'معطل کافی' کی روایت

عاطف بٹ

محفلین
میں اور میرا دوست ایک چھوٹے سے کافی ہاؤس میں داخل ہوئے اور کافی کے لئے آرڈر دیا۔ آرڈر دے کر ہم ایک میز کی طرف بڑھ رہے تھے کہ باہر سے دو لوگ آئے اور انہوں نے کاؤنٹر پر جا کر کہا، 'براہِ مہربانی پانچ کافی دے دیجئے۔ دو ہمارے لئے اور تین معطل۔' انہوں رقم ادا کی، کافی لی اور چلے گئے۔
میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ یہ 'معطل' کا کیا چکر ہے؟ میرے دوست نے کہا کہ رکو، تمہیں ابھی پتہ چل جائے گا۔
کچھ دیر میں چند اور لوگ آئے۔ دو لڑکیاں آئیں، انہوں نے اپنے لئے دو کافی کا آرڈر دیا، کافی لی اور چلی گئیں۔ ان کے بعد تین وکیل آئے اور انہوں نے سات کافی کا آرڈر دیا، جن میں سے تین ان کے لئے تھیں اور سات معطل۔ میں ابھی تک اس سوچ میں تھا کہ یہ معطل کافی کا کیا معاملہ ہے اور ساتھ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دھوپ اور اس خوبصورت چوک کا نظارہ کررہا تھا جو کافی ہاؤس کے سامنے تھا۔ اچانک ایک بندہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے آیا، جو دکھنے میں فقیر لگ رہا تھا اور اس نے قابلِ رحم انداز میں پوچھا کہ کوئی معطل کافی ہے؟
تب مجھے پتہ چلا، معطل کافی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ کافی ہاؤس میں آتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے پیشگی ادائیگی کردیتے ہیں جو اس گرم مشروب کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ معطل کافی کی اس روایت کا آغاز نیپلز (Naples) میں ہوا تھا مگر اب یہ دنیا بھر میں پھیل چکی ہے اور بعض جگہوں پر آپ معطل کافی کے ساتھ کھانے کی کچھ اشیاء کا آرڈر بھی دے سکتے ہیں۔
کیا ہر شہر میں ایسے (چائے خانے یا) کافی ہاؤسز اور اشیائے ضروریہ کے اسٹورز ہونا ایک بہت عمدہ روایت نہیں ہوگی جہاں مفلوک الحال لوگ کچھ نہ کچھ ملنے کی امید کے ساتھ آئیں؟ اگر آپ خود کوئی کاروبار کررہے ہیں تو آپ اپنے گاہکوں کے لئے اس سہولت کا اجراء کر کے دیکھئے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ اس عمل میں شریک ہونا پسند کریں گے۔

پس نوشت: یہ تحریر اس ربط سے حاصل کردہ متن کا ترجمہ ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
عمدہ خیال ہے لیکن ہمارے ہاں اچھی چیز کا غلط استعمال ایک عام رحجان بن گیا ہے جس کی وجہ سے اچھے کام کرنے والے کم ہی آگے آتے ہیں :(
 

شمشاد

لائبریرین
عاطف بھائی آپ کا مشورہ بہت اچھا ہے۔ جزاک اللہ خیر۔

اور بات منصور بھائی کی بھی درست ہے۔

سارا مسئلہ یہی ہے کہ حقدار تک اس کا حق پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جس معاشرے میں پانی پینے کی سبیل کے ساتھ گلاس کو زنجیر کے ساتھ باندھ کے رکھا جاتا ہو، جہاں مسجد میں نمازی کو نماز سے زیادہ اپنی جوتی کی فکر ہوتی ہو، وہ کیا ترقی کرے گا۔

پھر بھی میری رائے میں ایسا کام ضرور شروع کرنا چاہیے کہ ابھی ہمارا معاشرہ بالکل ہی بے حس نہیں ہوا۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔

راولپنڈی میں میرے علاقے میں کچھ مخیر حضرات ریسٹورنٹ والے کو پیشگی میں دس یا بیس آدمیوں کے کھانے کی ادائیگی کر جاتے ہیں کہ اتنے غریبوں کو کھانا کھلا دینا۔
 

