موضوع احادیث کو پہچاننے کے اصول

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

طالوت

محفلین
امام ابن الجوزی، حافظ ابن القیم، حافظ سخاوی اور جزری وغیرہ نے بہت سے اصول تحریر کئے ہیں۔ جن کو ملا علی قاری نے اپنی موضوعات میں نقل کیا ہے ۔ فہرست درج ذیل ہے۔​

1۔ جس روایت میں اس قسم کے مضمون ہوں جو نبی کریمؐ کی شان سے بعید ہوں۔مثلا ستر ہزار حوریں، ستر ہزار خادم اور ستر ہزار داروغہ یا اسی قسم کی مہمل تعداد کا ذکر ہو۔ ( جیسا کہ غنیہ اور احیا العلوم میں پایا جاتا ہے)

2۔ روایت حس اور تجربے کے خلاف ہو۔مثلاً بینگن میں ہر بیماری کی شفاء ہے۔(حالانکہ اگر گرمی کے بخار میں کھا لیا جائے تو مالیخولیا ہو جائے گا ویسے بھی ازراہ حکمت نہایت ردی غذا ہے)

3۔ لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے کوئی مھال بات بیان کی جائے مثلاً چاول اگر انسان ہوتا تو نہایت بربار ہوتا۔

4۔ معمولی سے عمل پر بہت بڑے اجر کا وعدہ ہو۔ جیسے صلاۃ الرغائب (یا شب برات کی نمازیں)

5۔ چھوٹے سے گناہ پر بڑے عذاب کی وعید ہو۔

6۔ تیلوں کی فضیلت کا بیان ہو۔

7۔ مختلف پھولوں کی فضیلت ہو۔ مثلاً گلاب حضور کے پسینہ سے پیدا ہوا۔(حالانکہ گلاب کا وجود حضور سے بھی قبل تھا)

8۔ کبوتر یا مرغیاں پالنے کی فضیلت ہو۔

9۔ بیری کے درخت کے سلسلہ میں جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

10۔ مہندی کی فضیلت کا ذکر ہو۔

11۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حمام میں نہانے یا نورہ لگانے کا ذکر ہو۔

12۔ روایت صریح سنت کے خلاف ہو۔مثلا جس کا نام محمد یا احمد ہو گا وہ جہنم میں نہ جائے گا۔

13۔ روایت صریح قران کے خلاف ہو۔ مثلا ام ہانی کے گھر سے معراج۔

14۔ عوقل صریح کے خلاف ہو۔

15۔ جس حدیث میں ام المومنین سیدہ عائشہؓ کو حمیرا کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہو۔

16۔ جس حدیث میں یا علی کے لفظ سے خاص حضرت علی کو مخاطب کیا گیا ہو۔ بحز ایک حدیث کے ہا علی انت منی بمنزلۃ ھارون و موسی۔اے علی تو میری جگہ ایسا ہی جیسے ہارون موسی کی جگہ تھے۔

17۔ ایسا کلام ہو جو انبیاء کرام کے کلام سے مشابہ نہ ہو۔

18۔ ایسا واقعہ ہو جسے ہزاروں کو بیان کرنا چاہیے لیکن ایک شخص کے علاوہ کوئی روایت نہ کرے جیسے حضرت علی کے لئے سورج کا لوٹنا۔

19۔ ایسی حدیث ہو جس سے کسی شے کی فرضیت یا اہمیت ثابت ہوتی ہو لیکن ایک شخص کے علاوہ کوئی روایت نہ کرتا ہو۔

20۔آئندہ پیش آنے والے واقعات کے لئے کسی سنہ یا تاریخ معینہ کا ذکر ہو۔

21۔ مکہ و مدینہ کے علاوہ کسی اور شہر کی فضیلت ہو۔ مثلاً قزدین، عسقلان اور قروان وغیرہ۔ اس قسم کی موضوعات ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں۔

22۔ مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصٰی اور مسجد قبا کے علاوہ کسی اور مسجد کی فضیلت کا ذکر ہو۔ مثلا مسجد ابراہیمی ، مسجد طور یا مسجد قبلتین وغیرہ۔

23۔ کسی زیارت گاہ یا مقبرہ کا بیان ہو۔

24۔ حدیث میں حکمت کا کوئی اصول بیان کیا گیا ہو۔

25۔ خضر و الیاس کی حیات یا ان سے کسی کی ملاقات کا ذکر ہو۔

26۔ ہرہر روز کی نوافل کا ذکر ہو (یہ نوافل "احیا العلوم" اور "غنیتہ الطالبین" اور بہار شریعت وغیرہ میں ملاحظہ فرمالیں)

27۔ رجب یا اس کے روزوں کی فضیلت ہو۔ جیسے لکھی روزہ۔

28۔ رجب میں مخصوص نمازوں کا ذکر ہو۔ جیسے صلوۃ الرغائب۔

29۔ شب برات کی مخصوص نمازوں کا بیان ہو۔

30۔ الفاظ رکیک اور عربیت سے گرے ہوں۔

31۔ حبشہ، سوڈان یا ترکوں کی مذمت ہو۔

32۔ قیامت کے بارے میں کسی معینہ صدی کا ذکر ہو۔ (جیسے چودھویں یا پندرھویں صدی)

33۔ دنوں کی نحوست کا ذکر ہو (مثلاً منگل یا بدھ منحوس ہیں)

34۔ خصیوؔں کی مذمت ہو۔

35۔ حضور کے مقبرے یا اس کی زیارت کی فضیلت ہو۔

36۔ دیگر قرائن سے روایت کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہو۔

37۔ اولاد کی پرورش کی مذمت ہو۔

38۔ عقیق یا کسی اور پتھر کی فضیلت یا اس کے اثرات کا بیان ہو۔

39۔ جنات سے جنگ کا بیان ہو۔ جیسا کہ حضرت علی ؓکا بدر کے کنوئیں میں جنات سے جنگ کرنا۔

40۔ حضور کی پیدائش کا حال ہو۔

41۔ ہر ہر سورت کی فضیلت کا جداگانہ ذکر ہو۔

42۔ چاروں آئمہ میں سے نام بنام کسی فضیلت یا کسی کی مذمت ہو۔

43۔ صحابہ کرام یا ان میں سے کسی کی مذمت ہو۔

44۔ کنوار پن کی تعریف ہو۔

45۔ ولد حرام کی مذمت ہو۔ (حالانکہ اس بےچارے کا کیا قصور)

46۔ خرقہ پوشی کا ذکر ہو۔

48۔ حضرت علی کے علم باطن کا ذکر ہو۔

48۔ راوی خارجی یا ناصبی ہو اور حضرت علی اور ان کی اولاد کی مذمت کر رہا ہو۔

49۔ راوی رافضی ہو اور حضرت علی اور ان کی اولاد کی فضیلت میں روایت بیان کر رہا ہو۔ یا کوئی ایسی روایت جس میں کسی صحابی یا متعدد صحابہ کی مذمت ہو۔

50۔ بدعتی ہواور اپنی بدعت کی تائید میں حدیث روایت کر رہا ہو۔

51۔ راوی قصہ گو واعظ ہو۔

52۔ جس تاریخ کا واقعہ بیان کر رہا ہے اور اس واقعہ میں جس شخص کی موجودگی کو پیش کر رہا ہے وہ اس وقوع کے پیش آنے سے قبل مر چکا ہو۔

