مہمند ايجنسی کا واقعہ – امريکی سفير کا پيغام

اسلام کے بدترین دشمن فسادی مرکز اور بلیک واٹرز کے پروردا شیطانی وائٹ ھاؤس نے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں اور افواج پاکستان کے شہدا ء کی شرمناک توھین کرتے ھوئے یہ اعلان کیا ھے کہ امریکی صدر باراک اوباما پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر رسمی افسوس بھی نہیں کریں گے شاید اس توھین آمیز رویے کے بعد بھی امریکی غلام اور غداران ملک و ملت وائٹ ہاؤس کے اعلی آفیسران کی جوتیاں صاف کرتے رھیں گے لیکن اٹھارہ کروڑ پاکستانی اور فاروق درویش اپنے عظیم شہدا ء کو سلام اور خراج عقیدت پیش کرتا ھے اور اسلام کے بد ترین دشمن اوبامہ سمیت ھر سامراجی پر سر عام لعنت بھیجتا ھے۔ قوم میاں نواز شریف ، عمران خان، منور حسن جیسے محبان وطن ھونے کے دعویدار قومی و سیاسی راھنماؤں سے ھر مصلحت بھلا کر اس مذموم امریکی حرکت کی کھلی مذمت کی اپیل کرتی ھے

اے فتنہ ء امریکہ کی حرکت کے مصاحب ۔۔۔۔۔ اے دست فرنگی ترے کردار پہ لعنت
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
کسی بھی اعلی امريکی عہديدار يا سفارت کار کی جانب سے جاری ہونے والا اس قسم کا بيان واضح طور پر صدر کی زير قيادت امريکی حکومت کی سرکاری پاليسی کی عکاسی کرتا ہے۔ مہمند ايجنسی کے واقعے کے بعد امريکی سفارت کار کيمرون منٹر کی جانب سے جو بيان جاری ہوا وہ محض ان کے ذاتی خيالات ہی نہيں تھے بلکہ وہ ہماری حکومت کے سرکاری موقف اور نقطہ نظر کی غمازی کرتا ہے۔
وہ رائے دہندگان جو اس واقعے کے ضمن ميں صدر اوبامہ کی جانب سے کسی بھی پيغام کی عدم موجودگی کا تذکرہ کر رہے تھے، ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ صدر اوبامہ نے پاکستانی صدر آصف زرداری کو فون کر کے ذاتی طور پر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے ميں 24 پاکستانيوں کی ہلاکت کے المناک واقعے پر رنج وغم کا اظہار کر کے ان سے تعزيت کی۔ صدر نے يہ واضح کر ديا کہ يہ افسوس ناک واقعہ قطعی طور پر پاکستان پر دانستہ حملہ نہيں تھا اور اس واقعے کے ضمن ميں امريکہ کی جانب سے مکمل تحقيقات کے مصمم ارادے کا اعادہ کيا۔ دونوں ممالک کے صدور نے امريکہ اور پاکستان کے مابين دو طرفہ تعلقات کو جاری رکھنے کے ضمن ميں اپنے کاوشيں جاری رکھنے کا عزم کيا جو دونوں اقوام کی سيکورٹی کے ليے انتہائ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دونوں قائدين نے مسلسل روابط برقرار رکھنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

