ملاقات ایک لگڑبگھے سے

ابن جمال

محفلین
ملاقات ایک لگڑبگھے سے
از:نصرت ظہیر
یہ بات برسوں پہلے تب کی ہے جب سارے اخبار، شمال مشرقی اتّرپردیش میں لکڑ بھگّوں کی خونریزی سے متعلق خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ نامہ نگاروں کا کہنا تھا کہ لگ بھگ پانچ سو دیہات پر لکڑ بھگوں کی حکمرانی چل رہی ہے اور اب تک وہ سیکڑوں بچّے کھا گئے ہیں۔
اُن ہی دنوں شہر کی ایک ویران سڑک سے گزر رہا تھا کہ راہ میں ایک لکڑ بھگے سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے سوچا فرسٹ ہینڈ جانکاری کے لئے اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا۔ چنانچہ کیوں نہ لکڑ بھگے سے انٹر ویو کر لیا جائے۔ ویسے بھی میں سیاست دانوں کے انٹرویو کر کر کے تنگ آچکا تھا... تو جسٹ فار اے چینج،کسی لیڈر کی بجائے لکڑ بھگّا ہی سہی۔ علیک سلیک کے بعدمیں نے پوچھا، ’’میاں جی یہ کیا چکّر ہے؟ آج کل یو پی کے عوام پولیس اور لیڈروں کی بجائے تم لوگوں سے خوف کھانے لگے ہیں اور کہتے ہیں کہ شمالی یو پی کے پانچ سو دیہات میں آج کل تمہاری حکومت چل رہی ہے اور وہ بھی کسی قسم کا چناؤ لڑے بغیر...‘‘
لکڑ بھگے نے پہلے تو کھنکار کر گلا صاف کیا ، پھر بولا ۔’’کیا عرض کروں بھائی جان ، یہ سب گوش گزار ہونے کے بعد سے میں خود اس درجہ متحیر ہوں کہ اکثر متزلزل و متذبذب رہتا ہوں، بلکہ ایک دفعہ تو میں اس قدر متعجب ہوا کہ متوحش ہونے کی نوبت آگئی۔خدا خیر کرے۔‘‘میں سمجھ گیا۔ لکڑ بھگا یقیناً لسانیات میں دخل رکھتا تھا،چنانچہ میں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی ایک لسانی الجھن دور کرنے کے لئے اس سے پوچھا۔’’باقی باتیں تو بعد میں ہوں گی لکڑ بھگے بھائی ! پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا اصلی نام کیا ہے۔ لکڑ بھگا، لکڑ بگا، یا لکڑ بگھا؟‘‘
یہ سن کر لکڑ بھگا پہلے متغیّرِپھر متفکر اور بعد ازاں متشکک ہوا۔ بالآخر متبسم ہو کر بولا۔’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہم جیسے ادنیٰ جانوروں کی وجہ سے آپ اس قسم کی لسّانی الجھنوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ خیر... بات یہ ہے کہ پہلے ہم لکڑ بھگے یا لکڑ بگھے ہی ہوا کرتے تھے ۔ مگر امتداد زمانہ سے گھستے گھستے لکڑ بگے رہ گئے۔ ویسے آپ چاہیں توہمیں لگڑ بگڑ بھی کہہ سکتے ہو۔اہلِ فارس نے تو ہمیں چرخ کا نام دے ڈالا، جس کی وجہ سے ہند کے تمام شاعر بنا ہاتھ دھوئے ہمارے پیچھے پڑ گئے۔چنانچہ ان چرب زبانوں نے چرخِ پیر، چرخِ زریں، چرخِ کبود اور چرخِ دولابی کی آڑ میں ہمارے فارسی نام کو اتنا بد نام کیا کہ اخترالایمان والحفیظ جالندھری...‘‘
’’
یہ کیا ہوا؟‘‘ میں الجھ گیا۔
