میری پسند کی شاعری

سیما علی

لائبریرین
شاعر: ناصر کاظمی

کرتا اسے بےقرار کچھ دیر
ہوتا اگر اختیار کچھ دیر

کیا روئیں فریبِ آسماں کو
اپنا نہیں اعتبار کچھ دیر

آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات
سو جا دلِ بےقرار کچھ دیر

اے شہرِ طرب کو جانے والو
کرنا مرا انتظار کچھ دیر

بے کیفئ روز و شب مسلسل
سر مستئ انتظار کچھ دیر

تکلیفِ غمِ فراق دائم
تقریبِ وصالِ یار کچھ دیر

یہ غنچہ و گل ہیں سب مسافر
ہے قافلۂ بہار کچھ دیر

دنیا تو سدا رہے گی ناصر
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر
 

سیما علی

لائبریرین
'
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے

گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے

لاکھ تلواریں بڑھی آتی ہوں گردن کی طرف
سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے

قہقہہ آنکھ کا برتاؤ بدل دیتا ہے
ہنسنے والے تجھے آنسو نظر آئیں کیسے

پھول سے رنگ جدا ہونا کوئی کھیل نہیں
اپنی مٹی کو کہیں چھوڑ کے جائیں کیسے

کوئی اپنی ہی نظر سے تو ہمیں دیکھے گا
ایک قطرے کو سمندر نظر آئیں کیسے

جس نے دانستہ کیا ہو نظر انداز وسیمؔ
اس کو کچھ یاد دلائیں تو دلائیں کیسے

وسیم بریلوی
 

سیما علی

لائبریرین
بسکہ ہوں دل تنگ خوش آتا ہے صحرائے قفس
بلبل بے بال و پر رکھتی ہے سودائے قفس

پالنا منظور ہے تو دست پرور کر اسے
طائر وحشی مبادا دیکھ مر جائے قفس

دیکھ کے صیاد کو محو تماشا ہو گئی
بلبل تصویر سے مت پوچھ ایذائے قفس

ہم دعا ہو ہم صفیرو تا اجابت ہو قریں
رحم کھا کر باغ میں صیاد پھر لائے قفس

ہم صفیر اس باغ کے سب قید تیرے ہو چکے
عشق مجھ کو بھی دکھا دے تو تماشائے قفس

گل کی خاطر قید میں رہتی ہے ورنہ باغباں
نالۂ جاں سوز سے بلبل کے جل جائے قفس

تیلیاں گنتے ہی گنتے عمر کے دم ہو چکے
تخت سے اڑ کر نہ پہنچے عشق بالائے قفس
خواجہ رکنُ الدین عشق
 

شمشاد

لائبریرین
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی

جاگ اے مرے ہمسایہ خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اتر آئی

چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں
یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

کیا سانحہ یاد آیا رزمیؔ کی تباہی کا
کیوں آپ کی نازک سی آنکھوں میں نمی آئی
مظفر رزمی
 

سیما علی

لائبریرین
غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
‏وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

‏امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
‏تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

‏ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
‏اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے۔

‏حسرتؔ موہانی
 

شمشاد

لائبریرین
پڑھ لے گا کوئی رات کی روئی ہوئی آنکھیں
ہر سمت ہیں آرام سے سوئی ہوئی آنکھیں

جن لوگوں کی منزل پہ نظر ہوتی ہے ہر دم
ان کا ہی تماشا ہیں یہ کھوئی ہوئی آنکھیں

دن بھر تو جمے رہتے ہیں پلکوں پہ وہی خواب
کیوں ہوش میں لاتی نہیں دھوئی ہوئی آنکھیں

آنکھوں کا جمال آپ کو معلوم ہی کیا ہے
دیکھیں ہیں کبھی رات وہ سوئی ہوئی آنکھیں

دل ہے کہ تجھے پائیں بکھر جائیں اے مولا
بینائی کے دھاگے میں پروئی ہوئی آنکھیں

کچھ بھی نہ دکھا معجزہ تھا ہی یہی عامرؔ
کھولی گئیں زمزم سے بھگوئی ہوئی آنکھیں
(عامر خان)
 

سیما علی

لائبریرین
۔۔۔آج 19 جولائی ساغر صدیقی پیدائشی نام محمد اخترکا یومِ وفات ہے

ھے دُعا یاد ، مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو ، اندازِ نَوا یاد نہیں

میں نے پَلکوں سے ، درِ یار پہ دستک دی ھے
میں وہ سائل ھُوں ، جسے کوئی صدا یاد نہیں

