مصرعے کا وزن بتا دیجیے

خدیجہ مستور کے ایک افسانے میں یہ مصرعہ دو دفعہ آتا ہے:
؏
بچھڑے ہوئے ملیں گے پھر خالق نے گر ملا دیا

یہ کس بحر میں ہے، اور اس کا وزن کیا ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خدیجہ مستور کے ایک افسانے میں یہ مصرعہ دو دفعہ آتا ہے:
؏
بچھڑے ہوئے ملیں گے پھر خالق نے گر ملا دیا

یہ کس بحر میں ہے، اور اس کا وزن کیا ہے؟
رجز مثمن مطوی مخبون
مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن
لیکن کچھ کسر سی لگتی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
رجز مثمن مطوی مخبون
مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن
لیکن کچھ کسر سی لگتی ہے ۔
کسر تو کچھ نہیں لگتی لیکن ہو بھی تو ممکن ہے کیونکہ میرے علم کے مطابق یہ چالیس کی دہائی کا فلمی گانے کے بول ہیں جس میں بحر سے اخراج بھی جائز مانا جاتا ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کسر تو کچھ نہیں لگتی لیکن ہو بھی تو ممکن ہے کیونکہ میرے علم کے مطابق یہ چالیس کی دہائی کا فلمی گانے کے بول ہیں جس میں بحر سے اخراج بھی جائز مانا جاتا ہے
مجھے محسوس ہوا کہ خالق کے لفظ میں ق نے اس بحر کو کچھ زخمی سا کیا ہے ۔
 
کسر تو کچھ نہیں لگتی لیکن ہو بھی تو ممکن ہے کیونکہ میرے علم کے مطابق یہ چالیس کی دہائی کا فلمی گانے کے بول ہیں جس میں بحر سے اخراج بھی جائز مانا جاتا ہے

الف عین صاحب، بہت شکریہ۔ :) کیا آپ کو اس گانے کے کچھ مزید بول یاد ہیں؟ اگر فلم یا شاعر کا نام معلوم ہو جاتا تو بڑی آسانی ہوتی کیونکہ تلاش کرنے پر نیٹ پہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں مل رہا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خدیجہ مستور کے ایک افسانے میں یہ مصرعہ دو دفعہ آتا ہے:
؏
بچھڑے ہوئے ملیں گے پھر خالق نے گر ملا دیا

یہ کس بحر میں ہے، اور اس کا وزن کیا ہے؟
اس کا وزن مستفعلن مفاعلن دو بار ہے۔
یعنی بحر رجز مثمن سالم مخبون ۔ یہ بحر فارسی اور عربی کی نسبت اردو میں کم مستعمل ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی اس میں کوئی نمونۂ کلام بھی ہے ؟
عاطف بھائی ، مثال تو ایک بھی یاد نہیں ہے ۔ یہ وزن تو شعر دیکھ کر ہی اخذ کیا ۔ یوں کہئے کہ اس وزن میں اردو شاعری انتہائی قلیل ہے کہ کبھی نظر سے نہیں گزری۔ عام بات یہی کہی جاتی ہے کہ رجز کے اوزان عربی میں زیادہ مستعمل ہیں ۔ گنجور پر بھی اس وزن میں کچھ نہیں ہے ۔ ایک فارسی ویبگاہ پر ایک غزل ہے وہ نیچے چسپاں کرتا ہوں ۔

هر روز خسته ‌تر شوم در کارزار جستجو
با گم شده کجا و کِی آخر شویم روبرو
با تشنگان عشق خود ای خوب من از او بگو
یک شب که در کنار هم هستیم مست گفتگو

