میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جلوس

(1) میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے

اگر یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطۂ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیوں نہ منایا جائے؟ اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن کیوں نہ دی جائے؟ اس طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر چراغاں کیوں نہ کیا جائے؟ اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و افتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن وہ بہ طور اُمت اپنا جذبہ افتخار کیوں نمایاں نہ کرے؟ جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں اُسی طرح میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس کے جواز پر بھی کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پر جلوس نکالنا بھی ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اگر ہم جلسہ و جلوس اور صلوٰۃ و سلام کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہ پوچھا جاتا ہے کہ عرب کیوں جلوس نہیں نکالتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلچر میں جلوس نہیں، جب کہ عجم کے کلچر میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے کلچر میں بھی نہیں، جب کہ ہمارے ہاں تو ہاکی کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔

لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور اس کا اصل مقصد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کیا گنجائش اور ضرورت ہے؟
 
میلادشریف اور ابن تیمیہ

علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ)

علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :

وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. واﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.

’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘

ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404

اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :

فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.

’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘

ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
 
جلوس سے لوگوں کو راحت پہنچتی ہے کہ تکلیف ؟ سڑکیں دکانیں بند ، کاروباری مراکز اسکول وغیرہ بند ۔۔
کسی کو ہسپتال پہنچنا ہو وہ وقت پر پہنچ نہیں سکتا ،کیا خبر ہسپتال سے پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دے اسکی موت کی ذمہ داری کس پر ؟ ساجد پر جگ مگ جگ مگ برقی قمقے (اس پر ہم لوڈشیڈنگ کا رونا روتے ہیں) اور اسکی تیزئین و آسائش پر لاکھوں روپے کے اخراجات (پھر ہم مہنگائی کو بھی روتے ہیں) ، اس کہیں اچھا کسی غریب کے علاج ، اسکی بیٹی کی شادی وغیرہ پر خرچ کیا جائے تو زیادہ ثواب بھی ملے ، مگر ہم ثواب کو خیا بھی نہیں لاتے بس اپنی جماعت کی برتری کا احساس اور دوسروں کو نیچے دکھانے کی فکر میں اپنی ہی سماجی خودکشی کرتے ہیں
ویسے ہی ہمارے ملک کی معیشیت کی کمر ٹوٹ چکی ہے، کیا ملک اس قسم کے پرتئیش جلسے جلوس کا متحمل ہوکستا ہے ؟
کیا گھر بیٹھ کر حب رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا اظہار نہیں کرسکتے ؟ جومخلوط محفل سجا کر کورس میں بے ہنگم راگ الاپتے ہیں ، محلوں میں لوگوں کی نیندیں حرام کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
کیا ہوگیا ہے ہم لوگوں کو سوچنا چاہیئے
 

mfdarvesh

محفلین
جناب مسئلہ ثقافت کا نہیں ہے
یہاں لوگ اس کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس کو خالصتا ثواب کے لیے مناتے ہیں
آج ہی جمعہ کی نماز میں مولانا صاحب لگے ہوئے تھے اس کو دین کا حصہ سمجھانے پہ، اب ہمارے نوجوان پورا سارا سال کچھ نہیں کرتے بلکہ اس دن کے لیے خاص طور پہ پوشاک سلواتے ہیں اور کہتے ہیں سرکار کے صدقے تما م سال اب آرام ہے،
یہ دیگیں، یہ چراغاں، یہ محافل سب کی سب دین اسلام کا حصہ ہیں اب

کہاں کی ثقافت اور کہاں کا چلن

اور سنیئے، پچھلے دوسال سے عیسائیوں کی طرزپہ اب کیک کاٹنے کی رسم بھی ہوتی ہے اور باقاعدہ جید علماء اس میں حصہ لیتے ہیں
اور باقی مومنین اس دن کو عید مناتے ہیں باقاعدہ تیار ہوکے ایک دوسرے کے گلے مل کے مبارکباد دیتے ہیں اور عید مبارک کہتے ہیں، یقین نہیں آتا تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجیے اور اب سے چند سال کی دوری پہ اس عمل کی باقاعدہ شریعت میں اجازت ہوگی اور اس کے بارے میں مناظرے منعقد ہوں گے