ساجد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
کسی بھی اعلی امريکی عہديدار يا سفارت کار کی جانب سے جاری ہونے والا اس قسم کا بيان واضح طور پر صدر کی زير قيادت امريکی حکومت کی سرکاری پاليسی کی عکاسی کرتا ہے۔ مہمند ايجنسی کے واقعے کے بعد امريکی سفارت کار کيمرون منٹر کی جانب سے جو بيان جاری ہوا وہ محض ان کے ذاتی خيالات ہی نہيں تھے بلکہ وہ ہماری حکومت کے سرکاری موقف اور نقطہ نظر کی غمازی کرتا ہے۔
وہ رائے دہندگان جو اس واقعے کے ضمن ميں صدر اوبامہ کی جانب سے کسی بھی پيغام کی عدم موجودگی کا تذکرہ کر رہے تھے، ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ صدر اوبامہ نے پاکستانی صدر آصف زرداری کو فون کر کے ذاتی طور پر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے ميں 24 پاکستانيوں کی ہلاکت کے المناک واقعے پر رنج وغم کا اظہار کر کے ان سے تعزيت کی۔ صدر نے يہ واضح کر ديا کہ يہ افسوس ناک واقعہ قطعی طور پر پاکستان پر دانستہ حملہ نہيں تھا اور اس واقعے کے ضمن ميں امريکہ کی جانب سے مکمل تحقيقات کے مصمم ارادے کا اعادہ کيا۔ دونوں ممالک کے صدور نے امريکہ اور پاکستان کے مابين دو طرفہ تعلقات کو جاری رکھنے کے ضمن ميں اپنے کاوشيں جاری رکھنے کا عزم کيا جو دونوں اقوام کی سيکورٹی کے ليے انتہائ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دونوں قائدين نے مسلسل روابط برقرار رکھنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
انکل سام یہ پیغام نہ بھی دیتا تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ایک امریکی فوجی پر بندوق تاننے کے مبینہ جرم کی سزا ایک کمزور عورت پر بے تحاشہ تشدد اور اس کی عمر سے بھی لمبی قید ہے تو پھر 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کا حساب لگانے میں اتنا بڑا بلنڈر کیوں؟؟؟۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
 

فاتح

لائبریرین
فواد صاحب، کیا ان جنگی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے پائلٹس اور انھیں احکامات دینے والے افراد کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے تا کہ ان پر پاکستان کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکے؟
کیا خیال ہے اگر کچھ لوگ آپ کے خاندان کے 26 افراد کو بلا وجہ قتل کر دیں اور اس کے بعد قاتلوں کے خاندان کا ایک نوکر آپ کے گھر افسوس کرنے آئے تو آپ کو کیسا لگے گا؟
نہ صرف یہ بلکہ اس نوکر اور اس کے ساتھ کے نچلے درجے کے مزید نوکروں کا تقاضا یہ ہو کہ آپ اس افسوس کو کافی جان لیں۔ میری خواہش ہے ہے کہ آپ اس سوال کا جواب اپنے ساتھ کے نچلے درجے کے نوکروں اور شاید اپنے سے اوپر کے درجے کے کسی نوکر سے پوچھ کر ضرور دیں لیکن مجھے امید ہے ایسا نہیں ہو گا۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ کوئ اچنبے کی بات نہيں ہے کہ نيٹو کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کے اندر پيش آنے والے واقعے کو بنياد بنا کر بعض تجزيہ نگار اور مبصر اسی سوچ اور نظريے کا پرچار کر رہے ہيں جس کے تحت امريکہ پاکستان کے اندر دانستہ عدم استحکام پيدا کرنے کا خواہ ہے۔ ہر واقعے کو اس کے درست تناظر اور ميرٹ پر پرکھنا ہی دانش مندی ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک افسوس ناک واقعہ ہے ليکن يہ ايک مشترکہ دشمن کے خلاف جاری ايک ايسی فوجی کاروائ کے دوران پيش آيا جس پر باہم اتفاق موجود ہے۔ يہ واقعہ پاکستان اور اس خطے کے ليے امريکی حکومت کی پاليسی کا آئينہ دار نہيں ہے۔

عالمی سطح پر يہ ايک طے شدہ حقیقت اور واضح سچائ ہے کہ کسی بھی فوجی کاروائ کے دوران ايسے واقعات رونما ہوتے ہيں جو کسی کی دسترس ميں نہيں ہوتے۔ يہ واقعات انسانی غلطی يا ناگزير واقعات اور حالات کے نتيجے ميں پيش آ سکتے ہیں۔ اسی تناظر ميں ايسے "فرينڈلی فائر" والے واقعات بھی پيش آئے ہيں جن کے نتيجے ميں افسوس ناک طريقے سے خود امريکی اور نيٹو افواج کی ہلاکتيں ہوئ ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ يہ واقعات بھی کسی سازش کا نتيجہ تھے۔

