میڈیا لایا ایجادیوں کی برات

بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میڈیا لایا ایجادیوں کی برات
آئے دن رپورٹ ہوتی ہے کہ آج ایک پاکستانی نے فلاں کارنامہ/ایجاد کر کے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ بالکل معمولی معمولی باتوں پر ہمارے سر فخر سے بلند اور اسی طرح معمولی سی بات پر شرمندگی سے جھک بھی جاتے ہیں۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ”چڑی موترے تے کانگ“ یعنی چڑیا پیشاب کرے تو سیلاب۔ جب لوگ معمولی معمولی باتوں سے بڑے بڑے نتائج اخذ کرنے لگ جائیں تو وہاں یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کیا عجب تماشہ لگا ہوا ہے۔ جیسے معمولی سی بات پر ہمارا سب کچھ خطرے میں پڑ جاتا ہے بالکل ویسے ہی ”چڑی موترے“ تو ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا آپ لوگوں کو میری ان باتوں پر غصہ آ رہا ہو لیکن کبھی ہم نے اپنے میڈیا، انقلابیوں اور ”ایجادیوں“ پر غور کیا ہے کہ انہوں نے کیا تماشہ لگا رکھا ہے؟ میڈیا کی رپورٹوں پر غور کریں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سارے نہیں تو کم از کم نوے فیصد ”بلنڈر“ ضرور ہیں۔ اگر کوئی حقیقت بیان کرے تو یار لوگ کیا کہتے ہیں اس پر ایک علیحدہ تحریر ہو گی۔ فی الحال موضوع کچھ اور ہے۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا، میڈیا اور ایجادیوں کی۔ میڈیا اور ایجادیوں کے تماشوں کی چند مثالیں دیتا ہوں اور ساتھ میں حقیقت کیا ہے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے غالباً پچھلے رمضان (2011ء) میں ایک صاحب جیو نیوز چینل پر آئے اور اتنے دھڑلے سے جھوٹ بول رہے تھے کہ جن کو دیکھ کر شرمائیں یہود و ہنوز۔ بات قرآن پاک کے تلاش والے اردو سافٹ ویئر کی کر رہے تھے کہ یہ پہلا سافٹ ویئر ہے، اس جیسا آج تک نہیں بنا، یہ امت مسلمہ کو میری طرف سے رمضان میں تخفہ ہے۔ اگر لوگ تعاون کریں تو میں اس سے زیادہ اچھا اور احادیث کا سافٹ ویئر بھی بنا دوں گا (لنک)۔ اینکر کامران خان نے اس بات پر انہیں پتہ نہیں امت مسلمہ کا کیا کیا بنا دیا۔ حد ہو گئی یار۔ ٹھیک ہے آپ نے قرآن پاک کا سافٹ ویئر بنایا ہے۔ اچھا کام کیا ہے لیکن اتنے جھوٹ تو نہ بولو اور جنہوں نے تم سے پہلے کئی ایک زبردست سافٹ ویئر بنائے ہیں اور بغیر کسی دنیاوی لالچ کے ان کو دیوار سے تو مت لگاؤ۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کوئی زاہد حسین نامی صاحب تھے اور ان سے پہلے کئی ایک اور ان کے سافٹ ویئر سے زیادہ معیاری سافٹ ویئر موجود ہیں، جیسے ایزی قرآن و احادیث اور نور ہدایت وغیرہ۔
آج کل ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے، گویا اس بارے میں ایک چھوٹی سی شرلی چھوڑ دو تو سارے کام ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک رپورٹ دیکھی جس میں ایک صاحب ٹیوب ویل کے پانی کے بہاؤ سے بجلی بنا رہے تھے اور نتیجہ میں ایک ایل ای ڈی (LED) روشن تھی۔ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر حکومت تعاون کرے تو میں ملک کو بجلی کے بحران سے نکال سکتا ہوں۔ او خدا کے بندے پہلے جو تربیلا اور منگلا پاور ہاؤس چل رہے ہیں وہ بھی تو اسی تکنیک پر چل رہے ہیں تو تو نے کونسا نیا تیر مارا ہے۔ ویسے بھی کئی ہارس پاور کی موٹر سے، تو ٹیوب ویل چلا رہا ہے اور پھر نتیجہ میں ایک ایل ای ڈی۔ حد ہو گئی جہالت کی۔ اس طرح کی ایل ای ڈی تو جتنی وہی ٹیوب ویل والی موٹر حرارت چھوڑ رہی ہے، اس سے جلائی جا سکتی ہے۔ ویسے بھی پانی کے بہاؤ کی حرکی توانائی سے بجلی بنانے کے ایک ہزار ایک طریقے دنیا میں رائج ہیں تو پھر تو نے کونسی نئی تکنیک ایجاد کی جس وجہ سے تو اتنا اترا رہا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں بھی اپنے ٹیوب ویل پر ایسا ”پروجیکٹ“ تیار کروں بلکہ ہمارے پاس تو اتنا بڑا دریائے چناب ہے۔ سو دو سو روپے کا ایل ای ڈی چلانے والا چھوٹا سا جنریٹر مل جائے گا، بس پھر پانی سے اسے گھماؤ گا اور مشہور ہو جاؤں گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا پر آنے کے لئے ایک کنال زمین بھیجنی پڑے گی کیونکہ میرے پاس نہ تو کوئی سفارش ہے اور نہ ہی اتنے پیسے۔
ایک رپورٹ میں تھا کہ ایک صاحب نے جدید قسم کا جنریٹر تیار کر دیا۔ وہ صاحب کر یوں رہے تھے کہ انہوں نے گاڑی کی ڈِگی میں ایک بیٹری رکھی ہوئی تھی اور اسے گاڑی کے جنریٹر سے چارج کر رہے تھے۔ پھر اس بیٹری کے آگے انورٹر لگا کر پنکھا چلا رہے تھے۔ کر لو گل! ہو گیا جدید قسم کا جنریٹر تیار۔ یہ رپورٹ دیکھ کر میرا دل کر رہا تھا کہ زور زور سے چیخیں ماروں، اپنے میڈیا کی جہالت پر ماتم کروں اور میڈیا والوں کو کہوں کہ خدا کا خوف کرو، پہلے ہی دنیا میں ہماری بڑی بے عزتی ہو رہی ہے اب اس انداز سے تو نہ کرواؤ۔ اگر یہ رپورٹ کسی دوسرے ملک کے اردو سمجھنے والے، تھوڑے سے تکنیکی بندے نے دیکھ لی تو وہ ہر فورم پر ہماری جہالت پر ہنسے گا، کیونکہ ایسے کام اب بچوں کا کھیل ہیں اور تم اسے ”جدید قسم کا انوکھا جنریٹر“ کہہ رہے ہو۔
پچھلے دنوں ایک صاحب کا بہت چرچا ہوا جن کے دے انٹرویو پر انٹرویو اور رپورٹوں پر رپورٹیں کہ جناب نے پانی سے گاڑی چلائی ہے۔ میں اور میرے دوست غلام عباس نے سوچا ہو سکتا ہے کہ اس نے پانی میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن علیحدہ علیحدہ کرنے کا کوئی نیا اور زبردست طریقہ ایجاد کر لیا ہو۔ خیر ہم اس بندے (ڈاکٹر غلام سرور) کو ملنے گئے۔ سارا دن کی کھجل خرابی کے بعد اس کے گاؤں پہنچے۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ کوئی پانی سے گاڑی نہیں چل رہی تھی بلکہ وہی انیسویں صدی والی تکنیک استعمال کر کے بالکل معمولی سی ہائیڈروجن حاصل کی جا رہی تھی جو پٹرول کے ساتھ ملا کر جلائی جا رہی تھی تاکہ انجن کی تھوڑی طاقت زیادہ ہو جائے۔ اب پتہ نہیں طاقت زیادہ ہوئی بھی تھی یا نہیں لیکن پانی سے انجن/گاڑی چلانے والا سیدھا سیدھا جھوٹ تھا۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میڈیا نے اس کی اتنی جھوٹی تشہیر کیوں کی لیکن اس بندے سے مل کر ایک بات واضح ہوئی کہ وہ بندہ بذاتِ خود بہت اچھا تھا، درد دل رکھنے والا انسان ہے اور پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے خود میڈیا کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے۔ باقی اس نے خود مانا کہ پانی سے گاڑی نہیں چلائی جا رہی بلکہ مجھے انجن کی تھوڑی زیادہ طاقت چاہئے تھی تو میں نے اس کے لئے ہائیڈروجن والا طریقہ سوچا۔ مگر ہمارے میڈیا نے تو وہ گاڑی سو فیصد پانی سے چلوا دی تھی۔
