میرا تخلیقی سفر زبیر رضوی

الف عین

لائبریرین
افلاطون نے شاعروں کو اپنی عینی ریاست سے جلا وطن کرنے کی سفارش کی تھی اس نے پوچھا تھا کہ انسانی معاشرے کی ترتیب و تزئین میں ہومر کی شاعری کا کیا حصہ ہے ؟ افلاطون کے بعد بھی انسانی معاشرے کی صفِ اول میں ادیب کے لیے کوئی نشست محفوظ نہیں رکھی گئی ادیب کو یا تو پچھلی صف میں جگہ ملی یا پھر وہ صف کے باہر کا آدمی بنا رہا۔ ادیب کی تخلیقی انا نے کبھی معاشرے کی بالا دست طاقتوں سے مصالحت نہیں کی وہ ہمیشہ اپنے زمانے کی نکتہ چیں رہا۔ اسے نہ اقتدار للچانے میں کامیاب رہا اور نہ اعزاز و ا کرام کی تابندگی اس کی آنکھوں کو خیرہ کر سکی۔ کیوں کہ اس کا خیال ہمیشہ ہی یہ رہا کہ زمانہ اس کی تخلیق میں زندہ ہے اور وہ زمانے سے زندہ نہیں۔
مجھے فلا بیر کا وہ خط یاد آ رہا ہے جس میں اس نے لکھا تھا: ’’ میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے ، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ‘‘
فلابیر نے ادیب کی تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ میں بھی اپنی شاعری کے سلسلے میں اسی رویے کا قائل ہوں۔ میرے نزدیک اوریجنل ہونا اتنا اہم نہیں۔ تخلیقیت میرے نزدیک زیادہ اہم ہے۔ یہی تخلیقیت ہے جو ادیب میں اس آگ کو روشن رکھتی ہے جو اسے زندگی کی آزمائشوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ میں نے ترقی پسندی کے بڑے ہنگامہ خیز دور میں شاعری شروع کی اور تب میرا خیال تھا کہ اگر کوئی تخلیق اپنے حال میں زندہ نہیں تو وہ زندگی سے عاری ہے۔ میرے نزدیک ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے الگ کرنے والی لکیر بے معنی تھی۔ روایت سے انحراف کا معاملہ بھی وقتی تقاضوں کے زیر اثر ایک صحیح رویہ لگتا تھا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں ہی اظہاری عمل سے زیادہ ذہنی رویے تھے۔ میری جدیدت ایک اَپ ڈیٹیڈ کلاسزم (updated classicism)تھی جس میں ادب کی Mysticبھی تھی، ہیئت کی قوت نمو بھی اور جمالیاتی ادراک بھی۔ میری شاعری جو ۱۹۶۰ء کے بعد کی حسّیت کی دین تھی اس کو برتتے ہوئے میں جدید بھی تھا اور قدیم بھی۔ اور اگر فیشن زدہ اصطلاحات کا سہارا لوں تو مجھ میں آواں گارد بھی تھا او ور نشاۃِ ثانیہ کا Ethosبھی۔
پکاسو نے کہا تھا: ’’ دوسروں کی تقلید بدیہی ہے لیکن خود کی تقلید سفلہ پن ہے۔ ‘‘ میں نے اپنے پہلے مجموعے ’لہر لہر ندیا گہری‘ سے ’ سبزۂ ساحل‘ تک خود کو دہرانے یا اپنی ہی تقلید کرنے کا رویہ نہیں اپنایا، اس کے برخلاف خود کو رد کرنے کا عمل برا بر اپنائے رکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خود رد کرنے کے عمل کا مطلب اپنی شاعری کو ایک نئی صورت دینے کے عمل سے گزرنا ہے۔