اور عید کی نماز بھی ہوگی بس دورکعت نماز شکرانہ پڑھا جائے گا، مساجد میں
 

صرف علی

محفلین
جلوس سے لوگوں کو راحت پہنچتی ہے کہ تکلیف ؟ سڑکیں دکانیں بند ، کاروباری مراکز اسکول وغیرہ بند ۔۔
کسی کو ہسپتال پہنچنا ہو وہ وقت پر پہنچ نہیں سکتا ،کیا خبر ہسپتال سے پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دے اسکی موت کی ذمہ داری کس پر ؟ ساجد پر جگ مگ جگ مگ برقی قمقے (اس پر ہم لوڈشیڈنگ کا رونا روتے ہیں) اور اسکی تیزئین و آسائش پر لاکھوں روپے کے اخراجات (پھر ہم مہنگائی کو بھی روتے ہیں) ، اس کہیں اچھا کسی غریب کے علاج ، اسکی بیٹی کی شادی وغیرہ پر خرچ کیا جائے تو زیادہ ثواب بھی ملے ،
کیا گھر بیٹھ کر حب رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا اظہار نہیں کرسکتے ؟ جومخلوط محفل سجا کر کورس میں بے ہنگم راگ الاپتے ہیں ، محلوں میں لوگوں کی نیندیں حرام کرتے ہیں ۔۔۔ ۔۔
کیا ہوگیا ہے ہم لوگوں کو سوچنا چاہیئے
السلام علیکم
بھائی یہ ساری چیزیں کسی اور کام میں کیوں یاد نہیں آتی اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ کرنا چہتا ہے تو کیا برائی ہےاگر فرض محال کسی کی آواز اچھی نہیں ہے تو کیا اس کو کچھ کرنے کا حق نہیں ہے ۔ایک بات آپ کی ٹھیک ہے محلوں میں کم آواز کے اسپیکر استعمال کرنے چاہیے تاکے دوسرے پریشان نہ ہو۔
 

صرف علی

محفلین
تو داڑھی بھی تو عرب ثقافت ہے؟ وہاں ہم کو اسلام یاد آجاتا ہے!
ھمم آج پتا چلا کے داڑھی عرب ثقافت ہے پھر یہ جتنے امریکہ اور یورپ میں لوگ رکھتے ہیں عربوں کی نکل میں رکھتے ہیں ویسے موچھے جرمنوں کی ثقافت ہوگی کیوں کے وہاں موچھوں کا بقاعدہ میلا لگتا ہے کہ کس کی موچھے سب سے بڑی اور اچھی ہیں ۔
جہاں تک اسلام کی بات ہے داڑھی میں اسلام نہیں اسلام میں داڑھی ہے ۔
 