امريکی حکومت کی پاليسی، اہداف اور مقاصد حکومت پاکستان اور فوج کے ساتھ اس طويل المدت تعاون سے واضح ہيں جس کی بنياد دونوں ممالک کے درميان اعتماد کو بڑھانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے ليے وسائل اور مواقعوں ميں شراکت داری کے علاوہ ان دہشت گرد گروہوں کو قلع قمع کرنا بھی شامل ہے جو پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور سلامتی کے ليے بھی اصل خطرہ ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

محمد امین

لائبریرین
فواد میاں ۔۔۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک پاکستان کی سرزمین کے اندر گھس کر بمباری اور آپ اسے فرینڈلی فائر کہہ رہے ہیں ۔ یا حیرت۔۔۔ اس ٹیکنولوجی کے دور میں ان بیچاروں کو سرحدوں اور دوست دشمن میں تفریق کرنے میں مغالطہ ہوا۔۔۔ ماشاءاللہ ۔۔۔ ڈرون سرویلنس، جی پی ایس، نائٹ وژن کیمراز، سیٹلائٹ سپورٹ۔۔۔اس سب کے باوجود بھی یہ فرینڈلی فائر تھا۔۔۔؟ اور عافیہ کے بارے میں کیا خیال ہے پھر؟
 

فاتح

لائبریرین
يہ کوئ اچنبے کی بات نہيں ہے کہ نيٹو کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کے اندر پيش آنے والے واقعے کو بنياد بنا کر بعض تجزيہ نگار اور مبصر اسی سوچ اور نظريے کا پرچار کر رہے ہيں جس کے تحت امريکہ پاکستان کے اندر دانستہ عدم استحکام پيدا کرنے کا خواہ ہے۔ ہر واقعے کو اس کے درست تناظر اور ميرٹ پر پرکھنا ہی دانش مندی ہے۔
اجی لعنت بھیجیے اِس میرٹ پر پرکھنے یا اُ میرٹ پر پرکھنے کو۔۔۔کیا ان جنگی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے پائلٹس اور انھیں احکامات دینے والے افراد کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے تا کہ ان پر پاکستان کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکے اور اگر یہ دیکھا جا سکے کہ کیا واقعی یہ واقعہ غلطی سے پیش آیا اور اگر نہیں تو ہماری فوجی عدالتیں عالمی فوجی قوانین کے مطابق ہی ان مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دیں؟
اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک افسوس ناک واقعہ ہے ليکن يہ ايک مشترکہ دشمن کے خلاف جاری ايک ايسی فوجی کاروائ کے دوران پيش آيا جس پر باہم اتفاق موجود ہے۔ يہ واقعہ پاکستان اور اس خطے کے ليے امريکی حکومت کی پاليسی کا آئينہ دار نہيں ہے۔
فواد،یہ کس نے کہا کہ دشمن سانجھا ہے یا نہیں اور نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ امریکی حکومتی پالیسی تھی یا نہیں۔
یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ ایک نچلے درجے کے نوکر کا اپنے مالکان کی جانب سے کیے گئے معصوم افراد پر بم مار کر ان کے بہیمانہ قتل پر یہ نام نہاد افسوس کیا آپ کو تسلی دے سکتا تھا اگر یہ 26 افراد آپ کے خاندان کے چشم و چراغ ہوتے؟ یہ آپ کی نوکری کا تقاضا ہے کہ آپ یہ ڈھکوسلے کاپی پیسٹ کرتے رہیں۔ میرا سوال اپنی جگہ برقرار ہے جس کا جواب آپ نے دینا گوارا نہیں کیا۔
عالمی سطح پر يہ ايک طے شدہ حقیقت اور واضح سچائ ہے کہ کسی بھی فوجی کاروائ کے دوران ايسے واقعات رونما ہوتے ہيں جو کسی کی دسترس ميں نہيں ہوتے۔ يہ واقعات انسانی غلطی يا ناگزير واقعات اور حالات کے نتيجے ميں پيش آ سکتے ہیں۔ اسی تناظر ميں ايسے "فرينڈلی فائر" والے واقعات بھی پيش آئے ہيں جن کے نتيجے ميں افسوس ناک طريقے سے خود امريکی اور نيٹو افواج کی ہلاکتيں ہوئ ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ يہ واقعات بھی کسی سازش کا نتيجہ تھے۔
جی بہتر۔ لیکن کیا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ "ایسے واقعات پیش آ سکتے ہیں"؟ بھاڑ میں جائیں نیٹو افواج، اگر آپ کے ملک کے فوجی مر رہے ہیں تو یہ آپ کی اپنی چھیڑی ہوئی جنگ کے نتیجہ ہے جس میں آپ کی امریکی حکومت نے اپنی دھونس اور دادا گیری ثابت کرنے اور اپنی ضد کی وجہ سے اپنے معصوم افراد کو بھی ذبح کروایا ہے اور ہمارے لوگوں کو بھی۔
جب تک ہماری فوجی یا سول عدالتوں کی "قابل اعتماد" تحقیقات یہ ثابت نہیں کر دیتیں کہ یہ واقعہ غلطی کے باعث پیش آیا آپ کیسے اس بہیمانہ بمباری اور معصوموں کے بلا اشتعال قتل کو اس قدر اعتماد سے اتفاقی حادثہ قرار دے سکتے ہیں؟؟
امريکی حکومت کی پاليسی، اہداف اور مقاصد حکومت پاکستان اور فوج کے ساتھ اس طويل المدت تعاون سے واضح ہيں جس کی بنياد دونوں ممالک کے درميان اعتماد کو بڑھانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے ليے وسائل اور مواقعوں ميں شراکت داری کے علاوہ ان دہشت گرد گروہوں کو قلع قمع کرنا بھی شامل ہے جو پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور سلامتی کے ليے بھی اصل خطرہ ہيں۔
بجا کہتے ہوں گے کہ یہ بلا سے امریکہ کی حکومت کی پالیسی نہ ہو، کیا آپ کے ساتھ طویل المدت تعاون آپ کے خاندان کے 26 بے گناہ افراد کو قتل کرنے کا لائسنس دے سکتا ہے؟ آپ "عالمی امن و سلامتی" اور "دہشت گردی کے قلع قمع" جیسے بَز ورڈز استعمال کر کے اصل سوال کو گول کر گئے ہیں۔ ہم تو آپ سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ان جنگی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے پائلٹس اور انھیں احکامات دینے والے افراد کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے تا کہ ان پر پاکستان کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکے؟
ان تحقیقات میں آپ کے ملک کے نمائندوں کو بھی سننے اور رائے دینے کا حق دیا جانا چاہیے اور ان ذمہ دار نیٹو یا امریکی فوجیوں کو بھی سنا جانا چاہیے کہ وہ اپنے دفاع میں کیا کہتے ہیں۔ ان سب کے بعد اگر وہ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں تو انھیں با عزت بری کر دیا جائے لیکن اگر وہ مجرم ثابت ہوتے ہیں تو عالمی جوجی قوانین کے مطابق انھیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔
 

