مسلمانوں کو کرسمس منانا چاہئے

عسکری

معطل
وکی انسائکلوپیڈیا ہے۔ وہاں تمام اچھی اچھی سائٹس کے لنکس حوالوں کیساتھ دیئے جاتے ہیں۔ وکی کی یہی خوبی ہے کہ اسکے تمام مضامین بہت حد تک غیر جانبدارانہ ہوتے ہیں۔ وہاں آپکو اپنی مرضی کے مطابق اینٹریاں کرنے اور تاریخ و حقائق مسخ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ایسا نہیں ہے وہاں بھی دن رات متّصب بندے حقائق مسخ کرتے یا اپنے مطلب کی تاریخ لکھتے ہیں ۔ ہاں جن چیزوں کا کسی سے کوئی تعلق نہیں وہ وکی سے لی جا سکتی ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
برادران عزیز ایک سنجیدہ گفتگو میں مزاح/مذاق شامل کرنے سے پرہیز کریں۔
امید ہے تعاون فرمائیں گے۔
 
برادران عزیز ایک سنجیدہ گفتگو میں مزاح/مذاق شامل کرنے سے پرہیز کریں۔
امید ہے تعاون فرمائیں گے۔
شمشاد بھائی یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے ہی نہیں۔
قرآن پاک اور احادیث میں واضح طور پر ممانعت ہے کسی دوسرے کی مذہبی رسومات کو اپنانے یا شامل ہونے کی۔
اب بھلے آپ اپنے طور پر کچھ بھی وجہ تراش لیں اپنے دل کو تسلی دینے کے واسطے۔ حقیقت کو ٹالا نہیں جاسکتا۔
مجھے نہ ہی کرسمس اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے کسی تہوار کو منانے میں دلچسپی ہے۔۔:)
اور نہ ہی کسی دوسرے مسلمان کو ایسا کرنا چاہیے۔۔
 
اور ویسے بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں دنیا میں۔
سال کے 365 دنوں میں یقیناََ ہر دن کسی نا کسی کا یوم پیدائش ہوگا۔
تو پھر ہمیں روزانہ عید منانی چاہیے ۔:)
 