53۔ راوی کذاب یا مہتم الکذاب ہو۔

54۔ راوی زندیق ،بے دین یا فاسق ہو۔

55۔ راوی منکر روایات بیان کرتا ہو۔

56۔ راوی کی عام روایات ثقہ راویوں کے خلاف ہوں۔

57۔ قیامت کے روز سادات یا کسی خاندان کی بخشش کا ذکرہو۔

58۔ قیامت کے روز ماؤں کی جانب منسوب ہونے کا بیان ہو۔

59۔ غلہ یا کسی دال کی تعریف ہو (مثلاً مسور کی دال)۔

60۔ بنو عباس کی خلافت کا بیان ہو۔

61۔ بنو امیہ کی مذمت ہو۔

62۔ امیر معاویہ کی مذمت ہو۔

63۔ بنو عباس کے جنتی ہونے کا بیان ہو۔

64۔ واقعہ تاریخ مشہورہ کے خلاف ہو۔

65۔ کوئی ایسا قرینہ پایا جاتا ہو جس سے روایت کا جھوٹا ہونا معلوم ہوتا ہو۔

66۔ قوم عاد و ثمود جوج بن عنق کے طویل قدو قامت کا بیان ہو۔

67۔ پہاڑوں کی تعریف ہو۔ جیسے طور سینا وغیرہ۔(غنیتہ میں پہاڑوں کی فضیلت پر پورا ایک باب ہے)

68۔ حضور کے والدین کے دوبارہ زندہ ہونے یا جنتی ہونے کا ذکر ہو۔

69۔ حضور کے والدین یا ابو طالب کے ایمان لانے کا ذکر ہو۔

70۔ حسن کی تعریف ہو۔

71۔ جس روایت میں ظلم و فساد اور باطل کی تعریف اور حق گوئی کی مذمت کا ذکر ہو۔

72۔ صلوۃ الادابین کی فضیلت ہو۔

73۔ عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے کی فضیلت ہو۔

حافظ ابن القیم اور دیگر محدثین نے مختلف مقامات پر کچھ اور بھی اصول بیان کئے ہیں جو پیش خدمت ہیں۔
1۔ حضرت اسحق کا ذبیح اللہ ہونے کا ذکر ہو۔

2۔ ابدال و اقطاب اور اولیاء کا بیان ہو۔

3۔ دعا بالوسیلہ کا بیان ہو۔

4۔ حضرت علی خلافت و امامت یا ولایت کا ذکر ہو۔

5۔ اختلاف صحابہ کے وقت حضرت علیؓ کے حق پر ہونے کا ذکر ہو۔

6۔ ازواج مطہرات میں سے کسی کی مذمت ہو۔ مثلاً ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے بارے میں حواب کے کتوں کا ذکر۔

7۔ حضرت حسین کی شہادت کا ذکر ہو۔

8۔ آمین بالجہر کی تمام روایتیں موضوع یا منکر ہیں۔

9۔ بسم اللہ بالجہر کی روایت صحیح نہیں۔

10۔ حوض کوثر پر کسی صحابی یا کسی ولی کے ساقی ہونے کا ذکر ہو۔

11۔ قیامت کے دن کسی شخص کے سایہ کا ذکر ہو۔

12۔ اس اعظم کے ذریعے حصول دنیا کا ذکر ہو۔

13۔ آصف بن برخیا کا ذکر ہو۔

14۔ شداد کی جنت کا بیان ہو۔

15۔ زین العابدین ، باقر اور جعفر کی فضیلت ہو۔

16۔ واقعہ روایت مشہورہ یا متواتر کے خلاف ہو۔

17۔ ایسی روایت ہو جس پر صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا عمل نہ رہا ہو۔ خواہ اس کے راوی ثقہ ہوں۔

18۔ تصوف کا ذکر ہو۔

19۔ کالی کملی کا ذکر ہو۔

20۔ فقر و فاقہ کی فضیلت ہو۔

21۔ حضرت علیؓ کے باب العلم ہونے کا ذکر۔

22۔ حضرت علی کے لئے خلافت کی وصیت کاذکر ہو۔

23۔ سب سے پہلے عقل کو پیدا کرنے کی جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

24۔ سب سے پہلے حضورؐ کے پیدا کرنے کی جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

25۔ نور الٰہی سے کسی انسان کی تخلیق کا ذکر ہو۔ یقیناً وہ روایت موضوع ہے۔

26۔ پنج تن سے متعلقہ جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

علامہ حبیب الرحمان کاندھلوی کی کتاب "مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" سے اقتباس
-------------------------------
وسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
ھافظ ابن القیم

حافظ ابن القیم

حافظ ضحاوی
حافظ سخاوی



اعتراض:
متعلقہ کتب کے نام اور حوالہ جات موجود نہیں۔
وہابیوں‌ کے عقائد کے خلاف کئی احادیث‌کو موضوع کہہ دیا گیا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
امام ابن الجوزی، ھافظ ابن القیم، حافظ ضحاوی اور جزری وغیرہ نے بہت سے اصول تحریر کئے ہیں۔ جن کو ملا علی قاری نے اپنی موضوعات میں نقل کیا ہے ۔ فہرست درج ذیل ہے۔​

1۔ جس روایت میں اس قسم کے مضمون ہوں جو نبی کریمؐ کی شان سے بعید ہوں۔مثلا ستر ہزار حوریں، ستر ہزار خادم اور ستر ہزار داروغہ یا اسی قسم کی مہمل تعداد کا ذکر ہو۔ ( جیسا کہ غنیہ اور احیا العلوم میں پایا جاتا ہے)

2۔ روایت حس اور تجربے کے خلاف ہو۔مثلاً بینگن میں ہر بیماری کی شفاء ہے۔(حالانکہ اگر گرمی کے بخار میں کھا لیا جائے تو مالیخولیا ہو جائے گا ویسے بھی ازراہ حکمت نہایت ردی غذا ہے)

3۔ لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے کوئی مھال بات بیان کی جائے مثلاً چاول اگر انسان ہوتا تو نہایت بربار ہوتا۔

4۔ معمولی سے عمل پر بہت بڑے اجر کا وعدہ ہو۔ جیسے صلاۃ الرغائب (یا شب برات کی نمازیں)

5۔ چھوٹے سے گناہ پر بڑے عذاب کی وعید ہو۔

6۔ تیلوں کی فضیلت کا بیان ہو۔

7۔ مختلف پھولوں کی فضیلت ہو۔ مثلاً گلاب حضور کے پسینہ سے پیدا ہوا۔(حالانکہ گلاب کا وجود حضور سے بھی قبل تھا)

8۔ کبوتر یا مرغیاں پالنے کی فضیلت ہو۔

9۔ بیری کے درخت کے سلسلہ میں جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

10۔ مہندی کی فضیلت کا ذکر ہو۔

11۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حمام میں نہانے یا نورہ لگانے کا ذکر ہو۔

12۔ روایت صریح سنت کے خلاف ہو۔مثلا جس کا نام محمد یا احمد ہو گا وہ جہنم میں نہ جائے گا۔

13۔ روایت صریح قران کے خلاف ہو۔ مثلا ام ہانی کے گھر سے معراج۔

14۔ عوقل صریح کے خلاف ہو۔

15۔ جس حدیث میں ام المومنین سیدہ عائشہؓ کو حمیرا کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہو۔

16۔ جس حدیث میں یا علی کے لفظ سے خاص حضرت علی کو مخاطب کیا گیا ہو۔ بحز ایک حدیث کے ہا علی انت منی بمنزلۃ ھارون و موسی۔اے علی تو میری جگہ ایسا ہی جیسے ہارون موسی کی جگہ تھے۔

17۔ ایسا کلام ہو جو انبیاء کرام کے کلام سے مشابہ نہ ہو۔

18۔ ایسا واقعہ ہو جسے ہزاروں کو بیان کرنا چاہیے لیکن ایک شخص کے علاوہ کوئی روایت نہ کرے جیسے حضرت علی کے لئے سورج کا لوٹنا۔