عمران اسلم

محفلین

انسانی فطرت چونکہ پابندی کو خوشی سے قبول نہیں کرتی اس لئے انسانوں کوکسی چیز کا پابند رکھناہمیشہ سے انسانی اجتماعیت کا ایک مشکل ترین کام رہا ہے اور اس کے لئے منظم اور مستقل عمل بلکہ جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا دین ایک مکمل اور دائمی دین ہے۔ اس دین کو اپنی اصلیت اور حدوں پر قائم رکھنے کے لئے حد درجہ چوکسی اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمارا دین تووہ ہے جو ایک طرف روزے کی حالت میں غروب افتاب سے ایک منٹ پہلے کھانے کی رعایت نہیں دیتا تو دوسری طرف غروب افتاب کے بعد میں ایک منٹ بھوکا رکھنے کا بھی روادار نہیں۔ اسی طرح نماز کے بعد امام کے لئے حکم ہے کہ جیسے ہی نماز ختم ہو قبلے کی طرف سے رخ پھیر دے۔ یہ سب حدبندیاں اس لئے کی گئی ہیں تا کہ یہ امت متعین طور پر سمجھ سکے کہ روزے سے ہونا کب مشروع ہے اور کب مشروع نہیں اور ایک شخص حالت نماز میں کب ہے اور کب وہ حالت نماز سے نکل چکا ہے۔ حدوں کی پابندی کا اس قدرلحاظ اس دین کے علاوہ بھلا کہیں اور بھی ہے؟ ذرا غور کیجئے جو دین اپنی سرحدوں کی حفاظت کے معاملے میں اس قدر حساس اور بے لچک واقع ہوا ہے وہ ایک پوری کی پوری عید کا اضافہ اتنی آسانی سے قبول کرسکتا ہے؟ اور اگر کر بھی لے تو کیا وہ دین وہی رہے گا یا کوئی اور دین بن جائے گا۔ یقیناً یہ دین قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے لیکن یہ ہر ایک کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ اس کا اپنا عمل اور استعداد دین کی حفاظت کرنے میں لگے یا دین کے حدود کی تعین میں الجھنیں پیدا کرنے میں۔

قارئین اب آپ ہی بتائیے کہ اس سب کے باوحود، اتنی حد بندیوں اور احتیاطوں کے باوجود اگر کوئی گروہ کچھ متأخرین علماءکی رائے پر عمل کرنے پر اسی طرح مصرہو تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔ ان بے چارے علماءکو کیا پتہ تھا کہ ان کی چھوٹی سی بے احتیاطی کا یہ انجام ہوگا؟حقیقت یہ ہے کہ میلاد النبی منانے کے سلسلے میں جتنے بھی دلائل دئے جاتے ہیں وہ اس طرح کے دلائل ہیں جن کو امت کی تاریخ میں کبھی دلیل سمجھا ہی نہیں گیا۔ یہ عید دلائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک شوق اور جذبے کی بنیاد پر شروع کی گئی ہے اور پھربقدر ضرورت دلائل بھی پیدا گئے۔ کیا حقیقت سمجھنے والوں کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ نہ نبی ، نہ صحابہ ، نہ تابعین اور نہ تبع تابعین کسی نے بھی مواقع کے باوجود اس چیز کو عشق رسول کا تقاضا نہیں جانا۔ کیا امت مسلمہ کا اصول نہیں ہے کہ پہلی تین نسلوں میں جو دین کی تشریح ہوچکی اس کی حیثیت معیاری ہے؟ تو اب کیا ان کے دلوں کے اندر عشق رسول کا پودا اتنا تناور ہو چکا ہے کہ صحابہ اور خلفاءراشدین رضی اللہ تعالی عنہم کی رسول سے محبت بھی مات کھانے لگی ہے۔ کیا امت کا اجتماعی ضمیر اس چیز کو سچ مچ عشق رسول سمجھ سکتا ہے۔ اچھی طرح یاد رکھیں کہ حد سے زیادہ گورا رنگ خوبصورتی نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جسے برص کہتے ہیں۔
ابو زید

http://www.eeqaz.org/index.php/batil/sects/quboori/170-milad-nabi
 
السلام علیکم
بھائی یہ ساری چیزیں کسی اور کام میں کیوں یاد نہیں آتی اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ کرنا چہتا ہے تو کیا برائی ہےاگر فرض محال کسی کی آواز اچھی نہیں ہے تو کیا اس کو کچھ کرنے کا حق نہیں ہے ۔ایک بات آپ کی ٹھیک ہے محلوں میں کم آواز کے اسپیکر استعمال کرنے چاہیے تاکے دوسرے پریشان نہ ہو۔

