میری ایک پرانی غزل ...2012 دسمبر۔شعلہ جب جسم و جاں سے اٹھتا ہے

سید عاطف علی

لائبریرین
میری ایک بہت پرانی غزل ۔جیسا کہ بحرو قوافی سے ظاہر ہے۔یہ خدائے سخن کے ایک مصرع کی طرحی غزل ہے۔یہاں محفل میں آمد کا سبب یہی غزل بنی تھی۔

غزل

شعلہ جب جسم و جاں سے اٹھتا ہے
ضبط غم خوردگاں سے اٹھتاہے

شور یہ گلستاں سے اٹھتا ہے
یا یہ قلبِ تپاں سے اٹھتا ہے

ایک موہوم سا یقین تھا وہ
جیسے میرے گماں سے اٹھتا ہے

آہِ مظلوم کا اثر دیکھو
پردہ ہر کن فکاں سے اٹھتا ہے

بار ارض و سماء تھا سہل پہ "دل "
کب یہ اس ناتواں سے اٹھتا ہے

چھوڑ اے دل خیالِ خام ترا
ذکر اس داستاں سے اٹھتا ہے

توڑ ڈالو فصیل ِقصر کہ آج
فر ق سود و زیاں سے اٹھتا ہے

چشم زاہد بھی کر نہ پائی ضبط
تو جو بزمِ بُتاں سے اٹھتا ہے

پھر سے اُبھرا سفینۂ منصور
شورِ حق بادباں سے اٹھتا ہے

ہو چکے تھے چراغ سارے گل

’’ یہ د ھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘

سید عاطفؔ علی
 

الف عین

لائبریرین
یہ کچھ عرصہ پہلے پوسٹ کر دیتے تو میں ’سمت‘ میں ہم طرح غزلوں کے گوشے میں شامل کر دیتا!!
بہت خوب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ کچھ عرصہ پہلے پوسٹ کر دیتے تو میں ’سمت‘ میں ہم طرح غزلوں کے گوشے میں شامل کر دیتا!!
بہت خوب
جی بہت بہت شکریہ ۔اعجاز صاحب ۔ اتفا ق سے اس پرانے مشاعرے کے دھاگے پر نظر پڑی:) تو دیگر غزلوں کی طرح ایک دھاگا بنا دیا کہ ایک جگہ جمع ہو جائیں۔
سمت کے لیے پھر سہی۔یا کچھ اور سہی۔:)
 
Top