کلاسیکی موسیقی موسیقی میں خیال

حسن نظامی

لائبریرین
بہت معلومات افزا گفتگو تھی ۔۔ جناب وارث صاحب ۔۔ استاد محترم اور فاتح صاحب کی ۔۔
میرا ایک سوال :
راگ اور راگنی کی تقسیم کیسے ہے ؟
کیا ہر راگ کی راگنی بھی ہو گی ۔۔ مذکر اور مونث کے حساب سے یا پھر راگوں کو مذکر اور مونث میں تقسیم کیا گیا ہے ۔۔
اور اگر ایسی بات ہے تو کس بناء پر ایسا کیا گیا ہے ۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ سا رے گا ما بھی در اصل سروں کے ناموں کے مخفف ہیں۔ مکمل نام اس طرح ہیں۔
षड़ज्شڑج۔ سا
ऋषभرِ شبھ۔ رے
गंधार گندھار۔ گا
मध्यम مدھیم۔ ما
पंचम پنچم۔ پا
धैवत دھیوت۔ دھا
निशाद نِشاد۔ نی
ہندی جاننے والوں کے لئے دیو ناگری میں بھی لکھ رہا ہوں۔
مزید یہ کہ راگ کا ایک حصہ ’ولمبت‘ ہے، ولمب کا مطلب ہی ’تاخیر‘ پے۔ اس لئے اس کو بہت دھیرے گایا جاتا ہے، یعنی سست رفتار سے، جب کہ دھرت کا مطلب تیز رفتار ہے، یہاں فاسٹ گایا جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ان غزلوں کے اگر پہلے دو مصرعے مل جائیں تو شاید آسانی رہے؟

بہت شکریہ قیصرانی صاحب، ایک یہ ہے

دل میں کسی کی یاد چھپائے ایک زمانہ بیت گیا
اپنے دل کو روگ لگائے ایک زمانہ بیت گیا (کچھ ایسا ہی تھا :) )

اور دوسری کا مطلع تھا

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا آج کہانی اپنی
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت شکریہ قیصرانی صاحب، ایک یہ ہے

دل میں کسی کی یاد چھپائے ایک زمانہ بیت گیا
اپنے دل کو روگ لگائے ایک زمانہ بیت گیا (کچھ ایسا ہی تھا :) )

اور دوسری کا مطلع تھا

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا آج کہانی اپنی

معذرت جناب، ابھی تک تو کامیابی نہیں ہو پائی
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت معلومات افزا گفتگو تھی ۔۔ جناب وارث صاحب ۔۔ استاد محترم اور فاتح صاحب کی ۔۔
میرا ایک سوال :
راگ اور راگنی کی تقسیم کیسے ہے ؟
کیا ہر راگ کی راگنی بھی ہو گی ۔۔ مذکر اور مونث کے حساب سے یا پھر راگوں کو مذکر اور مونث میں تقسیم کیا گیا ہے ۔۔
اور اگر ایسی بات ہے تو کس بناء پر ایسا کیا گیا ہے ۔۔

حسن راگ اور راگنی ایک ہی ہے لیکن بعض راگوں کو انکی چنچلتا اور ایسے سروں کی وجہ سے جن کی فریکونسی زیادہ ہوتی ہے - یعنی ایسے راگ جسے سن کر ایسا لگے جیسے کہ کوئی مرد نہیں بلکہ عورت گا رہی ہے اسے راگنی کہا جاتا ہے جیسے راگ بھرویں راگنی ہے لیکن چونکہ اس میں شوخی اور سروں کی فریکونسی زیادہ ہے - اس لیے یہ راگ جب گایا جاتا ہے تو فن کار کی آواز نسبتا" باریک ہو جاتی ہے - اس لیے اسے راگنی بھی کہا جاتا ہے -
 

عثمان ستار

محفلین
اب جب کہ یہاں اساتذہ کی بات چل نکلی ہے، تو میں نے سوچا کہ فرمائش بھی لکھ ہی دوں۔

دو غزلیں جو کہ میں نے پی ٹی وی پر کبھی سنی تھیں اور یقیناً بہت سے احباب نے سنی ہوں گی، انکی تلاش ہے۔

ایک استاد فتح علی خان کی ہے، دل میں کسی کی یاد چھپائے ایک زمانہ بیت گیا۔

اور دوسری استاد رئیس نے گائی ہے، وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی۔

اگر کوئی دوست ان کو ڈھونڈ سکیں تو بقول غالب "حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی"۔ فرخ صاحب اور فاتح صاحب سے اس سلسلے میں خصوصی درخواست ہے۔
 

عثمان ستار

محفلین
باقی پڑھ لیں طرز تو وہی رہنی ہے :)۔ ویسے میرے پاس سی ڈی تھی شاید مل جائے مگر جب سے سی ڈیز کا دور گیا ہے ان کا ڈھونڈنا محال ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرت امیر خسرو نے نو قسم کے گانے کے طریقے ایجاد کیے
قول ، قلبانہ ، ترانہ ، خیال ، نقش ، گل ، بسیط، تلللانہ اور سوہلہ
ترانہ ان الفاظ سے مرکب ہے
تانوم تانوم تادیرے دیرے نا در در
یہ الفاظ صرف ان آٹھ حروف سے مل کر بنتے ہیں
تے ، دال ، نون، الف ، ے ، میم ، رے اور واو۔
ایک راویت یہ ہے کہ حضرت امیر خسرو نے جو ترانے ایجاد کیے تھے وہ سب بامعنی تھے مثال کے طور پر
درا آ در آ در تنم در آ جان من در آ در آ

(امیر خسرو ماہر موسیقی کی حیثیت سے ؛ نگار - اکتوبر 1938ء)
 
Top