ابو کاشان

محفلین
نایاب بھائی!
اگر آپ کو متذکرہ بالا الجھن کے سلسلہ میں ”حق‘ کی حقیقی تلاش ہے تو آپ کبھی نہ کبھی اس بات کی تہہ تک ضرور پہنچ جائیں گے کہ آپ کے ”غیر مسلم دوستوں“ کا نظریہ باطل ہے اور ”حق“ اس کے برعکس ہے۔ تھوڑی سی کوشش میں کرتا ہوں، اگر آپ مطمئن ہوگئے تو فبہا، ورنہ آپ تلاش حق کی کوشش جاری رکھئے گا۔ اللہ حق کے متلاشیوں کو کبھی نامراد نہیں کرتا۔
  1. سب سے پہلے تو یہ دل سے تسلیم کر لیجئے کہ صرف اور صرف ”اسلام“ ہی بر حق ہے اور اس کے علاوہ تمام ادیان ”باطل“۔ صرف اسلام پاک صاف ہے اور باقی ادیان ناپاک اور پلید (یہاں دینی پاکی و ناپاکی کی بات ہورہی ہے، میڈیکل ہائی جینک وغیرہ کی نہیں)
  2. پھر اس بات کو بھی جان لیجئے کہ جب کبھی بھی پاک صاف اور گندی و ناپاک اشیاء کا باہم ملاپ ہوتا ہے تو نقصان صرف پاک صاف اشیاء کا ہوتا ہے کہ یہ کسی نہ کسی حد تک گندگی سے آلودہ ہوجاتی ہیں۔ گندی اور ناپاک اشیاء کا پاک صاف اشیاء سے ملاپ سے کبھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اگر آپ دودھ سے بھری بالٹی لے کر آ رہےاور سامنے سے آپ کا کوئی آشنا مہترگٹر کے پانی کی بالٹی لئے آرہا ہو تو ذرا غور کیجئے کہ آپ اپنے دودھ کی بالٹی کی کیسی ”حفاظت“ کریں گے۔ اگر آپ کو مہتر سے ہیلو ہائے کرنی ہو، اس کی خیریت پوچھنی ہو، اس کی مدد کرنے کے لئے اسے پیسے دینے ہوں تب بھی یہ سب ”نیک کام“ کرتے ہوئے، آپ مہتر سے ایک فاصلہ برقرار رکھیں گے۔ اُس سے مصافحہ اور معانقہ سے ”پرہیز“ ہی کریں گے۔ خواہ مہتر اپنے ”بلند اخلاق“ کی بدولت آپ سے ہاتھ ملانا اور گلے ملنا ہی کیوں نہ چاہے۔ یا ”شاہ صاحب کی عقیدت“ میں ایک ہاتھ میں غلاظت کی بالٹی پکڑے، دوسرے ہاتھ سے آپ کے ہاتھوں کو پکڑ کر چومنا ہی کیوں نہ چاہے۔۔۔ ۔ آپ ہر صورت میں اپنی بالٹی اور اپنے پاک جسم کو اس کی بالٹی اور اس کے جسم سے دور ہی رکھنا پسند کریں گے، اگر آپ کو پاکی ناپاکی کا صحیح ادراک ہے تو۔ ورنہ آپ کی جگہ کوئی نادان بچہ ہوا تو شاید وہ اپنے ہم عصر یا ہم جماعت مہتر سے بے تکلفی سے بھی مل سکتا ہے اور اپنی دودھ کی بالٹی میں ناپاکی کے چند قطرے بھی گر وا سکتا ہے۔ جس سے بظاہر تو دودھ کے رنگ و ذائقہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ لیکن اگر کسی نے اس دودھ میں غلاظت کے چند قطرے گرتا ہوا دیکھ لیا تو وہ اس دودھ کو کبھی استعمال نہیں کرے گا
  3. تو کیا پاک صاف دودھ کا ”ایمان“ اتنا ”کمزور“ ہوتا ہے کہ ناپاک گٹر کے پانی کے چند قطروں سے ہی ناپاک ہوجائے۔ اور گٹر کے پانی کا ”ایمان“ اتنا ”مضبوط“ ہوتا ہے کہ دودھ کے قطروں کی ملاوٹ سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟؟؟ اسلامی ایمان بھی صاف و شفاف دودھ کی طر ح اُجلا اور پاک ہوتا ہے۔ اسے باطل غلیظ عقائد والے کفریہ ادیان سے خلط ملط ہونے سے اسی طرح بچانا چاہئے۔ یاد رکھئے دنیا میں صرف دو ہی ادیان ہیں ایک اسلام اور دوسرا کفر۔۔ گوکفر کے بہت سے نام ہیں۔
  4. آپ کو یقیناََ یہ یاد ہوگا کہ مشرکین مکہ نے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ”مصالحانہ آفر“ بھی دی تھی کہ آپ ہمارے خداؤں کی بھی آپ عبادت کریں اور وہ اس کے جواب میں اللہ کی بھی عبادت کریں۔ اس طرح ”جھگڑا“ ہی ختم ہوجائے گا۔ اسی آفر کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ کافرون نازل کی تھی کہ لکم دینکم و لی دین
  5. اسلام کفار سے میل جول سے منع نہیں کرتا۔ ان سے حسن سلوک کی تو تعلیم دیتا ہے۔ البتہ ان کے شرکیہ تہوار، عقائد و اعمال سے حتی الامکان بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ باقی معمولات دنیوی میں ہم اپنے تمام غیر مسلم ساتھیوں سے گھل مل بھی سکتے ہیں، ان کی خوشی غمی میں شرکت بھی کرسکتے ہیں، ان کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کا غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ نہیں کھا سکتے، ان کی شرکیہ نیاز پرساد وغیرہ نہیں کھا سکتے۔ ہماری ایک ماسی عیسائی تھی۔ وہ ہمارے گھر سب کچھ کھاتی پیتی تھی۔ بقرعید میں جب ہم نے گوشت اسے دیا تو کہنے لگی، ہم قربانی کا گوشت نہیں کھاتے۔ گویا اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے والے اگر غیر مسلم بھی ہوں تو وہ مسلمانوں کے ”مذہبی معاملات“ سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور جو اپنے دین سے دور ہوتا ہے (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم) وہ دیگر ادیان سے خلط ملط ہونے کو بُرا ہی نہیں جانتا
واللہ اعلم بالصواب
میں نے اپنے پانچ سالہ محفلیں دور میں ایسی جامع پوسٹ نہیں پڑھی۔ ذبردست بھائی۔
 

