مغربی میڈیا اور ایرانی صدر احمدی نجاد

الف نظامی

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی میڈیا جانبدار خبریں اور پروپگنڈا پیش کرتا ہے جو ان کے مفادات سے مطابقت رکھتی ہیں،
مسلمانوں کو اپنے مفادات مدنظر رکھنے چاہیں،نہ کہ مغربی میڈیا جو کہے اسپر امنا و صدقنا کہے۔ ہمیں مغربی پروپگنڈا کا عالمی سیاست کے تناظر میں تجزیہ کرنا اور اسلامی ممالک کے عدم استحکام کی سازشوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
بات حقائق سے انصاف کرنے کی ہے۔ اگر مغربی میڈیا جانبدار رپورٹنگ کرتا ہے اور پروپگنڈا کرتا ہے تو کیا اس کا جواب مزید جھوٹ اور لایعنی دلیلوں سے دیا جانا چاہیے؟

شعیب صفدر کے فراہم کیے گئے ربط میں مجھے کوئی نئی بات نظر نہیں آئی اور اپنی اوپر کی ایک پوسٹ میں میں ایسی کئی باتوں کا جواب دے چکا ہوں۔ البتہ روزنامہ امت کےمتعلق جو کچھ سنا تھا وہ سچ نکلا۔ یہاں محض اعجاز منگی جیسے نظریہ سازش کے سپیشلسٹ بھرتی ہیں۔ صحافتی اعتبار سے اس جریدے کی وقعت صفر ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو اردو صحافت کے افق پر ایک جیسی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ جو بھی رپورٹنگ کرنی ہو اس کا تعلق ایک عالمی یہودی، ہندو اور قادیانی سازش سے جوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ اس کثرت سے ہورہا ہے کہ ہم اس کے علاوہ اور کچھ سننے کو تیار بھی نہیں ہیں۔
 

اظہرالحق

محفلین
آپ سب کی نگارشات پڑھنے کے بعد کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں، گو میری باتیں آپکو شاید دیوانے کا خواب لگیں لیکن سچ ہیں ، آپ نے ایرانی صدر کے بیان کو تو دیکھا ہے لیکن اس کا سیاق و سباق نہیں

یہ بات زیادہ پرانی نہیں کہ انڈونیشیا میں ہونے والی Oh I See کی سربراہ کانفرنس کا کافی تلخ اثر ہوا تھا ، اور جون 2005 میں کچھ مسلم اسکالرز نے 15 سالہ منصوبے (جو جکارتہ کانفرنس میں طے پایا تھا ) کو ریوائز کیا گیا ، کیونکہ جن گروپس کی منت کی گئی تھی وہ لوگ ان سنی کر رہے تھے ، اور کچھ مسلم سربراہان اپنے وعدوں سے پھر رہے تھے ، مختصراَ ، نیا منصوبہ 10 سالہ ایکشن پلان ہے (پہلے منت پلان تھا ) اور وعدہ مکہ میں کیا گیا ہے اسلئے کہ لوگ پھریں نہیں (جانے انکا ایمان )

یہ بیان بازی اسی منصوبے کا حصہ ہے ، آسان لفظوں میں بلی کو تھیلے سے باہر نکالا جا رہا ہے ، کیونکہ مغرب بار بار کہ رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں مگر ہر قانون ہر عمل مسلم دشمن ہے ۔۔۔ وہ الفاظ جنکو کہنے سے آج مغرب کترا رہا ہے وہ اب ایسے ہی کہے گا ۔ ۔ ۔ میرے خیال میں ہم (مسلم اور عیسائی ) اس جنگ کی تیاری کر رہے ہیں جو یہودیوں کے خلاف ہو گی ۔ ۔ ۔ (ارے آپ مسکرا رہے ہیں ، ہاں بات ہی کچھ ایسی ہے )

میرے اپنے خیال میں اس حج میں یا حج کے فوراَ بعد بلی تھیلے سے باہر آ جائے گی ۔ ۔ ۔

