عالمی سطح پر دہشت گردی، دغا بازی اور ہوس کی انتہا کا دوسرا نام ’’امریکہ‘‘ ہے۔بربریت کی انتہا کرنے والا یہ وحشی جانوراور سفاک درندہ انسان نما لباس اوڑھ مسلسل اپنے آپ کو مہذب ترین انسان باور کرانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے اور انسانیت کے تحفظ کا ایجنڈا لے کر دنیا کو سر پر اُٹھا رکھا ہے جبکہ ایک ایک کر کے پہلے تمام اسلامی دنیا میں داخلی انتشار و فسادات کو جنم دینے کے بعد اُنہیں مسمار کرنے کی خواہش نے انکھوں کی بصارت کے ساتھ ساتھ ذہنی بصیرت کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اپنے ہتھیاروں کی نمائش، تشہیر اور سالہا سال دوسرے ممالک سے زیادہ سے زیادہ ’’ریونیو‘‘بزور بازو بٹورنے کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانے کے لیے اور ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے تحت تمام اسلامی دنیا پرجنگ مسلط کئے ہوئے ہے۔ ’’جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے‘‘ کے جواز کا ڈھونگ رچا کر انسانی حقوق کے تحفظ کا عَلم ہاتھ میں لئے ہوئے ملکوں و ریاستوں پر چڑھ دوڑتا ہے جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی پامالی کے بیسیوں ریکارڈ قائم کر چکا ہے ۔

میرے نقطۂ نظر سے اُن جدید دانشوروں کا اختلاف قطعی اور یقینی ہے جو اِس شیطنت اور حیوانیت کو ترقی کا معیارگردانتے ہیں۔ اس قسم کے دانشوروں کے لیے امپورٹڈ نیوز [درآمد شدہ خبریں] قرآن و حدیث کا درجہ رکھتی ہے ہیں اور اِسے ماخذ کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔’’جوشواکی‘‘ ایسا ہی ایک ’’ایمپورٹ شدہ ‘‘ کردار ہے جو بد مست ہاتھی کے پاگل پن، ذاتی اَنا اور مذموم مقاصد کی نا صرف نشاندہی بلکہ ترجمانی کرتا ہے۔

’’جوشواکی‘‘1978ء کو امریکہ کے ایک ریاست ’’اوکلوہاما‘‘ جو دس ہزار افراد پر مشتمل ہے کے ایک قصبہ ’’گتھری‘‘ میں پیدا ہوا ۔محب وطن اور ذمہ دار شہری کے طور پر پروان چڑھتا گیا اور بچپن ہی سے حکومت کا احترام اپنے صدر پر مکمل بھروسہ اور اعتماد کرنا سکھایا گیا۔بچپن سے اسلحہ کا شوقین اور بندوق چلانے کا عادی تھا۔ وقت معمول کے مطابق گزرتا گیا لیکن دھیرے دھیرے مفلسی اور لاچاری نے آگھیرا اور ایسا گھیرا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک شادی شدہ دو بچوں کے باپ کو فقط ایک ہزار دو سو(۱۲۰۰) ڈالر کے عوض ’’پروائیویٹ‘‘ [نان کمیشنڈ میں سب سے نچلا عہدہ]کے طور پر آرمی جوائن کرنے پر مجبور کر دیا۔’’جوشواکی‘‘ نے فوج میں بھرتی ہونے کا آغاز اس نظرئیے سے کیا تھا کہ فوج میں رہ کر امریکی براعظم میں ہی کسی نہ کسی جگہ پل سازی کا کام کروں گا لیکن امریکن ملٹری نے’’جواشواکی‘‘ اور دوسرے سیاہ فام، لاطینی امریکیوں کو دھوکہ دے کر امریکن ملٹری کمبیٹ سیکشن کا حصہ بنا کر ٹریننگ کے لئے بھیج دیا جو ان کا ایک نفرت انگیز اقدام تھا۔ ٹریننگ کے دوران دو چیزیں خصوصی طور پر پڑھائی گئی ایک امریکن آرمی کا موٹو ’’پہلے آرمی، پھر خدا اور پھر آپ کی فیملی!‘‘ اور دوسری چیز یہ کہ ’’اس کرۂ ارض پر صرف اور صرف امریکی ہی ایک مہذب قوم ہیں اور صرف امریکن آرمی ہی دنیا میں ڈسپلن قائم کرنے کی اہل ہے جو لوگ امریکی نہیں وہ سب دہشت گرد ہیں۔11ستمبر 2001ء کو جن لوگوں نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا وہ سب کے سب مسلمان تھے اور سارے مسلمان اور دہشت گرد موت کے سزا وار ہیں‘‘۔ جبکہ ٹریننگ کے دوران غیر امریکیوں کو مخاطب کرنے کے لیے ’’لعین‘‘، ’’صحرائی‘‘ اور ’’حبشی‘‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے رہے۔ آخر کار گیارہ ماہ گزرنے کے بعد ٹریننگ ختم ہوئی اور پوسٹنگ ابھی باقی تھی۔ اچانک 20 مارچ 2003ء کو 36 ملکوں کو ہمنوا بنا کر قریباً چار لاکھ افواج کے ساتھ صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر چڑھائی کا اعلان کر دیا ابھی جنگ کے صرف تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ ’’جوشواکی‘‘ کو انتظامیہ سے بحث و تمحیص اور جھگڑا تک کی نوبت آنے کے بعد عراق کے جنگ میں دھکیل دیا گیا کیونکہ وہ کسی صورت اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگ پر جانے کے لئے راضی نہیں تھا اور نہ ہی جنگ کرنے کے لیے وہ آرمی میں برتی ہونا چاہتا تھا۔ عراق کی جنگ میں ’’جوشواکی‘‘ نے رمادی، فلوجہ، حبانیہ اور القائم میں تقریباً ساڈھے چھ مہینے گزارے۔ اس طویل مگر مختصر عرصے میں ’’جوشواکی‘‘ پر امریکہ کی درندگی، سفاکی ، بربریت اور پاگل پن عیاں ہو گیا اور ایک محب وطن شہری کے دل میں اب اپنے وطن اور صدر مملکت کے لئے انتہائی حد تک نفرت کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔نومبر 2003ء کو ڈیوٹی سے مختصر چھٹی ملتے ہی ’’جوشواکی‘‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کینیڈا بھاگ گیا کیونکہ اُسے اپنے ملک کے سرکاری وکیل کی طرف سے یہ بتا جا چکا تھا کہ ’’فوج سے بھگوڑا ہونے کے بعد یا تو واپس فوج بھیج دیا جاتا ہے یا ساری عمر جیل میں گزارنی پڑتی ہے اور اگر جنگ کے دوران کوئی فوج سے بھگوڑا ہو جائے تو اُسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی ما دی جاتی ہے‘‘۔ کینڈا پہنچتے ہی ’’جوشواکی‘‘ نے امیگریشن اینڈ ریفیوجی بورڈ کے پاس ریفیوجی سٹیٹس کی درخواست جمع کروائی جو 20اکتوبر 2006ء کو مسترد کر دی گئی بعد ازاں 4 جولائی 2008ء کو کیس پر نظر ثانی کر کے ریفیوجی سٹیٹس دے دیا گیا۔ اور آج وہ کینیڈا میں اپنی بیوی، تین بیٹوں اور ایک بیٹی [ذاکری، آدم، فلپ، اَنّا] کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔

