میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

نوید صادق

محفلین
ضابطہ

جملہ حقوق بحق بیگم سیّد آلِ احمد محفوظ ہیں

اشاعتِ اول ۔۔۔۔۔۔۔۔فروری ۲۰۰۷ء
ترتیب و تدوین ۔۔۔۔نوید صادق
اہتمامِ اشاعت ۔۔۔خالد علیم
سرورق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وسیم الحق
کمپوزنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الاشراق کمپوزنگ سنٹر‘ لاہور
تعدادِ اشاعت ۔۔۔۔۔۵۰۰
مطبع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سجاد ابرار پرنٹنگ پریس‘ لاہور
قیمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔/200 روپے

کتاب ملنے کے پتے :
۱۔ الاشراق پبلی کیشنز‘ ۲۱۷۔سرکلر روڈ‘ لاہور
۲۔ دفتر ہفت روزہ ’’کارواں‘‘ احمد نگر۔ بہاول پور
۳۔ ارسلان عمرانٹر پرائزز‘ فوجی بستی‘ یزمان روڈ‘ بہاول پور
۴۔ وہاڑی انٹرپرائزز‘ امام بارگاہ روڈ‘ سرہند کالونی‘ وہاڑی
۴۔ عمر اینڈ اصغر انٹرپرائزز‘ پریس کلب مارکیٹ‘ لودھراں
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ

سید آلِ احمد کی شاعری نوائے سروش چاہے ہو یا نہ ہو مگر اس میں انسانی دل کی دھڑکنیں ضرور بند ہیں۔ سید آلِ احمد کی شاعری وہ دوراہا ہے جہاں جدت اور قدامت کے راستے پھٹتے ہیں۔ اُن کے کلام میں جوش و تازگی کے ساتھ تنوع بھی ہے۔اُن کی ’’لے‘‘ ساز کے پردوں کی طرح کہیں نرم و شریں ہے اور کہیں چونکا دینے والی!

(مولاناماہرالقادری)
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ

سید آلِ احمد بہاولپور کے نوجوانوں میں ایک خاص رُخ کے انسان ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور صحافی بھی ‘ اور شاعری و صحافت کا آمیزہ اُن کی شاعری میں نہایت حسین صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اُن کی صحافت میں شاعری کے خدوخال اُبھرتے معلوم ہوتے ہیں‘ اور شاعری میں سیاست کی گتھیاں نکلتی نظر آتی ہیں۔ وہ فکر و خیال کے اعتبار سے جدید لکھنے والوں کی صف میں آتے ہیں اور اُن کی ترقی پر بھی حدود نہیں لگائی جا سکتیں۔

(احسان دانش)
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ

سب سے ہٹ کے بات کرنے والا ایک علیحدہ لغت لیے اپنی علیحدہ زبان میں شاعری کرنے والا آلِ احمد مجھے پہلی ہی ملاقات میں اچھا لگا کہ سچ بول رہا تھا۔ وہ ادب کے روایتی وڈیروں کے خلاف تھا۔ کبھی کسی کو چھپنے کے لیے کچھ نہیں بھیجا۔ چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اچھی شاعری کرنے والا آلِ احمد صاف دل لیے چُپ چاپ یہاں سے چلا گیا۔
منیر نیازی
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ

غزل گوئی میں آپ کو بڑی دسترس حاصل ہے۔ ان کی غزلوں میں دوہوں کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اور گیتوں کا رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی غزلوں کا لہجہ گیتوں کی طرح میٹھا‘ ملائم‘ کومل اور گداز ہے۔

پروفیسر محمد امین
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ

سید آلِ احمد زیادہ تر غزل ہی کے شاعر ہیں اور ان میں‘ میں نے فکر و فن کی وہ جھلکیاں دیکھیں جو نہ صرف یہ ثابت کرتی ہیں کہ صنف غزل میں لاانتہا جدتوں کا امکان ہے بلکہ اس کا ثبوت بھی ہیں۔ احمد صاحب اس کو اپنی افرادی جدت سے معمور کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ

یوں تو غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا حسین ترین امتزاج عصرِ حاضر کے جواں فکر شاعر سید آلِ احمد کی شاعری میں بھی نمایاں ہے مگر اس خوبی کے علاوہ اُن کی غزلوں اور نظموں میں ایک ایسی کیفیت بھی جھلکتی ہے جس کی مثال آج کل نوجوان شعراء میں خال خال ہی پائی جاتی ہے‘ وہ ہے اُن کا ’’ذاتی احساس‘‘ جو اُن کی پوری شخصیت پر طاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذاتی احساس کا سلیقے سے اظہار ایک نعمت ہے‘ اور لائقِ تحسین خوبی‘ جو آلِ احمد کے کلام میں اپنی پوری رعنائی کے ساتھ موجود ہے۔

