میراجی کی نظم - یگانگت - پر ایک آن لائن مباحثہ

تعمیر

محفلین
اردو کے عظیم شاعر "میرا جی" کی ایک نظم ہے : یگانگت
نظم نیچے ملاحظہ فرمائیں۔ فیس بک گروپ "حاشیہ" میں اس نظم پر "طویل" بحث ہوئی۔ بحث میں حصہ لینے والی شخصیات درج ذیل ہیں :
  1. اشعر نجمی
  2. ظفر سید (زیف سید)
  3. محمد حمید شاہد
  4. نسیم سید
  5. علی محمد فرشی
  6. محمد یامین
  7. فرخ منظور
  8. جلیل عالی
  9. عارفہ شہزاد
  10. معید رشیدی
تقریباً 60 صفحات پر مشتمل یہ بحث سہ ماہی " اثبات " ممبئی کے شمارہ 14-15 میں شائع کی گئی ہے۔
اس بحث کو اثبات کے متذکرہ آن لائن شمارے میں یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔

میراجی کی نظم پر ایک آن لائن مباحثہ

جدید نظم کے بارے میں فیس بک کے تنقیدی حلقہ ’’حاشیہ‘‘ کے ایک اجلاس کی کار روائی پیش خدمت ہے جس میں میرا جی کی نظم’ ’یگانگت‘‘ پر مباحثہ ہوا، جس کی صدارت اشعر نجمی صاحب نے فرمائی۔
’’حاشیہ‘‘ انٹرنیٹ پر قائم دوسرے ادبی حلقوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں دنیائے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقاد سنجیدہ اور بھرپور گفتگو کرتے ہیں ۔ اس گروپ کی بدولت جدید نظم کی تفہیم کے کئی نئے در وا ہوئے ہیں اور کئی تاریک گوشوں پر نئے زاویوں سے روشنی پڑی ہے ۔ حاشیہ کے مشمولات بہت جلد کتابی شکل میں پیش کیے جا رہے ہیں ۔
’یگانگت‘ پر ہونے والی بحث پڑھیے ۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے قبل میرا جی کے فن پر اس قدر جم کر بات نہیں کی گئی۔

مرتب : زیف سید

یگانگت
زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے ...
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
میں کوئی برائی نہیں ہوں، زمانہ نہیں ہوں
تسلسل کا جھولا نہیں ہوں
مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے، کیا زمانے میں ہے
اور پھر، میں تو یہ بھی کہوں گا
کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہے
برائی، بھلائی، زمانہ تسلسل ... یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں
مجھے تو کسی کے گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے
میں ہوں ایک، اور میں اکیلا ہوں، اک اجنبی ہوں
یہ بستی، یہ جنگل، یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا
یہ پربت، اچانک نگا ہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے، یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہو ایک اندھا مسافر
ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھر سے ادھر آتے جاتے ہوئے چند بادل
یہ کیا ہیں ؟
یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور، مسافر، ہوائیں، نباتات اور آسماں پر ادھر سے ادھر آتے جاتے ہوئے چند بادل
یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے
زمانہ ہوں میں، میرے ہی دم سے ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے
مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
یہ کیسے کہوں میں کہ
مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
کافی معلوماتی۔ اس بارے کچھ مزید تفصیل پیش کر سکیں تو بہت خوشی ہوگی لنک مل گیا پوسٹ میں موجود اقتباس سے :)
 

تعمیر

محفلین
فرخ منظور اور زیف سید صاحبان اردو محفل پر موجود ہیں۔ گذارش ہے کہ فیس بک گروپ "حاشیہ " کا تعارف بھی کروا دیں۔ اور اس کا لنک بھی۔ شاید یہ گروپ کلوزڈ یا سیکرٹ ہے ۔۔ تلاش پر نہیں مل رہا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ ’حاشیہ‘ گروپ زیف کا بنایا ہوا گروپ ہے، اور کلوزڈ گروپ ہے۔ یہاں صرف نظمون پر گفتگو کی جاتی ہے۔ کچھ مباحثے آن لائن بزم اردو لائبریری میں پوسٹ ہو چکے ہیں۔ میرا جی کا اب تک نہیں ہوا تو جلد ہی ہو گا۔
 
Top