’’جوشواکی‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ہمارا دشمن کہاں ہے، ہمیں اصل دشمن کی کوئی خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہے، کون ہے، اس کا تجربہ کیا ہے اور اس کی جنگی مہارت کیا ہے ۔ ہم تو عراق میں سب لڑنے والوں کو محض ڈھورڈنگر سمجھتے تھے اور خیال کیا کرتے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ کوئی پست تر حیوان ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم عراق میں جس جگہ بھی گئے عراقی پروفیشنل سوجھ بوجھ میں امریکن ملٹری سے کئی ہاتھ آگے نکلے۔ جب ہمیں دہشت گردی کی علامات کا کہیں سامنا نہ ہوا تو ہمارا یقین اس جنگ کی کاز پر سے اٹھنے لگا۔کسی باقاعدہ حربی معرکے میں چونکہ ہمارا کوئی حقیقی دشمن ہی نہیں تھا اس لیے ہم اپنا غصہ اور جھنجھلاہٹ چھاپے مار مار کر پوری کر لیا کرتے تھے اول اول ان چھاپوں نے ہمیں مواقع فراہم کئے رکھا کہ ہم لوگوں کو زد و کوب کریں، ان کی قیمتی اشیاء چرالیں اور ان کی ملکیت میں ایسی چیزوں کو برباد کر دیں جو ہماری استعمال کی نہیں۔

عراق میں عرصۂ قیام کے دوران میں نے تقریباً دو سو سے زائد چھاپے مارے لیکن مجھے اِن چھاپوں کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی کیونکہ جب بھی ہم کسی گھر کے دروازے کو اڑانے کے لیے بارود لگاتے اور اندرونِ خانہ ہر شے کو تہہ و بالا کر دیتے اس مار دھاڑ کا کوئی بھی جواز مجھے مطمئن نہ کر سکا ۔ میں نے قیامِ عراق کے دوران امریکی سولجرز کا عراقی بچوں، بوڑھوں اور خصوصاً عورتوں کو بلا کسی جھجک ایسے مارتے پیٹتے دیکھا جو معمول کی کسی بھی لڑائی میں کوئی بھی سولجر روا نہیں رکھتا اور نہ کوئی مذہب حتی کہ انسانیت اس کی اجازت دیتا ہے۔

اس جنگ میں امریکی اور عراقی افسروں اور جوانوں نے جو قربانیاں دیں اس کا جواز صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے جب ہمیں کی ہمہ گیر تباہی والے ہتھیاروں کا سراغ مل جاتا، ہم ان کے پھیلاؤ کو روک دیتے اور بنی نوع انسان کو کسی عظیم غارت گری سے محفوظ بنا دیتے!۔۔۔ لیکن مجھے اس جنگ میں نہ تو خلافِ قانون منشیات کا کوئی نام و نشان ملا اور نہ کسی ہمہ گیر تباہی کے ہتھیار(Weapon of Mass Destruction) دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ کوئی اور مثبت پہلو اس جنگ کا نظر آیا۔ تب جا کے مجھے احساس ہوا کہ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ ہم امریکی دہشت گرد ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں دہشت گردی پھیلا رکھی ہے۔

’’جوشواکی‘‘ کا مزید کہنا ہے کہ ہم چونکہ امریکی تھے اس لیے ہمیں یہ بتا دیا گیا تھا کہ ہم جس گھر میں چاہے گھس سکتے ہیں ،چھاپے مار سکتے ہیں اور جہاں چاہیں دشمن کی کاروائی سے چھپ بھی سکتے ہیں ہم پر روک ٹوک کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔

اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں تھی کہ صدام حسین کے قبضے میں ہمہ گیر تباہی والے ہتھیار موجود تھے اور یہ بات بھی بالکل جھوٹ اور لغو تھی کہ عراق کا ہر مرد، عورت اور بچہ ایک ایسا بد کردار دہشت گرد ہے جسے امریکی نفرت، امریکی بمباری اور امریکی قبضے کی ضرورت ہے۔