محترم !
آپ کی بات بھی اپنی جگہ درست ہے
دیکھیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے محبت ہر ایک مسلمان کو ہے اور یہ ایمان کا لازمی حصہ ہے
محبت ایک الگ بات ہے اور محبت کا اظہار ایک الگ بات ہے ۔۔۔۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے ایسی محبت کا اظہار جس سے خود انکے دوسرے امتی تکلیف محسوس کرے کیا حق بجانب ٹہرائی جائے گی ؟
ایک آدمی تکلیف محسوس کرے ، مگر پھر بھی وہ اس جلسے جلوس کا بادل ناخواستہ حصہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہیں اس نے ہلکا سا بھی اپنی تکلیف کا اظہار کردیا تو خدانخواستہ وہ "گستاخ رسول" قرار پائے گا گلی محلے والے اسکو کیا کہینگے ؟
مجبورا وہ بھی اس کا حصہ ہوتا ہے ۔۔۔۔ایسی زبردستی کا اظہار محبت ؟
کہیں گلاپھاڑ نعت خواہ ، کہیں کرخت آواز اور چنگھاڑ والے مبلغ ، ذاکر ، کہیں بے ہنگم قوالیاں ۔۔۔۔
پورے محلے میں چیخ وپکار مچی ہوئی ہے ۔۔۔کیا ہے یہ ؟


ہم اور ہمارا معاشرہ ابھی تک میچور نہیں ہؤا ۔۔ہم اور آپ نے دیکھا ہی ہے کہ گستاخانہ خاکے پر بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے اظہار محبت کا جو بے ڈھنگا طریقہ اپنایا ۔۔۔ ناچتے گاتے ، ڈنڈا اٹھاتے اپنے ہی قومی املاک کو نقصان پہنچایا
جو دشمن چاہتا تھا وہی کیا ۔۔۔۔کیا یہی تقاضہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے محبت کا ؟
 
داڑھی کو عرب ثقافت کا حصہ کہنا ۔۔
کم علمی کی نشاندہی کرتا ہے ۔۔۔
حالانکہ نئی روشنی جیسے مفت اسکول بھی موجود ہیں ، مگر افسوس لوگ استفادہ نہ کرسکے ۔۔۔

جب داڑھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے ، تو یہ عربی نے بلکہ عالمی ہوگئی کیونکہ آپ تمام عالم کے لیے نبی و رسول بناکر بھیجے گئے ہیں
 

arifkarim

معطل
جب داڑھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے ، تو یہ عربی نے بلکہ عالمی ہوگئی کیونکہ آپ تمام عالم کے لیے نبی و رسول بناکر بھیجے گئے ہیں

تو کیا سرد علاقوں میں رہنے والے آنحضورؐ کا لباس پہننے لگ جائیں کہ یہ بھی سُنت کا حصہ ہے؟
 
تو کیا سرد علاقوں میں رہنے والے آنحضورؐ کا لباس پہننے لگ جائیں کہ یہ بھی سُنت کا حصہ ہے؟

جی ہاں کیوں ۔ کیا ہرج ہے ؟
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دور میں بھی سردی تھی ، اس حساب سے گرم کپڑا پہنتے تھے ، سرد علاقے والے بھی گرم کپڑا پہنے ۔۔

شائد آپ کو وہ لوگ زیادہ بھاتے ہیں ، جونسوانی چہرے والے کلین شیو ہیں ، یہ معاملہ طبی نوعیت کا ہے اسکا داڑھی اور لباس سے کیا تعلق

سردی علاقے والوں کا بڑا خیال ہے امید ہے کہ آپ ان لوگوں کو بھی تلقین کرتے ہونگے جنکے مرد حضرات پورے تھی پیس سوٹ میں جبکہ عورتیں سردی میں بھی منی اسکرٹ میں گھوم رہی ہوتی ہیں ۔۔۔

ویسے کہاں داڑھی کی بات چل رہی تھی کہاں آپ کو کچھ بن نہ پڑا تو لباس لے آئے ۔۔۔
اگر سنت کے لیے دل میں جگہ نہ ہو تو برملا اظہار بھی مت کرے ، ورنہ بے لباس ہوجائیگے ۔۔
 
Top