منفرد شاعرعرفان صدیقی پر کتاب کا اجرا ---------- رضوان احمد

مغزل

محفلین
منفرد شاعرعرفان صدیقی پر کتاب کا اجرا (رپورٹ :رضوان احمد )، پٹنہ

عرفان صدیقی
Irfan-Siddiqui.jpg



شمعِ تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے
شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

اگرچہ اردو کے صاحبِ طرز شاعر عرفان صدیقی کے انتقال کو چار سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے، لیکن اب تک ناقدین نے اس پر توجہ نہیں کی اوراب تک چند تاثراتی مضامین کے علاوہ ان پر زیادہ لکھا نہیں گیا۔ غالباً اس کی وجہ عرفان صدیقی کی افتادِ طبع بھی تھی کیونکہ وہ کسی بھی ادبی گروہ میں شامل نہیں رہے۔ ان کے پانچ شعری مجموعے سات سماوات ، کینوس، عشق نامہ، ہوائے دشتِ ماریہ اور شب درمیاں شائع ہوئے تھے، جب کہ پاکستان سے ان کی کلیات دریا کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ لیکن یہ سب کتابیں نایاب ہیں۔

اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے گذشتہ دنوں لکھنئو میں عرفان صدیقی پر ایک کتاب’ عرفان صدیقی شخص اور شاعر‘ کا اجرا ہوا۔ یہ لکھنئو یونیورسٹی کے شعبہٴ اردو میں پیش کردہ ایک تحقیقی مقالہ ہے جس کو صدر شعبہ ڈاکٹر انیس اشفاق کی نگرانی میں مرزا شفیق حسن شفق نے لکھا ہے۔

عرفان صدیقی کے قریبی دوست اور مشہور شاعر شہریار نے کتاب کا اجرا کیا۔ انہوں نے کہا کہ عرفان صدیقی کی شاعری کو وہ دل سے پسند کرتے ہیں،اس لیے اس کتاب کو جاری کرنا اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں۔ پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ عرفان صدیقی کی شاعری پر ناقدین نے اب تک توجہ نہیں کی لیکن امید ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ان کی شاعری زیر بحث آئے گی اور اس کے اوصاف پر توجہ دی جائے گی۔

عرفان صدیقی کا تعلق اترپردیش کے تہذیبی شہر بدایوں سے تھا۔ وہ مرحوم شکیب جلالی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ دونوں کا بچپن اور جوانی بھی ساتھ ساتھ گزری تھی، لیکن اس کے باوجود دونوں کا اندازِ سخن نرالا اورصاف پہچانے جانے والا ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری میں تماثیل اور تلمیحات کی بہتات نظر آتی ہے۔ خاص طور پر واقعہٴ کربلا کا استعارہ وہ بہت وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ شفیق حسن نے کتاب کا ایک مکمل باب عرفان صدیقی کی شاعری میں علامات کربلا کے استعمال پر ہی وقف کیا ہے:

وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے
جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ آئیں
پیاد گاں کو ظفر یاب دیکھنے کے لیے

ہم نہ زنجیر کے قائل ہیں نہ جاگیر کے اہل
ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے

تم ہی صدیوں سے یہ نہریں بند کرتے آئے ہو
مجھ کو لگتی ہے تمہاری شکل پہچانی ہوئی

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تیری تلوار پہ خاک

عرفان صدیقی کا مزاج غزل میں گہرے انداز سے رچا بسا ہوا تھا ان کی ترکیبیں پیچیدہ ضرور ہیں مگر مفاہیم میں بہت وسعت ہے:

شاعری کون کرامت ہے مگر کیا کیجے
درد ہے دل میں، سو لفظوں میں اثر ہے سائیں

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ
چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سر سبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئےزیاں میں لگانا ہی تھا ہم کواپنےلہوکا شجر یا اخی

عرفان صدیقی کے لہجے میں بلند آہنگی نہیں تھی، خطابت بھی نہیں تھی مگر ان کا طرزِ بیاں اتنا روشن اور نمایاں تھا کہ لب و لہجہ سے ہی ان کے شعر کی شناخت کرلی جاتی تھی اوران کا شعر اپنے اسلوب سے ہی پہچان لیا جاتا تھا:

یہ کائنات مرے بال و پر کے بس کی نہیں
تو کیا کروں سفرِ ذات کرتا رہتا ہوں


رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

عرفان صدیقی لمبی بحر میں مترنم غزلیں لکھنے کے باب میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ مندرجہ ذیل غزل ان کی مشہور ترین غزلوں میں شمار ہوتی ہے:

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ، شامہ و ذائقہ، سامعہ، باصرہ، سب مرے رازدانوں میں ہیں

اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو شکرِ نعمت زیادہ کرو
پیڑ، دریا، ہوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں، سب خدا کے خزانوں میں ہیں