19۔ ایسی حدیث ہو جس سے کسی شے کی فرضیت یا اہمیت ثابت ہوتی ہو لیکن ایک شخص کے علاوہ کوئی روایت نہ کرتا ہو۔

20۔آئندہ پیش آنے والے واقعات کے لئے کسی سنہ یا تاریخ معینہ کا ذکر ہو۔

21۔ مکہ و مدینہ کے علاوہ کسی اور شہر کی فضیلت ہو۔ مثلاً قزدین، عسقلان اور قروان وغیرہ۔ اس قسم کی موضوعات ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں۔

22۔ مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصٰی اور مسجد قبا کے علاوہ کسی اور مسجد کی فضیلت کا ذکر ہو۔ مثلا مسجد ابراہیمی ، مسجد طور یا مسجد قبلتین وغیرہ۔

23۔ کسی زیارت گاہ یا مقبرہ کا بیان ہو۔

24۔ حدیث میں حکمت کا کوئی اصول بیان کیا گیا ہو۔

25۔ خضر و الیاس کی حیات یا ان سے کسی کی ملاقات کا ذکر ہو۔

26۔ ہرہر روز کی نوافل کا ذکر ہو (یہ نوافل "احیا العلوم" اور "غنیتہ الطالبین" اور بہار شریعت وغیرہ میں ملاحظہ فرمالیں)

27۔ رجب یا اس کے روزوں کی فضیلت ہو۔ جیسے لکھی روزہ۔

28۔ رجب میں مخصوص نمازوں کا ذکر ہو۔ جیسے صلوۃ الرغائب۔

29۔ شب برات کی مخصوص نمازوں کا بیان ہو۔

30۔ الفاظ رکیک اور عربیت سے گرے ہوں۔

31۔ حبشہ، سوڈان یا ترکوں کی مذمت ہو۔

32۔ قیامت کے بارے میں کسی معینہ صدی کا ذکر ہو۔ (جیسے چودھویں یا پندرھویں صدی)

33۔ دنوں کی نحوست کا ذکر ہو (مثلاً منگل یا بدھ منحوس ہیں)

34۔ خصیوؔں کی مذمت ہو۔

35۔ حضور کے مقبرے یا اس کی زیارت کی فضیلت ہو۔

36۔ دیگر قرائن سے روایت کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہو۔

37۔ اولاد کی پرورش کی مذمت ہو۔

38۔ عقیق یا کسی اور پتھر کی فضیلت یا اس کے اثرات کا بیان ہو۔

39۔ جنات سے جنگ کا بیان ہو۔ جیسا کہ حضرت علی ؓکا بدر کے کنوئیں میں جنات سے جنگ کرنا۔

40۔ حضور کی پیدائش کا حال ہو۔

41۔ ہر ہر سورت کی فضیلت کا جداگانہ ذکر ہو۔

42۔ چاروں آئمہ میں سے نام بنام کسی فضیلت یا کسی کی مذمت ہو۔

43۔ صحابہ کرام یا ان میں سے کسی کی مذمت ہو۔

44۔ کنوار پن کی تعریف ہو۔

45۔ ولد حرام کی مذمت ہو۔ (حالانکہ اس بےچارے کا کیا قصور)

46۔ خرقہ پوشی کا ذکر ہو۔

48۔ حضرت علی کے علم باطن کا ذکر ہو۔

48۔ راوی خارجی یا ناصبی ہو اور حضرت علی اور ان کی اولاد کی مذمت کر رہا ہو۔

49۔ راوی رافضی ہو اور حضرت علی اور ان کی اولاد کی فضیلت میں روایت بیان کر رہا ہو۔ یا کوئی ایسی روایت جس میں کسی صحابی یا متعدد صحابہ کی مذمت ہو۔

50۔ بدعتی ہواور اپنی بدعت کی تائید میں حدیث روایت کر رہا ہو۔

51۔ راوی قصہ گو واعظ ہو۔

52۔ جس تاریخ کا واقعہ بیان کر رہا ہے اور اس واقعہ میں جس شخص کی موجودگی کو پیش کر رہا ہے وہ اس وقوع کے پیش آنے سے قبل مر چکا ہو۔

53۔ راوی کذاب یا مہتم الکذاب ہو۔

54۔ راوی زندیق ،بے دین یا فاسق ہو۔

55۔ راوی منکر روایات بیان کرتا ہو۔

56۔ راوی کی عام روایات ثقہ راویوں کے خلاف ہوں۔

57۔ قیامت کے روز سادات یا کسی خاندان کی بخشش کا ذکرہو۔

58۔ قیامت کے روز ماؤں کی جانب منسوب ہونے کا بیان ہو۔

59۔ غلہ یا کسی دال کی تعریف ہو (مثلاً مسور کی دال)۔

60۔ بنو عباس کی خلافت کا بیان ہو۔

61۔ بنو امیہ کی مذمت ہو۔

62۔ امیر معاویہ کی مذمت ہو۔

63۔ بنو عباس کے جنتی ہونے کا بیان ہو۔

64۔ واقعہ تاریخ مشہورہ کے خلاف ہو۔

65۔ کوئی ایسا قرینہ پایا جاتا ہو جس سے روایت کا جھوٹا ہونا معلوم ہوتا ہو۔

66۔ قوم عاد و ثمود جوج بن عنق کے طویل قدو قامت کا بیان ہو۔

67۔ پہاڑوں کی تعریف ہو۔ جیسے طور سینا وغیرہ۔(غنیتہ میں پہاڑوں کی فضیلت پر پورا ایک باب ہے)

68۔ حضور کے والدین کے دوبارہ زندہ ہونے یا جنتی ہونے کا ذکر ہو۔

69۔ حضور کے والدین یا ابو طالب کے ایمان لانے کا ذکر ہو۔

70۔ حسن کی تعریف ہو۔

71۔ جس روایت میں ظلم و فساد اور باطل کی تعریف اور حق گوئی کی مذمت کا ذکر ہو۔

72۔ صلوۃ الادابین کی فضیلت ہو۔

73۔ عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے کی فضیلت ہو۔

حافظ ابن القیم اور دیگر محدثین نے مختلف مقامات پر کچھ اور بھی اصول بیان کئے ہیں جو پیش خدمت ہیں۔
1۔ حضرت اسحق کا ذبیح اللہ ہونے کا ذکر ہو۔

2۔ ابدال و اقطاب اور اولیاء کا بیان ہو۔

3۔ دعا بالوسیلہ کا بیان ہو۔

4۔ حضرت علی خلافت و امامت یا ولایت کا ذکر ہو۔

5۔ اختلاف صحابہ کے وقت حضرت علیؓ کے حق پر ہونے کا ذکر ہو۔

6۔ ازواج مطہرات میں سے کسی کی مذمت ہو۔ مثلاً ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے بارے میں حواب کے کتوں کا ذکر۔

7۔ حضرت حسین کی شہادت کا ذکر ہو۔

8۔ آمین بالجہر کی تمام روایتیں موضوع یا منکر ہیں۔

9۔ بسم اللہ بالجہر کی روایت صحیح نہیں۔

10۔ حوض کوثر پر کسی صحابی یا کسی ولی کے ساقی ہونے کا ذکر ہو۔

11۔ قیامت کے دن کسی شخص کے سایہ کا ذکر ہو۔

12۔ اس اعظم کے ذریعے حصول دنیا کا ذکر ہو۔

13۔ آصف بن برخیا کا ذکر ہو۔

14۔ شداد کی جنت کا بیان ہو۔

15۔ زین العابدین ، باقر اور جعفر کی فضیلت ہو۔

16۔ واقعہ روایت مشہورہ یا متواتر کے خلاف ہو۔

17۔ ایسی روایت ہو جس پر صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا عمل نہ رہا ہو۔ خواہ اس کے راوی ثقہ ہوں۔

