تمہارے غم کی ڈلی اُٹھا کر
زباں پہ رکھ لی ہے دیکھو میں نے
میں قطرہ قطرہ ہی جی رہا ہوں
پگھل پگھل کر گلے سے اُترے گا آخری قطرہ دَرد کا جب
میں سانس کی آخری گرہ کو بھی کھول دوں گا
کہ دَرد ہی دَرد کی مجھے تو
دُعا ملی اپنی زندگی سے
(گلزار)
ظفری بھائی میں نے تو کبھی ایسا نہیں کیا۔ اور آپ کی پسندیدہ شاعری اور اس کی تعریف نہ ہو، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ میں البتہ اس بات کا قصور وار ہوں کہ شاعر کا نام پوچھتا ہوں۔ اگر معلوم ہے تو اچھا ہے، اگر نہیں معلوم تو کبھی تکرار نہیں کی۔
منہ دھو کر جب اس نے مڑکر میری جانب دیکھا
مجھ کو یہ محسوس ہوا جیسے کوئی بجلی چمکی ہے
یا جنگل کے اندھیرے میں جادو کی انگوٹھی دمکی ہے
صابن کی بھینی خوشبو سے مہک گیا سارا دالان
اُف ۔۔۔ ان بھیگی بھیگی آنکھوں میں دل کے ارمان
موتیوں جیسے دانتوں میں وہ گہری سرخ زبان
دیکھ کر گال پہ ناخن کا مدھم سا لال نشان
کوئی بھی ہوتا میری جگہ پر ، ہوجاتا حیران
ظفری بھائی میں نے تو کبھی ایسا نہیں کیا۔ اور آپ کی پسندیدہ شاعری اور اس کی تعریف نہ ہو، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ میں البتہ اس بات کا قصور وار ہوں کہ شاعر کا نام پوچھتا ہوں۔ اگر معلوم ہے تو اچھا ہے، اگر نہیں معلوم تو کبھی تکرار نہیں کی۔
اس موڑ سے جاتے ہیں کچھ سست قدم رستے ، کچھ تیز قدم راہیں
پتھر کی حویلی کو شیشے کے گھروندوں میں ، تِنکوں کے نشیمن تک
صحرا کی طرف جا کر اِک راہ بگولوں میں کھو جاتی ہے چکرا کر
رُک رُک کے جھجھکتی سی
اِک موت کی ٹھنڈی سی وادی میں اُتری ہے
اِک راہ اُدھڑتی سی، چھلتی ہو ئی کانٹوں سے جنگل سے گزرتی ہے
اِک دوڑ کے جاتی ہے اور کود کے گرتی ہے انجان خلا ؤں میں
اِس موڑ پہ بیٹھا ہوں جس موڑ سے جاتی ہیں ہر ایک طرف راہیں
اِک روز تو یوں ہو گا اس موڑ پر آ کر تم،
رُک جا ؤ گی کہہ دو گی
وہ کون سا راستہ ہے
(گلزار)
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
کوئی ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں سے بھرا ہوا
یونہی ہم منیر پڑے رہے کسی اک مکاں کی پناہ میں
کہ نکل کے ایک پناہ سے کہیں اور جانے کا دم نہ تھا
(منیر نیازی)
بس اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
میں اب تجھ سے مُکرنا چاہتی ہوں
میں اپنی عُمر کے سارے اثاثے
نئے ڈھب سے برتنا چاہتی ہوں
یہ دل پھر تیری خواہش کر رہا ہے
مگر میں دُکھ سے بچنا چاہتی ہوں
کوئی حرفِ وفا ناں حرفِ سادہ
میں خاموشی کو سُننا چاہتی ہوں
میں بچپن کے کسِی لمحے میں رُک کر
کوئی جُگنو پکڑنا چاہتی ہوں
(نوشی گیلانی)