منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
ایک دھندلا سا خواب
.
کھچی کمان سی نئے چاند کی
اور اس کی خوشبو
آس پاس گہرے رنگوں کا
زہریلا جادو
ایک پیڑ اور ایک سانپ سا
اک میں اور اک تو​
 

عرفان سرور

محفلین
خُدا کو اپنے ہمزاد کا انتظار
.
اداس ہے تو بہت خدایا
کوئی نہ تجھ کو سنانے آیا
وہ سر جو تیرے اجاڑ دل میں
چراغ بن کر چمک رہی ہے
کوئی نہ تجھ کو دکھا نے آیا
عجیب حسن مہیب جیسی
خلش جو دل میں کھٹک رہی ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
میں جیسا بچپن میں تھا
`
میں جیسا بچپن میں تھا
اُسی طرح میں اب تک ہوں
کھلے باغ کو دیکھ کر
بری طرح حیران
آس پاس میرے کیا ہوتا ہے
اس سب سے انجان​
 

عرفان سرور

محفلین
دُھوپ میں دو سفید عورتیں
`
ادھر تھا مندر پھیروں کا
ادھر ہوا تھی راہوں میں
دھوپ تھا شیشہ چاندی کا
چمک گیا جو نگاہوں میں​
 

عرفان سرور

محفلین
کہسار مری میں سردیاں
`
چاند نکلا بادلوں سے رات گہری ہو گئی
جیسے یہ دنیا خدا کی گونگی بہری ہو گئی
دیکھ کر وہ مجھ کو ناگن اور زھری ہو گئی
جسم ریشم بن گیا رنگت سنہری ہو گئی
سر کے اوپر شاخ تھی اور اس کے اوپر آسماں
آنکھ اس کی سرخ اور رنگت سنہری ہو گی
لال پیلی چاندنی برفوں پہ ڈھلتی دیکھنا
بے ثمر اندھی نظر رنگوں سے جلتی دیکھنا
ایک خواہش سو طرح کے رخ بدلتی دیکھنا​
 

عرفان سرور

محفلین
دُشمنوں کے درمیان شام
`
پھیلتی ہے شام دیکھو ڈوبتا ہے دن عجب
آسماں پر رنگ دیکھو ہو گیا کیسا غضب
کھیت میں اور ان میں اک روپوش سے دشمن کا شک
سرسراہٹ سانپ کی گندم کی وحشی گر مہک
اک طرف دیوار و در اور جلتی بجھتی بتیاں
اک طرف سر پر کھڑا یہ موت جیسا آسماں​
 

عرفان سرور

محفلین
ڈھاکہ کے بلدا باغات میں تماشا
`
دور تک جاتی ہوئی پتھر کی کالی سیڑھیاں
اور گہرے لال پتے پیڑ کے
گھر کو تکتی دو نگاہیں ایک کالے جسم کی
بن کی پوشیدہ جگہوں کی اوٹ سے
دو عجائب گھر کے کمرے ایک خونی داستاں
خوب صورت مرد و زن کی انجمن آرائیاں
اپنی حد سے آگے بڑھ کر گرم خوں کی تیزیاں
بے وفائی کی پرانی رسم کے سود و زیاں
چھپ چلیں، فلاک پر دیکھوں شفق کی سرخیاں
اک پرانی شب کا قصہ چھیڑ کے
دور تک جاتی ہوئی پتھر کی خالی سیڑھیاں
اور گہرے لال پتے پیڑ کے​
 

عرفان سرور

محفلین
حسن میں گناہ کی خواہش
`
حسن تو بس دو طرح کا خواب لگتا ہے مجھے
آگ میں جلتا ہوا
یا برف میں سویا ہوا
درمیاں میں کچھ نہیں
صرف ہلکا سا اچنبھا، عکس سا اڑتا ہوا
اک خیال انگیز قصہ اپنی آدھی موت کا
اک الم افزا افسانہ شوق کا
اک کنارے سے صدا وہ تو وہ چلتی جائے گی
دُور تک اپنے گناہ پر ہاتھ ملتی جائے گی​
 