فاتح

لائبریرین
فواد میاں ۔۔۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک پاکستان کی سرزمین کے اندر گھس کر بمباری اور آپ اسے فرینڈلی فائر کہہ رہے ہیں ۔ یا حیرت۔۔۔ اس ٹیکنولوجی کے دور میں ان بیچاروں کو سرحدوں اور دوست دشمن میں تفریق کرنے میں مغالطہ ہوا۔۔۔ ماشاءاللہ ۔۔۔ ڈرون سرویلنس، جی پی ایس، نائٹ وژن کیمراز، سیٹلائٹ سپورٹ۔۔۔ اس سب کے باوجود بھی یہ فرینڈلی فائر تھا۔۔۔ ؟ اور عافیہ کے بارے میں کیا خیال ہے پھر؟
کیا فواد صاحب نے اپنے طور پر ہی اس بہیمانہ قتل کی تمام تر تحقیقات مکمل کر لی ہیں کہ اسے فرینڈلی فائر یا اتفاقی حادثہ کہے چلے جا رہے ہیں؟؟ کم از کم ہمارے علم کے مطابق تو ان کے ملک امریکا نے ہنوز یک طرفہ تحقیقات (جن پر مقتولین کو رتی برابر بھی بھروسہ نہیں) بھی مکمل نہیں کیں۔
 
فواد صاحب ،
اس بات سے قطع نظر کہ "فرینڈلی فائر" تھا کہ "انیمیٹڈ فائر" کیا اس پر فوری افسوس اور معذرت کی ضرورت نہ تھی۔