’’میرا مطلب ہے الامان والحفیظ،مگر پلیز بیچ میں بات مت کاٹیے۔ میں کہہ رہا تھا کہ فارسی نام چرخ کی آڑ میں ہند کے شاعروں نے ہمیں بہت بد نام کیا ہے اور بڑے کوسنے دئیے ہیں ۔ حالانکہ پن چکّی یا کنویں سے پانی نکالنے والے رہٹ کے پہئے اور کمہار کے چاک کو بھی چرخ کہتے ہیں، مگر شاعروں نے ان پر کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ یہاں تک کہ مولوی اسماعیل میرٹھی نے بھی صرف اتنا کہا کہ:
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکّی
رہٹ کی طرف مولوی صاحب کا دھیان ہی نہیں گیا جبکہ گاؤں میں تو وہ سامنے کی چیز ہے۔ باقی شاعروں نے چرخ کا نام لے کر آسمان ، گردوں اور فلکِ نا ہنجارکو اتنا برا بھلا کہا ہے کہ کبھی کبھی پڑھنے والے کو شبہ ہو جاتا ہے کہ آسمان والا چرخ اتنا بد معاش کیسے ہو سکتا ہے! کہیں شاعر کا روئے سخن لگڑ بگڑ کی طرف تو نہیں۔ چنانچہ شعر ہے:
آہِ سوزاں کی ہوائی نہ گئی تا بہ فلک
چرخ چرخی کی طرح سے شرر افشاں نہ ہوا
ملاحظہ کیا آپ نے؟ یعنی جب محض چرخ سے شاعر کی تسلی نہ ہوئی تواس نے ہماری بہو بیٹیوں کو نشانہ بنا لیا۔اور چرخی سے اس کی مشابہت و تسامح کا امکان پیدا کر دیا۔وہ تو شکر ہے کہ اول الذکر شرر افشاں نہ ہو ا ، ورنہ موخرالذکر تو کہیں کی نہ رہتی اور چرخ کی وجہ سے ہماری چرخی خواہ مخواہ بد نام ہو جاتی۔‘‘
لکڑ بھگے کی محققانہ تقریر سے میں اس درجہ مرعوب ہوا کہ اپنا اگلا سوال ہی بھول گیا۔پھر بھی بات آگے بڑھانے کی غرض سے میں نے کہا۔’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اردو شاعروں کا انتقام شمال مشرقی اترپر دیش کے عوام سے لے رہے ہو؟‘‘
میری بات سے غالباً اسے گہرا صدمہ پہنچا۔ اس کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہو گئے۔تاہم دیکھنے میں وہ اب بھی لگڑ بگڑ ہی لگتا تھا۔اداس لہجے میں کہنے لگا۔’’معاف کرنا میرے عزیز ! انتقام کی بات کہہ کر آپ نے مجھ پر اور میری قوم پر انسانیت کا جو سنگین الزام لگایا ہے، وہ کسی تازیانہ سے کم نہیں۔آہ!
یہ کہہ کر اس نے گردن جھکا لی اور مجھے ایسا لگا جیسے وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔بہر حال اس نے گردن اٹھائی اور کہنے لگا۔’’کسی کا بدلہ کسی اور سے لینا ہمارا شیوہ نہیں عزیزِ من! ہم بفضلِ خدا حیوان ہیں اور ہمیشہ حیوانی جذبہ اور حیوانی ہمدردی سے کام لیتے ہیں۔حیوانی حقوق کا ہم جانور پورا احترام کر تے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو حیوانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہو۔جب کہ آپ انسان حضرات، معاف کیجئے:
ہے ادب شرط منھ نہ کھلوائیں!‘‘میں واقعی شر مندہ ہو گیا
،
مگر دوسرے ہی لمحے میری انسانی غیرت و حمیت جاگ اٹھی جو ہم میں سے کئی کی جاگ اٹھتی ہے۔ میں نے کہا۔’’تو تمہارا کیاخیال ہے ۔یو پی کے دیہات میں جو دہشت تم لوگوں کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہے کیااس کے لئے دیہات والے خود ذمہ دار ہیں؟ اپنے بچوں کو وہ خود ہی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔‘‘