ناقہٴ حسن کی ہم رکابی کہاں، خیمہٴ ناز میں بازیابی کہاں
ہم تو اے بانوئے کشورِ دلبری پاس داروں میں ہیں، ساربانوں میں ہیں

میرے اندر بھی ہے ایک شہرِ دگر، میرے مہتاب، ایک رات ادھر سے گزر
کیسے کیسے چراغ ان دریچوں میں ہیں، کیسے کیسے قمران مکانوں میں ہیں

اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا، میری مٹی سے مجھ کو جدا کر دیا
ان دنوں پاؤں میرے زمین پر نہیں، اب مری منزلیں آسمانوں میں ہیں

عرفان صدیقی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت ان کے کلام میں پائی جانے والی پراسرار رومانیت ہے۔ جہاں ان کے اکثر ہم عصروں کے ہاں رومانوی خیالات کو محض برائے بیت استعمال کیا جاتا ہے، وہاں عرفان کا کلام رومانیت اور عشق سے رچا بسا ہواہے:

شعلہٴ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے
اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی
اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے
میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
تجھی پہ ختم ہے جاناں، مرے زوال کی رات
تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں

بلا رہا ہے مرا جامہ زیب ملنے کو
تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں

بانوئے شہر، ہمیں تجھ سے ندامت ہے مگر
ایک دل ہے، سو کسی اور پہ آیا ہوا ہے

عرفان صدیقی کا ایک اور اختصاص انوکھے استعارے تلاش کرنا ہے۔ ان کی بعض غزلیں تو مسلسل استعارے کی انگلی تھام کر چلتی ہیں:

وہ ہلالِ ماہ و سال ہے دلِ مہرباں اسے دیکھنا
پسِ شامِ تن جو پکارنا، سرِ بامِ جاں اسے دیکھنا

وہ ستارہ ہے سرِ آسماں ابھی میری شامِ زوال میں
کبھی میرے دستِ کمال میں تہہِ آسماں اسے دیکھنا

وہ ملا تھا نخلِِ مراد سا ابھی مجھ کو نجدِ خیال میں
تو ذرا غبارِ شمال میں مرے سارباں اسے دیکھنا

عرفان صدیقی اردو غزل کے پیش پا افتادہ اسلوب، مضامین اور لفظیات سے دامن بچا کر چلتے ہیں۔ ان کے ہاں گہرا عصری شعور ملتا ہے۔ سانحہٴ گجرات پر لکھی گئی ان کی غزل بہت مشہور ہوئی تھی:

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تو نے کہا تھا، تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جب حشر اسی زمیں پہ اتارے گئے تو پھر
برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا، وہ کیسے ہوا، جانتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہوا، وہ بتا، کیوں نہیں ہوا

عرفان صدیقی کے مشاعرے کی ویڈیو یوٹیوب کے اس صفحے پر دیکھی جا سکتی ہے۔
[ame="http://www.youtube.com/watch?v=8n7VSDYcXQA"]YouTube - Mushaira 1998 - Irfan Siddiqi - urdumehfil.com[/ame]

بشکریہ : وائس آف امریکہ
 
م م مغل صاحب بہت شکریہ اس مضمون کو یہاں شریک کرنے کا۔ کیا آپ کے پاس عرفان صدیقی مرحوم کا کوئی مجموعہ کلام موجود ہے؟ اور اگر ہے تو کیا آپ اس میں سے کچھ منتخب غزلیات یہاں شریک کر سکتے ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
میں محاورۂ جاں کے نام سے ای بک بنا رہا ہوں۔ ان کے انتخاب کی۔ اس سلسلے میں عرفان کی کلیات یہاں بھی لے کر آیا ہوں کہ موقع ملا تو ٹائپ کروں گا۔ لیکن اب تک دعوت ا لقرآن نے مہلت نہیں ہے۔
 

مغزل

محفلین
بابا جانی ہمیں تین کتابیں ملی ہیں عرفان صدیقی کی ، ایک صاحب نے دوبارہ ٹائپ کرکے ہمیں دینے کا وعدہ کیا ہے ، فی الحال کچھ ہمیں میسر ہو ا وہ پسندیدہ کلام میں لگا رہا ہوں ۔
کتاب ٹائپ ہوتے ہی دیگر کلام بھی یہاں لگا دیا جائے گا۔ انشا اللہ ۔والسلام
 

نوید صادق

محفلین
میں نے عرفان صدیقی مرحوم کے کلیات دیکھے ہیں۔
اسلام آباد سے توصیف تبسم صاحب نے شائع کی تھی۔ لیکن وہ بھی اب ختم ہے۔ میں نے کسی سے لے کر پڑھی تھی۔
 
Top