کئی دن تک یہ خبر چلتی رہی اور ہوا بھی کہ افسوس اور معذرت تک کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ اوبامہ افسوس تک بھی نہیں کریں گے۔ پاکستان کی طرف سے سخت اقدامات کے بعد اب افسوس ہوا ہے اور معذرت اب بھی نہیں۔

دوسری طرف الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ری پبلیکنز کی توپوں کے دھانے پاکستان پر ہی کھولے جا رہے ہیں ، کیا یہ بھی "فرینڈلی فائر" ہی ہیں ؟
ایک طرف پاکستانی فوجیوں پر حملہ اور دوسری طرف الیکشن تیاریوں میں سیاسی حملے اور پھر یہ کہا جاتا ہے کہ امریکی عوام پاکستان کے خلاف کیوں ہیں۔ جب صرف الیکشن جیتنے کے لیے اور لابیوں کے ماتحت صدارتی الیکشن ہوں گے تو نتائج کیا ہوں گے ؟ وہی جنہیں ساری دنیا بھگت رہی ہے۔
 

وجی

لائبریرین
بھینس کے آگے بین بجانے سے کوئی فائدہ نہیں
اور اگر غضہ کرنا ہے تو ہماری افواج سے کریں کیونکہ انہوں نے کوئی حرکت کیوں نہیں کی دو گھنٹے تک وہ پاکستانی سرحد میں موجود رہے پھر کیا وجہ تھی کہ کسی نے بھی کوئی جوابی حرکت نہیں کی ۔ ایک اندازے کے مطابق حملے کے آغاز کے ٹھیک پندرہ منٹ کے اندر چیف آف آرمی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس حملہ کی خبر دے دی گئی تھی پھر کیوں انہوں نے کوئی جوابی حملے کا حکم نہیں دیا بلکہ افغانستان میں موجود نیٹو کے افسران سے رابطہ کرتے رہے کہ وہ حملہ رکوائیں ۔
یاد رہے کہ یہ چیک پوسٹ جو تھیں وہ نظر رکھنے کے لیئے بنائیں گئیں تھیں انکے پاس اتنا اسلحہ نہیں ہوتا کہ وہ اس قسم کے بھاری حملے کا جواب دیں اور جو حملہ کرنے کی یا حملے کا جواب دینے کی پوزیشن میں تھے انکو اوپر سے کسی جنرل نے کیوں حکم نہ دیا ؟؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں جو واقعہ پيش آيا اس میں افغان افواج اور نيٹو شامل تھيں اور امريکی فوج اس وسيع گروپ کا ايک حصہ ہے۔ دانش کا تقاضا يہ ہے کہ اس واقعے کی جامع تفتيش کے ليے کچھ وقت درکار ہے چنانچہ درست حقائق کا انتظار کيا جانا چاہيے۔ واقعہ يقينی طور پر انتہائ افسوس ناک تھا اور ہم يہ تسليم کرتے ہيں کہ مستقبل ميں ايسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کيے جانے چاہيے۔

امريکی فوج کی کبھی بھی يہ کوشش يا پاليسی نہیں رہی کہ پاکستانی فوجيوں اور سرحد کے دونوں جانب بے گناہ شہريوں کو ہلاک کيا جائے۔ امريکی حکومت اور عسکری قيادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس عالمی کوشش ميں ہمارا اہم ترين اتحادی اور شراکت دار ہے جس کا مقصد خطے میں پائيدار امن کے قيام کو يقينی بنانا ہے۔

ہم پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کا احترام اور تقدس برقرار رہے۔ اس ضمن ميں يہ نشاندہی بھی ضروری ہے کہ ان غير ملکی دہشت گردوں کی کاروائيوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہيے جو دانستہ پاکستان کی خود مختاری پر حملے کر رہے ہيں اور ملک بھر میں پاکستان کی افواج اور شہريوں کو قتل کرنے کے منصوبے تيار کر رہے ہيں۔ حال ہی ميں ايک ترک اخبار کی رپورٹ کے مطابق حقانی نيٹ ورک کی کاروائ کے نتيجے میں 21 ترک باشندے ہلاک ہوئے ہيں۔

