مسلمانوں کے زوال کے اسباب ( ایک تجزیہ )

آجکل میڈیکل کے میگزین اور ڈاکٹرز فارماسوئٹیکل کمپنیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔ بہترین ڈاکٹرز آپکو کچھ کا کچھ بتا دیں گے حالانکہ وہ سچی تحقیق نہ ہو گی۔یوٹیوب تو خیر چھوڑیں بہترین لکھی گئی کتابیں تک پروپیگینڈا کا حصہ ہے۔ اس موضوع پر اگر نوم چومسکی کی manufacturing consent نظر سے نہ گزری ہو تو پڑھیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ یہ کتاب بھی ایک مخصوص دماغ تیار کرنے اور سوچنے کے لیے لکھی گئی ہو۔

اسکے علاوہ ایک تائب امریکی ڈاکٹر نے ایک ریسرچ پر مبنی کتاب selling sickness لکھی ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مواد صحیح ہے اور پروپیگینڈا کا حصہ نہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

A lot of money can be made from healthy people who believe they are sick. Pharmaceutical companies sponsor diseases and promote them to prescribers and consumers. Ray Moynihan, Iona Heath, and David Henry give examples of "disease mongering" and suggest how to prevent the growth of this practice.​
میرے ایک بہترین دوست مجھ سے محض اس لیےدور ہوگئے تھے کہ انھوں نے پیپسی سے متعلق ایک پروپیگنڈا میسج مجھے فارورڈ کیا، میں نے تصدیق مانگی تو معاملہ بگڑتا چلاگیا ۔ جتنا میں نے انھیں سمجھایا کہ یہ مختلف ایک دوسرے کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے کبھی سور کے گوشت اور کبھی سور کے خون کا واویلا کرتی ہیں،اتنی ہی انھیں اپنی علمیت کی فرعونیت نے مجھ سے دور کیا۔ عرصہ ہوا کبھی بات کی کوشش بھی کی تو وہ جواب نہیں دیتے ۔
 
یہ تو کوئی دلیل نا ہوئی میری بہن ۔ہوسکتا ہے مرغی میں کوئی بیماری ہو جو گوشت پکانے کے بعدخراب ہو گیا ۔مگر آپ اس کو حرام نہیں بول سکتی ۔حرام اور خراب ہونے میں فرق ہے ۔
مرغی تو ایک طرف۔۔۔ ایک بار میں بقلم خود مرغے کا گوشت لایا مجھے نجانے کیوں روٹین سے زیادہ سرخ لگا بیگم نے پکا لیا اور اس میں کیڑے نہ پڑے پھر بھی کھانے کو جی نہ چاہا۔ ہم نے بیچاری بلی کو دے دیا کہ آج وہ دعوت منائے :)
 

سید رافع

محفلین
میرے ایک بہترین دوست مجھ سے محض اس لیےدور ہوگئے تھے کہ انھوں نے پیپسی سے متعلق ایک پروپیگنڈا میسج مجھے فارورڈ کیا، میں نے تصدیق مانگی تو معاملہ بگڑتا چلاگیا ۔ جتنا میں نے انھیں سمجھایا کہ یہ مختلف ایک دوسرے کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے کبھی سور کے گوشت اور کبھی سور کے خون کا واویلا کرتی ہیں،اتنی ہی انھیں اپنی علمیت کی فرعونیت نے مجھ سے دور کیا۔ عرصہ ہوا کبھی بات کی کوشش بھی کی تو وہ جواب نہیں دیتے ۔