ھم نے جن کے لیے ، راھوں میں بچھایا تھا لہُو
ھم سے کہتے ھیں وھی ، عہدِ وفا یاد نہیں

کیسے بَھر آئیں ، سرِ شام کسی کی آنکھیں ؟؟
کیسے تَھرائی چراغوں کی ضیا ، یاد نہیں

صرف دُھندلائے ستاروں کی ، چمک دیکھی ھے
کب ھُوا ، کون ھُوا ، کس سے خفا ، یاد نہیں

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ھے
جانے کس جرم کی پائی ھے سزا ، یاد نہیں

آؤ , ایک سجدہ کریں ، عالمِ مدھوشی میں
لوگ کہتے ھیں ، کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

”ساغر صدیقی“
 

سیما علی

لائبریرین
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں،
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں،

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے،
کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں،

جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں ڪیا،
نہ ڪسی عدو کی عداوتیں نہ ڪسی صنم کی مروتیں،

چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں،
یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں،

مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے،
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں۔

فیض احمد فیض
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی
سوائے گرد سفر ، ہم سفر نہیں آیا

پلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صبح کا بھولا مگر نہیں آیا

کسی چراغ نے پوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو کہ کوچہء قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ دار پہ کب سے ثمر نہیں آیا

خدا کے خوف سے جو دل لرزتے رہتے ہیں
انھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

کدھر کو جاتے ہیں رستے، یہ راز کیسے کھلے
جہاں میں کوئی بھی بارِدگر نہیں آیا

یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
کہ چین دل کو مرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
یہ عمر کیسے کٹے گی ، اگر نہیں آیا

( امجد اسلام امجد)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
میرے لیے تو حرف دعا ہو گیا وہ شخص
سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص

میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ
اترا زمین پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص

میں اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ دفعتا
سمٹا ، سمٹ کے رنگ حنا ہو گیا وہ شخص

پھرتا ہے لے کے آنکھ کا کشکول در بدر
دل کا بھرم لٹا تو گدا ہو گیا وہ شخص

یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص

پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشید
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص

( رشید قیصرانی)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے
کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے

آج تو جیسے ساری دنیا
ہم دونوں کو دیکھ رہی ہے

تو ہے اور بے خواب دریچے
میں ہوں اور سنسان گلی ہے

خیر تجھے تو جانا ہی تھا
جان بھی تیرے ساتھ چلی ہے

اب تو آنکھ لگا لے ناصر
دیکھ تو کتنی رات گئی ہے

( ناصر کاظمی)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کسی کے ہجر کا پھر امتحان ٹوٹ پڑا
ہمارے دل پہ کوئی آسمان ٹوٹ پڑا

بس ایک لمحے کو کمزور پڑ گئے تھے ہم
اس ایک لمحے میں سارا جہان ٹوٹ پڑا

پھر اس کے بعد تھا اپنا نہ کوئی اور خیال
مرے دماغ پہ اس کا دھیان ٹوٹ پڑا

کبھی کبھی یہ بھی سننے میں آتا رہتا ہے
مکین سوئے ہوئے تھے مکان ٹوٹ پڑا

عجیب سے کوئی سائے مجھے ڈر آتے ہیں
مرے یقین پہ جب سے گمان ٹوٹ پڑا

تمہارا روٹھ کے جانا بنا کہے کچھ بھی
ہمیشہ ہم پہ اچانک ہی آن ٹوٹ پڑا

( فرحت عباس شاہ)
 

سیما علی

لائبریرین
ہنس دئیے چمن میں گُل ، کس لئے خدا جانے
کیا کہا بہاروں نے ، بات یہ صبا جانے

وہ ہمیں الگ سمجھے ، وہ ہمیں جدا جانے
ہم جنہیں زمانے میں، اپنا آشنا جانے

اک چھُپی شئے کی، اصل کوئی کیا جانے
دردِ دل کا قصہ ہے ، کون دوسرا جانے

ہم تو آپ پر صدقے ، آپ ہم سے بیگانہ
ابتدا میں یہ عالم ، انتہا خدا جانے

میں تو ہوش کھو بیٹھا، دیکھ کر دمِ زینت
آئینے پہ کیا گزری، اس کو آئینا جانے

ہم نے ان سے جب پوچھا ، کیا ہوا ہمارا دل
ہنس کے چپ رہے پہلے ، پھر کہا، خدا جانے

تیرے در کے ٹکڑوں نے ، جس گدا کو پالا ہو
وہ کسی کو کیا سمجھے ، وہ کسی کو کیا جانے

آپ کیوں ہوئے مضطر ، آپ کیوں پریشاں ہیں
ہم پہ جو گزرتی ہے ، آپ کی بلا جانے

خلق کی نگاہوں میں ، میں برا سہی لیکن
آپ کیوں برا سمجھے ، آپ کیوں برا جانے

یہ شرف نصیر اس کی بارگہ میں کیا کم ہے
وہ تری دعا سن لے ، تیرا مدعا جانے
پیر نصیر الدین نصیر
 