میں شاعری کو ایک ایسا جھوٹ سمجھتا ہوں جس کے توسط سے سچ کو پایا جاتا ہے۔ میں نے ایسا کرتے ہوئے اس سارے سچ کو بھی اپنا ورثہ سمجھا جو مجھ سے پہلے کی گئی شاعری میں دمکتا چمکتا رہا تھا۔ میرے نزدیک اس کرۂ ارض پر انسان کا وجود سب سے بڑا عجوبہ اور کرشمہ ہے اس لئے مجھے انسان کی جہاں بانی اور جہاں سازی اس کی آفاقیت اور بے پناہی سے اس کی سرشت اور رشتوں کی پیچیدگی کا عمل بڑا گہرا ہے۔ میں امروہے جیسے ایک قصبے سے سفر کرتا ہوا نوابی شہر حیدر آباد تک پہنچا تھا اور پھر دلّی میرے قیام کا آخری پڑاؤ بن گئی اور یوں شہر اور مدنیت کے تضاد، ٹکراؤ، انسان کا مشینی عمل اس کی مادیت پرستی اور زندگی کی آسائشوں کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کو استعمال کرنے کی قوت کو میری تخلیقی فکر میں ایک بیکرانی ملی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ مجھ میں وہ قدیم بھی کنڈلی مار کے بیٹھا رہا تھا جس کی جڑیں ہزاروں برسوں کی تاریخ و تہذیب میں پیوست تھیں۔ میرا یہ قدیم، ظلمت پسند نہیں تھا اس میں انسان کے لیے ایسی ہی برکتیں ، نعمتیں تھیں جو خود انسان نے اپنی گمراہیوں سے گنوا دیں۔ یہ تاریخی اور تہذیبی ملال میری نظموں کے سلسلے ’ پرانی بات ہے ‘ میں ایک حکائی شعری لہجہ بن کر ابھرا ہے ، مدنیت کے سلسلے میں میرے رویے کی بڑی واضح مثالیں میرے چوتھے شعری مجموعے ’ دھوپ کا سائبان ‘ میں شامل ہیں۔ یہ میری آہنگ سے آزاد نظموں کا مجموعہ ہے اور اس وقت یہ ساری نظمیں کاغذ پر منتقل ہوتی چلی گئی تھیں جب ’ پرانی بات ہے ‘ جیسی پابند نظمیں لکھنے کے بعد مجھے لگا تھا کہ اب جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ آہنگ سے ماورا اپنا تخلیقی اظہار چاہتا ہے۔ اس لیے ان نظموں کی ہیئت میرے ارادے سے کہیں زیادہ اپنے شعری اظہار کا تقاضا تھا۔
اپنی شاعری میں جس کو میں نے اپنے لیے شعری وصف اور حسن جانا وہ ایمائیت اور ایجاز ہے۔ اس کے بعد تیسرا نمایاں عنصر غنائیت ہے۔ یہ وہی غنائیت ہے جو میری شاعری میں اکثر مقامات پر موسمِ گل کا احساس دلاتی ہے۔ مجھے فضا سازی سے زیادہ موضوع کی تراش اور ایجاز کے ساتھ اسے تحیر آمیز انجام سے ہم کنار کرنے سے بڑی دلچسپی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادب کے اور خاص طور سے شاعری کے سنجیدہ مطالعے کے لیے قاری کا نکھرا ہوا ذوق اور اس کی سخن فہمی ایک لازمی شرط ہے۔ شاعروں کو عموماً اپنی شاعری سے بے حد لگاؤ ہوتا ہے یہاں تک کہ انھیں اپنے مقابل پچھلی اور اپنے زمانے میں کی جانے والی شاعری کے کمتر ہونے کا بھی احساس ہوتا ہے (جسے خوش فہمی ہی کہا جائے گا)۔ مجھے اپنی شاعری سے ایسا بے محابا لگاؤ یا انس نہیں۔ اپنے کہے ہوئے سے یہ بے نیازی ویسی ہی ہے جو عرفان ذات کے سلسلے میں صوفیوں اور سنتوں میں ملتی ہے۔ میرے دوسرے شعری مجموعے ’’خشتِ دیوار‘ ‘ میں میرا یہ رویہ خاصا صیقل ہو چکا تھا کہ اپنے لکھے کو دشمن کی آنکھ سے دیکھوں۔ اور اب تو یہ میرے تخلیقی عمل کا ایک نا گزیر تقاضا بن گیا ہے۔ میں اپنے لکھے ہوئے کو کسی قدر طویل وقفے کے بعد پڑھتا ہوں اور تب مجھے اپنے کہے ہوئے کی کمزوری یا پھر اس کی توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جسے حذف کرنے یا ضائع کر دینے کی خواہش ہوتی ہے۔ ’’ سبزۂ ساحل ‘‘ کی ترتیب میں بھی یہ رویہ کار فرما رہا ہے۔