نایاب

لائبریرین
میرے محترم صاحب علم بھائیو آپ سب سے گزارش ہے کہ مجھے اس سوال کے مدلل جواب کی بہت شدت سے تلاش ہے ۔
کیونکہ مجھے اس مسلے پر اکثر ہی اپنے غیر مسلم دوستوں سے یہ سننا پڑجاتا ہے کہ " مسلمان " کا ایمان ہی کمزور ہے ۔ اور مسلمان کو اکثر ہی اپنے ایمان کی فکر رہتی ہے ۔ جبکہ ہم غیر مسلموں کا عقیدہ و ایمان اتنا مضبوط ہے کہ ہم بلا جھجھک مسلمانوں کے ساتھ سحری افطاری بناتے کھاتے اور دیگر مسلمانوں کے فرقہ وارانہ خاص دنوں کو مناتے مبارک باد دیتے مٹھائی کھاتے کھلاتے ہیں ۔ مگر کبھی ہمیں اپنے عقیدے و ایمان پر شک نہیں ہوا ۔۔۔ ۔۔ کیا مسلمانوں کو اپنے عقائد پر اتنا بھی یقین نہیں ۔ ؟ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمان ہر لمحہ اپنی جس مقدس کتاب کو اس یقین کے ساتھ دلوں میں بسائے پھرتے ہیں کہ اس کتاب کی حفاظت ہمارا اللہ کر رہا ہے ۔ وہ مسلمان اپنے ایمان کو کچھ دھاگے کی صورت خیال کرتے ہیں ۔
مجھے یقین ہے کہ کوئی محترم بھائی مجھے اس سوال کے شافی جواب سے آگاہ فرماتے دعاؤں میں شریک ٹھہرے گا ۔
یہ کوئی فخر یا غرور کا اظہار نہیں یہ تو مجھ جیسے گناہگار سیاہکار بے داڑھی والے مشہورعام فراڈیئے پر اللہ سچے کا کرم ہوا کہ میری ذات کچھ غیر مسلموں کے لیئے ہدایت کی راہ پر آنے کا سبب بنی ۔ اور میرا ان کے ساتھ میل جول خوشی و غم میں شراکت کی مجالس ان کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا کرگئیں ۔ اور جستجو کرتے کلام پاک کے ترجمے کو سمجھتے اپنی مقدس کتابوں میں بیان کیئے گئے " افراط و تفریط" سے آگاہ ہوئے ۔ اور ہدایت کی راہ پر آئے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اور رہے میرے مسلمان دوست ان کے ساتھ میرا میل جول خوشی و غم میں شراکت کی مجالس " سنی و شیعہ " اور دیگر فرقوں کا دفاع کرتے ہی گزر جاتی ہیں ۔ نہ کوئی سنی شیعہ ہوا نہ ہی کوئی شیعہ سنی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ بلکہ میں جو اپنے زعم میں اتحاد کا علمبردار تھا " بے پیندے کا لوٹا " قرار پایا ۔۔ اور مسلمان بھائیوں پر میری عملی و قولی تبلیغ سراسر وقت کا نقصان ٹھہری ۔
نایاب بھائی!
اگر آپ کو متذکرہ بالا الجھن کے سلسلہ میں ”حق‘ کی حقیقی تلاش ہے تو آپ کبھی نہ کبھی اس بات کی تہہ تک ضرور پہنچ جائیں گے کہ آپ کے ”غیر مسلم دوستوں“ کا نظریہ باطل ہے اور ”حق“ اس کے برعکس ہے۔ تھوڑی سی کوشش میں کرتا ہوں، اگر آپ مطمئن ہوگئے تو فبہا، ورنہ آپ تلاش حق کی کوشش جاری رکھئے گا۔ اللہ حق کے متلاشیوں کو کبھی نامراد نہیں کرتا۔