’’میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔‘‘ لکڑ بھگے نے یہ کہہ کر پھر سر جھکا لیا۔
’’تم نہیں تو تمہارے بھائی بند ہوں گے۔ہو سکتا ہے یہ بھیڑیوں کی کرتوت ہو۔آخر بھیڑئیے بھی تو تمہاری حیوان برادری سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
میرے طنز سے وہ بے چین ہو گیا۔ سر اٹھا کر کہنے لگا۔’’میں نے چچابھیڑیا سے پوچھا تھا۔ وہ خود حیران تھے کہ آخریہ سب کون کر رہا ہے۔ پھر میں نے خالہ لومڑی اور تایاتیندوے سے بھی دریافت کیا، مگر انہوں نے بھی لاعلمی ظاہر کی ۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارا قانون ہے آدمی کا گوشت نہیں کھاتے۔ ہمارے مذہب میں یہ حرام ہے،جو بھی جانور آدمی کا گوشت کھالیتا ہے ہم اسے برادری سے باہر کر دیتے ہیں ۔ اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے۔‘‘

سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے لکڑبھگّا بولا۔ ’’غالباً رڈیارڈ کپلنگ کی مشہور کتاب ’دی جنگل بک ‘ آپ کے مطالعے سے نہیں گزری۔پڑھی تو خیر میں نے بھی نہیں کیونکہ ہم تو ہیں ہی حیوان۔ اس ڈر سے زیادہ علم نہیں سیکھتے کہ کہیں ہم میں انسانوں جیسی خصلتیں نہ پیدا ہو جائیں۔
بہر کیف اس کتاب پر بنائی گئی ایک فلم ایک فاریسٹ آفیسر کے ٹیلی ویژن پر چھپ کر دیکھنے کا اتفاق ہوا تھادیکھ کر اچھا لگا۔لائق مصنف نے دیکھا تو ہمیں اسی انسانی نظر سے ہے، جس سے ہم حیوان دن رات خوف کھاتے ہیں، مگر معلوم ہوتا ہے اس کے انسانی دل میں ایک سچا حیوانی دل بھی چھپا ہوا ہے۔ کئی واقعات تو مصنف نے مصوّرِ غم حضرت علامہ راشدالخیری کی طرح اس قدر دل نشیں اور جذباتی پیرائے میں بیان کئے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں سوچنے لگا:
اب بھی کچھ لوگ ہیں زمانے میں ورنہ
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
نیز یہ کہ :
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں حیواں ہونا‘‘
غالب کے شعر میں جو طنزیہ ترمیم اس نے کی تھی، اس نے مجھے خاصامضطرب کردیا۔پوچھا۔’’آخر تم انسانوں سے اتنے دل برداشتہ کیوں ہو؟ہم انسانوں نے تو ان تمام جانوروں کے شکار پر پابندی بھی لگا دی ہے، جو Endangered Species یعنی نایاب مخلوقات کے ضمن میں آتے ہیں اور جن کی تعداد اس درجہ گھٹ گئی ہے کہ ان کے ناپید ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور ان میں تم بھی شامل ہو۔اس کے باوجود تم انسانوں پر مسلسل تبرّاپڑھے جا رہے ہو،اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔‘‘
’’وجہ تو میں بیان کر دوں گا بھائی جان ، مگر آپ سے سنی نہیں جائے گی۔‘‘ ایسا لگا جیسے وہ مجھے چیلنج کر رہا ہو۔
’’نہیں نہیں تم بے جھجک کہو۔انسان سے بڑھ کر کوئی وسیع النظر،وسیع القلب اس روئے زمیں پر نہیں۔ تمہارے جو جی میں آئے کہو۔میں برا نہیں مانوں گا۔‘‘
