میں اسے زندگی سے ڈسواتا ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
میں اسے زندگی سے ڈسواتا
کاش ہوتا اجل کا اِک بیٹا

تن کو بھونا زمیں کے شعلوں پر
میں نے دوزخ سے اپنا رزق لیا

یہ زمیں گندگی کا ڈھیر بھی ہے
تو فقط باغ میں پھرے بہکا

"لہو اپنا پیوں ہُوں جیتا ہوں"
میں نے چھاتی کو
میر* سے کُوٹا

زندگی ہے کہ چھاؤں کیکر کی
جل گیا ہوں میں سائے میں بیٹھا

میرے حصّے کی ہے زمین کدھر
اے اَجل رہنمائی تو کرنا

گھُورتی ہے خدا کی آنکھ مجھے
میں نے آدم کا مرثیہ لکھا

* میر تقی میر

(رفیق اظہر)
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
سخنور جی
زندگی ہے کہ چھاؤں کیکر کی
جل گیا ہوں میں سائے میں بیٹھا

بہت شکریہ محترم رفیق اظہر جی کے کلام سے نوازنے پر ۔
نایاب
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ ، اچھا اشاریہ ہے نئے آنے والوں کے لیے ۔:idea2:

مغل صاحب نئے آنے والوں کی فکر وہ کرے جسے بزعمِ خود 'راہنمائی' کا برخود غلط دعویٰ ہو، بقولِ شاعر

ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو

یا بقولِ شیخ

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
 

محمد وارث

لائبریرین
وضاحت کی حد تو ٹھیک ہے ، لیکن یہ احوال اخلاقی و سماجی خرابی کا پیش خیمہ ہے ۔ جناب

جی بجا کہا:

بقولِ مرشدی

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گبھرائیں کیا

یا بقولِ علامہ

اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
 

مغزل

محفلین
جی بجا کہا:
بقولِ مرشدی
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گبھرائیں کیا

جناب۔۔ بے شک،

یا بقولِ علامہ
اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟

واہ کیا کہنے ، مگر قبلہ ! ۔۔۔ بجائے شکر ، یہ شکوہ ؟ ۔۔ چہ معنی دارد ؟
شکوہ اقبال کو ہی روا ہے ، اس کی زبان شکوہ کے حرمت سےواقف ہے ۔
ہمارا تو مسئلہ ہے اب اسے ’’‌یاوہ گوئی ‘‘ پر محمول کیا جائے یا احوالِ واقعی۔:)

بقول خالد علیگ مرحوم کے :

پالنے ہی سے جو گواہی دے
دار سے کم وہ کیا صلہ لے گا

مانگنے والے اپنا ظرف بھی دیکھ
سر کٹائے گا ؟ ، کربلا لے گا ؟؟؟
 
Top