دونوں صورتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اچھی چھان پھٹک کے باوجود چوک ممکن ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
مذہب کو ، سوسائٹی میں ایک Dividing Fector کے طور پر سامنے لایا گیا ۔ اگر ہم اسلامی تحریکوں کو دیکھیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اعتدال پسندی ، روشن خیالی اور انتہا پسندی کے لحاظ سے معاشرہ تقسیم ہوا ہے ۔ اس تناظر میں سوال یہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا اسلام کے نام پر بیداری کی جو تحریکیں دنیا میں اٹھیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کرنےکا کام انجام دیا ۔ ؟
یہ بات واضع ہے کہ بعض تحریکوں نے معاشرے میں اپنے عقائد کے لحاظ سے سماجی اصلاحی کام بھی کیئے مگر مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ریاست سے کہتے ہیں کہ وہ اسلام نافذ کرے ۔ چناچہ اس طرح عقیدے کا تعلق طاقت سے منسلک ہوجاتا ہے ۔ اور پھر ایک نیا مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ کونسا فقہ سامنے آئے گا ۔ اور اس طرح گروہ بندی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح آج عراق کو دیکھیں ۔ وہاں مسئلہ عقائد کا نہیں ہے ۔ عقائد تو بہت پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ مسئلہ سیاسی طاقت کا ہے ۔ جب آپ اپنی Community کو Mobilized کرتے ہیں تو اسے ایک خاس قسم کی شناخت بھی دیتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہے ۔
ہمارے مذہب کا آغاز جس دور میں ہوا وہ ایک قبائلی معاشرہ تھا ۔ اور جب وہ قبائلی معاشرہ آگے بڑھا تو اس کا ٹکراؤ دنیا کی کُھلی تہذیبوں سے ہوا ۔ چناچہ پھر ہر چیز کی شکل ہی بدل گئی ۔ سوچنے کے انداز بھی بدل گئے ۔ جن چار ، پانچ ارکان پر مذہب کی بنیاد تھی جس پر سادہ سی قبائلی سوسائٹی چل رہی تھی ۔ اُس کی بھی وہ شکل نہ رہ سکی ۔ فلسفہ ، علم ، نظریات ، توجیحات ، تشریحات یہ سب بعد کی پیداوار ہے ۔ چناچہ جب آپ کا واسطہ دنیا کی بڑی تہذیبوں سے پڑا تو ہم دوبارہ پیچھے جانے کی طرف لوٹ آئے ۔ اور ان چیزوں کے ساتھ ہماری ریاست اور نظام تو وہی رہے مگر دنیا کی ریاستیں اور نظام ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ وہ سارے فارمولے جو قبائلی معاشرے استعمال کرتے تھے ۔ وہ نہ تو بادشاہوں کے زمانے میں استعمال ہوسکے ۔اور نہ آج کے جدید دور میں جہاں دنیا کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پروڈکشن ہو رہی ہے ۔ دنیا کے نظام کسی اور ہی طریقے سے چلتے ہیں ۔ اس کے جوابات آپ کو دینے پڑتے ہیں ۔ یہ جوابات آپ مذہب میں نہیں دیں گے ۔ یہ آپ اکنامکس میں دیں گے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دیں گے ۔ جو ہم نہیں دیتے یا یوں کہہ لیں کہ جو ہم نہیں دے سکتے ۔
اگر خیال یہ ہے کہ کسی ریاست کا نظریات اور خیالات کے لحاظ سے ایک Frames Of Reference ہوتا ہے تو پھر یہ درست ہے ۔ مگر جب آپ اس Frames Of Reference سے ایسی چیزیں بناتے ہیں ۔ جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ قائمتہ الذات ہے ۔ یہ بدل نہیں سکتی ۔ اور اس کو آپ اپنے تجربے کی روشنی میں بھی بدل نہیں سکتے اور یہ حکم ہے اور جو اس سے ہٹے گا وہ قابلِ گردنِ زد ٹہرے گا ۔ تو بات یہاں تک آجاتی ہے ۔ آپ دیکھیں کہ مغرب کے سیکولر سسٹم میں بھی گذشتہ چار صدیوں میں کئی تبدیلیاں آچکیں ہیں ۔ اور اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے United Nations Charter بنادیا اور اس میں دائیں بازو، بائیں بازو ، مسلم ، عسیائی ، یہودی ، ہندو ، بدھ مت سبھی نے دستخط کردیئے ۔ اور دیکھیں کہ یہ Charter ہے کیا ۔ ؟ یہ بھی سیکولر ہے ۔
لہذا مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ریاست کا مذہب سے کیا تعلق ہونا چاہیئے ۔ موجودہ ریاست کا جو نظام ہے وہ صرف مذہب کے حوالے سے دیکھا نہیں جاسکتا ۔ بلکہ اس کی جو پہچان ہے وہ شہریت ہے ۔ اور اس میں سب برابر کا حق رکھتے ہیں ۔ اسی حوالے سے اسپین کو دیکھیں تو وہ ایک Empire تھا، کوئی اسلامی ریاست نہیں تھی ۔ جس میں یہودی ، مسلم اور عیسائی سب اکٹھے رہتے تھے ۔ اسی طرح Ottoman Empire میں بھی یہی کچھ تھا ۔ اور ہمارے ہاں مغل ایمپائر میں یہی کچھ صورتحال تھی ۔ اسی طرح آج پاکستان میں دیکھیں جو کہ مسلم اکثریت کی ریاست ہے ۔ اب آپ ریاست کا مذہب لکھیں یا نہ لکھیں ۔ لیکن جب مسلمان اسمبلیوں میں بیٹھیں گے تو ان کا اپنا ایک Frames Of Reference ہوگا ۔ اسی کے بنیاد پر وہ آئین بناکر اس کو پرکھتے رہیں گے ۔ جوں جوں ان کا تجربہ بڑھتا رہے گا ۔ اسی طرح وہ اپنے خیالات میں بھی تبدیلیاں لاتے رہیں گے ۔ لیکن جب آپ ایک چیز Fixed کردیتے ہیں تو یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ کس کا اسلام ، کونسا فرقہ ، کونسا مسلک ، اور پھر اس کے بعد آپ آپس میں لڑنا شروع کردیتے ہیں ۔