میں نے کینڈا جا کر اپنی داستان بیان کرنے کے لئے مساجد کو ترجیح دی پہلی بار تو مجھے اندیشہ تھا کہ مسلمان مجھ سے نفرت کریں گے اور الزام لگائیں گے لیکن میں نے جس مسجد میں بھی جا کر کوئی تقریر کی نہ صرف میرا بلکہ میری ساری فیملی کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔

’’جوشواکی‘‘ سے دوبارہ امریکہ جانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’میں دوبارہ امریکہ نہیں جانا چاہوں گا کیونکہ میں اپنے وطن کے لئے گم ہو چکا ہوں اور امریکہ میرے لیے گم ہو گیا ہے۔’’جوشواکی‘‘عراقی جنگ میں دوبارہ شرکت کے حوالے سےاپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ میں ایسی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتا جو غیر منصفانہ ہو اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایسی جیل میں گلتا سڑتا رہوں جو اپنے ہی وطن کے اندر ہو۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میرا جرم یہ بھی بتایا جائے کہ میں نے عراق کی اس قابلِ نفرت جنگ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ چنانچہ میرے لئے بھگوڑا ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ ہاں!’’میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہاں صدر امریکہ بھی میرے ساتھ ہوں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح کے عام آدمی ہیں اور میری طرح سزا کے حقدار ہیں۔

اقرار جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ’’جوشواکی‘‘ کہتے ہیں ’’میں نے عراق میں جو کچھ کیا اس پر شرمندہ ہوں اور وہ تمام بے قصو سویلین شہری جو ہمارے ہاتھوں ہلاک ہوئے ، زخمی ہوئے یا کسی بھی اور طرح کا ظلم و ستم ان پر ہوا تھا اس پر بھی نادم ہوں۔ یہ خیال کہ میں اپنے سینئرز کا حکم بجالا رہا تھا اور مجبور تھا تو نہ تو یہ خیال میرے کرب میں کوئی کمی کرتا ہے اور نہ ہی میرے ڈراؤنے خوابوں کو ختم کرتا ہے۔

اگر مجھے امریکی صدر کے ساتھ روبرو بات کرنے کا موقع ملے تو میں ان کو بتاؤں گا کہ وہ اپنے ملک کے آئین و قوانین پر نظر ثانی کریں۔ ان کو یہ بتانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جب میں نے عراقی جنگ میں حصہ لیا تھا تو یہ دیکھا تھا کہ آرمی کے افسروں اور جوانوں نے ان اقدار کو پارہ پارہ کر دیا تھا جن کا پرچم بلند رکھنے کا دعویٰ ہم آئے روز کرتے رہتے ہیں اگر امریکہ کے صدر یہ جاننا چاہیں کہ میں کن اقدار کی بات کر رہا ہوں تو میں ان کو کہوں گا کہ وہ 1776ء کے امریکی اعلانِ آزادی کے اولین الفاظ کو ہی یاد کر لیں جو یہ تھے: ’’ہم یہ ساری سچائیاں سر بلند رکھنا چاہتے ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ تمام انسانوں کو یکساں پید کیا گیا اس لئے بنی نوع انسان برابر ہیں۔ ان انسانوں کو اپنے خالق کی طرف سے یہ عطیہ ارزانی ہوا ہے کہ ان کے بعض حقوق ایسے ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کے یکساں مواقع اس خالق کی عطا ہیں۔ مثلا ً زندگی، آزادی، مسرتوں اور خوشیوں کی تلاش۔

میں امریکہ کے لئے اس جنگ کے میدان میں کبھی نہ کودتا اگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں اس کی فوج کی کرتوتیں اُن اقدار کے خلاف ہوں گی جن کا ذکر میں اوپر ذکر ہو چکا ہے! میں امریکن آرمی سے بھگوڑا ہونے کی معافی کبھی نہیں مانگوں گا۔ میں ظلم اور جبر و اکراہ سے بھاگا تھا اور فوج کو خیر باد کہنا میرے نزدیک عینِ انصاف تھا۔

یہ داستان فقط عراق جنگ کا آئینہ دار نہیں بلکہ اُن تمام جنگوں جو تمام اسلامی دنیا میں شروع کی جا چکی ہیں کی ترجمانی کرتا ہے اور ہر جگہ امریکن سولجرز میں ایسے ہزاروں لاکھوں ’’جوشواکی‘‘ موجود ہوں گے جو فوج سے بھگوڑا اور امریکہ سے بھاگ جانا چاہتے ہیں ۔ عالمگیر امن اور انصاف کے بلند بانگ دعویداروں کی حالت زار قابل دید بھی ہے اور قابل اصلاح بھی ۔ اس جیسی کئی ہزاروں دیگر داستانیں ہیں جو امریکہ کے چہرے سے انسانیت کا نقاب ہٹانے اور ہمارے ہاں اُن ’’جدید دانشوروں‘‘ کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے کافی ہیں جو آئے روز اسلام، مسلمان اور انسانیت کے دشمنوں کے گیت گاتے سنائی دیتے ہیں۔’’جوشواکی‘‘ کے جوتوں میں بیس قدم چلنے سے کسی بھی ’’دانشور ‘‘ پر امریکہ کا مکروہ چہرہ آشکارا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
 

Fawad -

محفلین
عالمی سطح پر دہشت گردی، دغا بازی اور ہوس کی انتہا کا دوسرا نام ’’امریکہ‘‘ ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ نے اپنے کالم کے آغاز ميں ہی عالمی دہشت گردی کے عفريت سميت دنيا کی تمام برائيوں کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار ديا ہے۔ آپ بھول رہے ہيں کہ عراق اور افغانستان ميں سينکڑوں امريکی فوجيوں سميت ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے اپنے شہری بھی دہشت گردی کی اس لہر کا نشانہ بنے ہیں جسے عالمی منظر نامے پر متعارف کروانے کا لغو الزام آپ امريکہ پر لگا رہے ہيں۔