18۔ تصوف کا ذکر ہو۔

19۔ کالی کملی کا ذکر ہو۔

20۔ فقر و فاقہ کی فضیلت ہو۔

21۔ حضرت علیؓ کے باب العلم ہونے کا ذکر۔

22۔ حضرت علی کے لئے خلافت کی وصیت کاذکر ہو۔

23۔ سب سے پہلے عقل کو پیدا کرنے کی جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

24۔ سب سے پہلے حضورؐ کے پیدا کرنے کی جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

25۔ نور الٰہی سے کسی انسان کی تخلیق کا ذکر ہو۔ یقیناً وہ روایت موضوع ہے۔

26۔ پنج تن سے متعلقہ جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں۔

علامہ حبیب الرحمان کاندھلوی کی کتاب "مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" سے اقتباس
-------------------------------
وسلام

السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
جزاک اللہ
اللہ تعالی حسن نیت کے اجر سے نوازے آمین
کیا ہی بہتر ہو کہ آپ وہ اصول بھی تحریر کر دیں ۔
جن سے احادیث کو ثقہ سمجھا جا سکے ۔
یہ محترم حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب نے کسب علم حدیث کیا
صرف امام ابن الجوزی، ھافظ ابن القیم، حافظ ضحاوی اور جزری سے کی تحاریر سے کیا ہے ۔ ؟
یہ اصول کسی حدیث کو جانچنے اور عمل پیرا ہونے کی بجائے
تفرقے کی آگ کو تند و تیز کرنے کا بہترین ایندھن ثابت ہو سکتے ہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے قول و فعل میں سچا مسلم ( جس سے امن و سلامتی کا پرچار ہو ) بننے کی توفیق سے نوازے آمین
نایاب
نایاب
 

طالوت

محفلین
تصحیح کے لئے شکریہ الف نظامی ۔
اوپری 73 اصولوں کے لئے کتاب کا حوالہ موجود ہے ۔ ملا علی قاری کی "موضوعات کبیر" اور اس کا مزید ماخذ بھی آخر میں تحریرہے۔
وسلام
 

ابن جمال

محفلین
میراخیال ہے کہ آپ نے موضوعات کبیر لملاعلی قاری کو غور سے نہیں پڑھا ورنہ حافظ ابن قیم نے توحمیرا والی حدیث کو موضوع ہونے کی نشانی میں ذکر کیاہے جب کہ ملاعلی قاری نے اس پراعتراض کیاہے اورکچھ احادیث ذکر کی ہیں جو حسن درجہ کی ہیں اورجس میں حضرت عائشہ کو حمیرا سے پکاراگیاہے۔
 

طالوت

محفلین
السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
جزاک اللہ
اللہ تعالی حسن نیت کے اجر سے نوازے آمین
کیا ہی بہتر ہو کہ آپ وہ اصول بھی تحریر کر دیں ۔
جن سے احادیث کو ثقہ سمجھا جا سکے ۔
یہ محترم حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب نے کسب علم حدیث کیا
صرف امام ابن الجوزی، ھافظ ابن القیم، حافظ ضحاوی اور جزری سے کی تحاریر سے کیا ہے ۔ ؟
یہ اصول کسی حدیث کو جانچنے اور عمل پیرا ہونے کی بجائے
تفرقے کی آگ کو تند و تیز کرنے کا بہترین ایندھن ثابت ہو سکتے ہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے قول و فعل میں سچا مسلم ( جس سے امن و سلامتی کا پرچار ہو ) بننے کی توفیق سے نوازے آمین
نایاب
نایاب
آپ کے یہ سوال حبیب الرحمن صاحب سے ہو سکتے ہیں مجھ سے نہیں ۔ رہی بات تفرقے کی تو کیا ان اصولوں کو رد کرنے پر ہی امن اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے ؟ خصوصا ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ پر حواب کے کتوں کے بھونکنے جیسے کذب و افتراء اور جھوٹے و کم درجے کے ذلیل لوگوں کی ان ناپاک حرکتوں سے کم از کم مجھ سے تو کوئی بھائی چارے کی امید نا رکھے ۔
آپ حضرات سے گزارش ہے کہ بےجا سوال نہ کریں ۔ یہ اقتباسات ہیں جو ایک عالم و فاضل شخصیت کی کتاب سے بمع حوالہ جات مشہور ائمہ لئے گئے ۔ اگر میں کچھ اپنی طرف سے لکھوں تو ضرور سوال کریں انشاء اللہ ضرور جواب دوں گا۔
وسلام
 

میر انیس

لائبریرین
آپ نے بجائے کوئی علمی بات کرنے کے یہ تو ایک اچھی خاصے تعصبی اصول بیان کردئے ہیں جنکی کوئی عقلی اور علمی دلیل پیش نہیں کی۔ جابجا حضرت علی(ع) اور انکی اولاد سے دشمنی کا ثبوت مل رہا ہے ۔ آپ یہ تو ارشاد فرمادیتے کہ جنہوں نے آنحضرت کی گود میں اور وہ لعابَ دہن چوس چوس کر پرورش پائی ہو جو ہر مرض کی شفا اور علم سے مزین ایک مشروب تھا۔وہ اتنی فضیلت پر کس طرح قائم ہوسکتے ہیں نہ بیان کریں امیرِ شام کی محبت میں انکی کوئی فضیلت پر کیا انسے یہ حق چھین سکتے ہیں کہ جو بھی جنت میں جائے گا جوان ہوگا اور انکے سردار وہ ہی ہونگے چاہے کتنے بڑے سے بڑے صحابہ ہی کیوں نہ ہوں میرے خیال میں تو ان میں سے اکثر اصول حدیث کو غلط ثابت کرنے کیلیئے کافی ہیں نا کہ انکو صحیح ثابت کرنے کیلیئےحضرت امام محمد باقر(ع) امام زین العابدین(ع)اور امام جعفر صادق کی فضیلت کے لیئے صرف اتنا ہی کافی ہے کا انکا کوئی دنیاوی استاد آپ نہیں دکھا سکیں گے جبکہ انکے شاگردوں میں بڑے بڑے امام ،علمِ کیمیا کے بانی حیاتیات اور دیگر علوم کے استاد موجود ہیں ظاہر ہے یہ شہر علم اور باب العلم کا ایک سلسلہ ہے جو نسل در نسل چلا۔امام ابن الجوزی، ھافظ ابن القیم، حافظ ضحاوی اور جزری وغیرہ ان سب باتوں کہ بجائے اگر صرف یہ کہ دیتے کہ رسول(ص) اور آلِ رسول کی فضیلت بیان کرنا اور اور انکو اللہ نے جو مرتبہ دیا ہے اس کا اہل سمجھنا نہیں چاہیئے کیونکہ اس سے ہمارے بزرگوں نے جو ان پر مظالم کیئے اور ان پر سب و شتم کیا وہ جائز قرار دینے میں آسانی ہوگی ۔ اور ہمارے جو بزرگ ساری زندگی اسلام کے خلاف رہے اور یہاں تک کہ گیئے کہ " آنحضرت(ص)پر نہ تو کوئی وحی نازل ہوئی تھی نہ فرشتہ آیا تھا یہ تو بنی ہاشم کا ایک ڈھونگ تھا جو اسنے حکومت حاصل کرنے کے لیئے رچایا تھا" انکی کسی طرح مزمت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ بہر حال وہ ہمارے بزرگ ہیں۔
ایک اہم بات اور میرے خیال میں تو ان سب اصولوں کی بنیاد پر ایک حدیث کی کتاب چھاپ دی جائے اور اسکو صحیح بخاری و مسلم سے بھی زیادہ مستند قرار دیا جائے کیونکہ حدیث کی تمام چھ کی چھ کتابوں میں جا بجا ایسی احادیث موجود ہیں جو ان حضرات کی دانست میں غلط ہیں لہٰذا اب وہ صحیح کہاں رہیں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس محفل میں یہ تعصب کیسے آگیا اور لوگوں کو کسی کہ جزبات بھڑکانے کی اجازت یہاں کیسے مل جاتی ہے کہ جو چاہے اپنے خیالات کا اظہار جس طرح بھی ہو کرتا پھرے جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ یہاں پوسٹ پہلے چیک کی جاتی ہے پھر اسکو شائع کیا جاتا ہے۔انتظامیہ کیوں کوئی قدم نہیں اٹھاتی کہ ایسے پیغامات شائع ہونے سے پہلے ہی حذف کردیئے جائیں تاکہ فرقہ واریت کی فضا پیدا نہ ہو
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کے یہ سوال حبیب الرحمن صاحب سے ہو سکتے ہیں مجھ سے نہیں۔