( جاری ہے )

یہ کب مکمل ہوگا؟
 

زیک

مسافر
اصل موضوع کی جانب واپس آتے ہوئے :

مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر تحریر ممکن نہیں کہ زوال مختلف جگہوں، وقتوں اور معاشروں کا تھا نہ کہ مسلمانوں کا
 

سید عمران

محفلین
اصل موضوع کی جانب واپس آتے ہوئے :

مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر تحریر ممکن نہیں کہ زوال مختلف جگہوں، وقتوں اور معاشروں کا تھا نہ کہ مسلمانوں کا
اگر ان جگہوں، وقتوں اور معاشروں میں مسلمان تھے تو یہ زوال ان ہی کا ہوا!!!
 

ظفری

لائبریرین
مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں یہ نری مرغی کہاں سے آگئی ہے ۔مجھے تو لگتا ہے کہ اگر یہ مرغی نہ ہوتی تو آج مسلمان دنیا پر حکومت کر رہے ہوتے۔ کمبخت یہود و نصاریٰ کی مرغی کی سازش نے مسلمانوں کو اس حال تک پہنچا دیا ہے ۔ :D
 

م حمزہ

محفلین
مسلمانوں کی اسلام سے دوری کی اصل وجہ ‘انتہائی حیران کن اور قابل غور
عراق پر امریکی حملے کے دوران بغداد کی ایک قدیم عمارت بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد شہر کی صفائی شروع ہوئی تو اس عمارت کا ملبہ ہٹاتے ہوئے گہرائی سے ایک قدیم عمارت کے آثار دریافت ہوئے۔ یہ کسی درس گاہ کے آثار تھے۔ وہاں سے ایک قدیم قلمی نسخہ مکمل حالت میں دستیاب ہوا جس کا نام “تحفۃ الاغانی” تھا۔ مصنف کا نام عبداللہ بن طاہر البغدادی رضوی تھا۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف عالم دین اور صوفی تھے۔ یہ کتاب ان کے کشف پر مبنی پیشینگوئیوں پر مبنی ہے۔ اس میں ایک باب خاص طور پر ہند یعنی ہندوستان کے بارے میں ہے۔ اس میں حضرت لکھتے ہیں کہ ہند کے کچھ علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی لیکن ایک طویل عرصہ تک یہ ملک افراتفری اور بے چینی کا شکار رہے گا۔ اس کی جو وجہ اس کتاب میں بیان کی گئی وہ بہت ہولناک ہے۔ حضرت لکھتے ہیں کہ اس علاقے کے مسلمان خنزیر نما خوراک کھانے کے عادی ہوں گے اور یہی سبب ہوگا کہ وہ بتدریج دین سے دور ہوتے جائیں گے۔ یہ بہت عجیب بات تھی کیونکہ پاکستان میں لوگ بظاہر ایسی کوئی چیز نہیں کھاتے۔ 2011 میں یونیورسٹی آف مشیگن کے پروفیسر سٹورٹ جونز جو ڈپارٹمنٹ آف بائیو ٹکنولوجی کےسربراہ ہیں، انہوں نے اپنی ریسرچ میں ثابت کیا کہ برائلر چکن اور خنزیر کے گوشت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ برائلر جس ٹیکنالوجی سے پیدا کیا گیا اس میں خنزیر کے ماڈل کو ہی فالو کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے سامنے آتے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹر جونز کو نفسیاتی مریض قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں ڈال دیا گیا۔ نومبر 2015 میں ڈاکٹر سٹورٹ جونز کا اسی ہسپتال میں پراسرار حالات میں انتقال ہوگیا۔ اگر یہ تحقیق منظر عام پر آجاتی تو مغرب کی ملٹی بلین ڈالر برائلر چکن انڈسٹری تباہ ہوجاتی۔ اس انڈسٹری کے بَل پر انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹس کو جیسے ارب پتی کیا، وہ سلسلہ بھی ختم ہوجاتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان حرام گوشت کھا کے جن روحانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اس سے نجات مل جاتی۔انہی دنوں تل ابیب یونیورسٹی میں کدّو کے خواص پر ایک ریسرچ پیش کی گئی۔