اگر ايک امريکی فوجی کے خيالات اور سوچ آپ کے ليے نا قابل ترديد ثبوت کا درجہ رکھتی ہے تو پھر اسی پيمانے کے تحت آپ عراق کے سابق وزيراعظم کے يہ الفاظ پڑھ ليں جو انھوں نے عراقی عوام کے منتخب نمايندے کی حيثيت سے اقوام متحدہ کو لکھے تھے۔

دسمبر 7 2008 کو عراق کے وزير اعظم نے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کے صدر کو ايک خط لکھا تھا جس ميں انھوں نے اس رائے کا اظہار کيا۔

"عراق کی حکومت اور عوام کی جانب سے ميں ان تمام ممالک کی حکومتوں کا شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے اہم کردار اور کوششوں کے سبب عراق کو استحکام اور محفوظ بنانے کے عمل ميں مدد ملی ہے۔ ميں براہراست ان افواج کا بھی شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے عراق ميں اپنی زمينی، بحری اور فضائ موجودگی کے دوران خدمات انجام ديں۔ يہ امر قابل ذکر ہے کہ عراق پچھلے دور حکومت کے دوران برسا برس تک تنہا رہنے کے بعد معيشت کے استحکام کے ليےعالمی برادری کے ساتھ شراکت داری کے نئے روابط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

امريکی حکومت کو دنيا کے دور دراز علاقوں اور خطوں ميں دانستہ دہشت گردی کے شعلوں کو بھڑکانے سے کچھ حاصل نہيں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہم نے ان بے شمار ممالک ميں شہری آباديوں کی مدد کے ليے اپنے بے شمار وسائل فراہم کيے ہيں۔ چاہے وہ شام ہو، عراق يا افغانستان – ہم اپنے الفاظ اور اقدامات کے ذريعے ہميشہ "حل" کا حصہ بننے کی سعی ہی کرتے ہيں، ان دہشت گرد تنطيموں کی طرح نہيں جو اپنی دہشت اور بربريت پر مبنی مہم کو جاری رکھنے کے ليے ہميشہ بے گناہ شہريوں کے خون کی متلاشی ہوتی ہیں۔

آپ ہم پر الزام لگاتے ہيں کہ ہم دہشت گردی کی جاری لہر سے فائدہ اٹھاتے ہيں، باوجود اس کے کہ عراق اور افغانستان ميں انھی مشترکہ دشمنوں سے لڑتے ہوئے خود ہمارے ہی ہزاروں فوجی مارے گئے ہيں جن کی حمايت کا الزام ہم پر لگايا جاتا ہے۔

آپ بغير کسی منطق کے امريکہ پر دہشت گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہيں، اس حقيقت کے باوجود کہ چاہے داعش ہو، القائدہ، ٹی ٹی پی يا کوئ اور عالمی دہشت گرد تنظيم – امريکہ نے نا صرف يہ کہ دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے ليے اپنا کليدی کردار ادا کيا ہے بلکہ ان کی دہشت گردی کی صلاحيت ختم کرنے کے ليے ہر ممکن کاوش بھی کی ہے۔ ہم نے ان کے معاشی وسائل ختم کرنے کے ليے قوانين بنائے ہيں، مقامی حکومتوں کو تعاون اور وسائل فراہم کيے ہيں تا کہ دہشت گردی کے نيٹ ورکس کو توڑا جا سکے۔ صرف يہی نہيں بلکہ ہم نے ايک مشترکہ دشمن کے خاتمے کے ليے جاری عالمی کوششوں کے ضمن ميں خود اپنے فوجی بھی ميدان جنگ ميں اتارے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
آپ نے اپنے کالم کے آغاز ميں ہی عالمی دہشت گردی کے عفريت سميت دنيا کی تمام برائيوں کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار ديا ہے۔ آپ بھول رہے ہيں کہ عراق اور افغانستان ميں سينکڑوں امريکی فوجيوں سميت ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے اپنے شہری بھی دہشت گردی کی اس لہر کا نشانہ بنے ہیں جسے عالمی منظر نامے پر متعارف کروانے کا لغو الزام آپ امريکہ پر لگا رہے ہيں۔

فواد، امریکہ افغانستان میں کیا کررہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ افغان پشتونوں کو ان کا حق رائے دہی دینے سے روک کر ان کے خلاف جنگ لڑنا چاہتا ہے؟ امریکہ دفاع کرے اپنے ملک کی حدود میں رہ کر کرے۔ نا کہ دوسرےممالک میں اپنی فوج اتار کر۔ اگر دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک ہی معیار ہے کہ اس ملک میں فوج اتاردی جائے ، تو کیا امریکہ تیار ہے کہ امریکہ کی جغرافیائی سرحدوں میں امریکی لٹیروں کے خلاف دوسرے ممالک فوجیں اتار دیں؟ سٹیٹ ڈپارٹمنت، پینٹا گون اور وہائٹ ہاؤس کو کہئے کہ انصاف وہ ہے جو دونوں طرف ایک جیسا ہو۔ اگر امریکہ افغانستان میں فوجیں اتارتا ہےتو تیار رہئے کی افغانستان بھی امریکہ میں فوجیں اتارنے کا حق رکھتتا ہے۔ کیا آپ ہم معصوم شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ، دوسرے ممالک پر جنگ مسلط کرکے ، کررہے ہیں؟

میں جانتا ہوں کہ امریکہ کی سرحدوں کے باہر فوجیں اتارنے کا آپ کے پاس کوئی بھی جواب نہیں۔ اپنی سرحدوں میں واپس آئیے ، جو آپ سے یہاں لڑتا ہے ، اس سے لڑئے، نا کہ دنیا بھر میں فوج کشی کرکے امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی خدمت انجام دیجئے۔