-----------

آپ حضرات سے گزارش ہے کہ بےجا سوال نہ کریں ۔ یہ اقتباسات ہیں جو ایک عالم و فاضل شخصیت کی کتاب سے بمع حوالہ جات مشہور ائمہ لئے گئے ۔ اگر میں کچھ اپنی طرف سے لکھوں تو ضرور سوال کریں انشاء اللہ ضرور جواب دوں گا۔
وسلام

یہ ایک انتہائی غیر منظقی اور غلط استدلال ہے، ظہیر صاحب۔

مجھے اس موضوع کے مندرجات سے کچھ نہیں لینا دینا، لیکن آپ نے پوسٹ کرتے ہوئے کہیں نہیں لکھا کہ کہاں کہاں آپ کو متن کے ساتھ اتفاق نہیں ہے، یعنی آپ 'اپنی' پوسٹ کے مندرجات سے متفق ہیں، لیکن متنازعہ فیہ موضوعات سے دیگر متفق نہیں ہیں سو رائے تقسیم ضرور ہوگی اور چونکہ آپ نے یہ معلومات پیش کی ہیں سو آپ سے پرسش بھی ہوگی!

مثال کے طور پر، میں اور دیگر احباب سینکڑوں کتابوں میں سے ایسے ایسے اقتباسات دے سکتے ہیں جن میں یزید کو لعین ابنِ لعین ابنِ لعین کہا گیا ہے تو آپ کو اور دیگر بہت سے لوگوں کو تکلیف نہیں ہوگی کیا؟ اور کیا آپ پوسٹ کرنے والی کی گرفت نہیں کریں گے یا اسے ایسے ہی ایسا مواد پھیلانے کی اجازت دے دیں گے؟ اور 'جواب آں غزل' والا صدیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

افسوس صد افسوس کہ ہم صرف اپنے ہی مسلک کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں عقلِ سلیم کو قطعاً استعمال نہیں کرتے۔ نوٹ کیجیے میں نے صرف آپ نہیں لکھا، 'ہم' لکھا ہے، جو آپ کچھ اور محمول کریں!
 

میر انیس

لائبریرین
مختصراّ یہ مطلب ہوا کہ جو باتیں وہابی حضرات کو ہضم نہیں ہوسکتیں وہ 'موضوعات' ہیں۔ ۔ ۔

ہم بھی وہی کام کیوں کریں جا طالوت صاحب نادانستگی میں کرگئے۔ وہ اتحادالبین المسلمین کو نہ مانیں ہم تو اس پر یقین رکھتے ہیں نہ ہم کسی پر کیچڑ اچھالیں نہ کسی کو موقع دیں۔
 

طالوت

محفلین
یہ ایک انتہائی غیر منظقی اور غلط استدلال ہے، ظہیر صاحب۔

مجھے اس موضوع کے مندرجات سے کچھ نہیں لینا دینا، لیکن آپ نے پوسٹ کرتے ہوئے کہیں نہیں لکھا کہ کہاں کہاں آپ کو متن کے ساتھ اتفاق نہیں ہے، یعنی آپ 'اپنی' پوسٹ کے مندرجات سے متفق ہیں، لیکن متنازعہ فیہ موضوعات سے دیگر متفق نہیں ہیں سو رائے تقسیم ضرور ہوگی اور چونکہ آپ نے یہ معلومات پیش کی ہیں سو آپ سے پرسش بھی ہوگی!

مثال کے طور پر، میں اور دیگر احباب سینکڑوں کتابوں میں سے ایسے ایسے اقتباسات دے سکتے ہیں جن میں یزید کو لعین ابنِ لعین ابنِ لعین کہا گیا ہے تو آپ کو اور دیگر بہت سے لوگوں کو تکلیف نہیں ہوگی کیا؟ اور کیا آپ پوسٹ کرنے والی کی گرفت نہیں کریں گے یا اسے ایسے ہی ایسا مواد پھیلانے کی اجازت دے دیں گے؟ اور 'جواب آں غزل' والا صدیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

افسوس صد افسوس کہ ہم صرف اپنے ہی مسلک کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں عقلِ سلیم کو قطعاً استعمال نہیں کرتے۔ نوٹ کیجیے میں نے صرف آپ نہیں لکھا، 'ہم' لکھا ہے، جو آپ کچھ اور محمول کریں!

شکریہ وارث ۔ صرف دو باتوں کی وضاحت کر دوں کہ میں جب بھی کسی مصنف کی کوئی تحریر پیش کرتا ہوں تو اس سلسلے میں اپنی رائے استعمال نہیں کرتا ۔ شاید میں اب تک اس پر کاربند ہوں یعنی میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ "ایک رائے یہ بھی ہے" اگرچہ اس میں مجھے کچھ باتوں سے اتفاق اور کچھ سے اختلاف ضرور ہوتا ہے مگر میں بلا کم و کاست پوری تحریر پیش کرتا ہوں کہ دیانت سے کام لیا جائے ۔ اسی ضمن میں میری چند ایک پوسٹیں یا مراسلے حذف بھی ہوئے ہیں مگر میں نے ان پر اعتراض نہیں کیا کہ وہ میری رائے ہیں ۔ البتہ جہاں میں پوری طرح متفق ہوں وہاں اچھل کود کرتا ہوں چاہے وہ میرا پیش کردہ مواد ہو یا کسی اور کا ۔
دوسرا میرا کوئی مسلک نہیں ۔ اسی محفل پر لوگ مجھے وہابی یا اہل حدیث سمجھتے ہیں اور اہل حدیث یا وہابی لٹھ لئے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں پرویزی ہوں یا کوئی اور ۔ امیر المومنین یزید بن معاویہ کو لعین کہنے پر تکلیف ہوتی ہے مگر فرق صرف اتنا ہے ۔ کہ میرے مراسلوں سے کسی کی تضحیک کا پہلو نہیں نکلتا ۔ میں کسی کو لعنت ملامت نہیں کرتا اگر کسی کے فضائل میں غلو سے کام لیا جائے تو اس کی نشاندہی کرنا اور کسی ملعون کہنے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ اور میرا ملعون کہنا صرف کسی کے ملعون کہنے کے رد عمل پر ہی آیا ہے ۔ جس کا مجھے افسوس بھی ہے ۔ اور میں نے اب تک لوگوں سے پیش کردہ اقتباس کے حوالے ہی مانگے ہیں ۔ اگر کسی حوالے کے جواب میں "اسلامی جمہوریہ ایران" لکھا ہوا ائے تو آپ کا کیا رد عمل ہو گا ؟
شاید جواب ٹھیک سے نہیں دے پایا کہ ان دنوں مصروف بھی ہوں اور نیٹ سے دور بھی ۔ مگر امید ہے کہ آپ میری مدعا سمجھ گئے ہوں گے ۔
وسلام
 
