منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا
.
باغ میں جنگل سا اگ آیا ہے
خود روئیدگی نے خاک کے اس ٹکڑے میں
دھوم اٹھا رکھی ہے
میں چاہتا ہوں یہ پھر سے ایک ترتیب میں آ جائے
پھر سے باغ بن جائے
مگر وقت گزر جاتا ہے اور میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا​
 

عرفان سرور

محفلین
شہرِ نامعلوم کی جادوگری کچھ کم ہوئی
اس سفر میں شوق کی دیوانگی کچھ کم ہوئی
حسن جو دیکھا نہیں تھا اس کو دیکھا سامنے
صبح و شام اک کمی زندگی کچھ کم ہوئی
بے یقینی دل کی تھی کچھ پردہ داری کے سبب
صاف ملنے سے اسے بیگانگی کچھ کم ہوئی
غم ربا تھی سیر دنیا ہجر کے آزارسے
اس طرح دل میں جو تھی افسردگی کچھ کم ہوئی
حد بنائی تھی کہیں لا انتہا میں اے منیر
گھر بنا کر ذہن کی آشفتگی کچھ کم ہوئی​
 

عرفان سرور

محفلین
اپنے وطن کے لئے
.
زندگی اپنی وطن کی زنگی کا نام ہے
نام اس کا زندگی میں روشنی کا نام ہے
اپنے اہل فکر سے اس کی خبر ہم کو ملی
اک نئی امید کی صبح سفر ہم کو ملی
یہ زمیں اسلام سے وابستگی کا نام ہے
قائداعظم نے اس کی راہ دکھلائی ہمیں
اس مقام شوق پر اس کی صدا لائی ہمیں
ملک پاکستان شہر آگہی کا نام ہے
زندگی اپنے وطن کی زندگی کا نام ہے
اس حدی خواں کی رفاقت میں عمل کے قافلے
چل رہے ہیں کل زمیں کے خواب راحت کے لیے
اپنا مقصد ساری دنیا کی خوشی کا نام ہے
زندگی اپنی وطن کی زندگی کا نام ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
مَیں اور صغرا
.
ہم نے اکھٹے دکھ سکھ کاٹے راحت اور مجبوری کے
وصل کی جھلمل راتیں دن غربت کی دوری کے
اک ناواقف شہر کے اندر چھپے ہوئے شرمائے ہوئے
دو جنگوں میں ساتھ رہے ہم ڈرے ہوئے گھبرائے ہوئے
بگڑے ہوئے رشتوں کے جنگل، وحشت کے صحراؤں میں
ہم نے اکھٹے عمر بتا دی وقت کی دھوپ اور چھاؤں میں​
 

محمد وارث

لائبریرین
عرفان صاحب چونکہ آپ اس تھریڈ میں منیر نیازی کا کلام جمع کر رہے ہیں سو میں نے اسے کھیل ہی کھیل سے پسندیدہ کلام میں منتقل کر دیا ہے۔

والسلام
 

عرفان سرور

محفلین
اُس وقت میں اُس شہر میں موجود نہیں تھا
.
اُس وقت میں اُس شہر
میں موجود نہیں تھا
جس وقت اڑی بلبل بادل کے گرجنے سے
تھرائیں ہری شاخیں بوندوں کے برسنے سے
میداں تھا بہت خالی موسم کے بدلنے سے
روشن تھا سر میداں اک آگ کے جلنے سے
آواز ہوئی غالب اس منظر دنیا پر
اک علم نیا چمکا آثار زمانہ پر
جب پھر سے ملے دونوں دوری کے مکانوں میں
اس سمت بستی کے مستور زمانوں میں​
 

عرفان سرور

محفلین
مجز بیان در باب نعت
.
ایک بے رشتہ جہاں میں عالم خلق خدا
اور اس کے درمیاں اعلان فکر رہ نما
ایک باطل وقت کے شام و سحر میں زندگی
ایک گم گشتہ حقیقت کے نگر میں زندگی
جس میں نا موجود تھا میں وہ زمانہ دور کا
جس میں نا آباد تھا میں زمانہ دور کا
وہ فضا اس کی دور کی اس میں جمال مصطفٰی
جہل کی تاریکیوں میں شہر سا اک نور کا
اس زمانے میں میں اس کا زکر کرتا کس طرح
اس زمانے کے سخن میں فکر کرتا کس طرح
باب روشن اس قدر تھا اس اس جہان حسن کا
رعب دل میں اس قدر تھا اس بیان حسن کا
حوصلہ مجھ میں نہ تھا تو بات کہتا کس طرح
یہ میرا منصب نہ تھا تو نعت کہتا کس طرح​
 

