میرا مقام اگر ہوسکا نہ طے ابھی تک

ظفری

لائبریرین

مرا مقام اگر ہوسکا نہ طے ابھی تک
مرا ہنر تو مری دسترس میں ہے ابھی تک
مرے غموں میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے
اگرچہ پیتا ہوں اشکِ رواں کی مے ابھی تک
تجھے گئے ہوئے اک عمر ہوگئی لیکن
تری مہک میں رچی ہے ہر ایک شے ابھی تک
بھلا زمانہ تھا، کہسار اور تیشہ تھے
سماعتوں میں سمائی ہوئے ہے لے ابھی تک
یہیں کہیں تھا مرا شہرِ آرزو یاسر
تلاش کرتا ہوں میں ایک ایک شے ابھی تک

علی یاسر
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب ظفری بھائی، بہت خوب انتخاب ہے۔ لاجواب غزل ہے، مطلع و مقطع کیا کہنے۔

مرا مقام اگر ہوسکا نہ طے ابھی تک
مرا ہنر تو مری دسترس میں ہے ابھی تک

یہیں کہیں تھا مرا شہرِ آرزو یاسر
تلاش کرتا ہوں میں ایک ایک شے ابھی تک

۔
 
Top