امريکہ اور پاکستان دونوں کو اس حقيقت کا ادراک ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے دونوں اطراف ان دہشت گردوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو دونوں ممالک کی خود مختاری پر حملے کر رہے ہيں۔

پاکستان ميں امريکی سفير کيمرون منٹر، وزير خارجہ ہيلری کلنٹن اور ديگر سينير امريکی سفارت کاروں نے اس واقعے پر اظہار افسوس بھی کيا ہے اور افواج پاکستان سميت ان خاندانوں سے اظہار تعزيت کيا ہے جن کے عزيز اس واقعے ميں ہلاک و زخمی ہوئے ہيں۔

ميں آپ کو يقين سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ دہشت گرد اور ان کے سرغنہ جو دانستہ پاکستان کے فوجيوں کو روزانہ نشانہ بناتے ہيں اور ان پر حملے کرتے ہيں، وہ کبھی بھی اپنی کاروائيوں پر اظہار افسوس نہيں کريں گے۔ وہ رائے دہندگان اور تبصرہ نگار جو ہم پر اس واقعے کے ضمن ميں، جو کہ يقينی طور پر قابل افسوس ہے ہم پر تنقید کر رہے ہيں انھيں چاہیے کہ اپنی غيض و غضب کا رخ ان عناصر کی جانب کريں جو نا صرف يہ کہ پاکستان کے فوجيوں پر دانستہ حملے کر رہے ہيں بلکہ ان حملوں کو اپنی کاميابياں قرار دے کر ان کا پرچار بھی کرتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

حقيقت يہی ہے کہ پاکستانی فوج کسی بھی موقع پر ہدف نہيں تھی اور جانوں کا ضياع يقينی طور پر المناک اور افسوس ناک ہے اور يہی وجہ ہے کہ صدر اور امريکی سفارت کار سميت تمام سينير امريکی حکومتی عہديداروں نے اس واقعے کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کيا ہے۔

جو رائے دہندگان يہ سوچ رکھتے ہيں کہ اس قسم کا واقعہ کسی دانستہ کوشش کے بغير پيش آ ہی نہيں سکتا انھيں چاہيے کہ "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ ليں۔

يہ امر کہ دنيا بھر ميں اس قسم کے واقعات اتنے تواتر کے ساتھ پيش آ چکے ہيں کہ اس حوالے سے ايک تکنيکی اصطلاح بھی موجود ہے، حقائق کو واضح کرنے کے ليے کافی ہے۔ تاريخ کے اوراق ميں ايسے سينکڑوں واقعات موجود ہيں جن ميں دشمن کی جانب کيا جانے والا حملہ غلطی سے اپنے ہی نقصان کا پيش خيمہ ثابت ہوا۔ تاريخی طور پر ايسے واقعات کا اکثر محرک دشمن کا قريب ہونا رہا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظيم ميں ايسے واقعات عام تھے جب افواج ايک دوسرے کے قريب ہوا کرتی تھيں اور خطرناک ہتھياروں کا استعمال کيا جاتا تھا۔

حاليہ جنگوں بشمول افغانستان ميں جاری لڑائ ميں بھی ايسے کئ واقعات رپورٹ ہوئے ہيں جہاں دوست اور اتحادی افواج پر غلطی سے حملے ہوئے، اس مغالطے ميں کہ وہ دشمن کی افواج ہيں۔ ايسے معرکے جن ميں بہت زيادہ نقل وحرکت اور کئ اقوام کی افواج شامل ہوں ايسے واقعات کا سبب بن سکتے ہيں جيسا کہ پہلی گلف وار کے دوران پيش آنے والے واقعات سے ظاہر ہے۔ يا پھر عراق کی جنگ کے دوران ايک برطانوی جہاز کی امريکی پيٹرياٹ کے ذريعے تباہی کی مثال اس ضمن ميں دی جا سکتی ہے۔

فرينڈلی فائر کے واقعات کے نتيجے ميں اموات کے واقعات کوئ نئ بات نہيں ہے۔ بدقستمی سے يہ جنگوں کا حصہ رہا ہے۔