امیر المومنین یزید بن معاویہ کو لعین کہنے پر تکلیف ہوتی ہے
وسلام

یہی تو رونا ہے جناب۔ ۔ ۔ اگر ایک گروہ اس شخصیت کو 'ملعون' سے کم کہنے پر راضی نہیں تو وہیں دوسرا گروہ اسی شخصیت کو 'امیرالمومنین' اور 'رضی اللہ عنہ' کہے بغیر بات نہیں کرسکتا۔ ۔ ۔غلو تو پھر دونوں جانب ہوا نا۔ ۔ ۔ اعتدال کی راہ تو یہ ہے کہ اسے 'امیرالمومنین' کہہ کر خلافتِ راشدہ کی توہین نہ کی جائے کہاں ملوکیت اور جبابرہ کی بادشاہت اور کہاں خلافتِ الہیہ۔ ۔ ۔ اسی طرح اسے ملعون یا پلید کہنے کی بجائے وہی وقت رسول اور آلِ رسول پر درود بھیجنے میں صرف کر دیا جائے۔
 

میر انیس

لائبریرین
شکریہ وارث ۔ صرف دو باتوں کی وضاحت کر دوں کہ میں جب بھی کسی مصنف کی کوئی تحریر پیش کرتا ہوں تو اس سلسلے میں اپنی رائے استعمال نہیں کرتا ۔ شاید میں اب تک اس پر کاربند ہوں یعنی میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ "ایک رائے یہ بھی ہے" اگرچہ اس میں مجھے کچھ باتوں سے اتفاق اور کچھ سے اختلاف ضرور ہوتا ہے مگر میں بلا کم و کاست پوری تحریر پیش کرتا ہوں کہ دیانت سے کام لیا جائے ۔ اسی ضمن میں میری چند ایک پوسٹیں یا مراسلے حذف بھی ہوئے ہیں مگر میں نے ان پر اعتراض نہیں کیا کہ وہ میری رائے ہیں ۔ البتہ جہاں میں پوری طرح متفق ہوں وہاں اچھل کود کرتا ہوں چاہے وہ میرا پیش کردہ مواد ہو یا کسی اور کا ۔
دوسرا میرا کوئی مسلک نہیں ۔ اسی محفل پر لوگ مجھے وہابی یا اہل حدیث سمجھتے ہیں اور اہل حدیث یا وہابی لٹھ لئے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں پرویزی ہوں یا کوئی اور ۔ امیر المومنین یزید بن معاویہ کو لعین کہنے پر تکلیف ہوتی ہے مگر فرق صرف اتنا ہے ۔ کہ میرے مراسلوں سے کسی کی تضحیک کا پہلو نہیں نکلتا ۔ میں کسی کو لعنت ملامت نہیں کرتا اگر کسی کے فضائل میں غلو سے کام لیا جائے تو اس کی نشاندہی کرنا اور کسی ملعون کہنے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ اور میرا ملعون کہنا صرف کسی کے ملعون کہنے کے رد عمل پر ہی آیا ہے ۔ جس کا مجھے افسوس بھی ہے ۔ اور میں نے اب تک لوگوں سے پیش کردہ اقتباس کے حوالے ہی مانگے ہیں ۔ اگر کسی حوالے کے جواب میں "اسلامی جمہوریہ ایران" لکھا ہوا ائے تو آپ کا کیا رد عمل ہو گا ؟
شاید جواب ٹھیک سے نہیں دے پایا کہ ان دنوں مصروف بھی ہوں اور نیٹ سے دور بھی ۔ مگر امید ہے کہ آپ میری مدعا سمجھ گئے ہوں گے ۔
وسلام

آپ کو یزید کو ملعون کہنے پر تکلیف ہوتی ہے پر یہ سوچئے کہ رسول اللہ(ص)‌کو انکے پورے خاندان کو تاراج کرنے والے کو امیرالمومنین کہنے پر کتنی تکلیف ہوتی ہوگی ۔ اپ یقیناََ کہیں گے کہ امام حسین (ع) کو یزید نے قتل نہیں کرایا یا واقع کربلا سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔ تو آپ خود اپنے آپ سے سوال کریں کہ یہ کتنا بھونڈا مزاق ہے کہ اسلام کے جید جید علما جن میں شاہ عبدیلعزیز محدث دہلوی بھی شامل ہیں نے یزید کو ہی اسکا مورودِ الزام ٹہرایا ہے۔ دوسرے جب آپ سے کہا گیا کہ ایسی بہت سی رائے ہم بھی پیش کردیں چاہے اس سے کسی کی بہت زیادہ دل آزاری ہوتی ہو پر جواب میں کہیں کہ یہ ہماری رائے نہیں بلکہ ہمیں بھی اس رائے سے اختلاف ہے پر ایک رائے یہ بھی ہے تو آپ کو کیا قابلَ قبول ہوگی ۔ مثال کہ طور پر بیبی فاطمہ (ع) کے گھر جلانے ان پر دروازہ گرانے انکا بچہ شہید کرنے کا پورا احوال بہت مستند کتابوں میں لکھا ہے اور اسکا الزام آپکو پتہ ہے کہ کس جید صحابی پر جاتا ہے اگر وہ پورا واقع یہاں نقل کردیا جائے اور آپکے بھڑکنے پر یہ کہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جائے کہ یہ سب بھی کتابوں میں لکھا ہے اور ہماری رائے نہیں ہے تو کیا ایک نئی بحث نہیں چھڑ جائے گی۔ ذرا تو سوچ سمجھ کر بات کیا کریں۔
دوسرے انسان کی سوچ اسکا نظریہ اسکا مسلک اسکی باتوں اسکے نظریات اور اسکی تحریر سے لگالیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی آپکو وہابی سمجھتا ہے تو یہ اسکا قصور نہیں یہ آپ کی تحریر کے انداز کا قصور ہے ۔ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگارہا نہ آپکو جھوٹا سمجھ رہا ہوں معازاللہ پر کیا کریں آپکی کوئی بھی تحریر اب تک مجھکو ایسی نظر نہیں آئی جس میں حضرت علی(ع) ،حضرت امام حسن(ع) یا امام حسین(ع) یا بی بی فاطمہ سے محبت کا اظہار نظر آتا ہو ۔ آپ یزید وامیر معاویہ کو تو بہر حال امیرالمومنین لکھتے ہیں جن کا امیرالمومنین ہونا بہر حال متنازع مسئلہ ہے (ایک وقت میں 2 امیر مومنوں کے نہیں ہوسکتے یا تو حضرت علی یا امیر معاویہ ) مگر مولا علی(ع) کو کبھی امیرالمومنین نہیں لکھتے۔ اگر آپ اپنی یہی متنازع تحریر پڑھیں تو آپنے حضرت امام محمد باقر(ع) کو اور امام جعفر صادق کو صرف باقر اور صادق لکھا ہے جبکہ اگر آپ انکو کچھ بھی نہیں مانیں پھر بھی یہ تابعین میں سے اور تبع تابعین میں سے تو تھے ناکیا آپ باقی سب تابعین کو ایسے ہی بغیر کوئی عزت والا لفظ لگائے لکھ دیتے ہیں۔ یہ رسول کی اولاد کی اولاد اور امام اعظم کے استادوں میں سے ہیں آپ اپنے امام کے استادوں کو کم از کم وہ عزت تو دیں جو آپکے امام دیتے تھے۔ ان سب باتوں سے آپکا مسلک واضع ہوجاتا ہے۔ مثلاََ میری اس تحریر کو جو بھی پڑھےگا وہ میرے مسلک کے بارے میں جان جائے گا۔ مولا علی (ع) کو اگر حدیث میں بابالعلم کہا گیا ہے تو انہوں نے اس حدیث کو سچا ثابت بھی کر کے دکھایا ۔انکے خطبے اور انکے فیصلے دیکھئے آپکو اندازہ ہوجائے گا پر آپنے یا تو نہج البلاغہ پڑہی ہی نہیں یا وہی تعصب نے آپکی آنکھوں پر پٹی باندھی تو یہ تو معذرت کے ساتھ ان کافروں کے ساتھ بھی ہوا تھا جنکو ہمارے پیارے نبی(ص) اور باقی سب دوسرے انبیا علیہ السلام معجزات دکھاتے تھے پر وہ پھر بھی نہیں مانتے تھے۔ لہٰذا بھائی آپ کافر نہیں بلکہ ایک مومن ہیں جو اللہ اور نبی پر ایمان لاچکا ہے تو اب جو نبی(ص) نے کہ دیا اور شیعہ اور سنی دونوں کتابوں سے وہ حدیث ثابت ہوگئی تو اب اس میں شک ڈال کر تفرقہ نہ پھیلایئں۔
 