’’تو سنئے۔‘‘اس نے مقررین کی طرح کھنکھار کر کہا: ’’انسان سے زیادہ تنگ نظر، تنگ دل اور متعصب اس کُرہِ ارض پر کوئی نہیں ہے۔اپنے سوا ہر شئے کو معمولی اور ہر ذی روح کو حقیر سمجھتا ہے۔زمین، آسمان، ہوا، پانی سب پر اپنی حکومت چاہتا ہے۔اپنے عمل میں قدرت کا کوئی دخل اسے قبول نہیں،مگر خود کوقدرت کے ہر کام میں دخل دینے کا مجاز مانتا ہے۔اینڈینجرڈ اسپیسیز کی بات بھی آپ نے خوب کہی، لیکن شاید اس پر آپ نے غور نہیں کیا کہ آپ انسانوں کا ہر معاملے میں ڈبل اسٹینڈرڈ ہے۔کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔برسوں پہلے آپ نے شیروں کی آبادی کو بڑھانے کے لئے آپریشن ٹائیگرشروع کیا تھا۔ کروڑوں روپے اس کے نام پر دنیا بھر سے لے کر خرچ کئے، مگر نتیجہ کیا نکلا؟ شیروں کی تعداد اور گھٹ گئی۔ ایک حیوانی نسل کو بچانے کے لئے جو رقم ملی تھی، اسے نسلِ انسانی خود ڈکار گئی اور شیروں کی بجائے اپنی آبادی بڑھا لی۔
کسی ترقی پسند افسانے کے کردار جیسی تقریر کرنے کے بعد لگڑ بگڑ سانس لینے کے لئے رکا اور آسمان کی طرف تھوتھنی اٹھا کر اس نے ایک عجیب سی آواز نکالی جو انسانی ہنسی سے مشابہ تھی،لیکن میں یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ حیوانی ہنسی طنزیہ تھی یامحض اظہارِ غم کیا گیا تھا۔کیونکہ بہت زیادہ رونے کو جی چاہے تب بھی آدمی کے منھ سے ایسی ہی آواز نکل جایا کرتی ہے۔
وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔’’معاف کرنا! میں آپ کا دل دکھانا نہیں چاہتا، مگر حقیقت یہی ہے۔انسان خود کو حیوانِ ناطق کہہ کر اتراتا ہے اور حیوانوں کو ہی گالی بنا دیتا ہے۔ کوئی آدمی بے وقوفی کی حرکت کرے تو اسے الّو اور گدھاکہہ کر ڈانٹتاہے، جو دوسروں پر ظلم ڈھائے اسے بھیڑیا کہہ دے گا۔جس کا کوئی دین ایمان نہ ہو، دن رات دوغلا پن کرتا ہو وہ گرگٹ کہلائے گا۔جو بے وفا ہو اور ذرا سی دیر میں آنکھیں پھیر لیتا ہو، وہ طوطا چشم ہو جائے گا،جو کمینہ ہو اسے سورکہہ دیا جائے گا۔ انسان اپنی تمام بری عادتیں اور خصلتیں ہم جانوروں پر تھوپ دیتا ہے۔ ورنہ آپ ہی بتائیے، کیا آپ نے کبھی الّو کو بے وقوفی اور گدھے کو بکواس کرتے دیکھا ہے۔کوئی ایسا بھیڑیا آپ کی نظر سے گزرا ہے، جو دوسرے بھیڑیوں پر ظلم ڈھاتا پھر رہا ہو۔کوئی گرگٹ دیکھا ہے، جو بے ایمان ہو اور قول دے کر پھر جاتا ہو۔کوئی ایسا طوطا آپ کو ملا ہے، جس نے کسی طوطے کے ساتھ طوطا چشمی کی ہو۔ کوئی ایسا سور آپ مجھے دکھلا سکتے ہیں، جو بے حد کمینہ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہر عیب کو آدمی جانور کا جامہ پہنا کر خوش ہو لیتا ہے۔ اس کی ہر بات میں حیوان گھسے رہتے ہیں۔کوئی شخص آزاد رَوی کا قائل ہو تو اسے شترِ بے مہار کہہ دیں گے۔