سیما علی

لائبریرین
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

یقیں ہے کہ ہو جائے آخر کو سچی
مرے منہ میں تیری زباں آتے آتے

سنانے کے قابل جو تھی بات اُن کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے

ابھی سن ہی کیا ہے جو بے باکیاں ہوں
اُنہیں آئیں گی شوخیاں آتے آتے

کلیجا مرے منہ کو آئے گا اک دن
یوں ہی لب پہ آہ و فغاں آتے آتے

نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے

تمہارا ہی مشتاقِ دیدار ہوگا
گیا جان سے اک جواں آتے آتے

کسی نے کچھ اُن کو ابھارا تو ہوتا
نہ آتے نہ آتے یہاں آتے آتے

بنا ہے ہمیشہ یہ دل باغ و صحرا
بہار آتے آتے خزاں آتے آتے

نہیں کھیل ائے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
داغ دہلوی
 

سیما علی

لائبریرین
نسیم صبح گلشن میں گُلوں سے کھیلتی ہوگی
کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی

مزہ آ جائے گا محشر میں کچھ سننے سنانے کا
زباں ہوگی ہماری اور کہانی آپ کی ہوگی

یہی عالم رہا پردہ نشینی کا تو ظاہر ہے
خدائی آپ سے ہوگی نہ ہم سے بندگی ہوگی

تعجب کیا، لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں
ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے لگ گئی ہوگی

سیماب اکبر آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
پر ہول خرابوں سے شناسائی مری ہے
ہنگامے اگر تیرے ہیں تنہائی مری ہے

اے حسن تو ہر رنگ میں ہے قابل عزت
میں عشق ہوں ہر حال میں رسوائی مری ہے

جو سطح پہ ہے تیری رسائی ہے اسی تک
فن کار ہوں میں زیست کی گہرائی مری ہے

ہستی کے اجالے ہیں مری آنکھ کا پرتو
ہر چشمۂ پر نور میں بینائی مری ہے

ہر نقش حسیں ہے مری کاوش کا نتیجہ
ہر منظر دل کش میں توانائی مری ہے

شاعر ہوں صداقت کا پرستار ہوں روحیؔ
ہر رنگ میں ہر دور کی سچائی مری ہے

روحیؔ کنجاہی
 

سیما علی

لائبریرین
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر

مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں
کچھ پھول اک فقیر کی جھولی میں ڈال کر

کل یوم ہجر زرد زمانوں کا یوم ہے
شب بھر نہ جاگ مفت میں آنکھیں نہ لال کر

اے گرد باد لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے
رکھنا مرے سفر کی اذیت سنبھال کر

محراب میں دیے کی طرح زندگی گزار
منہ زور آندھیوں میں نہ خود کو نڈھال کر

شاید کسی نے بخل زمیں پر کیا ہے طنز
گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر

یہ نقد جاں کہ اس کا لٹانا تو سہل ہے
گر بن پڑے تو اس سے بھی مشکل سوال کر

محسنؔ برہنہ سر چلی آئی ہے شام غم
غربت نہ دیکھ اس پہ ستاروں کی شال کر..!!
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
نہیں بس میں عمل تو محشر کیوں
یہ مقدر ہے یہ مقدر کیوں

آزر آزر بنا خلیل خلیل
کیوں خدائے خلیل و آزر کیوں

ہے مجھے خلد پر یقین مگر
کل ہے بہتر تو آج بدتر کیوں

چند ظالم ہیں ان‌گنت مظلوم
تیری نظروں میں سب برابر کیوں

ہم بظاہر تو ٹھیک تھے راحیلؔ
جھانکتا کوئی دل کے اندر کیوں

راحیل فاروق​

 

سیما علی

لائبریرین
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

نہ جانے خلق خدا کون سے عذاب میں ہے
ہوائیں چیخ پڑیں التجا کے لہجے میں

کھلا فریب محبت دکھائی دیتا ہے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں

یہی ہے مصلحت جبر احتیاط تو پھر
ہم اپنا حال کہیں گے چھپا کے لہجے میں
افتخار عارف
 
Top