اختر انصاری اکبرآبادی
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ

سید آلِ احمد کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ صرف شاعری کے سہارے ادبی دُنیا میں آیا ہے۔ اشتہار بازروں کے کسی گروہ کے سہارے نہیں‘ اور یہی وجہ ہے کہ لاہور اور کراچی سے جب آئے دن ادبی یا غیر ادبی غبارے چھوڑے جا رہے ہیں‘ آلِ احمد کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ ایک چھوٹی سی جگہ بیٹھا خاموشی سے یہ تماشے دیکھ رہا ہے اور زیرِ لب مسکرا رہا ہے۔۔۔اس مسکراہٹ میں کتنی خوداعتمادی ہے‘ اُس کے اشعار سے ظاہر ہے۔

حمایت علی شاعر
 

نوید صادق

محفلین
رائے

سید آلِ احمد بہاولپور کے ریگ زاروں اور راہ گزاروں میں سانس لینے والے ایسے باکمال سخن گو تھے کہ انھوں نے زندگی بھر قرطاس و قلم سے رشتہ جوڑے رکھا‘ اور نامساعد حالات میں بھی اپنے فن اور اپنے حرف سے وابستگی قائم رکھی۔ وہ خلیق‘ بامروّت اور ملنسار انسان تھے۔ قدرت نے انھیں ذوق آشنا قلب عطا کیا تھا مگر قسمت نے انھیں ایک ایسے ریگ زار میں رکھا جہاں اُن کی صلاحیتیں پورے طور پر عوام الناس کے سامنے نہ آ سکیں۔ روایت کے ساتھ رشتہ جوڑنے اور اپنے ماضی کو اپنے حال کے ساتھ منسلک کرنے کے فن سے سید آلِ احمد بخوبی واقف تھے۔

محسن احسان
 

نوید صادق

محفلین
رائے

روایت میں ایک خرابی ہے کہ اس میں شاعر کی انفرادیت زیرِ زمین چلی جاتی ہے اس لیے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا شعر کہنا جس پر شاعر کی انفرادیت کی چھاپ گہری ہو اور محسوسات کا نیا پن بھی موجود ہو‘ فنی پختگی کا تقاضا کرتا ہے۔ سماجی عدل و انصاف‘ معاشرتی اور اقتصادی مسائل کلاسیکی غزل کے موضوعات نہیں ہیں۔ یہ آج سے چند دہائیاں پہلے کی بات ہے جب نئے شاعر نے غزل کو ان عصری موضوعات سے روشناس کرایا اور غزل کی یکسانیت کو ایک نیا آہنگ دیا۔ سید آلِ احمد اپنے فن کے لحاظ سے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں عصری آگہی کے ساتھ ساتھ غزل کی روایتی غنائیت بھی موجود ہے‘ اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کو ہر طبقہ میں مقبولیت حاصل ہے۔

پروفیسر غلام جیلانی اصغر
 

نوید صادق

محفلین
دیباچہ

سیّد آلِ احمد کا مخصوص طرزِ سخن

۱۹۸۰ء میں سترہ برس کے بعد بہاول پور جانا ہوا تو یہ محسوس کرکے خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ پُرسکون شہر اُس حد تک نہیں بدلا تھا کہ جس حد تک اتنے عرصے کے بعد آنے والوں کو اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس کے مانوس خد و خال مجھے جوں کے توں نظر آئے۔ سائیکل رکشا بھی اُس زمانے تک چل رہے تھے۔ بیکانیری گیٹ اب فرید گیٹ کہلانے لگا تھا مگر اُس کی شکل و شباہت بھی جوں کی توں تھی۔ اُس کے برابر میں پان والے کی دکان بھی موجود تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں سیّد آلِ احمد کھڑے رہا کرتے تھے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ اُس وقت بھی کھڑے ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور آ گیا تھا کہ اب وہ سوٹ میں ملبوس تھے۔
پہلی بار جب ۱۹۶۲ء میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت سے میں گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور آیا تو جن لوگوں سے بہت جلد مانوس ہو گیا اور جن کی صحبت میں لاہور سے دُور وہ اداس شام و سحر اچھے گزر جاتے تھے ان میں سید آلِ احمد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ اُس زمانے میں وہ مستقلاً گیروا کرتا اور چھوٹے پائنچوں کا سفید پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ بیکانیری گیٹ کے برابر میں حبیب ہوٹل تھا اور اس سے ذرا آگے ایک سادہ سا نیا ہوٹل ہمارے سامنے ہی شروع ہوا تھا ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘۔ کالج سے واپسی پر اور پھر شام کو ہم چند لیکچرار کھانا یہیں کھاتے تھے۔ شہر کے جو ادیب و شاعر حضرات یہاں مستقلاً چائے پینے آتے تھے ان میں سید آلِ احمد سب سے زیادہ باقاعدہ تھے۔ چنانچہ اُن سے ملاقات روزانہ کا معمول تھا۔ ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ میں شعر و سخن کی محفل بھی خوب جمتی۔ ہوٹل کے مالک ایک معمر بزرگ تھے۔ نام یاد نہیں۔ بڑے خلیق آدمی تھے۔ ہمیں دور سے آتا دیکھتے تو گرم روٹیاں لگوانا شروع کر دیتے‘ اور ہماری طویل ادبی نشستوں سے الجھن محسوس کرنے کے بجائے بہت خوش ہوتے۔ سید آلِ احمد کے اُس زمانے کے کچھ شعرلوحِ دل پر‘ اُن کی آواز میں‘ اب تک نقش ہیں:

ہنگامہ سرا مصر کا بازار نہیں اب
یوسف سا کوئی حُسن طرح دار نہیں اب

ہو بھی تو کوئی اُس کا خریدار نہیں اب
دامانِ زلیخا میں کوئی تار نہیں اب

ہم تو ہیں ہمیں سنگ و گل و خشت سے مارو
منصور اگر کوئی سرِ دار نہیں اب

یہ اشعار سید صاحب اکثر مشاعروں اور شعری نشستوں میں تواتر کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ ایک اور غزل تھی:

پر شکستہ کسی سہمے ہوئے طائر کی طرح
وقت کے کانپتے ہاتھوںمیں نہ مرنا اب کے

سید آل احمدنے ایک اچھے شاعر اور محبت کرنے والے انسان کی حیثیت سے بہت جلد ہمارے دلوں میں گھر کر لیا۔ اُن کے کلام میں روایت سے پیوستگی کے ساتھ ایک تخلیقی لپک تھی جو اُن کے کلام کو محض ’’روایتی‘‘ بن جانے سے بچاتی تھی اور فنی خد و خال میں ان کی انفرادیت کو اُبھار کر سامنے لاتی تھی۔
سید صاحب چونکہ خود مست شاعر تھے اور اُس زمانے میں دُور دُور تک تعارف رکھنے کے باوجود پی آر کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کا فن نہیں جانتے تھے اس لیے آگے چل کر کہنی مار دوڑ میں شمولیت نہ کر سکے اور ہر چند کہ خواص ان کے فنی مرتبے سے ناواقف نہ تھے‘ وہ ’’لائم لائٹ‘‘ سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان کا بس ایک مختصر سا مجموعہ ’’صریرِ خامہ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۴ء میں بہاول پور ہی سے شائع ہوا جس کی پذیرائی کرنے والوں میں ماہرالقادری‘ حمایت علی شاعر‘ اختر انصاری اکبر آبادی‘ محمد احسن فاروقی‘ منظور حسین شور اور دیگر کئی ممتاز سخن شناس شامل تھے۔
ایک طویل عرصے کے بعد جب نوید صادق نے اطلاع دی کہ سید صاحب بسترِ علالت پر ہیں اور ان کا ایک اور مجموعہ اشاعت کے لیے تیار ہے ‘ جس پر مجھے بھی کچھ اظہارِ خیال کرنا ہے تو مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ اظہارِ خیال تو میرے لیے خود اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے مترادف ہوگا لیکن عجیب تلخ اتفاق یہ ہوا کہ اگلے روز جب نوید صادق مسودّہ میرے حوالے کرنے آئے تو میں اخبار میں سیّد صاحب کی رحلت کی خبر پڑھ چکا تھا‘ جس کا خود نوید صادق کو علم نہ تھا۔
سید آلِ احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رنگِ سخن کا آئینہ دار ہے‘ جو شدتِ احساس‘ رومانیت‘ روایت اور جدت کے ایک دلکش امتزاج سے عبار ت ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں

میری خاطر نہ تکلف کیجئے
میں تو کا نٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں

پتھر کہیں گے لوگ‘ سرِ رہ گزر نہ بیٹھ
چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ

احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر
خائف نہ ہو‘ نظر نہ چرا‘ چھپ کے گھر نہ بیٹھ

کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد
اتنی سردی میں رات کو تنہا

کس مسافت کے بعد پہنچا ہے
تیرے رُخسار پر مرا آنسو

افسوس کہ ہم اس مجموعے کا استقبال بہت دیر سے کر رہے ہیں۔ تاہم دُنیائے فن میں حیاتِ ظاہری کی اہمیت کچھ زیادہ نہیں۔ امید ہے کہ یہ مجموعہ سیّد صاحب کے لیے بقائے دوام کا ضامن ہوگا۔