عالمی ممظر نامہ پر تمام مسلم ممالک، تمام یورپیں ممالک، تمام روس ، تمام چین اور چینی ممالک، امریکہ کو دہشت گردی کا الزام ہی نہیں بلکہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو کسی بھی ایسے ایر پورٹ پر چلے جائیں جہاں سے امریکہ ڈایئریکٹ فلائیٹ آتی ہے۔ وہاں دیکھئے کہ چین جانے والی ، پاکستان جانے والی، ہندوستان جانے والی، روس جانے والی حتی کے برطانیہ اور فرانس جانے والی کسی بھی فلائیٹ پر کسی قسم کی کوئی سیکیورٹی چیک نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ یہ پر امن ممالک ہیں۔ دوسری طرف آپ دیکھیں گے کہ امریکہ جانے والی ہر فلائٹ پر پانچ پانچ تہوں کی سیکیورٹی چیک ہو رہا ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ امریکہ بھی یہ جانتا ہے کہ ساری دنیا اس کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔

پھر بھی یقین نہیں آتا تو بھیجئے کسی بھی شخص کو دنیا کے گرد ، ہر ملک میں اور پوچھئے کہ لوگوں کا امریکہ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ نکل جائیے اس خواب سے کہ امریکہ کی حکومت ساری دنیا پر ہوگی اور وہ بھی دہشت زدہ کرکے؟
 
آخری تدوین:
فواد بھائی بچوں جیسی باتیں شاید آپ کے ساتھ ہر گز نہیں جھچتی، اس لیے بہتر ہو گا کہ آپ اپنا مطالعہ بڑھائی اور حالات کا بغور مطالعہ کریں۔ میرے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا۔
 
یہ صرف اور صرف ٹرمپ کی بادشاہت ہے کہ وہ طالبان کو میدان جنگ میں شکست دینا چاہتا ہے ۔ اس مقصد کے لئے وہ امریکی ٹیکس دینے والوں کی دولت اپنے اپنوں کو بانٹنے کے لئے امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی آمدنی بڑھانا چاہتا ہے۔ اسلحے کا اتنا بڑا سٹاک اب کیا کریں؟ جب تک پرانا خرچ نہیں ہوگا، نیا بنے گا نہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ دنیا بھر میں جنگ پسندی کی وجہ سے دنیا کا ہر شخص اب امریکہ کو سب سے بڑا دہشتگ گرد سمجھتا ہے۔ یہ خام خیالی اور لغو بات ہے کہ امریکہ اپنا دفاع کررہا ہے، دفاع کرنا ہے تو اپنی سرحدوں کے اندر بیٹھو، جب کوئی حملہ کرے اپنا دفاع کرو۔ جس دن دنای بھر کے ممالک اپنا دفاع کرنے کےلئے امریکی سرزمین پر کود پڑیں گے تو اس وقت کیا عذر پیش کروگے ؟ نظیر تو تم نے قائم کر ہی دی ہے۔ دنیا کا کونسا ملک ہے جہاں جنگ امریکہ نہیں لڑ رہا۔ اور وہ بھی بے وجہ ؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مریکن آرمی کا موٹو ’’پہلے آرمی، پھر خدا اور پھر آپ کی فیملی!‘
بہت خوب موٹو رکھا ہے ۔ :)
ہمیں تو پاک فوجا ک موٹو یاد ہے بس۔ ایمان ۔تقوی۔ جہاد۔ تینوں کی بنیاد خدا پر ہے۔
ویسے کیا جوشوا صاحب نے کوئی کتاب لکھی ہے ؟
مضمون میں حوالہ کی کمی ہے شاید۔
 
جی ’’جوشواکی‘‘ کی داستان کتابی شکل میں ’’دی ڈیسرٹر ٹیل‘‘ کے نام سے چھپی ہے جبکہ ’’کرنل غلام جیلانی‘‘ صاحب نے اردو ترجمہ ’’میں بھگوڑا کیوں ہوا‘‘ کے نام سے کیا ہے۔
 
میں جانتا ہوں کہ امریکہ کی سرحدوں کے باہر فوجیں اتارنے کا آپ کے پاس کوئی بھی جواب نہیں۔ اپنی سرحدوں میں واپس آئیے ، جو آپ سے یہاں لڑتا ہے ، اس سے لڑئے، نا کہ دنیا بھر میں فوج کشی کرکے امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی خدمت انجام دیجئے۔
امریکہ کی پولیس گردی ہے اور کیا۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر اس دليل کو درست تسليم کر ليا جائے کہ عالمی دہشت گردی کے سدباب کا سب سے موثر طريقہ يہ ہے کہ ہر ملک صرف اپنی سرحدوں کے اندر ہی اپنی توجہ مرکوز کرے اور اس ضمن ميں اجتماعی سطح پر مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہی نہيں ہے تو اس سے تو يہ تاثر ابھرتا ہے کہ گويا عالمی دہشت گردی کا عفريت کوئ مقامی مسلۂ ہے جو سرحدی اور جغرافيائ عوامل تک محدود ہے۔

ہم سب جانتے ہيں کہ حقي‍قت اس کے برعکس ہے۔ داعش اور القائدہ جيسی عالمی دہشت گرد تنظيموں نے اپنے الفاظ اور کاروائيوں سے بارہا يہ ثابت کيا ہے کہ ان کے عالمی اہداف، ايجنڈے اور خواہشات ہيں۔