مجھے اگلی صف میں بیٹھنا ، اپنی تشہیر کے ذرائع کھوجنا اور اپنے شاعرانہ امیج کو پروجیکٹ کرنے سے اوسط درجے کی دلچسپی رہی یعنی ہو تو اچھا نہ ہو تو بھی اچھا۔ کیوں کہ ادیب کی تشہیر تو ہو جاتی ہے مگر اس کا لکھا ادب اس کی شہرت اور تشہیر کا حصہ نہیں بن پاتا۔ اسی لیے اعزاز و ا کرام ادیب کے اعتبار میں یا اس کا سماجی قد بڑھانے میں ایڑی کے نیچے اینٹ لگانے کا کام تو کرتے ہیں مگر اس کا ادب پذیرائی کی تمازت سے بہر صورت محروم رہتا ہے۔ کیوں کہ ادیب کو سب جان لیتے ہیں مگر اس کا ادب تشہیر زدہ طبقے کے لیے نا معلوم ہی رہتا ہے۔ میں نے اپنے سونحی اشاریے کو انعام و ا کرام کی تفصیل سے بہر حال خالی رکھا۔
انسانی زندگی کے مشاہدے میں جو صورت میرے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بنتی ہے وہ غریبی اور پھٹے پرانے کپڑوں میں بسر ہوتی بیمار زندگی ہے۔ انسانی غارت گری کے در پے کوئی بھی بہیمانہ عمل مجھے بے چین کر دیتا ہے اور انسانی زندگی میں جہاں کہیں بھی ’عشق‘ کی سرشاری ملتی ہے تو رگوں میں خون اچھلنے لگتا ہے۔ میرا عقیدہ ہے سیاست انسانی دکھ درد کو تماشائی کی آنکھ سے دیکھتی ہے اور شاعری انسان کے پورے دکھ درد کا حصہ بن جاتی ہے۔
اور آخری بات___
میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کے حوالے سے کسی ایک ہیئت میں تخلیق پانے والے شعری سرمایے کو پیمانہ و معیار بنا کر دیگر شعری ہیئتوں میں کہیں زیادہ اہم اور قابلِ ذکر ہونے والی شاعری کو نظر انداز کرنا صحیح رویہ نہیں ہے۔ غزل گویوں کے بت تراشنے کا عمل مطالعے کی سہل پسندی اور تساہل کے سوا اور کچھ نہیں ، تخلیقی سرگرمی کے کسی بھی عہد میں ہمارا معیارِ نقد، رک رک کر جس وارفتگی سے جانے پہچانے فریم ورک میں شعر کہنے والوں کو داد و تحسین سے نوازتے ہوئے ان کے سروں پر ادبی عظمت کی کلغیاں سجاتا رہتا ہے اس سے یہی مجموعی تاثر ملتا ہے کہ پچھلے ساٹھ برسوں میں تو بس غزل کی صنف ہی میں اہم اور مثالی شاعری ہوئی ہے اس کے بر خلاف اسی عرصے میں نظم کا جو سرمایہ سامنے آیا ہے اسے Pin Pointکر کے نہ کوئی نظم مطالعے کا محور بنی اور نہ کسی نظم نگار کو اچھا لا گیا غزل کے Iconتراشتے ہوئے صنفی اور ہیئتی سہل پسندی نے بڑی حد تک ساٹھ برس میں لکھی گئی اہم اور بہترین نظموں کو ہمارے آج کے ادبی مباحث سے بے دخل کرنے کا رویہ اپنا رکھا ہے ڈر یہ ہے کہ اگر دریچوں کو ایک ہی رخ پر کھولنے کا یہ عمل جاری رہا تو پھر ادب کے پائیں باغ کے اُدھر کے مناظر کو کون دیکھے گا ؟؟
****
 
Top