پچھلے دنوں ایک اور شور مچا ہوا تھا کہ سوات کے نوجوان نے پانی سے جنریٹر چلا کر بجلی بنا دی۔ جس میں کہا گیا کہ اس نے پانی سے انجن چلایا اور پھر اس انجن سے بجلی بنانے والی ڈینمو گھمائی۔ اب ایک اور شوشا بڑے عروج پر ہے، اس بار تو حد ہی ہو گئی۔ وزیراور بڑے بڑے اینکر اور تو اور کئی اہم شخصیات جیسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کے چیرمین ڈاکٹر شوکت پرویز بھی اس کھیل میں اس ”شوشے“ کے حق میں کود چکے ہیں جبکہ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن فی الحال اس ”ایجاد“ کو کچھ اس طرح نہیں مان رہے کہ ان کا خیال ہے کہ ایک تو اس کی اچھی طرح جانچ ہونی چاہئے اور دوسرا یہ کہ اس طرح پانی سے گاڑی چلنا ناممکن ہے کیونکہ یہ سائنس کے بنیادی اصول توانائی کی ایک حالت سے دوسری میں تبدیلی اور تھرموڈائنامکس کے پہلے قانون کے خلاف ہے۔
پانی سے گاڑی چلانے والے بندے آغا وقار کا کہنا ہے کہ بس اس کی بنائی ہوئی ”واٹر کِٹ“ میں صرف خالص پانی ڈالتے جاؤ تو گاڑی چلتی رہے گی۔
میں سائنس کا کوئی ”راکٹ سائنس“ طالب علم نہیں مگر حیران ہوتا ہوں کہ ایسی معمولی باتیں میں جانتا ہوں تو ان ”وڈے“ لوگوں کو کیا نہیں پتہ، یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ”سب مایا ہے“ کیونکہ یہ جو پانی سے انجن چل رہے ہیں اس طریقے کی تفصیل تو میڑک کا طالب علم بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
خیر آپ کو اس کی تھوڑی سی حقیقت بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
پانی سے انجن چلانے کے لئے فی الحال صرف ایک طریقہ ہے کہ پانی کی برق پاشیدگی (Electrolysis) کی جائے اور اس میں سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اسے ایندھن کی جگہ انجن میں جلایا جائے یا پھر کسی اور طریقے سے اسی ہائیڈروجن کو استعمال میں لایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اس سے انجن چلایا جا سکتا ہے اور ہمارے ”ایجادیئے“ ایسا ہی کر رہے ہیں، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ پانی سے ہائیڈروجن حاصل کرنے پر کتنی توانائی لگے گی اور نتیجہ میں ہمیں کتنی توانائی ملے گی؟ ہائیڈروجن حاصل کرنے پر جتنی لاگت آئے گی کیا موجودہ ایندھن جیسے ڈیزل اور پٹرول وغیرہ سے سستی ہو گی؟
اس طریقے میں سب سے پہلا مرحلہ ہے پانی کی برق پاشیدگی۔ توانائی کے سائنسی اصولوں کے مطابق اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پانی کی برق پاشیدگی پر جتنی توانائی خرچ ہو گی، پانی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن آگسیجن کے ساتھ جل کر اتنی ہی توانائی دے گی۔ عام طور پر پانی کی پاشیدگی کے لئے بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں فی الحال ایسے آئیڈیل حالات تیار نہیں ہوئے لہٰذا جتنی توانائی برق پاشیدگی پر لگے گی اس کا کچھ حصہ حرارتی اور دیگر توانائی کی اقسام میں تبدیل ہو جائے گا اور یوں حاصل ہونے والی ہائیڈروجن جتنی توانائی دے گی اس سے زیادہ توانائی برق پاشیدگی اور دیگر کاموں پر پہلے ہی لگ چکی ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ فرض کریں کسی نے کوئی آئیڈیل حالات بنا بھی لئے ہوں (جوکہ کم از کم زمین پر فی الحال ناممکن کے قریب تصور کیا جاتا ہے) تو پھر بھی جتنی توانائی پانی کی برق پاشیدگی پر لگاؤ گے نتیجہ میں اتنی ہی توانائی ہائیڈروجن کو جلا کر حاصل ہو گی۔ اب آپ ہائیڈروجن سے انجن چلا کر اس سے گاڑی کا پہیہ گھماؤ یا پھر بجلی بنانے والی ڈینمو، یہ آپ کی مرضی مگر پانی کو توڑنے (پاشیدگی) پر جتنی توانائی لگا رہے ہو اتنی ہی توانائی حاصل کر پاؤ گے۔