ماضی قريب سے اس ضمن ميں کچھ مثاليں

دسمبر 5 2003 کو ايک امريکی بی – 52 طيارہ اپنے ہدف سے چوک گيا اور غلطی سے ان زمينی فوجيوں پر بم گر گيا جو طالبان کے ٹھکانوں کی جانب رہنمائ کر رہے تھے۔ اس واقعے ميں 3 امريکی فوجی اور 5 افغان فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس کے علاوہ 40 افراد زخمی بھی ہوئے۔ افسران کا يا ماننا تھا کہ بی – 52 طيارے کو ہدف کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی گئ ان کی ترسيل ميں خرابی سے يہ واقعہ پيش آيا۔

اسی طرح افغانستان ميں اسی نوعيت کا رپورٹ ہونے والا ايک اور واقعہ۔

http://articles.cnn.com/2011-04-06/world/afghanistan.accident.civilian_1_friendly-fire-isaf-afghan-capital?_s=PM:WORLD


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall


 

فاتح

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جو رائے دہندگان يہ سوچ رکھتے ہيں کہ اس قسم کا واقعہ کسی دانستہ کوشش کے بغير پيش آ ہی نہيں سکتا انھيں چاہيے کہ "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ ليں۔

يہ امر کہ دنيا بھر ميں اس قسم کے واقعات اتنے تواتر کے ساتھ پيش آ چکے ہيں کہ اس حوالے سے ايک تکنيکی اصطلاح بھی موجود ہے، حقائق کو واضح کرنے کے ليے کافی ہے۔ تاريخ کے اوراق ميں ايسے سينکڑوں واقعات موجود ہيں جن ميں دشمن کی جانب کيا جانے والا حملہ غلطی سے اپنے ہی نقصان کا پيش خيمہ ثابت ہوا۔ تاريخی طور پر ايسے واقعات کا اکثر محرک دشمن کا قريب ہونا رہا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظيم ميں ايسے واقعات عام تھے جب افواج ايک دوسرے کے قريب ہوا کرتی تھيں اور خطرناک ہتھياروں کا استعمال کيا جاتا تھا۔
جناب فواد Fawad - صاحب از ڈیجیٹل آؤٹ ریچ ٹیم، یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ،
گویا اب آپ جیسا ڈیجیٹل آؤٹ ریچ ٹیم کا ایک نچلے درجے کا ملازم جسے شاید جنگی تعلیم و تربیت کی الف بے بھی نہ آتی ہو، وہ انتہائی تجربے کار، زیرک اور قابل فوجی جرنیل کو سکھائے گا کہ فرینڈلی فائر اور جان بوجھ کر کیے گئے حملے میں فرق کیسے کیا جاتا ہے؟ کیوں کہ یہ صائب اور تجربہ کارانہ رائے جنرل پاشا کی ہے۔۔۔
کانفرنس میں شریک سفیروں اور دیگر حکام کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے بتایا کہ نیٹو حملہ دانستہ اور اشتعال انگیز تھا ،امریکی اور نیٹو حکام کو آگاہ کرنے کے باوجود نیٹو ہیلی کاپٹروں نے کارروائی جاری رکھی۔
شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ جنرل احمد شجاع پاشا، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کی فوجی صلاحیت اور فہم کیا ہے۔ براہ کرم آپ بھی اور آپ کے باقی امریکی ملازمین ساتھی بھی کسی تھری سٹار جنرل، جب کہ وہ تھری سٹار جنرل ایک ایسے ملک کی فوجی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ ہو جس کی فوج دنیا کی با صلاحیت اور تربیت یافتہ ترین فوجوں میں شمار ہوتی ہو، کے متعلق ضرور پڑھیے کہ ان کی قابلیت جاننےکے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ آئی ایس آئی ہمارے ملک کا ایک انتہائی اہم اور قابلَ اعتماد ترین ادارہ ہے جس کی سربراہی کا اعزاز بذاتَ خود کسی کی قابلیت کے اعتراف کی سند ہے اور اس کا سربراہ کسی ڈیجیٹل کاپی پیسٹ کرنے والے غیر ملکی للو پنجو کے سرٹیفیکیٹ یا رائے کا محتاج نہیں۔ یہ وہی آئی ایس آئی ہے جو امریکیوں اور دوسرے دشمنوں کی ہمارے ملک کی جانب بڑھنے والی غلیظ اور ٹیڑھی نظروں کو بھانپ کا اس کا ازالہ کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی آنکھ میں اس کا وجود کھٹکتا ہے۔
آپ کا یہ بچکانہ مراسلہ پڑھ کر سندھی زبان کا ایک محاورہ یاد آ گیا جس کا (قدرے اخلاقی :lol:) ترجمہ کچھ یوں ہے کہ نواسی سکھا رہی ہے نانی کو ازدواجی زندگی گزارنے کے طریقے۔ :lol:
 