طالوت

محفلین
اگر امت کسی کی امارت پر متفق نہیں ہوئی تو وہ سیدنا علی ، اور پھر حسن بن علی تھے ۔ رہی حسین بن علی کی بات تو ان کے ساتھ امت کہاں کھڑی تھی ؟ ان سے زیادہ لوگ تو ابن الزبیر کے ساتھ تھے ۔ بہرحال اب اس نئی بحث کو جگہ نہ دیں اس کے لئے ایک الگ مقام ہی مناسب ہے ۔ صرف آپ کی درستگی کے لئے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ سوائے عراق کے اس وقت کے سارے عالم اسلام بشمول اکابر صحابہ و امہات المومنین کو دائرہ اسلا م سے ہی خارج کر دیا جائے (نعوذ بااللہ) تو شاید آپ یہ خلافت متفقہ کہہ سکیں ۔ ورنہ کم از خلافت راشدہ کو یا تو 5 تک لے جائیں یا پھر 3 تک محدود رہنے دیں ۔

رہا حدیث کا معاملہ تو ایک اور وضاحت پیش خدمت ہے ۔

احادیث کے معاملے میں سنی اور شیعہ فرق بالکل واضح ہے کتابیں الگ ، روات الگ ، روایتیں الگ اور شاید طرز استدلال بھی الگ ۔ یہ جو 99 اصولوں کا اقتباس میں نے یہاں پیش کیا ہے یہ علامہ موصوف کی کتاب "مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" جو کہ چار جلدوں میں موجود ہے سے لیا ہے ۔ اور اوپری عبارت میں "چند اصول" اور کتاب کے نام سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک تو یہاں اصول تمام نہیں ہو جاتے ہیں اور دوسرا یہ اصول صرف مذہبی قصوں سے متعلق ہی ہیں ۔ ویسے بھی اس کتاب کی پہلی جلد 70 فیصد برقیا چکا ہوں وقت ملتے ہی اس میں سے اقتباسات پیش کرنا شروع کر دوں گا جس سے ان اصولوں کی قدرے بہتر وضاحت ہو جائے گی۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
ارے اصل بات تو بھول ہی گیا ۔ میر صاحب آپ کے اس دھواں دھار خطبے میں عرض کر دوں کہ احادیث درست ہیں یا نہیں یہ بھی ضروری ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی بات کے شروع میں قال رسول اللہ لکھا ہو تو وہ درست ہو جاتی ہے ۔
رہی سیدنا علی سے محبت کی بات تو میرا مسلک ہی کسی صحابی پر تنقید نہ کرنا ہے ، میں یہ جرات اپنے اندر نہیں پاتا ۔ ورنہ جس تاریخ پر آپ یہ اچھل کود کر رہے ہیں اسی تاریخ میں ایسی بھی باتیں ہیں کہ آپ غصے سے اپنی انگلیاں چبا جائیں گے ۔ مگر میرا مسلک جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کسی صحابی پر تنقید نہ کرنا ہے ۔ اور حسن و حسین کی صحابیت تو یوں بھی نہیں بنتی کہ رسول اللہ کی وفات کے وقت وہ اتنے بچے تھے کہ انھیں حضور کا حلیہ وغیرہ بھی یاد نہ تھا ۔ اور رہی تابعین کی بات تو تابعین میں وہ بھی آتے ہیں جن کے خلاف آپ کی زبانیں شعلے اگلتی ہیں ۔

منتظم حضرات سے گزارش ہے کہ یا تو اب موضوع سے غیر متعلقہ مراسلوں کو پوسٹ نہ ہونے دیا جائے یا پھر تمام غیر متعلقہ مراسلے حذف کر دئیے جائیں ۔
وسلام
 

میر انیس

لائبریرین
اگر امت کسی کی امارت پر متفق نہیں ہوئی تو وہ سیدنا علی ، اور پھر حسن بن علی تھے ۔ رہی حسین بن علی کی بات تو ان کے ساتھ امت کہاں کھڑی تھی ؟ ان سے زیادہ لوگ تو ابن الزبیر کے ساتھ تھے ۔ بہرحال اب اس نئی بحث کو جگہ نہ دیں اس کے لئے ایک الگ مقام ہی مناسب ہے ۔ صرف آپ کی درستگی کے لئے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ سوائے عراق کے اس وقت کے سارے عالم اسلام بشمول اکابر صحابہ و امہات المومنین کو دائرہ اسلا م سے ہی خارج کر دیا جائے (نعوذ بااللہ) تو شاید آپ یہ خلافت متفقہ کہہ سکیں ۔ ورنہ کم از خلافت راشدہ کو یا تو 5 تک لے جائیں یا پھر 3 تک محدود رہنے دیں ۔

رہا حدیث کا معاملہ تو ایک اور وضاحت پیش خدمت ہے ۔

احادیث کے معاملے میں سنی اور شیعہ فرق بالکل واضح ہے کتابیں الگ ، روات الگ ، روایتیں الگ اور شاید طرز استدلال بھی الگ ۔ یہ جو 99 اصولوں کا اقتباس میں نے یہاں پیش کیا ہے یہ علامہ موصوف کی کتاب "مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" جو کہ چار جلدوں میں موجود ہے سے لیا ہے ۔ اور اوپری عبارت میں "چند اصول" اور کتاب کے نام سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک تو یہاں اصول تمام نہیں ہو جاتے ہیں اور دوسرا یہ اصول صرف مذہبی قصوں سے متعلق ہی ہیں ۔ ویسے بھی اس کتاب کی پہلی جلد 70 فیصد برقیا چکا ہوں وقت ملتے ہی اس میں سے اقتباسات پیش کرنا شروع کر دوں گا جس سے ان اصولوں کی قدرے بہتر وضاحت ہو جائے گی۔
وسلام