عرفان سرور

محفلین
ہے شکل تیری گلاب جیسی
نظر ہے تیری شراب جیسی
ہوا سحر کی ہے ان دنوں میں
بدلتے موسم کے خواب جیسی
صدا ہے اک دوریوں میں اوجھل
میری صدا کے جواب جیسی
وہ دن تھا دوزخ کی آگ جیسا
وہ رات گہرے عذاب جیسی
یہ شہر لگتا ہے دشت جیسا
چمک ہے اس کی سراب جیسی
منیر تیری غزل عجب ہے
کسی سفر کی کتاب جیسی​
 

عرفان سرور

محفلین
بے خیال ہستی کو کام میں لگا دیا
ہجر کی اداسی نے شام کو سجا دیا
عشق کے شجر اس جا آنسوؤں سے جا اگتے ہیں
حسن نے زمانے کو غم کا بن بنا دیا
بے یقین لوگوں میں یقیں ہو جاتے
ہم کو خود ہستی نے شہر سے بچا لیا
دیر بعد آیا وہ اور اک زمانے میں
میں نے خواب مدت کا جاگ کر گنوا دیا
شاعری منیر اپنی باغ ہے اجاڑ اندر
میں نے اک حقیقت کو وہم میں چھپا دیا​
 

عرفان سرور

محفلین
سندر بن کی طرف ادھورا سفر
.
شکل سے وہ دریا لگتا تھا
اصل میں ایک سمندر تھا
تن تنہا میں کشتی میں تھا
دل میں وہم خدائی کے
سو تو فکروں کے سائے تھے
سو تو رنگ جدائی کے
ایک بار تو میں بھی ڈرا تھا
دیکھ کے زور روانی کا
آنسو کی آخری منزلوں تک تھا
خواب ایک بہتے پانی کا
دفتعا پھر ہوا نظارا
سندریوں کے جنگل کا
پانی کے اندر سے ابھرا
یا محبوب جہانوں سے
ایک سماں کسی اور طرح کا
تنہا بہت زمانوں سے
دم لے کر کوئی اٹھا ہوں جیسے
نیندوں کے استھانوں سے
مردہ شے جیسے زندہ ہو کر
نکلی بند مکانوں سے
اندر سرخی باہر سبزی
سندریوں کے شجروں کی
گل پتوں کی حدوں کے پیچھے
چپ تھی خالی نگروں کی
بار چلی تو جنگل جھوما
اٹھی صدا سی راگوں میں
اس کے اندر چھپی تھی شو کر
ہرے رنگ کے ناگوں کی​
 

عرفان سرور

محفلین
اُس کے وصال کا موسم
.
بجلی چمکی بادلوں اندر لال بہاروں جیسی
دیواروں، کوٹھوں، شجروں کے اوپر
جھیلوں کھڑے پانیوں کے اوپر
بوندا باندی ہوتی رہی​
 

عرفان سرور

محفلین
منظروں کی حمد
.
ہرے رنگ کی اونچی جھاڑی ہرے رنگ کا تھال ہے
اس پر جو اک پھول ہے ان ہونٹوں جیسا لال ہے
کس درگاہ یہ چڑھے چڑھاوے رنگوں کی تجسیم کے
کون سے غیب پہ ہوئے یہ ظاہر زائر بہت قدیم کے​
 