يہ صرف امريکی حکومت کا ہی موقف نہيں ہے کہ مہذب ممالک اور ان کی حکومتوں کو اس عفريت کے خلاف مل کر کاروائ کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب سميت تمام سرکردہ اسلامی ممالک کا اس ضمن ميں اتفاق رائے اور مشترکہ کاروائ پر اتفاق اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ درجنوں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے بھی اس حقيقت کا ادراک کيا ہے کہ داعش اور القائدہ جيسی عالمی دہشت گرد تنظيموں نے عالمی منظرنامے پر تشدد کی جس لہر کو متعارف کروايا ہے، اس کے سدباب کے ليے سب کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔

Saudi-led coalition to assist member countries in counter-terrorism operations: Gen Raheel - World - DAWN.COM

علاوہ ازيں 74 ممالک پر مشتمل عالمی اتحاد نے دنيا بھر ميں عام شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنانے کے ليے مشترکہ کاوشوں کے ضمن ميں اپنے وسائل ميں شراکت کے ساتھ تعاون پر بھی اتفاق رائے کيا ہے۔

يہ تمام اقدامات اور کاوشيں اس بات کی غمازی کرتی ہيں کہ امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت تک خود کو محدود کر کے اس عفريت کے خاتمے کو يقینی نہيں بنا سکتا ہے۔

Global Coalition Against IS Explained

Partners Archive | The Global Coalition Against Daesh

آپ امريکی حکومت پر اس حوالے سے تنقيد کرتے ہيں کہ افغانستان ميں ہماری فوجيں کيوں موجود ہیں ليکن آپ يہ حقيقت نظرانداز کر ديتے ہيں کہ صرف امريکہ ہی نہيں بلکہ افغانستان ميں نيٹو اور درجنوں ممالک مل کر کام کر رہے ہيں تا کہ دہشت گردی کے نيٹ ورکس کو توڑا جا سکے اور دہشت گردی کے ان محفوظ ٹھکانوں کو ختم کيا جا سکے جو صرف امريکہ کے ليے ہی نہيں بلکہ تمام فريقين کے ليے مشترکہ خطرہ ہيں۔

داعش، القائدہ، ٹی ٹی پی اور ديگر دہشت گرد گروہ خود اپنے الفاظ کے مطابق ايک ايسی فکری سوچ پر مبنی جنگ کا آغاز کر چکے ہيں جو بدقسمتی سے نا تو کسی سرحد کو جانتی ہے اور نا ہی کسی اختلاف کرنے والے عنصر کو محفوظ راستہ دينے پر يقين رکھتی ہے۔ داعش نے متعدد بار عالمی سطح پر حملے کرنے کی اپنی خواہش کو واضح کيا ہے۔ ايسے کوئ شواہد يا اشارے موجود نہيں ہيں جس سے يہ شائبہ ہو کہ ان کے عزائم کسی مخصوص مذہب يا ملک تک محدود ہيں۔

اس بات کی ايک منطقی، قابل قبول اور عقل پر مبنی توجيہہ موجود ہے کہ عالمی برادری نے کيونکر افغان حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر ان قوتوں کے خلاف فوجی کاروائ کا آغاز کيا جو نا تو سرحدوں کی حرمت کو مانتے ہيں، نا ہی متنوع ثقافتی اقدار کا پاس رکھتے ہيں اور ديگر مذہب کے ضمن ميں عدم رواداری کے ساتھ عمومی طورپر ہر اس عنصر کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے ہيں جو ان کی وحشيانہ طرز زندگی اور مخصوص مذہبی سوچ سے ميل نا کھاتا ہو اور اس ضمن ميں وہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کی اکثريت کو بھی اسی پيرائے ميں ديکھتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
پاکستان اور سعودی عرب سميت تمام سرکردہ اسلامی ممالک کا اس ضمن ميں اتفاق رائے اور مشترکہ کاروائ پر اتفاق اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ درجنوں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے بھی اس حقيقت کا ادراک کيا ہے کہ داعش اور القائدہ جيسی عالمی دہشت گرد تنظيموں نے عالمی منظرنامے پر تشدد کی جس لہر کو متعارف کروايا ہے، اس کے سدباب کے ليے سب کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔

بالکل درست، دہشت گردی کے خلاف دنیا بھر کے ممالک کی اس جنگ کے حق میں مجھ سمیت کون نہیں ؟
اس سمت میں جتنی بین الاقوامی پیش رفت ہوئی ہے ، ایک امریکی ہونے کے ناطے میں اپنی امریکی حکومت کے دنیا میں امن قائم کرنے اور دہشت گردی ختم کرنے کے ہر قدم کی حمایت کرتا ہوں اور ایسے ہر اقدام کو سراہتا ہوں اور دہشت گردی کی مکمل مذمت کرتا ہوں۔

لیکن اس حقیقت کے پیچھے چھپ کر آپ افغان پشتونوں کا حق رائے دہی نہیں چھین سکتے اور ان کو داعش، ٹی ٹی پی یا القاعدہ قرار دے کر ان پر فوج کشی کی جائے ۔ پاکستان نے ان معصوم افغان پشتونوں کے خلاف جنگ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اور واضح کردیا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں میں ایسے تنظیمیں موجود نہیں اور جب بھی دہشت گرد سامنے آتے ہیں ان پر فوج کشی کی جاتی ہے۔


پاکستانی سرحدوں میں کہاں داعش اور القاعدہ کے اڈے ہیں؟ دنیا کو دکھائیے وہ سٹیلائٹ امیجری جس میں ایسے مقامات نظر آتے ہوں جہاں ان کے لشکر یا فوج پاکستان کی سرحدوں کے اندر موجود ہیں؟