ڈاکٹرخورشید رضوی
 

نوید صادق

محفلین
میں نے جب بھی کسی تخلیق کا سوچا ۔۔۔ اور جب بھی کوئی پیکر تراشا ہے تو کوشش کی ہے کہ میرے خواب و ادراک کی تعمیر کا جو وجود قرطاس پر اُبھرے‘ وہ عجز و سلیقہ کے حیات افروز شانوں سے حروف کا وہ بوجھ زائل کر دے جو ’’صورت‘ آواز اور معنی کے مرتب شدہ نقوش کے جسموں کی کمر جھکا دیتا ہے۔
میں اس تحمل اور لغزشوں کی منزل میں کس حد تک خوش نتائج اور عاقبت نااندیش مسافت طے کر سکا ہوں۔۔۔آئنہ ہے۔

سید آلِ احمد
 

نوید صادق

محفلین
دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے

دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے

تم جو میری بات سُنے بِن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے

رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے

آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے

تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی
تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے

کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے
کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے

احمد گہری سوچ کی خو کب پائی ہے
تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے
 

نوید صادق

محفلین
جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں

جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں
اس کی خواہش ہے کہ میں اپنا سفر جاری رکھوں

اپنی تنہائی کا یہ حبس مٹانے کے لیے
جی یہ چاہے کہ ترے حسن پہ آوازہ کسوں

تو نے ناحق ہی گرجنے کا تکلف برتا
میں تو بپھرے ہوئے طوفان کا رُخ موڑتا ہوں

عمر بھر جس کے لیے میں نے دعائیں مانگیں
اب اسے‘ کوئی بتاؤ‘ میں برا کیسے کہوں

ہے کوئی؟ خستہ لکیروں کی جو قبریں کھودے
کتنے مضمون ہیں مجھ سوختہ تن میں مدفوں

اب تو حالات سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
زندگی! اور کہاں تک ترا رستہ دیکھوں

تیری بستی میں تو پتھر کے سجے ہیں اصنام
آدمی کوئی نظر آئے تو کچھ بات کروں

زُلف ہوتا تو کسی دوشِ سکوں پر کھلتا
میں تو وہ زخمِ وفا ہوں کہ مہک بھی نہ سکوں

کتنی آنکھیں مری خواہش پہ جھپٹ پڑتی ہیں
جب بھی اس شخص سے ملنے کی فراغت ڈھونڈوں

کس کو فرصت ہے مجھے ڈھونڈنے نکلے احمد
اپنی ہی چاپ پہ کب تک میں پلٹ کر دیکھوں
 

نوید صادق

محفلین
سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں

سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں
زیست کے بے خواب گھر میں کوئی جگنو بھی نہیں

نااُمیدی! تیرے گھیراؤ سے ڈر لگنے لگا
دھڑکنوں کے دشت میں اک چشم آہو بھی نہیں

جسم کے حساس پودے کو نمو کیسے ملے
قرب کی ٹھنڈی ہوا کیا کرب کی لو بھی نہیں

ہم سفر ہیں مصلحت کا خول سب پہنے ہوئے
دوستی کیا اب کوئی تسکیں کا پہلو بھی نہیں

ضبط کے گہرے سمندر کو تموج بخش دے
پیار کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں

وقت نے تجھ سے ترے لہجے کی خوشبو چھین لی
میں جسے اپنا سمجھتا تھا وہ اب تو بھی نہیں

شام کی خستہ لحد پر بے سکوں ٹھہرا ہوں میں
میرا مونس کوئی ’’داتا‘‘ کوئی ’’باہو‘‘ بھی نہیں

خواب جو دیکھے تھے احمد سب ادھورے رہ گئے
اب کسی خواہش کے آگے دل ترازو بھی نہیں
 

نوید صادق

محفلین
دوش ہوا کے سات بہت دُور تک گئی

دوش ہوا کے سات بہت دُور تک گئی
خوشبو اُڑی تو رات بہت دُور تک گئی

بادل برس رہا تھا کہ اک اجنبی کی چاپ
شب‘ رکھ کے دل پہ ہات بہت دور تک گئی

یہ اور بات لب پہ تھی افسردگی کی مہر
برقِ تبسمات بہت دُور تک گئی

خورشید کی تلاش میں نکلا جو گھر سے میں
تاریکیِ حیات بہت دور تک گئی

احمد سفر کی شام عجب مہرباں ہوئی
اک عمر میرے سات بہت دور تک گئی
 
Top