عرفان سرور

محفلین
دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف
یاد پیچھے کھینچتی ہے آس آگے کی طرف
چھوڑ کر نکلے تھے جس کو دشت غربت کی طرف
دیکھنا شام و سحر اب گھر کے سائے کی طرف
ہے ابھی آغاز دن کا اس دیار قید میں
ہے ابھی سے دھیان سارا شب کے پہرے کی طرف
صبح کی روشن کرن گھر کے دریچے پر پڑی
ایک رخ چمکا ہوا میں اس کے شیشے کی طرف
دوریوں سے پر کشش ہیں منزلیں دونوں منیر
میں رواں ہوں خواب میں ناپید قریے کی طرف​
 

عرفان سرور

محفلین
ہے چمن گل رنگ کا دیدار ہونا
کہ بیلے خواب سے بیدار ہونا
بتاتی ہے مہک دست حنا کی
کسی در کا پس دیوار ہونا
اسے رکھتا ہے صحراؤں میں حیراں
دل شاعر کا پر اسرار ہونا
کمال شوق کا حاصل یہی ہے
ہمارا شہر سے بیزار ہونا
فراق آغاز ہے ان ساعتوں کا
ہے آخر بن کا وصل یار ہونا
یہی ہونا تھا آخر دشت غم کو
ہمارے ہاتھ سے گلزار ہونا
محبت کا سبب بے نیازی
کشش اس کی ہے بس دشوار ہونا
منیر اچھا نہیں لگتا یہ تیرا
کسی کے ہجر میں بیمار ہونا​
 

عرفان سرور

محفلین
ہجر شب میں اک قرار غائبانہ چاہیے
غیب میں اک صورت ماہ شبانہ چاہیے
سن رہے ہیں جس کے چرچے شیر کی خلقت سے ہم
جا کے اک دن اس حسیں کو دیکھ آنا چاہیے
اس طرح آغاز شاید اک حیات نو کا ہو
پچھلی ساری زندگی کو بھول جانا چاہیے
وہ جہاں ہی دوسرا ہے وہ بت دیر آشنا
اس جہاں میں اس سے ملنے کو زمانہ چاہیے
کھینچتی رہتی ہے دائم اس کو باہر کی ہوا
اس کو تو گھر سے نکلنے کا بہانہ چاہیے
بستیاں نا متفق ہیں میری باتوں سے منیر
ان میں مجھ کو ایک حرف محرمانہ چاہیے​
 

عرفان سرور

محفلین
لمحہ لمحہ دم بہ دم
بس فنا ہونے کا غم
ہے خوشی ابھی اس جگہ
اے میری خوئے الم
کیا وہاں ہے بھی کوئی
اے راہ ملک عدم
رونق اصنام سے
خم ہوئے غم کے علم
یہ حقیقت ہے منیر
خواب میں رہتے ہیں ہم​
 

عرفان سرور

محفلین
سفر میں ہیں مسلسل ہم کہیں آباد بھی ہوں گے
ہوئے ناشاد جو اتنے تو ہم دل شاد بھی ہوں گے
زمانے کو برا کہتے نہیں ھم ہی زمانہ ھیں
کہ ہم جو صید لگتے ہے ہمیں صیاد بھی ہوں گے
بھلا بیٹھے ہیں وہ ہر بات اس گزرے زمانے کی
مگر قصے اس موسم کے ان کو یاد بھی ہوں گے
ہر اک شے اس ضد سے قائم ہے جہان خواب ہستی میں
جہاں پر دشت ہے آثار ابر و باد بھی ہوں ہوں گے
منیر افکار تیرے جو یہاں برباد پھرتے ہیں
کسی آتے سمے کے شہر کی بنیاد بھی ہوں گے​
 

عرفان سرور

محفلین
ابر و ہوا نئے نئے ہش و قمر نئے نئے
اہل نظر نئے نئے اہل خبر نئے نئے
لگتی ہے کچھ عجیب سی بدلی یہ بستیاں
ان کی خوشی نئی نئی، ہجر کے ڈر نئے نئے
راز بہشت کی کشش جن سے ہے باغ ہست میں
پیدا ہوئے بہار میں ایسے شجر نئے نئے
سمت سیاہ جہل میں مدھم ہوئی سیاہیاں
چمکے ہیں اس کے وسط میں علم کے در نئے نئے
حیرت میں ہوں منیر میں شہر خیال دیکھ کر
گلیوں میں گھر نئے نئے ان میں بشر نئے نئے​
 
Top