتا ہوں
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ۔ زبردست اشعار ہیں۔
محمد کاشف اختر صاحب کا شکریہ ورنہ یہ خوبصورت غزلیں مجھ سے اتفاقاً نظر انداز ہو گئی تھیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت عمدہ ظہیر صاحب
بہت بہت شکریہ تابش بھائی ۔ آپ کی محبت اور خلوص کے لئے سراپا سپاس ہوں ۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ خوش رکھے ۔
بہت شکریہ کاشف ! بہت نوازش!
سبحان اللہ۔ زبردست اشعار ہیں۔
محمد کاشف اختر صاحب کا شکریہ ورنہ یہ خوبصورت غزلیں مجھ سے اتفاقاً نظر انداز ہو گئی تھیں۔
بہت شکریہ ! نوازش!! فاتح اگر اسے میری بدذوقی اور اپنے حقِ مطالعہ میں دخل اندازی نہ سمجھو تو میں نئی غزل پوسٹ کرتے وقت آپ کو ٹیگ کردیا کروں!؟!
 
Top