پاکستان افغانستان میں پشتونوں کے خلاف جنگ کرنے سے منع کر چکا ہے۔
اگر امریکہ ان پشتونوں کو حق رائے دہی نہیں دیتا اور ان کو داعش، ٹی ٹی پی اور القاعدہ قرار دے کر ان کو فوجی قوت سے دبانا چاہتا ہے تو یہ امریکی ہی نہیں بلکہ عالمی اقدار کے منافی ہے اور امریکہ کا یہ قدم عالمی دہشت گردی کے مترادف ہے کہ ھق رائے دہی کو دبانے کے لئے فوج کا استعمال۔
پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ وہ پشتون افغانوں کے خلاف جنگ نہیں لڑے گا۔ اس صورت میں امریکا کو فوجی امداد بند کردینے کا حق ہے۔ لیکن پاکستانی سرحدوں میں ہر پشتونوں کو 'داعش، ٹی ٹی پی اور القاعدہ قرار دے کر ان پر فوج کشی کس طرح دہشت گردی نہیں۔ یہ امریکہ دنیا کو بالضرور سمجھائے۔

بہتر یہ ہوگا کہ افغان مہاجرین کو پاکسان سے افغانستان لے جا کر بسانے کا امریکی پرگرام سامنے لائیے۔ پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس شئیر کیجئے، ان علاقوں میں جہاں ایسے دہشت گرد عناصر کی موجودگی کا امکان ہے ، پاکستانی اور اپنے ایجنٹ داخل کیجئے تاکہ دہشت گردی کا سدباب ہوسکے۔

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ افغان حکومت ، پشتونوں کو ان کا حکومت میں جائز حق نہیں دینا چاہتی۔ اس لئے وہ اپنی ہی پشتون عوام کو جنگ کے میدان میں شکست دے کر اپنی من مانی کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے وہ پاکستان کو مدد کا الزام دیتی ہے۔ تو آپ پاکستانی سرحدوں پر آمد و رفت کے کنٹرول کے لئے کیا مدد کررہے ہیں؟ِ کیوں نہیں آپ اس خار دار باڑھ میں حصہ لیتے جو پاکستان سے آنے والے راستوں کو محدود کرے؟

کیا وجہ ہے کہ پشتون لیڈروں کے ساتھ افغان حکومت صرف جنگ کرنا چاہتی ہے، اس کا پر امن علاج نہیں نکالنا چاہتی؟ ضروری ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے کوششیں افغانستان کے سارے عوام کی نمائندگی سے شروع ہوں اوار حکومت اور فوج میں ان کو مساوی حق دیا جائے۔

پشتون عوام سے جنگ نا کرنے کا پاکستانی فیصلہ درست ہے۔ اگر افغان حکومت ، افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے پشتون عوام کو قتل کرنا چاہتی ہے تو پاکستان اس میں ایک فریق نہیں بننا چاہتا۔ اس میں کسی کو بھی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔

افغانستان میں جنگ میں پاکستانی مین پاور کو جھونکنے کی خواہش ایک فرد کے گرد گھومتتی ہے ۔ وہ ہے ٹرمپ اور خاص طور پر اس کی نائب نکی ہیلی۔ یہ دو افراد افغانستان میں جنگ کے لئے دنیا بھر کو دباؤ دے رہے ہیں ۔ اور دنیا بھر کے ممالک اس خواہش کا احترام نہیں کرتے۔ لہذا جہاں دنیا بھر کے بیشتر ممالک دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ وہاں یہ کہنا کہ وہ افغانستان میں امن کے نہییں جنگ کے حق میں ہیں بالکل درست نہیں۔

دہشت گردی کا خاتمہ کیجئے لیکن افغانستان میں جنگ جیتنے کی ٹرمپ اور نکی ہیلی کی خواشات کو دنیا بھر کی خواہش نہیں قرار دیجئے۔ ان دونوں افراد کا یہ قدم ، صرف اور صرف ان کی ذاتی انا کی تسکین تو کرسکتا ہے لیکن افغانستان میں امن نہیں قائم کرسکتا بلکہ صرف جنگ ہی مسلط کرسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

Fawad -

محفلین
پاکستان نے ان معصوم افغان پشتونوں کے خلاف جنگ کرنے سے انکار کردیا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کا يہ تاثر کہ خطے ميں ہمارا ٹارگٹ يا ہدف يہ ہے کہ پختوں يا کسی بھی اور کميونٹی کو زير عتاب لايا جائے نا صرف يہ کہ بالکل لغو ہے بلکہ ہمارے اس واضح کردہ ايجنڈے کی بھی نفی ہے جس کے مطابق ہم مختلف مسلح دھڑوں کو ترغيب دے رہے ہيں کہ ہتھيار پھينک کر تشدد کا راستہ ترک کريں اور سياسی مفاہمت کا راستہ اپنا کر ايک سياسی نظام کا حصہ بنيں اور اپنے حقوق اور مفادات کے ليے کوششيں کريں۔

امريکی وزير خارجہ ريکس ٹلرسن نے بھی اپنے حاليہ بيان ميں اسی بات پر زور ديا ہے

"ہماری وہاں موجودگی کا مقصد ہی يہ ہے کہ ہم امن مذاکرات اور مفاہمت کے عمل کے ليے راہ ہموار کريں اور اس کو يقينی بنائيں۔ وقت آ گيا ہے کہ افغانستان ميں مفاہمت اور امن معاہدے کے طويل عمل کو شروع کريں۔ يہ عمل کتنا طويل ہو گا، اس کا دارومدار زمينی حالات پر ہے۔"

عالمی دہشت گردی کے مسلئے سے نبرد آزما ہونے کے ليے مختلف سياسی نظام، مذہبی عقائد، رنگ و نسل اور جغرافيائ طور پر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی اقوام نے يکجا ہو کر متفقہ طور پر اس پرتشدد دہشت گردی کی سوچ کو مسترد کر ديا ہے جسے داعش، القائدہ، طالبان کے مسلح گروہ اور ان سے منسلک دہشت گرد تنظيميں اپنے مذموم مقاصد کے ليے استعمال کر رہی ہيں۔

ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز کبھی بھی طالبان، پختون يا کسی مخصوص قبيلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ہرگز نہيں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40 سے زائد ممالک دہشت گرد کے خلاف جاری مہم ميں نہ تو امريکہ کی حمايت کر رہے ہوتے اور نہ ہی عملی طور پر اس سارے عمل ميں شامل ہوتے۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔ ان عناصر کے خلاف متحدہ عالمی کاوشوں اور لڑائ بدستور افغانستان ميں ہمارا اہم ترين مقصد رہے گا۔

اس خطے سے ابھرنے والے دہشت گردی کے خطرات اور ان سے دنيا بھر ميں بے گناہ شہريوں کو درپيش خطرات کو پس پشت ڈالنا نہ تو ہماری حکمت عملی ہے اور نہ ہی ممکنہ پائيدار حل۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
آپ پاکستانی سرحدوں پر آمد و رفت کے کنٹرول کے لئے کیا مدد کررہے ہیں؟ِ کیوں نہیں آپ اس خار دار باڑھ میں حصہ لیتے جو پاکستان سے آنے والے راستوں کو محدود کرے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان اور پاکستان کے مابين تعاون پر مبنی تعلقات دونوں ممالک کے مستقبل کے ليے اہميت کے حامل ہيں اور امريکہ اس تعاون کو قائم رکھنے ميں ہر روز کوشاں ہے۔ ہم سب کو انھی متشدد دشمنوں کا سامنا ہے۔ ليکن ميرے ليے يہ امر حيران کن ہے کہ آپ امريکہ کو اس حوالے سے ہدف تنقيد بنا کر سوال کر رہے ہيں کہ ہم نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے ميں دہشت گردوں کی نقل وحرکت کو روکنے کے ليے موثر اقدامات نہيں کيے۔

اس ضمن ميں مئ 2017 کی ايک رپورٹ پيش ہے جس سے آپ کو ان چند اقدامات کے حوالے سے آگاہی حاصل ہو گی جو سرحدی علاقوں کو محفوظ کرنے کے ليے امريکی حکومت کی جانب سے کيے گئے ہيں۔

پاکستان کی سیکورٹی مضبوط بنانے کے لیے سرحدی چوکیوں کی تعمیر کے منصوبے کا افتتاح


اسلام آباد (۱۲ ِمئی ، ۲۰۱۷ ء)__ جنرل ہیڈ کوارٹر ز راولپنڈی میں ڈی آئی جی ایف سی خیبر پختونخواہ بریگیڈیر محمد یو سف ماجوکا اورشعبہ انسدادِمنشیات ونفاذِقانون (انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لاء انفورسمنٹ افئیرز) کی ڈائر یکٹر کیٹی اسٹا نا نے سرحدی چو کیوں کی تعمیر کے منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ڈی آئی جی ایف سی خیبر پختونخواہ نے شعبہ انسدادِمنشیات ونفاذِقانون کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امریکی سفارتخانہ کا انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لاء انفورسمنٹ افئیرز ایک عشرے سے زیادہ عرصہ سے ایف سی کے ساتھ کھڑا ہےاور پاکستان کی مغربی سرحد پر قانون نافذ کرنے والےاداروں اور عام شہریوں کےجانی نقصانات ، سرحد پاردراندازی ، اسمگلنگ اور منشیات ،اغواء برائے تاوان اور دیگرجرائم کو کم کرنے میں اعانت فراہم کر رہا ہے۔

یہ تقریب ۲۰۱۴ء میں شروع ہونے والے ایک کروڑ ڈالر لاگت کے تین سالہ منصوبے کے مکمل ہونے کی خوشی میں منعقد کی گئی جس میں پانچ کمپنی ہیڈ کوارٹرز ، تینتیس سرحدی چوکیوں کی تعمیر ، ۵۴حفاظتی چوکیوں کی تزئین و آرائش شامل تھی ۔ قبل ازیں ۵۵ لاکھ ڈالر کی لاگت سے ۵۴ سرحدی چوکیوں کی تعمیر جبکہ تیس تنصیبات کی تزئین و آرائش کی گئی۔

تقریب میں انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لاء انفورسمنٹ افئیرز اسلام آباد کی سربراہ کیٹی سٹانا نے پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد پر فر نٹیر کور کی بطور اولین دفاعی لائن کردارکی تعریف کی اور اس کے ساتھ تعاون کو قابل فخر قرار دیا ۔ کیٹی اسٹانا نے خاص طور پر شعبہ انسدادِمنشیات ونفاذِقانون کے تعاون سے چترال ، مہمند اور باجوڑ ایجنسی میں قائم سرحدی چوکیوں کا ذکر کیا جن سے ۲۰۱۴ ء سے ۲۰۱۶ء کے دوران کئی حملوں میں انسداد منشیات اور سرحد پار در اندازی روکنے میں مصروف عمل ایف سی اہلکاروں کی قیمتی جانوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملی۔

شعبہ انسدادِمنشیات ونفاذِقانون انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ رواں سال انسداد منشیات اہلکاروں کے تحفظ اور فاٹا اور پاک افغا ن سرحد پر ایف سی کی موجودگی بہتر بنانے کے لیے بلٹ پروف جیکٹس ، ہیلمٹ اور بم ڈسپوزل سوٹ کی فراہمی سمیت سازو سامان کی شکل میں پچاس لاکھ ڈالر مہیا کرے گا۔


پاکستان کی سیکورٹی مضبوط بنانے کے لیے سرحدی چوکیوں کی تعمیر کے منصوبے کا افتتاح | پاکستان میں امریکی سفارتخانہ اور قونصل خانے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top