میرے بھائی یہاں میں واقعی غلط تھا میں تو خلافت الیہٰ کی بات کر رہا تھا مگر آپکی نظر میں خلافت تو دراصل وہ ہے جسکو ہم ملوکیت کہتے ہیں ۔ ہم تو رسول اللہ کا جانشین اسکو سمجھتے ہیں کہ اگر اسکے خلاف پورا زمانہ ہو پھر بھی وہ حق پر اپنی گردن کٹوادے پر ظالم و جابر حاکم کو نہ مانے اس طرح تو تاریخ میں چنگیز خان نما بہت سے لوگ آئے جو لوگوں کو ڈرا کر یا خرید کر اپنے ساتھ ملاتے رہے پر اگر اللہ والوں کے ساتھ قلیل تعداد بھی ہو تو انکے لیئے وہی کافی ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کس طرح استدلال پیش کروں آپ تو خاندانِ رسول کے اتنیے خلاف ہیں کہ انکی شان میں جتنی احادیث ہیں سب کا ہی انکار کرتے ہیں ہان صرف ایک حدیث رہ جاتی ہے جس کو آپنے تسلیم کیا ہے یا پھر قران رہ جاتا ہے چلیں میں ان دونوں متبرک چیزوں کو ہی سہارا بناتا ہوں
اگر آپ امارت کی بات کرتے ہیں تو وہ الگ بات ہے پر اللہ نے جو خلیفہ بنائے انکے ساتھ اکثریت کا نہ ہونا انکے حق پر ہونے نہ ہونے کی دلیل نہیں۔ اگر آپ یہ استدلال پیش کرتے ہیں تو پھر آپ حضرت ہارون(ع) کے لیئے کیا کہیں گے کہ جب حضرت موسٰی (ع) عارضی طور پر اپنی امت سے دور چلے گئے تھے اور حضرت ہارون(ع)کو اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے تو انکی امت نے حضرت ہارون(ع) کی باتیں نہیں مانیں اور سامری جادوگر کہ کہنے میں آکر ایک گوسالہ کی پرستش شروع کردی۔قران میں اس واقعہ کا پورا زکر موجود ہے لیکن کیا اللہ نے حضرت ہارون کو قران میں خلیفہ نہیں کہا؟ طالوت صاحب اللہ اور رسول جو واقعہ بیان کرتے ہیں وہ قصہ کہانیاں نہیں ہوتیں ان میں ہمارے لیئے نشانیاں موجود ہوتیں ہیں جبھی تو میرے مولا حضرت محمد(ص) نے حضرت علی(ع) کو مثلِ ہارون(ع) قرار دیا تھا۔اللہ کو پوری دنیا مانیں پھر بھی وہ کائینات کا مالک ہے۔اور ایک آدمی بھی نہ مانے پھر بھی کائینات کا مالک وہ ہی ہے۔رسول(ص) کو اللہ کے بعد سب سے بزرگ کوئی نہ مانیں پھر بھی آپکا مقام جو ہے وہی رہے گا اور اگر دنیا کا ایک ایک آدمی بھی مانلے تو آپکی شان وہ ہی رہے گی اسی طرح انکے جانشین ِبر حق مولا علی(ع)کو اگر کسی نہ تسلیم کرلیا تو پھر بھی وہ سب کہ مولا اور آقا رہیں گے نہ مانیں تو بھی ہیں تو وہی سب کہ مولا جن کے نبی(ص) مولا ہیں
 

میر انیس

لائبریرین
ارے اصل بات تو بھول ہی گیا ۔ میر صاحب آپ کے اس دھواں دھار خطبے میں عرض کر دوں کہ احادیث درست ہیں یا نہیں یہ بھی ضروری ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی بات کے شروع میں قال رسول اللہ لکھا ہو تو وہ درست ہو جاتی ہے ۔
رہی سیدنا علی سے محبت کی بات تو میرا مسلک ہی کسی صحابی پر تنقید نہ کرنا ہے ، میں یہ جرات اپنے اندر نہیں پاتا ۔ ورنہ جس تاریخ پر آپ یہ اچھل کود کر رہے ہیں اسی تاریخ میں ایسی بھی باتیں ہیں کہ آپ غصے سے اپنی انگلیاں چبا جائیں گے ۔ مگر میرا مسلک جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کسی صحابی پر تنقید نہ کرنا ہے ۔ اور حسن و حسین کی صحابیت تو یوں بھی نہیں بنتی کہ رسول اللہ کی وفات کے وقت وہ اتنے بچے تھے کہ انھیں حضور کا حلیہ وغیرہ بھی یاد نہ تھا ۔ اور رہی تابعین کی بات تو تابعین میں وہ بھی آتے ہیں جن کے خلاف آپ کی زبانیں شعلے اگلتی ہیں ۔

منتظم حضرات سے گزارش ہے کہ یا تو اب موضوع سے غیر متعلقہ مراسلوں کو پوسٹ نہ ہونے دیا جائے یا پھر تمام غیر متعلقہ مراسلے حذف کر دئیے جائیں ۔
وسلام
یہاں پر آپ حقائق کو بری طرح چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ غزوہ خندق کہ موقع پر بہترین مشورہ دینے پر آنحضرت(ص) نے حضرت سلمان فارسی(ع) کو اپنے اہلیبیت میں شمار کیا تھا ۔ اور یہ سن 9 حجری کی بات ہے غالباََ تو 9 حجری سے پہلے حضرت سلمان فارسی کیا تھے ۔ ظاہر ہے صاحابیِ رسول(ص) تھے میرے کہنی کا مطلب ہے کہ جب کوئی صحابی بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اہلیبیت میں آجاتا ہے صحابی نہیں رہتا ۔ میں امام حسن(ع) اور امام حسین کو صحابی نہیں مانتا نہ ہی مولا علی(ع) کو صحابی کہتا ہوں
(ع) بھائی صحابی ہوتے ہیں گھر سے باہر والے آپکے گھر والے صحابہ تھوڑی کہلائیں گے کیا آپ کہ نانا آپکو اپنا دوست کہتے تھے یار کہتے تھے ہاں آپکو اپنی اولاد ضرور کہتے ہوں گے۔ نہ ہی آپکا کوئی بھائی آپکا دوست کہلا سکتا ہے ۔ صحابی تو وہ ہیں جو رسول(ص) سے ویسے کوئی رشتہ نہیں رکھت تھے پر چونکہ آپکی(ص) صحبت میں رہے اسلئے اتنے بڑے مرتبہ پر پہنچ گئے ۔ یہ تو وہ ہیں جن کی رگوں میں آنحضرت(ص) کا پاک و پاکیزہ لہو دوڑتا تھا۔ جو آپکی گودوں میں کھیلتے تھے یہاں تک کہ نماز کی حالت میں اگر آپکی(ص) پشت پر سوار ہوجاتے تو آپ سجدے سے سر نہیں اٹھاتے تھے ۔ بقول شاعر
سجدے میں ہیں رسول اور پشت پر حسین
بیٹھے رہے حسین عبادت کھڑی رہی
میرے بھائی نبی(ص) کے گھر والوں سے اتنی بھی دشمنی صحیح نہیں کہ حقائق ہی ماننے سے انکار کردیں پر آپ اصرار کرتے ہیں تو میں نیا دھاگہ شروع کرلیتا ہوں جس میں تمام عالمِ اسلام کی کتابوں سے آلِ رسول کی فضیلت بیان کروں گا اور آپ انکا جواب دیجئے گا۔ ابھی تو انکی فضیلت کہ لیئے اتنا کافی ہے کہ انکے جیسے نام نہ پہلے تھے نہ کبھی ہونگے نہ محمد نام ہمارے نبی(ص) سے پہلے تھا نہ علی نام مولا علی(ع) سے پہلے کسی کا تھا اسی طرح نہ حسن نہ حسین۔ اور اب بھی جتنی تعداد میں مسلمان انکے نام،کنیت اور لقب ان حضرات کہ رکھتے ہیں اور کسی کہ نہیں رکھتے انکے دشمنوں کے نام تو جیسے ناپید ہی ہوگئے ہیں یہی انکی کامیابی اور عظمت کی دلیل ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top