ڈاکٹر موشےڈیوڈ جو پولینڈ سے ہجرت کرکے اسرائیل میں آئے تھے، وہ پچھلے بائیس برس سے کدّو کے خواص پر تحقیق کررہے تھے۔ 2014 کے موسم گرما میں یہ تحقیق مکمل کرکے یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں پیش کی گئی۔ اس ریسرچ پیپر میں یہ انکشاف کیا گیا کہ کدّو ایک ایسی مکمل غذا ہے جس کی مثال کسی اور غذا میں نہیں ملتی۔ اگر ایک انسان روزانہ دو وقت کدّو کھائے تو اس کی غذائی ضروریات بالکل پوری ہوجاتی ہیں۔ کدّو میں ایسے اجزاء شامل ہیں جو انسان کو ہر قسم کی بیماری سے بچا لیتے ہیں۔ کینسر اور ایڈز کے مریضوں کو تجرباتی طور پر ایک مہینہ کدّو کھلائے گئے تو وہ بالکل بھلے چنگے ہوگئے۔ کدّو کے جوہر سے ہر قسم کی بیماری کے علاج کی ویکسین تیار کرنے کا تجربہ بھی کیا گیا اور نتائج حیران کن تھے۔ کسی بھی بیماری کے آخری سٹیج کے مریض کو بھی کدّو ویکسین لگائی گئی تو وہ ایک دن کے اندر پوری طرح صحت مند ہوگیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر موشے ڈیوڈ کو بھی اس کے بعد منظر عام سے غائب کردیا گیا۔ تل ابیب ٹائمز میں ڈاکٹر ڈیوڈ کی بیوی مارشا ڈیوڈ کا انٹرویو بھی چھپا جس میں انہوں نے اپنے خاوند کی پراسرار گمشدگی پر سوالات اٹھائے اور اس کا تعلق ان کی ریسرچ سے جوڑتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اصل حقائق کو سامنے لایا جائے۔ یہ معاملہ بھی بعد میں وقت کی گرد میں گم ہوگیا۔ اس ریسرچ کو اگر آفیشلی طور پر سامنے لایا جاتا تو اسلام کی حقّانیت کھل کر پوری دنیا کے سامنے واضح ہوجاتی اور یہود و ہنود کا کفر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا۔درج بالا دو واقعات سے ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے کہ وہ اس تحریر کو شئیر کرے اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو حرام کھانے سے بچائے اور کدّو کے فوائد سے رو شناس کرائے۔ جزاکم اللہ
https://bit.ly/2vOf9KV
کیا قرآن یا حدیث مین کہیں آیا ہے کہ مسلمانوں پر کدو کھانا لازم ہے؟ لازم کی بات چھوڑیں، کدو کی افضلیت کے بارے میں چند احادیث ہی شئیر کریں تو آپ کو ثواب ملے گا ۔
 

م حمزہ

محفلین
میرے ایک بہترین دوست مجھ سے محض اس لیےدور ہوگئے تھے کہ انھوں نے پیپسی سے متعلق ایک پروپیگنڈا میسج مجھے فارورڈ کیا، میں نے تصدیق مانگی تو معاملہ بگڑتا چلاگیا ۔ جتنا میں نے انھیں سمجھایا کہ یہ مختلف ایک دوسرے کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے کبھی سور کے گوشت اور کبھی سور کے خون کا واویلا کرتی ہیں،اتنی ہی انھیں اپنی علمیت کی فرعونیت نے مجھ سے دور کیا۔ عرصہ ہوا کبھی بات کی کوشش بھی کی تو وہ جواب نہیں دیتے ۔
افسوناک کا آپشن نہیں ہے۔ اسلئے غمناک سے کام چلانا پڑا۔
 

م حمزہ

محفلین
اصل موضوع کی جانب واپس آتے ہوئے :

مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر تحریر ممکن نہیں کہ زوال مختلف جگہوں، وقتوں اور معاشروں کا تھا نہ کہ مسلمانوں کا
اس موضوع پر"انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" ( ابوالحسن علی ندوی) کا مطالعہ کافی حد تک مفید ہے
 
Top