عرفان سرور

محفلین
ساتواں در کُھلنے کا سماں
`
ڈوب چلا ہے زہر میں اس کی آنکھوں کا ہر روپ
دیواروں پر پھیل رہی ہے پھیکی پھیکی دھوپ
سناٹا ہے شہر میں جیسے ایسی ہے آواز
اک دروازہ کھلے گا جیسے کوئی پرانا راز​
 

عرفان سرور

محفلین
ساحلی شہر میں ایک رات
`
روشنیاں ہی روشنیاں اور نوحے تھکے جہازوں کے
بارش میں جادو کے منظر کھلے ہوئے دروازوں کے
لاکھ جتن سے بھی نہیں مانا
دل کو دکھایا یا بیتے دن کے ہنگاموں کا تماشا بھی
شہر ہے سارا پتھر جیسا
میرا بھی دشمن ہے یہ اور اس کے لہو کا پیاسا بھی
میں بھی اپنی سوچ میں گم ہوں
پاگل ہو کر ناچ رہی وہ ہوٹل کی رقاصہ بھی​
 

عرفان سرور

محفلین
گزرگاہ پر تماشا
`
کھلی سڑک ویران پڑی تھی
بہت عجب تھی شام
اونچا قد اور چال نرالی
نظریں خوں آشام
سارے بدن پر مچا ہوا تھا
رنگوں کا کہرام
لال ہونٹ یوں دِہک رہے تھے
جیسے لہو کا جام
ایسا حسن تھا اس لڑکی میں
ٹھٹھک گئے سب لو گ
کیسے خو ش خو ش چلے تھے گھر کو
لگ کیا کیسا روگ​
 

عرفان سرور

محفلین
آدمی
`
بھولی باتیں یاد نہ آئیں
کیا کیا کوشش کرتا ہے
کون ہے وہ بس اسی سوچ کے
سائے سے بھی ڈرتا ہے
جیسے سوچ کے طوفانوں میں
دکھ کا ریلا پھرتا ہے
ساتھ اپنے جمگھٹا لگا کر
آپ اکیلا پھرتا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
دیکھنے والے کی الجھن
`
سو رج میں جو چہرے دیکھے اب ہیں سپنے سمان
اور شعاعوں میں الجھی سی
گیلے گیلے ہونٹو ں کی وہ نئی لال مسکان
جیسے کبھی نہ تھے یہ
چھو ٹی چھوٹی اینٹو ں والے ٹھنڈے برف مکان
کہاں گئی وہ شا م ڈھلے کی
سرسر کرتی تیز ہوا کی دل پر کھچی کمان
اور سپنا جو نیند میں لایا
پوری ادھوری خواہشوں کا
اک درد بھرا طوفان
کیسے کوئی کر سکتا ہے ان میں پہچان​
 

عرفان سرور

محفلین
ساتھیوں کی تلاش
`
کچھ اپنے جیسے لوگ ملیں
ان رنگ برنگے شہروں میں
کوئی اپنی جیسی لہر ملے
ان سانپوں جیسی لہروں میں
کوئی تیز، نشیلا زھر ملے
اتنی قسموں کے زہروں میں
ہم بھی نہ گھر سے باہر نکلیں
ان سونی دوپہروں میں​
 

عرفان سرور

محفلین
مینہ ہوا اور اجنبی شہر
`
بارش تھی، دیواروں پر اور کوٹھوں پر
اور گھروں کے گھنے درختوں پر
تند ہوا تھی، چہروں پر، دروازوں پر
اور خالی خالی رستوں پر
روشنیاں تھیں، کہیں کہیں
درگاہوں میں یا اونچے سرد مکانوں میں
ہو گا وہ بھی وہیں کہیں
ویرانوں میں یا مرمر کے ایوانوں میں​
 
Top