شمشاد

لائبریرین
غالباً انگلینڈ میں یا کسی یورپی ملک میں کسی ریسٹورنٹ کا پڑھا تھا کہ وہاں کاونٹر پر ادائیگی کر کے چائے یا کوفی کی پرچیاں لی جاتی ہیں۔ اب دوسرے کاؤنٹر سے وہ چائے کوفی لیکر خود نوش فرمائیں یا اضافی پرچیاں مخصوص بورڈ پر چپکا دیں۔ ضرورتمند ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا ہے۔ مخصوص بورڈ سے اپنے مطلب کی پرچی اتارتا ہے اور سروس کاؤنٹر سے مطلوبہ مشروب حاصل کر لیتا ہے۔ سروس کاؤنٹر والوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ گاہک نے خود ادائیگی کی ہے یا بورڈ سے پرچی حاصل کی ہے۔ اس میں خاصی حد تک گاہک کی عزت نفس کا خیال رکھا گیا ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عمدہ خیال ہے لیکن ہمارے ہاں اچھی چیز کا غلط استعمال ایک عام رحجان بن گیا ہے جس کی وجہ سے اچھے کام کرنے والے کم ہی آگے آتے ہیں :(
قیصرانی بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں لیکن اگر ہم برے رجحانات کی وجہ سے اچھی روایات کو فروغ دینے کا رواج پروان نہیں چڑھائیں گے تو پھر صرف برے رجحانات ہی باقی رہ جائیں گے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بھائی آپ کا مشورہ بہت اچھا ہے۔ جزاک اللہ خیر۔

اور بات منصور بھائی کی بھی درست ہے۔

سارا مسئلہ یہی ہے کہ حقدار تک اس کا حق پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جس معاشرے میں پانی پینے کی سبیل کے ساتھ گلاس کو زنجیر کے ساتھ باندھ کے رکھا جاتا ہو، جہاں مسجد میں نمازی کو نماز سے زیادہ اپنی جوتی کی فکر ہوتی ہو، وہ کیا ترقی کرے گا۔

پھر بھی میری رائے میں ایسا کام ضرور شروع کرنا چاہیے کہ ابھی ہمارا معاشرہ بالکل ہی بے حس نہیں ہوا۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔

راولپنڈی میں میرے علاقے میں کچھ مخیر حضرات ریسٹورنٹ والے کو پیشگی میں دس یا بیس آدمیوں کے کھانے کی ادائیگی کر جاتے ہیں کہ اتنے غریبوں کو کھانا کھلا دینا۔
جی یہ تو ہے شمشاد بھائی مگر ہمیں پھر بھی اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کرتے رہنا چاہئے تاکہ منفیت غالب نہ آسکے۔
یہ راولپنڈی کے ریستواں والی بات تو بہت عمدہ ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اچھی روایت اور شیئرنگ۔ شکریہ عاطف بٹ ۔
میں نے اس بارے میں کچھ عرصہ پہلے پڑھا تھا بلکہ اسی سے ملتی جلتی ایک فاروڈڈ ای میل میں ملی تصویریں محفل پر شیئر بھی کی تھیں۔ اپنے حصے کا دیا جلانے کی اس سے اچھی مثال اور کیا ہو گی۔ میں جب برطانیہ میں تھی تو ایک بار میں نے ایک لڑکی کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھے ایک جگہ ڈھونڈنے میں مدد کی تھی تو اس نے جواباً کہا کہ ایک بار اس کی بھی کسی نے ایسے ہی مدد کی تھی اور شکریہ کے جواب یوں دیا تھا "تم جب جب کسی اور کی مدد کرو گی تمہارا شکریہ مجھ تک پہنچ جائے گا بلکہ اس پہلے بندے تک پہنچے گا جس نے یہ چین ایکشن شروع کیا تھا۔"
میرا خیال ہے کہ مجھے صدقہ جاریہ کا اصل مفہوم اس وقت سمجھ آیا تھا۔
بہت سے علاقوں اور معاشروں میں ایسی روایتیں ملتی ہیں۔ امریکہ میں فوڈ بینکس بے گھر اور ضرورتمند لوگوں کو کھانا پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ برطانیہ میں بھی سسپنڈڈ کافی اور فوڈ بیکنس جیسی روایت موجود ہے۔ یہاں روالپنڈی میں میں نے تین جگہیں ایسی دیکھی ہیں جہاں تینوں وقت تازہ کھانا تیار کیا جاتا ہے اور اس کی بانٹ میں کوئی تفریق و تمیز نہیں ہے۔ ان میں سے دو بہت عام وسائل رکھنے والے افراد نے شروع کئے ہیں اور وہاں لوگ سسپنڈڈ کافی ہی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے مدد کرتے ہیں ۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ ریستوران نہیں ہیں۔ لوگ آ کر اپنی گنجائش کے مطابق کھانے کے اخراجات دے جاتے ہیں۔ تیسرا بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض کا فری کھانا ہے۔ ملک ریاض کے تمام کاموں سے اختلاف یا اس کھانے کو اس کی نیکی شمار ہونے نہ ہونے کی بحث سے قطع نظر ، میں نے یہاں بھی لوگوں کو بہت باعزت طریقے سے کھانا ملتے دیکھا ہے۔ لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں بھی باقاعدہ ویٹرز موجود ہیں جو مزدوروں یا مستحق افراد کو بہت اچھے طریقے سے کھانا سرو کرتے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
image001.jpg


