یہ میں بھی جانتا ہوں کہ نواز شریف اس معاملے میں دلچسپی نہیں لے گا لیکن فوج کی اسی اندھیر نگری کی وجہ سے پاکستان میں انصاف کا بہت بار خون ہوا۔ فوج اس ملک کا ایک ادارہ ہے اسے سویلینز کے حقوق پر ڈاکہ مارنے اور آئین توڑنے والےکی حمایت نہیں کرنا چاہئے بھلے وہ ڈاکو فوج کا سربراہ ہی کیوں نہ رہا ہو۔اتنی بھی اندھی نہیں مچی ہے نواز شریف کو اپنی حدود کا پتہ ہے وہ پہلے ہی ایک چکر کاٹ چکا ہے اب دوبارہ پنگا نہین لے گا وہ اچھی طرح جانتا ہے یہ بات ۔
فوجی بوٹ پاکستانی عدلیہ و عوام کو دھمکا سکتا ہے ضمیر کے کچوکے نہیں روک سکتا۔ مرے کو مارنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔اتنی بھی اندھی نہیں مچی ہے نواز شریف کو اپنی حدود کا پتہ ہے وہ پہلے ہی ایک چکر کاٹ چکا ہے اب دوبارہ پنگا نہین لے گا وہ اچھی طرح جانتا ہے یہ بات ۔
دنیائے صحافت سے نا آشنا محفلین کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ یہ خبر اُمت کی نہیں ہے، (گو کہ نیوز کی کمپوزنگ، سرخیاں اور صفحہ اُمت ہی کا ہے) بلکہ ایک ”نیوز ایجنسی“ کی خبر ہے۔ یہی خبر پاکستان کے کم و بیش تمام اخبارات میں شائع ہوئی ہوگی، کسی نہ کسی صفحہ پر۔ نمایاں یا غیر نمایاں، مکمل یا ایڈٹ شدہ ۔ ہر نیوز ایجنسی اپنی خبریں تمام قومی اخبارات، ریڈیو اور ٹی چینلز کو قیمتاً ارسال کرتی ہے۔ خبر ”خریدنے“ کے بعد اخبارات کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ان خبرون کو ایجنسی ہی کے نام سے شائع کرے، اپنے نام سے شائع کرے، جوں کا توں شائع کرے، خبر کا کوئی حصہ شائع کرے یا ایڈٹ کرکے یعنی الفاظ کم کرکے شائع کرے۔ نیوز ایجنسیاں ”سُرخیاں“ نہیں بھیجتی، بیچتی
یہ ہر اخبار کی اپنی ہوتی ہیں۔ اطلاع اور اعلان ختم ہوا
![]()
کیا ہی خوب لفظ استعمال کیا جاتا ہے "ذرائع "کہ کسی پر کوئی الزام نہ آئے ایسی "چول" مارنے کا
جیسے تحریک طالبان پاکستان فوری ذمہ داری لے لیتی ہے ہر تخریب کاری کی
اور جن ذرائع سے یہ لوگ خبر بھیجتے ہیں اس "ذرائع" کو پکڑا جائے تو تخریب کار بھی پکڑے جا سکتے ہیں![]()
قیصرانی بھائی! آپ کی ”مزید اطلاع“یہی تو مزے کی بات ہے کہ ایک طرف ذرائع کہہ دیا جاتا ہے اور دوسری جانب سارا ملبہ "نیوز ایجنسی" پر ڈال دیا جاتا ہے![]()
قیصرانی بھائی! آپ کی ”مزید اطلاع“کے لئے عرض ہے کہ یہ ”ذرائع“ نیوز ایجنسی کے ہیں، اُمت اخبار کے نہیں۔
اخبارات میں شائع ہونے والی ہر خبر کو اخبار یا نیوز ایجنسی کا نمائندہ جلسہ یا پریس کانفرنس کی طرح ”بذات خود“ کور نہیں کرتا۔ اکثر خبریں اُسے اپنے ”ذرائع“ ہی سے ملتی ہیں۔ اور ایسا دنیا بھر کی صحافت میں ہوتا ہے۔ آج کے لئے اتنا ”سبق“ ہی کافی ہے۔ پہلے اسے اچھی طرح یاد کرلیجئے۔ صحافت کے بقیہ اسباق پھر کبھی بتاؤں گا۔
![]()
تو سر جی ہم جھوٹ کا نام بھی "ذرائع" رکھ سکتےہیں اسکا مطلب ہےقیصرانی بھائی! آپ کی ”مزید اطلاع“کے لئے عرض ہے کہ یہ ”ذرائع“ نیوز ایجنسی کے ہیں، اُمت اخبار کے نہیں۔
اخبارات میں شائع ہونے والی ہر خبر کو اخبار یا نیوز ایجنسی کا نمائندہ جلسہ یا پریس کانفرنس کی طرح ”بذات خود“ کور نہیں کرتا۔ اکثر خبریں اُسے اپنے ”ذرائع“ ہی سے ملتی ہیں۔ اور ایسا دنیا بھر کی صحافت میں ہوتا ہے۔ آج کے لئے اتنا ”سبق“ ہی کافی ہے۔ پہلے اسے اچھی طرح یاد کرلیجئے۔ صحافت کے بقیہ اسباق پھر کبھی بتاؤں گا۔
![]()
پرویز مشرف کے ساتھ انتقام کے بجائے صرف " انصاف " ہی ہو جائے تو شاید تمام متاثرین راضی ہو جا یئں۔
تو پھر اس سے تو یقینا" نیوز ایجنسی کے قابل اعتبار ہونے کے درجے کا تعین ہوتا ہوگا ۔ غالبا" رئیٹر وغیرہ کی ریپوٹیشن اسی لئے ممتاز ہو گی ۔یہی تو مزے کی بات ہے کہ ایک طرف ذرائع کہہ دیا جاتا ہے اور دوسری جانب سارا ملبہ "نیوز ایجنسی" پر ڈال دیا جاتا ہے![]()
قیصرانی بھائی! آپ کی ”مزید اطلاع“کے لئے عرض ہے کہ یہ ”ذرائع“ نیوز ایجنسی کے ہیں، اُمت اخبار کے نہیں۔
اخبارات میں شائع ہونے والی ہر خبر کو اخبار یا نیوز ایجنسی کا نمائندہ جلسہ یا پریس کانفرنس کی طرح ”بذات خود“ کور نہیں کرتا۔ اکثر خبریں اُسے اپنے ”ذرائع“ ہی سے ملتی ہیں۔ اور ایسا دنیا بھر کی صحافت میں ہوتا ہے۔ آج کے لئے اتنا ”سبق“ ہی کافی ہے۔ پہلے اسے اچھی طرح یاد کرلیجئے۔ صحافت کے بقیہ اسباق پھر کبھی بتاؤں گا۔
![]()
اگر میں ایسا کہوں کہ امت اخبار کی طرح اُس کے الہامی 'ذرائع' بھی تیسرے درجے کے ہیں، تو کیا یہ بات قبول کی جائے گی؟![]()
اس سے پہلے ایک خبر یہ آئی تھی کہ در پردہ مژرف کو باہر بھیجنے کے لئے عناصر ّ فعّال ہو رہے ہیں۔۔۔۔ بعد میں یہ بات کئی دیگرمعتبر جگہوں پہ بھی آئی۔۔۔۔تو ان الہامی ذرائع کے تیسرے چوتھے یا پانچویںاگر میں ایسا کہوں کہ امت اخبار کی طرح اُس کے الہامی 'ذرائع' بھی تیسرے درجے کے ہیں، تو کیا یہ بات قبول کی جائے گی؟![]()