منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
نئی تعمیر میں ایک جدائی کی کیفیت
.
حنائی ہاتھ، چق اور چق کے پیچھے
طلسمات در خوباں نہیں ہیں
وہ رشتے اب نہیں باقی مکاں میں
نئی تعمیر میں گلیاں نہیں ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
اس کے باہر صرف ڈر ہے رات کے ہنگام کا
.
اس کے باہر صرف ڈر ہے رات کے ہنگام کا
اک دھند لگا صبح کا ہے اک دھند لگا شام کا
اور ان کے درمیاں دن کارِ بے آرام کا
سانس لینے ہی نہیں دیتا یہ وقفہ کام کا
کچھ ذرا فرصت ملے تو یاد آئے یار بھی
اس کی صحبت میں جو تھی وہ ساعت سیار بھی
دو حدوں پر ہے جو قائم وہ در دلدار بھی
میری ہستی میں بھی آئے ایک دن آرام کا
ایک دھندلی صبح کا اور ایک دھندلی شام​
 

عرفان سرور

محفلین
آج میں کل کا دخل
.
کھیل دھوپ چھاؤں کا
بادلوں ہواؤں کا
صحن صبح نو میں ہے
وہ قدیم راستے
شہر وہ خیال کے
حسن جن کا دور سے
تھا سفر میں یارسا
ان کی ایک جھلک بھی ہے
سامنے کی دید میں
اس نوید عید میں
آج کے قرار میں
آنے والے دور کے
خوش نما غبار میں
ان اک مہک بھی ہے
چاہتوں کے سال میں
حجلہ وصال سی
کی بہار میں​
 

عرفان سرور

محفلین
خواب میری پناہ ہیں
.
بس میرا چلتا نہیں جب سختئی ایام پر
فتح پا سکتا نہیں یورش آلام پر
اپنے ان کے درمیاں دیوار چن دیتا ہوں میں
اس جہان ظلم پر اک خواب بُن دیتا ہوں میں​
 

عرفان سرور

محفلین
والدہ مرحومہ کی یاد میں
.
وسیع میدانوں میں
جہاں سے کوئی نہیں گزرتا
وہ وہاں موجود ہے
میں جن راستوں پر
کسی خوف سے نہیں جا سکتا
وہ وہاں موجود ہیں
میں نے جن مکانوں میں
زندگی کے اچھے یا برے دن کاٹے ہیں
وہ وہاں موجود ہیں
غیب میں جو باغات ہیں
ابر رحمت جن پر پھوار کی طرح برستا ہے
وہ وہاں موجود ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
لاہور ٹاؤن شب پر نظم
.
جس شہر میں رہا میں برسوں کی زندگی میں
کاٹی حیات جس میں شرمندہ خامشی میں
اس شہر کی حدوں پر میں گھر بنارہا ہوں
ماہ منیر جس پر شب بھر شب گیر ہو رہا ہے
اک شہر کے ساتھ میرے تعمیر ہو رہا ہے
میرے مکاں سے آگے میداں کہیں کہیں پر
آبادیاں کہیں پر، خالی زمیں کہیں پر
ایک بڑھ کا پیڑ جو اب کچھ پیر ہو رہا ہے
جگمگ دکاں سے ملتے سنساں راستے پر
اک لالٹین والے تنور کے سرے پر
اک مرد اور عورت اک سوچ میں کھڑے ہیں
وحشی غزال جیسے زنجیر ہو رہا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک احتمال
.
شاید وہ ملے انہی راہوں پر جن راہوں پر چھو ڑا تھا اسے
کرنوں کی کلیاں چنتے ہوئے
میری جانب دوڑتے آتے ہوئے
میری جانب دوڑتے آتے ہوئے پھر رک واپس جاتے ہوئے
شاید وہی موسم اب تک ہو جس میں دیکھتا تھا اسے​
 

