میرے لیئے ساحل کا نظارہ بھی بہت ہے

ظفری

لائبریرین

میرے لیئے ساحل کا نظارہ بھی بہت ہے
گرداب میں تنکے کا سہارا بھی بہت ہے

دمساز ملا کوئی نہ صحرائے جنوں میں
ڈھونڈا ابھی بہت ہم نے ، پکارا بھی بہت ہے

اپنی روش لطف پہ کچھ وہ بھی مصر ہیں
کچھ تلخی ِ غم ہم کو گوارا بھی بہت ہے

انجام ِ وفا دیکھ لیں کچھ اور بھی جی کے
سنتے ہیں ، خیال ان کو ہمارا بھی بہت ہے

کچھ راس بھی آتی نہیں افسر کو مسرت
کچھ یہ کہ وہ حالات کا مارا بھی بہت ہے​
 
Top