سب سے پہلے تو یہ دل سے تسلیم کر لیجئے کہ صرف اور صرف ”اسلام“ ہی بر حق ہے اور اس کے علاوہ تمام ادیان ”باطل“۔ صرف اسلام پاک صاف ہے اور باقی ادیان ناپاک اور پلید (یہاں دینی پاکی و ناپاکی کی بات ہورہی ہے، میڈیکل ہائی جینک وغیرہ کی نہیں)
پھر اس بات کو بھی جان لیجئے کہ جب کبھی بھی پاک صاف اور گندی و ناپاک اشیاء کا باہم ملاپ ہوتا ہے تو نقصان صرف پاک صاف اشیاء کا ہوتا ہے کہ یہ کسی نہ کسی حد تک گندگی سے آلودہ ہوجاتی ہیں۔ گندی اور ناپاک اشیاء کا پاک صاف اشیاء سے ملاپ سے کبھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اگر آپ دودھ سے بھری بالٹی لے کر آ رہےاور سامنے سے آپ کا کوئی آشنا مہترگٹر کے پانی کی بالٹی لئے آرہا ہو تو ذرا غور کیجئے کہ آپ اپنے دودھ کی بالٹی کی کیسی ”حفاظت“ کریں گے۔ اگر آپ کو مہتر سے ہیلو ہائے کرنی ہو، اس کی خیریت پوچھنی ہو، اس کی مدد کرنے کے لئے اسے پیسے دینے ہوں تب بھی یہ سب ”نیک کام“ کرتے ہوئے، آپ مہتر سے ایک فاصلہ برقرار رکھیں گے۔ اُس سے مصافحہ اور معانقہ سے ”پرہیز“ ہی کریں گے۔ خواہ مہتر اپنے ”بلند اخلاق“ کی بدولت آپ سے ہاتھ ملانا اور گلے ملنا ہی کیوں نہ چاہے۔ یا ”شاہ صاحب کی عقیدت“ میں ایک ہاتھ میں غلاظت کی بالٹی پکڑے، دوسرے ہاتھ سے آپ کے ہاتھوں کو پکڑ کر چومنا ہی کیوں نہ چاہے۔۔۔ ۔ آپ ہر صورت میں اپنی بالٹی اور اپنے پاک جسم کو اس کی بالٹی اور اس کے جسم سے دور ہی رکھنا پسند کریں گے، اگر آپ کو پاکی ناپاکی کا صحیح ادراک ہے تو۔ ورنہ آپ کی جگہ کوئی نادان بچہ ہوا تو شاید وہ اپنے ہم عصر یا ہم جماعت مہتر سے بے تکلفی سے بھی مل سکتا ہے اور اپنی دودھ کی بالٹی میں ناپاکی کے چند قطرے بھی گر وا سکتا ہے۔ جس سے بظاہر تو دودھ کے رنگ و ذائقہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ لیکن اگر کسی نے اس دودھ میں غلاظت کے چند قطرے گرتا ہوا دیکھ لیا تو وہ اس دودھ کو کبھی استعمال نہیں کرے گا
تو کیا پاک صاف دودھ کا ”ایمان“ اتنا ”کمزور“ ہوتا ہے کہ ناپاک گٹر کے پانی کے چند قطروں سے ہی ناپاک ہوجائے۔ اور گٹر کے پانی کا ”ایمان“ اتنا ”مضبوط“ ہوتا ہے کہ دودھ کے قطروں کی ملاوٹ سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟؟؟ اسلامی ایمان بھی صاف و شفاف دودھ کی طر ح اُجلا اور پاک ہوتا ہے۔ اسے باطل غلیظ عقائد والے کفریہ ادیان سے خلط ملط ہونے سے اسی طرح بچانا چاہئے۔ یاد رکھئے دنیا میں صرف دو ہی ادیان ہیں ایک اسلام اور دوسرا کفر۔۔ گوکفر کے بہت سے نام ہیں۔