اب جیسے پاشیدگی کے لئے بجلی کا استعمال ہوتا ہے تو اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پھر برق پاشیدگی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن کو استعمال کرتے ہوئے ہم اتنی ہی بجلی بنا پائیں گے جتنی کہ برق پاشیدگی پر لگائی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جتنی بجلی لگائی، اتنی ہی حاصل ہوئی۔ اسی طرح اگر ہم انجن چلانے کے لئے پانی کی پاشیدگی پر جتنی بجلی لگاتے ہیں اگر اتنی ہی بجلی سے موٹر چلائیں تو وہ بھی انجن جتنا ہی کام کرے گی۔
پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے انجن تو چل گیا مگر ہائیڈروجن حاصل کرنے پر جو بجلی لگائی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ اس بجلی کی جتنی قیمت ہو گی کیا اس سے سستی ہائیڈروجن ویسے ہی مارکیٹ سے نہیں مل جائے گی؟ کیا ہائیڈروجن کی ٹرانسپورٹ موجودہ ایندھن (پٹرول اور ڈیزل) جتنی آسان ہو گی؟ کیا ہائیڈروجن سے سستا ایندھن پہلے موجود نہیں؟
جب ہم ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پانی کی برق پاشیدگی کرنے والے طریقے پر موجودہ ایندھن کی نسبت زیادہ خرچ آتا ہے اور اس طریقے سے سستے اور آسان طریقے پہلے ہی دنیا میں رائج ہیں۔ عام لوگ بس یہی دیکھتے ہیں کہ لو جی پانی سے انجن/گاڑی چل گئی مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ پانی کو کن کن مراحل سے گزارا گیا ہے اور اس پر خرچہ کتنا آیا ہے۔ آج کل جو بندہ آغا وقار بڑا مشہور ہوا ہے میرا اس بندے سے سوال ہے کہ
پانی کی برق پاشیدگی پر جو بجلی لگ رہی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟
جواب:- گاڑی میں موجود بیٹری سے۔
گاڑی کی بیٹری کیسے چارج ہو گی؟
گاڑی کے جنریٹر سے۔
جنریٹر کیسے گھومے گا؟
گاڑی کے انجن سے۔
انجن کیسے چلے گا؟
ہائیڈروجن سے۔
ہائیڈروجن کہا سے آئے گی؟
پانی کی برق پاشیدگی سے۔
پانی کی برق پاشیدگی کیسے ہو گی؟
بجلی سے۔
بجلی کہاں سے آئے گی؟
گاڑی کی بیٹری سے۔
افف ف ف ف ف ف ف۔۔۔ یا میرے خدا ہم پر رحم کر۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے خود ہی سوال کیے اور خود ہی جواب لکھ دیئے۔ مگر ایسا نہیں سوال میرے ہیں جبکہ جواب آغا وقار کے ہی ہیں کیونکہ وہ یہ جواب مختلف پروگراموں میں دے چکا ہے۔ خیر آغا وقار کے بنائے ہوئے نظام میں صرف ہمیں پانی ڈالنا ہے۔ بس پھر گاڑی کی بیٹری سے پانی کی برق پاشیدگی ہو گی اور پھر عمل چالو ہو جائے گا یعنی ایک چکر چل پڑے گا جس میں صرف پانی ڈالتے جاؤ۔ یقین کرو اگر واقعی ایسا ہوا تو پوری دنیا بدل جائے گی اور اس طریقے سے دنیا بدلنے کی کوشش سو دو سو سال پہلے ہی سیانے لوگ کر کے تھک ہار چکے مگر آغا وقار
icon_smile.gif

یارو! تیاری پکڑو! بس اب اس بندے آغا وقار کے حق میں بولنے یعنی اس کی ”ایجاد“ کو ماننے والے یعنی سب سے پہلے ہمارا میڈیا اور پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر شوکت پرویز اور کئی وڈے لوگوں کی واٹ لگنے والی ہے کیونکہ انہوں نے آن دی ریکارڈ سب کچھ کہا ہے
icon_smile.gif