image003.jpg


image007.jpg


image010.jpg
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت اچھی روایت اور شیئرنگ۔ شکریہ عاطف بٹ ۔
میں نے اس بارے میں کچھ عرصہ پہلے پڑھا تھا بلکہ اسی سے ملتی جلتی ایک فاروڈڈ ای میل میں ملی تصویریں محفل پر شیئر بھی کی تھیں۔ اپنے حصے کا دیا جلانے کی اس سے اچھی مثال اور کیا ہو گی۔ میں جب برطانیہ میں تھی تو ایک بار میں نے ایک لڑکی کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھے ایک جگہ ڈھونڈنے میں مدد کی تھی تو اس نے جواباً کہا کہ ایک بار اس کی بھی کسی نے ایسے ہی مدد کی تھی اور شکریہ کے جواب یوں دیا تھا "تم جب جب کسی اور کی مدد کرو گی تمہارا شکریہ مجھ تک پہنچ جائے گا بلکہ اس پہلے بندے تک پہنچے گا جس نے یہ چین ایکشن شروع کیا تھا۔"
میرا خیال ہے کہ مجھے صدقہ جاریہ کا اصل مفہوم اس وقت سمجھ آیا تھا۔
بہت سے علاقوں اور معاشروں میں ایسی روایتیں ملتی ہیں۔ امریکہ میں فوڈ بینکس بے گھر اور ضرورتمند لوگوں کو کھانا پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ برطانیہ میں بھی سسپنڈڈ کافی اور فوڈ بیکنس جیسی روایت موجود ہے۔ یہاں روالپنڈی میں میں نے تین جگہیں ایسی دیکھی ہیں جہاں تینوں وقت تازہ کھانا تیار کیا جاتا ہے اور اس کی بانٹ میں کوئی تفریق و تمیز نہیں ہے۔ ان میں سے دو بہت عام وسائل رکھنے والے افراد نے شروع کئے ہیں اور وہاں لوگ سسپنڈڈ کافی ہی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے مدد کرتے ہیں ۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ ریستوران نہیں ہیں۔ لوگ آ کر اپنی گنجائش کے مطابق کھانے کے اخراجات دے جاتے ہیں۔ تیسرا بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض کا فری کھانا ہے۔ ملک ریاض کے تمام کاموں سے اختلاف یا اس کھانے کو اس کی نیکی شمار ہونے نہ ہونے کی بحث سے قطع نظر ، میں نے یہاں بھی لوگوں کو بہت باعزت طریقے سے کھانا ملتے دیکھا ہے۔ لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں بھی باقاعدہ ویٹرز موجود ہیں جو مزدوروں یا مستحق افراد کو بہت اچھے طریقے سے کھانا سرو کرتے ہیں۔
بہت شکریہ فرحت
حسبِ روایت آپ نے بھی مثبت روایات کو پھیلانے کے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال ہی دیا۔ جزاک اللہ خیراً
 
Top