کسی شاعر کی غزل کے شعر میں فاعل یا مفعول سے تخاطب کے صیغے مختلف ہوں تو کہہ دیں گے کہ اس میں شتر گربہ ہے اور محاورے دیکھئے تو عجیب احمقانہ تصور پیش کرتے ہیں۔کوئی حیران پریشان ہو جائے تو کہیں گے، ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔کیوں صاحب۔۔۔، یہ ہاتھوں کے طوطے کیا چیز ہوئی؟ کیا پیروں کے طوطے نہیں ہوطے، معاف کیجئے نہیں ہوتے ۔ افسوس آپ لوگوں میں طوطے کے املا پر بھی اتفاق نہیں۔‘‘
لگڑ بگڑ کی رگِ لسانیات پھر پھڑک گئی۔’’۔۔۔
اب دیکھ لیجئے،کوئی توتا لکھتا ہے کوئی طوطا، بلکہ بعض لوگوں کو تو میں نے طوتا اور توطا لکھتے ہوئے بھی سنا ہے۔اسی طرح کہتے ہیں کہ چور کو پڑ گئے مور۔اب جناب کہاں چور اور کہاں مور۔دونوں میں سوائے ہم قافیہ ہونے کے کوئی مسابقت و مطابقت نہیں۔چور کے گھر چوری ہوجائے تو کہنا چاہئے چور کو پڑ گئے چور،مگر نہیں۔ جانوروں کو ذلیل کرنا جو ٹھہرا۔لہٰذا دوسرے چور کی جگہ بے چارے مور کو پکڑ لائیں گے،جو اتنا شریف النفس اور منکسرالمزاج پرندہ ہے کہ پرندہ ہو کر بھی ہوامیں نہیں اڑتا۔ ساری زندگی کسی قسم کا تکبّر کئے بغیر عاجزی کے ساتھ چرندوں کی مانند زمین پر گزار دیتا ہے۔ایسے حیوان سے آپ چوری کی توقّع کر سکتے ہیں؟اور وہ بھی چور کے گھر میں۔خود مور کو تو کئی لوگ چوری کر لیتے ہیں، لیکن مور نے آج تک یہ حرکت نہیں کی۔دوسرے جانوروں کا بھی یہی حال ہے۔کیا آپ نے کبھی کسی جانور کوکسی کی جیب کاٹتے، چوری کرتے، نقب لگاتے،ڈاکہ ڈالتے، اغوا کرتے یا زنا بالجبر کرتے دیکھا ہے؟ یہ بے چارے تو جعل سازی کرپشن اوراسکینڈل بھی نہیں کرتے۔یہاں تک کہ کسی کو چرس یا اسمیک پیتے ہوئے بھی آج تک نہیں دیکھا گیا۔آپ انسان حضرات کے ظلم سے تنگ آکر کوئی جانور کسی انسان کو کاٹ کھائے تو دنیا بھر میں شور مچ جاتا ہے اور آپ لوگ جو لاکھوں جانور روزانہ کاٹ پیٹ کر کھا جاتے ہیں، اس کا کوئی حساب ہی نہیں۔معاف کیجئے، آپ تو کیکڑے، مینڈک، چوہے اور سانپ تک نہیں چھوڑتے۔انہیں بھی شوق سے چٹ کر جاتے ہیں اور ہم صبر سے سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔
جناب اکبر الہ آبادی کیا خوب فرما گئے ہیں:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘‘
یہ کہہ کر وہ میرے قریب آگیا۔ پہلی بار میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔’’میرے عزیز ۔ ہم حیوانوں کو انسانیت کا سبق نہ پڑھائیے۔زندگی کا درس دوسروں سے لینا سیکھئے۔ کاش آپ انسانوں کے دلوں میں تھوڑا سادماغ اور دماغ میں تھوڑا سا دل ہوتا۔کاش قدرت نے آپ کو تھوڑی سی سچّی حیوانیت دے دی ہوتی۔ خیر۔۔۔، اب اجازت ہوئے۔ مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے۔خدا حاف٭۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پلٹا اور واپس جنگل کی طرف چل دیااور میں اُس ویران سڑک پر کھڑا رہ گیا، جس کے دونوں سرے انسانی بستیوں کی طرف جاتے تھے۔
 
Top