یا پھر سائنس ایک بہت اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے اور ایسا ”یوٹرن“ لے گی کہ ساری کائنات ”ٹرنوٹرن“ ہو جائے گی۔ آج کی فزکس منہ کے بل گرے گی۔ فزکس کے تمام نوبل انعام آغاوقار کو مل جائیں گے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان کہلائے گا۔ یورپ، امریکہ اور ساری دنیا پاکستان کی مقروض ہو جائے گی۔ شاید آپ کو یہ باتیں مذاق لگ رہی ہوں مگر جناب اگر آغا وقار کے طریقے سے گاڑی چل گئی اور صرف پانی سے چلتی رہی تو پھر واقعی یہ دنیا کی عظیم ترین ایجاد میں سے ایک ہو گی اور اس سے واقعی دنیا بدل جائے گی۔ (دیوانے کا خواب)
خیر میں تو کہتا ہوں کہ اس بندے آغا وقار کو سخت سے سخت سیکیورٹی میں رکھا جائے کیونکہ اگر اسے کچھ ہو گیا تو لوگوں نے کہنا ہے کہ دیکھا ایک ”عظیم سائنسدان“ کو مروا دیا گیا ہے۔ خیر اس کے بنائے ہوئے نظام کی مکمل جانچ کی جائے اور فراڈ ہونے کی صورت میں اس کی بجائے ہمارے میڈیا کو الٹا لٹکا کر لتر مارنے چاہئے جو بغیر تحقیق کے باتیں کرتے پھرتے ہیں اور اس جیسے بندے کو اتنا منہ زور کر دیتے ہیں کہ وہ اچھے بھلے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی بے عزتی کرتا پھرتا ہے۔ اور اگر یہ واقعی سچ ہوا تو پھر لات مارو پوری فزکس کو اپنی نئی فزکس تیار کرو۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک عام پاکستانی اس بات پر بڑا جذباتی ہو رہا ہے کہ دیکھو ایک پاکستانی سے کتنی بڑی ایجاد کر دی۔ اے میرے پاکستانی بھائیو! خدارا کچھ ہوش کے ناخن لو۔ ہر چیز کو جذبات کے آئینے سے نہ دیکھا کرو بلکہ حقیقت کو پہچانو۔
دنیا میں بہت کچھ نیا ہوا ہے۔ سائنس نے کئی جگہوں پر یوٹرن لیا ہے۔ مگر یہ بندہ آغا وقار جو دعوہ کر رہا ہے اس پر میرا ذاتی خیال پوچھو تو میں اس طرح پانی سے گاڑی چلنے والی بات کو نہیں مانتا کیونکہ میری تحقیق کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، یاد رہے پانی سے گاڑی چل سکتی ہے مگر اس پر خرچہ ڈیزل یا پٹرول سے زیادہ آتا ہے۔ باقی پھر کہوں گا کہ میں سائنس کا کوئی ”راکٹ سائنس“ طالب علم نہیں اس لئے میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ اجی میں کیا ہوں، اب تو جو صورت حال بن چکی ہے وہاں تو اچھے اچھوں کی واٹ لگنے والی ہے۔ مگر شرط ہے کہ آپ لوگ نہ بھولیے گا۔
میرا مقصد مایوسی پھیلانا یا اپنے پیارے پاکستانیوں کے کارناموں کو غلط ثابت کرنا نہیں، بس یہ کہتا ہوں، اللہ کا واسطہ ہے کہ پہلے کوئی کارنامہ کرو تو سہی۔ ”ایجادی“ کی بجائے موجد بنو۔ جاہل میڈیا کے بل پر عام عوام کو جاہل نہ بناؤ۔ ”کارنامے“ بلکہ میں تو انہیں کرتوت کہوں گا، کرتوت ایسے ہیں کہ جن پر سینہ چوڑا کرنا تو دور کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پاکستانیوں کو عقل دے اور ہم حقیقی معنوں میں کچھ ایجاد کر دنیا کو حیران کر دیں اور اپنے ملک کو ترقی دیں۔۔۔آمین
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب بلال بھائی بہت اچھا لکھا ہے۔ ویسے بھی کافی عرصے سے آپ کی تحریر ادھار چلی آ رہی تھی۔
 

رانا

محفلین
یار انہوں نے اتنی محنت کرکے ایک سیاسی پارٹی بنائی تھی اور اب اگلے الیکشن میں اس پارٹی نے سب کی صف لپیٹ دینی تھی۔ بس مسئلہ صرف اس پارٹی میں جان ڈالنے کے لئے ایندھن درکار تھا۔ سو وہ اس کے لئے ایندھن کی تلاش کررہے تھے۔ اور آغا وقار کی سائنسی ایجاد پر دھڑلے سے بیان بازی کرکے انہوں نے ایندھن تلاش کرلیا تھا۔ لیکن بلال آپ بھی نہ بڑے ستم ظریف نکلے۔ الیکشن سے پہلے ہی ان کی سائنسدانی کی صف لپیٹ دی۔ تھوڑا انتظار تو کر لیتے الیکشن تک۔:)
 
Top