واللہ اعلم ۔ ۔ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اظہر الحق، جہاں تک سیاق و سباق والی بات ہے تو میں بھی اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ یہ بات نعیم اختر نے بھی کہی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ احمدی نژاد کے بیان کا کوئی دوسرا پہلو بھی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے تلاش کے باوجود وہ دوسرا پہلو نظر نہیں آ رہا۔ یہ میری ہی نا اہلی ہے، اس میں کسی اور کا قصور نہیں ہے۔ لے دے کے یہ قیاس باقی رہ جاتا ہے کہ ایرانی صدر اپنے ایٹمی پروگرام سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ بیان بازی کر رہے ہیں اگرچہ احمدی نژاد کے کیریر ٹریک پر نظر ڈالی جائے تو لگتا تو کچھ یوں ہی ہے کہ ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہے جیسا نظر آ رہا ہے۔

دوسری بات جو آپ نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے متحد ہو کر یہودیوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی والی بات کی ہے یہ کچھ میری سمجھ سے باہر ہے۔ کیا افغانستان پر امریکی حملہ یہودیوں کے خلاف اس جنگ کی تیاری کا حصہ ہے؟ یا پھر کیا عراق کی امریکہ کے ہاتھوں مکمل تباہی بھی یہودیوں کے خلاف اس جنگ کا کوئی کوئی مرحلہ ہے؟ یورپ میں بوسنیا کی جنگ میں سربیا کے آرتھوڈوکس عیسائیوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے وہی ہولناک مناظر دہرائے جو کہ صدیوں پہلے کیتھولک گرجا کے عیسائیوں نے صلیبی جنگوں میں رقم کیے تھے۔ اس جنگ میں روس کے علاوہ یورپ کے تمام آرتھوڈوکس عیسائی ممالک یونان اور رومانیہ وغیرہ نے سربیا کی مکمل طور مالی مدد کی تھی۔ اس جنگ میں دو لاکھ مسلمان قتل کیے گئے تھے۔ اس وقت دنیا بھر کے مسلمان ممالک تو اپنے بھائیوں کے قتل کا تماشہ دیکھتے رہے۔۔اب اپنے اہل کتاب عیسائی بھائیوں کے ساتھ وہ آخر کس جنگ کی تیاری کر رہے ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ایران کے سلسلے میں بھی مسلمان ممالک تماشا دیکھنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔
اظہر الحق نے لکھا ہے[ یہ بات زیادہ پرانی نہیں کہ انڈونیشیا میں ہونے والی Oh I See کی سربراہ کانفرنس کا کافی تلخ اثر ہوا تھا ، اور جون 2005 میں کچھ مسلم اسکالرز نے 15 سالہ منصوبے (جو جکارتہ کانفرنس میں طے پایا تھا ) کو ریوائز کیا گیا ، کیونکہ جن گروپس کی منت کی گئی تھی وہ لوگ ان سنی کر رہے تھے ، اور کچھ مسلم سربراہان اپنے وعدوں سے پھر رہے تھے ، مختصراَ ، نیا منصوبہ 10 سالہ ایکشن پلان ہے (پہلے منت پلان تھا ) اور وعدہ مکہ میں کیا گیا ہے اسلئے کہ لوگ پھریں نہیں]

اس منصوبے کی کچھ تفصیل بتائیں گے؟
 

اظہرالحق

محفلین
راجہ محمد نعیم اختر نے کہا:
ایران کے سلسلے میں بھی مسلمان ممالک تماشا دیکھنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔
اظہر الحق نے لکھا ہے[ یہ بات زیادہ پرانی نہیں کہ انڈونیشیا میں ہونے والی Oh I See کی سربراہ کانفرنس کا کافی تلخ اثر ہوا تھا ، اور جون 2005 میں کچھ مسلم اسکالرز نے 15 سالہ منصوبے (جو جکارتہ کانفرنس میں طے پایا تھا ) کو ریوائز کیا گیا ، کیونکہ جن گروپس کی منت کی گئی تھی وہ لوگ ان سنی کر رہے تھے ، اور کچھ مسلم سربراہان اپنے وعدوں سے پھر رہے تھے ، مختصراَ ، نیا منصوبہ 10 سالہ ایکشن پلان ہے (پہلے منت پلان تھا ) اور وعدہ مکہ میں کیا گیا ہے اسلئے کہ لوگ پھریں نہیں]