عرفان سرور

محفلین
خزاں زدہ باغ پر بوندا باندی
.
آمد باراں کا سناٹا
کبھی کبھی اس سناٹے میں ٹوٹ کے گرتے پتے
دیو آسا اشجار کھڑے ہیں
کہیں کہیں اشجار تلے ویران پرانے رستے
لے کے چلیں آوارہ ہوائیں
ایک نشانی اس کی جو تھی اس کو واپس پہنچانے
آج بہت دن بعد آئی ہے شام یہ چادر تانے
اک وعدہ جو میں نے کیا تھا اس کی یاد دلانے
آج بہت دن بعد ملے تھے گہری پیاس اور پانی
ساحلوں جیسا حسن کسی کا اور میری حیرانی​
 

عرفان سرور

محفلین
سلام
.
خواب جمال عشق کی تعبیر ہے حسین
شام ملال عشق کی تصویر ہے حسین
حیراں وہ بے یقینی اہل جہاں سے ہے
دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین
یہ زیست ایک دشت ہے لاحد و بے کنار
اس دشت غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین
روشن ہے اس کے دم سے الم خانئہ جہاں
نور خدائے عصر کی تنویر ہے حسین
ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنا
اجڑے نگر میں حسرت تعمیر ہے حسین​
 

عرفان سرور

محفلین
بھیروں بہار کا خیال
.
لاگی لاگن گھر گھر
پت جھڑ کی ہے بہار
آنکھوں میں انتظار
ڈھلے چاند دل کے پار
لاگی لگن
ایک اجنبی دیار
چلے ہوا سوگوار
دل میں وہم بے شمار
ایک درد کی پکار
آ رہی ہے بار بار
لاگی لگن​
 

عرفان سرور

محفلین
کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے
بیت گئے برس بہت دیکھا تھا ہم نے جب اسے
جاگے گا خواب ہجر سے آئے گا لوٹ کر یہیں
دیکھیں گے خوف و شوق سے روزن و در سے سب اسے
صحرا نہیں یہ شہر ہے اور بھی لوگ ہیں یہاں
چاروں طرف مکان ہیں اتنا ہے ہوش کب اسے
کہنے کو بات کچھ نہیں جانا ہے اس کو تجھ کو بھی
کیوں تو کھڑا ہے راہ میں روک کے بے سبب اسے
باغوں میں جا، اے خوش نوا آئی بسنت کی ہوا
زرد ہوا ہے بن عجب، جادو چڑھا عجب اسے
اک اک ورق ہے باب زر تیری غزل کا اے منیر
جب یہ کتاب ہو چکے جا کے دکھانا تب اسے​
 

عرفان سرور

محفلین
بس ایک ماہ جنوں خیز کی ضیا کے سوا
نگر میں کچھ نہیں باقی رہا ہوا کے سوا
ہے ایک اور بھی صورت کہیں میری ہی طرح
اک اور شہر بھی ہے قریہ صدا کو سوا
اک اور سمت بھی ہے اس سے جا کے ملنے کی
نشان اور بھی ہے اک نشان پا کے سوا
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
میری خواہشیں باعث ہیں میرے غم کی منیر
عذاب مجھ پہ نہیں حرف مدعا کے سوا​
 

عرفان سرور

محفلین
کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے
بیت گئے برس بہت دیکھا تھا ہم نے جب اسے
جاگے گا خواب ہجر سے آئے گا لوٹ کر یہیں
دیکھیں گے خوف و شوق سے روزن و در سے سب اسے
صحرا نہیں یہ شہر ہے اور بھی لوگ ہیں یہاں
چاروں طرف مکان ہیں اتنا ہے ہوش کب اسے
کہنے کو بات کچھ نہیں جانا ہے اس کو تجھ کو بھی
کیوں تو کھڑا ہے راہ میں روک کے بے سبب اسے
باغوں میں جا، اے خوش نوا آئی بسنت کی ہوا
زرد ہوا ہے بن عجب، جادو چڑھا عجب اسے
اک اک ورق ہے باب زر تیری غزل کا اے منیر
جب یہ کتاب ہو چکے جا کے دکھانا تب اسے​
 