دست از طلب نمی‌کشم در شهر عشق کو به کو
تا تن کُنم به آب دل از خاک راه شستشو

در بزم آن نگار جان هرگز نگشته رو از او
با هر کلام دلنشین نزدیک گشته او به او

در محضرش سکوت کن کمتر نمای پرس و جو
تنها ببین به چشم دل از غیر او مگو مگو

اس وقت کلینک سے نکل رہا ہوں ۔ وقت ملا تو گھر جاکر عروض کی کتب دیکھتا ہوں ان میں ضرور اس وزن کی کچھ مثالیں ہوں گی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی اس میں کوئی نمونۂ کلام بھی ہے ؟
عاطف بھائی ،جو پانچ سات عروض کی کتب میرے پاس ہیں ان میں اس وزن کی کوئی مثال نہیں مل سکی۔ عبدالغنی رامپوری سمیت اکثرمولفین نے یہ کہہ کر ٹرخادیا کہ رجز کے اوزان عربی میں زیادہ مستعمل ہیں ۔ عربی عروض تک میری پہنچ نہیں ہے ۔ ایک مصری دوست ہیں اور عربی میں شاعری کرتے ہیں ویک اینڈ پر ان سے دریافت کرتا ہوں ۔ وہ شاید کچھ عربی کی مثالیں دے سکیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ویسے مجھے تو اس بحر میں روانی کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی، تو پھر یہ کیوں اردو میں استعمال نہ ہوئی؟
اس وزن کے بارے میں قدما کا تجربہ شاید کچھ مختلف رہا ہو اس لئے رواج نہ پاسکی۔ ویسے مجھے بھی عاطف بھائی کی طرح مذکورہ بالا مصرع کے آخر میں کچھ گرانی سی محسوس ہوئی ۔ وجہ اس کی یہ کہ ہم سالم مخبون کے بجائے مطوی مخبون (یعنی مفتعلن مفاعلن)کے زیادہ عادی ہیں کہ یہ بہت رواں دواں ہے ۔ اس کے علاوہ ا سی وزن کے بہت قریب بحر ہزج مثمن مقبوض یعنی مفاعلن چار بار بھی بہت مقبول ہے ۔
 
میرا قیاس ہے کہ یہ بحر مفتعلن مفاعلن ہی ہے لیکن مصرع سہوِ کاتب یا سہو شاعر میں سے کسی ایک چیز کا شکار ہے۔
ویسے مجھے تو اس بحر میں روانی کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی، تو پھر یہ کیوں اردو میں استعمال نہ ہوئی؟
اردو بحریں میر کی ہندی بحروں کو چھوڑ کر تمام فارسی سے مستعار لی گئی ہیں، یہ بحر چونکہ فارسی میں مستعمل نہیں اس لیے اردو میں بھی نہ آ سکی۔ فارسی بحور خود عربی سے ماخوذ نہیں ہیں، صرف عروض کا نظام ان کی تفہیم کے لیے زیرِ استعمال لایا گیا ہے، کوئی اور نظام بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مفتعلن کو کلاسیکی لاطینی اور یونانی زبان کے تناظر میں کوری ایمب کہا جاتا ہے:
Choriamb - Wikipedia

ایک اور ملتا جلتا عربی وزن مستفعلن فاعلن مستفعلن فعِلن ہے۔ قصیدۃ البردۃ اسی بحر میں ہے اور روانی سے خوانا بھی جاتا ہے تاہم کسی اردو شاعر نے اس بحر میں کوئی تجربہ نہیں کیا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بحر "رجز" جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہو رہا ہے خاص عربی کی چیز ہے اور زیادہ تر رجزیہ شاعری ہی اس میں ہوگی جو کہ عربی ثقافت کی خاص چیز تھی۔ فارسی اور اردو والے اس سے دُور ہی رہے۔

بحر رجز سالم"مستفعلن" چار بار بھی اسی قسم کی معروف بحر ہے، اس میں کلاسیکی فارسی شاعری کافی ہے، اردو کی بھی ایک شہرہ آفاق غزل "کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا" اسی میں ہے لیکن اس کے باوجود رجز سالم بھی اردو میں بہت کم استعمال ہوئی ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
اس کے باوجود رجز سالم بھی اردو میں بہت کم استعمال ہوئی ہے۔
نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم کلجگ بھی اسی بحر میں ہے

دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی سات لے
نیکی کا بدلا نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دکھ درد دے آفات لے
کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہات دے اس ہات لے
 
آخری تدوین:
عربی عروض تک میری پہنچ نہیں ہے ۔ ایک مصری دوست ہیں اور عربی میں شاعری کرتے ہیں ویک اینڈ پر ان سے دریافت کرتا ہوں

محترم ظہیر صاحب، کیا آپ کی اپنے مصری دوست سے ملاقات ہوئی؟ کیا انھوں نے عربی میں اس وزن کے استعمال پر کچھ روشنی ڈالی؟
 

الف عین

لائبریرین
Top