اس منصوبے کی کچھ تفصیل بتائیں گے؟

کاش میں کچھ بتا سکتا !!!!!
مگر اتنا ضرور کہوں گا اس دفعہ تماشا دیکھنے والے نہیں ہونگے

مغرب کو صرف یہ پروبلم ہے کہ پاکستان اور ایران ہی دو ایسے ملک ہیں جن میں “شدت پسند“کبھی بھی حکمران ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ اوریہ لوگ ٹیکنالوجی کو بھی جان چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

اور ہاں ، مغرب تک یہ منصوبہ پہنچ چکا ہے اور اس کے لئے UAE کو آگے لایا جا رہا ہے (منصوبے کا اہم رکن ہے) ایران سے تنازے کے لئے ۔۔۔

شاید اتنا کافی ہے :p
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ ہے جرمنی کے مشہور جریدے "ڈئرشپیگل" کا آرٹیکل:
[align=left:d3d4a9c19d]
Ahmadinejad’s idea on Israel correct in principal

By Henryk M. Broder

Iranian President Mahmud Ahmadinejad’s suggestion to move Israel to Germany is not as absurd as it sounds. If you consider the idea impartially, you can see a historic land reform concept which can be advantageous to all parties.

Everyone is attacking the Iranian president again because he suggested moving Israel from the Middle East to Germany, or Austria. Even those who were not outraged about Ahmadinejad’s demand "to wipe Israel off the map" are agitated, because now they see the problem as becoming theirs. As much as a "world without Zionism" is imaginable, a Europe with a Jewish State in its midst is a vision of horror that no one wants to follow to its logical conclusion.

German Chancellor Angela Merkel called Ahmadinejad’s suggestions "totally unacceptable". Her hasty reaction did not take into account that the Iranian president had, after all, moved away from his original demand to destroy Israel and now wants a "relocation" of the "Zionist entity". From a humanitarian point of view, this is progress: The Israelis should no longer disappear into the ocean, but be sent on an overseas journey instead. One could also say that Europe should take back the problem that it created and exported. But the recipient is refusing delivery of the parcel even before it has been sent.

Sure enough: When Ahmadinejad is right, he’s right. It doesn’t help to call him "inexperienced in foreign affairs", as the director of the Orient Institute, Udo Steinbach, recently did.

The Middle East conflict is not only collateral damage of the Holocaust, it’s a product of European anti-Semitism. Without the pogroms in Poland and Russia, without the Dreyfuss Affair in France (which made Herzl into a Zionist), without the German attempt at the "final solution" to the Jewish problem, the Jews would still be dreaming of their own state instead of having to protect it.

Ahmadinejad’s idea may be vague, but in principal it is correct. The Palestinians are paying for the sins of the Europeans. And if there were such a thing as historical justice in this world, the Jewish state would have been founded in Schleswig-Holstein or in Bavaria, and not in Palestine.

I have written this sentence several times in the past -- the last time right here -- and am both delighted and surprised that Ahmadinejad has seized upon my suggestion, even if didn’t give me the credit.

Historically, this idea is not so absurd as it is now being portrayed. The Zionist movement was unsure for a long time where the "Jewish State" should be situated. Herzl spoke from a "piece of the earth’s surface" that Jews would be able to administer. There were considerations to establish a "colony" in Uganda or Argentina. That Palestine was finally chosen had both historical and emotional, as well as practical reasons. William II, who considered himself to be the patron of the holy sites in Jerusalem, wanted a "German protectorate" in Palestine, and was therefore receptive to Herzel’s ideas. If it had not been for the First World War, something could have come of the project.

As it was, Israel was only established after the Second World War under very different, extremely dramatic circumstances. It was not only about giving the Jews a "home", but also to get a half a million "displaced persons", survivors of the Holocaust, out of Europe. And so, the old Jewish prayer "next year in Jerusalem" became reality.

But as often happens with wishes and dreams that come true, hardly had the Europeans solved the problem, but a new one was created. It is indeed difficult to explain to the Palestinians why they should share their country with the Jews who were treated badly in Europe. The Palestinians are not responsible for either the pogroms from Kishinev to Kielce, nor for the concentration camp politics of the Nazis.