عرفان سرور

محفلین
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں
کر یاد ان دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں
تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیر
وہ زرفشانیاں تیرے رخ کی کدھر گئیں​
 

عرفان سرور

محفلین
شعاع مہر منور شبوں سے پیدا ہو
متاع خواب مسرت غموں سے پیدا ہو
میری نظر سے جو گم ہ وگیا وہ ظاھر ہو
صراط شہر صفا الجھنوں سے پیدا ہو
گلِ مراد! سر دشت نامرادی کھل
رخ نگار وفا محملوں سے پیدا ہو
گماں نہیں ہوتی مجھے جس سمت سے وہاں سے آ
جو میں نے نہیں دیکھی ان جگہوں سے پیدا ہو
ہویدہ ہو دم زندہ ہجوم مردہ سے
اے اصل شوق غلط خواہشوں سے پیدا ہو
مثال قوس قزح بارشوں کے بعد نکل
جمال رنگ، کھلے منظروں سے پیدا ہو
فروغ اسم محمد ہو بستیوں میں منیر
قدیم یاد، نئے مسکنوں سے پیدا ہو​
 

عرفان سرور

محفلین
قرار ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا
وہ رنگ اس گل رعنا کا خواب میں نہ ملا
عجب کشش تھی نظر پر سراب صحرا سے
گہر مگر وہ نظر کا اس آب میں نہ ملا
بس ایک ہجرت دائم گھروں زمینوں سے
نشان مرکز دل اضطراب میں نہ ملا
سفر میں دھوپ کا منظر تھا اور سائے کا اور
ملا جو مہر میں مجھ کو سحاب میں نہ ملا
ہوا نہ پیدا وہ شعلہ جو علم سے اٹھتا
یہ شہر مردہ صحیفوں کے باب میں نہ ملا
مکاں بنا نہ یہاں اس دیار شر میں منیر
یہ قصر شوق نگر کے عذاب میں نہ ملا​
 

عرفان سرور

محفلین
ہری ٹہنیوں کے نگر پر گئے
ہوا کے پرندے شجر پر گئے
اک آسیب زر ان مکانوں میں ہے
مکیں اس جگہ کے سفر پر گئے
بہت دھند ہے اور وہ نقش قدم
خدا جانے کس رہ گزر پر گئے
کہ جیسے ابھی تھا یہاں پر کوئی
گماں کیسے خواب سحر پر گئے
کئی رنگ پیدا ہوئے برق سے
کئی عکس دیوار و در پر گئے
وہی حسن دیوانہ گر طرف
سبھی رخ اسی کے اثر پر گئے
منیر آج اتنی اداسی ہے کیوں
یہ کیا سائے سے بحر و بر پر گئے​
 

عرفان سرور

محفلین
چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایہ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا
خمار مے میں وہ چہرہ کچھ اور الگ رہا تھا
دم سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا​
 

عرفان سرور

محفلین
تند نشہ خمار سا نکلا
آسماں بھی غبار سا نکلا
کیا اندھیرے میں روشنی سی رہی
رنگ لب کا شرار سا نکلا
تلخی غم نکل گئی دل سے
جسم سے اک بخار سا نکلا
دیکھ کر حسن دشت حیراں ہوں
یہ تو منظر دیار سا نکلا
میں ہوں بیمار وصل گل سے منیر
شوق دل مرگ زار سا نکلا​
 

عرفان سرور

محفلین
اس شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے
اس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے
پائیں چمن ہے خود رو درختوں کا جھنڈ سا
محراب در پہ اس کے نہ ہونے کا رنگ ہے
طوفان ابر و باد ملا ساحلوں پہ ہے
دریا کی خامشی میں ڈبونے کا رنگ ہے
اس عہد سے وفا کا صلہ مرگ رائیگاں
اس کی فضا میں ہر گھڑی کھونے کا رنگ ہے
سرخی ہے جو گلاب سی آنکھوں میں اے منیر
خار بہار دل میں چبھونے کا رنگ ہے​
 
Top