اقبال موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے ۔ علامہ اقبال

فرخ منظور

لائبریرین

یہ غزل علامہ اقبال کی ابتدائی غزلیات میں سے ہے جب داغ سے اصلاح لیا کرتے تھے اور یہ غزل ہمارے پرانے محلے بازار حکیماں، لاہور کے ایک مشاعرے میں پڑھی تھی۔


تم آزماؤ ’’ہاں‘‘ کو زباں سے نکال کے
یہ صدقے ہو گی میرے سوالِ وصال کے

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

جادو عجب نگاہِ خریدارِ دل میں تھا
بکتا ہے ساتھ بیچنے والا بھی مال کے

چلتے ہوئے کسی کا جو آنچل سرک گیا
بولی حیا ، حضور ! دوپٹّا سنبھال کے

اے ضبط ہوشیار! مرا حرفِ مدّعا
قابو میں آ نہ جائے زبانِ سوال کے

مارے ہیں آسماں نے مجھے تاک تاک کر
کیا بے خطا ہیں تیر کمانِ ھلال کے

بگڑے حیا نہ شوخیٔ رفتار سے کہیں
چلتے نہیں وہ اپنا دوپٹّا سنبھال کے

میں نے کہا کہ بے دہنی اور یہ گالیاں!
کہنے لگے کہ بول ذرا منہ سنبھال کے

ہم موت مانگتے ہیں ، وہ گھبرائے جاتے ہیں
سمجھے انھوں نے اور ہی معنی ’’وصال‘‘ کے

حسرت نہیں ، کسی کی تمنا نہیں ہوں میں
مجھ کو نکالیے گا ذرا دیکھ بھال کے

کم بخت اک ’’نہیں‘‘ کی ہزاروں ہیں صورتیں
ہوتے ہیں سو جواب سوالِ وصال کے

کہتے ہیں ہنس کے ، جائیے ہم سے نہ بولیے
قربان جاؤں طرزِ بیانِ ملال کے

کہتا ہے خضر دشتِ جنوں میں مجھے کہ چل
آتا ہوں میں بھی پاؤں سے کانٹے نکال کے

ان کی گلی میں اور کچھ اندھیر ہو نہ جائے
اے ضعف ! دیکھ مجھ کو گرانا سنبھال کے

تصویر میں نے مانگی تو ہنس کر دیا جواب
عاشق ہوئے تھے تم تو کسی بے مثال کے

اقبال لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض
ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے۱

(علامہ اقبال)
۱ - بیاضِ اعجاز ،ص ۳۹ ، شورِ محشر، دسمبر ۱۸۹۶ء
 
آخری تدوین:
Top