Return to the principle that the Party Responsible is Liable for the Damages. What Ahmadinejad is now demanding is the return to the principle that the party responsible pay for the damages.

Those responsible for solving a problem are those who created it.

And those are the Europeans. At most one could hold against him that his knowledge of history isn’t very good because he reduces the contribution to the Germans, instead of taking the Russians, the Poles and the French to task as well.

But this deficiency doesn’t change the fact that Ahmadinejad is essentially right. And instead of being outraged about his suggestion, it would be better to recognize the advantages that they offer all parties concerned. The Israelis would finally get rid of their biggest problem: security. The Germans would now be in charge of that. And in view of the traditionally good Arab German relations, no Arab country would dare to attack Germany.

The second large advantage would be: Instead of having to spend a lot of money on trips to Europe, the Israelis would already be there, where they feel comfortable, where you can do great shopping, and where you can ride a bus or a train even on Saturdays. The return for the Germans would be even bigger. They would finally have the "Jewish contribution to German culture" back that they have so painfully missed since 1939. No more yearning for fresh bagels, Klezmer music, kosher finger food, Jewish inventors, or Nobel Prize winners. They would all be included in the German statistics.

There are places in the Allgaeu that have similarities with the landscape in Samaria.

The question remains, where would one establish the Jewish state on German soil. Schleswig-Holstein and Mecklenburg-Vorpommern are sparsely populated, there are millions of empty apartments in the former East Germany. But one can’t assume that the Jews would want to settle close to the water again. It is also beautiful in the mountains, and there are areas in the Allgau that have similarities with the landscape in Samaria.

If one contemplates the Iranian president’s suggestions without preconceived opinion and considers all the advantages and disadvantages without anger, one has to admit that the idea is more than just funky. It is enticing. Until now, "The history of the German territory reaches Palestine" was the sentence which was the basis of the German Near East policy. Now the opportunity would present itself to carry out an historic land reform, to clean up in one’s own house.

But it won’t come to that. Like all new ideas, this one too will be kicked around and rejected at the end. And who knows, perhaps in Aachen someone is already thinking about awarding the next medal to the Iranian president, in spite of his terrible earnestness.

(Source: Der Spiegel)

http://www.tehrantimes.com/Description.asp?Da=12/14/2005&Cat=2&Num=003
[/align:d3d4a9c19d]
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش، ہائیڈر کا آرٹیکل پوسٹ کرنے کا شکریہ۔ اس کا ذکر مہرنیوز ایجنسی نے بھی یہاں کیا ہوا ہے۔ معلوم نہیں کہ ایران کے صدر کی بھی یہی سوچ ہے یا نہیں لیکن اب تو ایرانی میڈیا کو یہودیوں کے ساتھ بہت ہمدردی ہو رہی ہے کہ یورپ والوں نے ان پر اتنے ظلم ڈھائے اور اس کے بعد انہیں یورپ سے باہر نکال دیا۔ آخر کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ فلسطین واپس جانا تو دنیا بھر کے یہودیوں کی ہزاروں سال پرانی خواہش ہے۔ لگتا ہے کہ کہ ایرانی صدر کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ میں کیا ہوا تھا۔ بس ان کے بیان کے بعد مغربی میڈیا نے طوفان مچا دیا۔ اس کے جواب میں مشرقی میڈیا نے بھی ویسا ہی طوفان کھڑا کر دیا۔ جتنا یورپ ماضی میں یہودیوں پر کئے گئے ظلم پر شرمندہ ہے اتنا ہی پاکستانی اس بات پر مصر ہیں کہ یہ سارا جھوٹ ہے۔

میں Der Spiegel کا باقاعدہ قاری ہوں اور مجھے شرمندگی ہے کہ مجھے ہائیڈر کے آرٹیکل کا اصل متن نہیں مل رہا۔ البتہ ہائیڈر کا شپیگل پر ہی ایک اور آرٹیکل نظر آیا ہے جس میں ایران کے روحانی پیشوا علی خامنائی نے فلسطین کے مسئلے پر ایک عالمی ریفرینڈم بلانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کا بھی جلد اردو ترجمہ ہوکر مہرنیوز ایجنسی کے ویب پیج پر آ جائے گا۔ جس صحافی کی تحریر سے اپنے مفاد نکلتا نظر آئے اسے باضمیر اور باشعور قرار دے دیا جاتا ہے۔

کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہولوکاسٹ پر بحث میں الجھنے کی بجائے احمدی نژاد کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ آخر ایران کے اپنے کونسے مسائل حل ہوگئے ہیں جو اس کے پیٹ میں مسئلہ فلسطین کے حل کا درد اٹھ رہا ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
نبیل کا سوال اہم ہے ، کہ یہ کونسا وقت ہے اس گڑھے مردے کو اکھاڑنے کا ؟؟

ًمختصر جو میری سمجھ میں آتا ہے کہ امریکہ کو ایک اور “محاز“ کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ جو ایران کی شکل میں واضح ہوتا جا رہا ہے ۔ ۔
ایران کے صدر ایک اسلامی شدت پسند (مغرب مسلم میں شعیہ سنی کی تفریق نہیں کرتا ) حکومت کی تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں (مثلا آج ہی قانوناَ مغربی طرز موسیقی پر پابندی لگا دی گئی ہے ) اور ان بیانات سے پہلے ایک اور اہم بیان تھا احمدی نژاد کا کہ “ایرانی ثقافت ، موسیقی اور فلمیں مغربی دنیا کو ہر میدان میں شکست دے سکتی ہیں“ کیا آپ اسے دیوانے کی بڑ کہیں گے ؟
میری نظر میں یہ بیان بازی ان وجوہات کی بنا پر کی جا رہی ہے

1۔ امریکہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایران کو اپنا اگلا محاز Declare کرے
2۔ اسرائیل کی سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھایا جائے
3۔ فلسطین پر اسرائیل کو مذید سرمایہ چاہیے ، جو وہ اسلامی ممالک میں اسلحہ کی تجارت سے حاصل کرنا چاہتا ہے ، اسی لئے وہ اسلامی ممالک سے سفارت کاری کر رہا ہے
4۔ ایران نے اپنا کافی سرمایہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے لگایا ہے ، اور اسکی تیل کی تجارت پر بھی کافی اثرات آ رہے ہیں ، وہ اپنی قدرتی دولت کو دوسروں کی ہمایت کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے ، جیسے کہ بھارت نے IEA میں ایران مخالف رویہ اپنایا ہے مگر ایران اب بھی بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے پر توجہ دے رہا ہے
5۔ روس اور چین ملکر امریکی برتری ختم کرنا چاہتے ہیں ، اور اس کام کے لئے ایران سب سے موضوں ملک ہے (پاکستان اسلئے نہیں کہ پاکستان امریکی اتحادی ہے ، اور اس وقت وہ امریکہ مفادات کے خلاف نہیں جا سکتا ) اور ایران سے چین اور روس وہ ہی کام لینا چاہتے ہیں جو امریکہ نے پاکستان سے روس کے خلاف لیا تھا

سو یہ سب بیان بازی ۔ ۔ ۔ ایک عظیم حادثے کی تیاری ہے ، دیکھیے یہ گجر کب بجتا ہے ، کب بحیرہ عرب کا کوئی جزیرہ “یوگوسلاویہ“ بنتا ہے ۔ ۔ اور کب دو جنگوں کے درمیان کا وقفہ (امن) ختم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔۔
 

دوست

محفلین
میڈیا ہر بات کو توڑ موڑ کر کیوں پیش کر رہا ہے بات سامنے کی ہے کہ اصل موضوع سے ہٹایا جارہاہے۔ یعنی یہودیوں کی ریاست کا فلسطین میں قیام چونکہ میڈیا سارا یہودی ہے(یہاں یہودی سے مراد دنیاکے بڑے نشریاتی ادارے ہیں جن کے مالک یہودی ہیں اور جن کی پالیسی اپنے مقصد کے مطابق پروپیگنڈا ہے۔ ) اس لیے اصل مسئلے کی طرف سے بڑے ہی پیار سے توجہ ہٹا کر اب کسی اور راگ کا الاپ شروع کر دیا ہے انھوں نے۔
 
Top