فاتح

لائبریرین
مکرم و محترم عالی جناب Fawad - صاحب از ڈیجیٹل آؤٹ سورس آؤٹ ریچ امریکا
گو کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وکی پیڈیا پر امریکی ایجنسیوں کے تنخواہ دار ملازمین مواد میں تبدیلی کر کے اسے امریکا کے حق میں کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسی وکی پیڈیا پر جنرل پاشا کے متعلق آپ لوگوں نے ہی جو کچھ لکھا ہے وہ کچھ یوں ہے:
Chief of Army Staff, General Kayani appointed Pasha on 29 September 2008.[1][10] Pasha’s prior post was responsible for planning operations against Taliban and al-Qaeda militants in the FATA and Khyber Pakhtunkhwa provinces of Pakistan (یہ وہی نام نہاد جنگ ہے جس کی آڑ میں امریکی یا نیٹو افواج نے "دانستہ اور اشتعال انگیز" حملہ کر کے ہمارے 26 فوجی شہید کر دیے اور یہ جنرل پاشا صاحب، اپنی موجودہ تقرری سے قبل، اس جنگ کے آپریشنز کی پلاننگ اور کمان کر رہے تھے لہٰذا ایسا نہیں کہ انھیں کچھ علم ہی نہ ہو کہ اس جنگ میں کیا کچھ اور کیسے ہو سکتا ہے یا انھیں اور ایک کل کے سویلین غیر ملکی لونڈے کو اٹھ کر سکھانا پڑے کہ جنرل صاحب! ٹرائی ٹو ہیو اے لُک ایٹ دا پریویس سیمیلر انسیڈنسز بیفور ڈیکلیرنگ دا فائر انٹینشنل۔ بڑے ہو جاؤ منے میاں فواد یعنی گرو اپ لَیڈ ), signaling a reorientation from the ISI's traditional Kashmir/India focus.[11] Pasha was appointed director of the ISI at Washington's behest(تھائی لینڈ کے ایک اخبار ایشیا ٹائمز اور ایک انڈین اخبار نے ایسی خبریں شائع کی تھیں کہ جنرل پاشا کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرری امریکا بہادر کے ایما یا حکم پر ہوئی، بہرحال کسی انڈین اخبار میں چھپنے والی پاکستان کے ایک فوجی جنرل کی تقرری پر خبر کے حتمی یا غیر حتمی ہونے کے متعلق جاننے کے لیے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے متعلق جاننے والا کوئی بچہ بھی کان دھرنے کے قابل نہیں جانے گا، لیکن امریکی تنخواہ داروں نے ڈھونڈ کر اسے جنرل پاشا کے وکی پیڈیا کے صفحے پر لگایا تا کہ اب پاکستانی عوام کو ان جیسی قابل اور با عزت شخصیت کے خلاف کیا جا سکے لیکن چلیے مان لیا کہ یہی حقیقت تھی تو آج امریکا کو ان کے اپنے من پسند جنرل پاشا کی رائے اس قدر احمقانہ کیسے لگنے لگی کہ غیر فوجی یا سویلین لونڈوں کو ایسے زیرک جنرل کو فوجی معاملات میں مشورے دینے کے دھندے پر لگا دیا);[12] Pasha is closely allied to General Kayani, the CIA, and holds anti-Taliban views.(تم لوگوں کے اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق پاشا صاحب نہ صرف طالبان کے خلاف ہیں بلکہ یہ تو سی آئی اے کا اپنا بندہ ہے بھائی لوگو۔۔۔ کم از کم اس کی رائے کو تو مان لو۔)[10][12]
 
Top