آپ کو یقیناََ یہ یاد ہوگا کہ مشرکین مکہ نے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ”مصالحانہ آفر“ بھی دی تھی کہ آپ ہمارے خداؤں کی بھی آپ عبادت کریں اور وہ اس کے جواب میں اللہ کی بھی عبادت کریں۔ اس طرح ”جھگڑا“ ہی ختم ہوجائے گا۔ اسی آفر کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ کافرون نازل کی تھی کہ لکم دینکم و لی دین
اسلام کفار سے میل جول سے منع نہیں کرتا۔ ان سے حسن سلوک کی تو تعلیم دیتا ہے۔ البتہ ان کے شرکیہ تہوار، عقائد و اعمال سے حتی الامکان بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ باقی معمولات دنیوی میں ہم اپنے تمام غیر مسلم ساتھیوں سے گھل مل بھی سکتے ہیں، ان کی خوشی غمی میں شرکت بھی کرسکتے ہیں، ان کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کا غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ نہیں کھا سکتے، ان کی شرکیہ نیاز پرساد وغیرہ نہیں کھا سکتے۔ ہماری ایک ماسی عیسائی تھی۔ وہ ہمارے گھر سب کچھ کھاتی پیتی تھی۔ بقرعید میں جب ہم نے گوشت اسے دیا تو کہنے لگی، ہم قربانی کا گوشت نہیں کھاتے۔ گویا اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے والے اگر غیر مسلم بھی ہوں تو وہ مسلمانوں کے ”مذہبی معاملات“ سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور جو اپنے دین سے دور ہوتا ہے (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم) وہ دیگر ادیان سے خلط ملط ہونے کو بُرا ہی نہیں جانتا
واللہ اعلم بالصواب
میرے محترم بھائی گزارش ہے کہ آپ میری الجھن کو سمجھ ہی نہ سکے ۔ آپ مجھے تلقین کرنے لگے کہ
"سب سے پہلے تو یہ دل سے تسلیم کر لیجئے کہ صرف اور صرف ”اسلام“ ہی بر حق ہے اور اس کے علاوہ تمام ادیان ”باطل“۔ صرف اسلام پاک صاف ہے اور باقی ادیان ناپاک اور پلید "
میرے بھائی اعتراضات غیر مسلمین کی جانب سے ہیں جو کہ قران پاک سمیت کسی بھی حدیث و روایت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ انہیں کس دلیل سے قائل کیا جائے کہ وہ یہ تسلیم کر لیں کہ اسلام ہی حق ہے اور باقی سب دین باطل ۔؟
اگر باقی سب دین " ناپاک و پلید " ہیں تو سابقہ کتب پر اک مسلمان کا یقین رکھنا کس درجے میں ہوگا ۔ ؟

پاک صاف اور ناپاک اشیاء کا آپس میں ملنا جلنا ۔ اور نقصان صرف پاک کا ہونا ۔
تو ناپاک و حرام شئے سے بھرا مٹکا اک پیالہ حلال شئے کے ملانے سے کیسے شراب سے بدل سرکہ بن پاک صاف قرار پایا ۔ ؟
کسی مہتر سے گلے ملنا معانقہ کرنا ہاتھ ملانا ان سب عوامل میں احتیاط میری ذمہ داری ہے ۔ اگر مہتر بظاہر صاف ستھرے کپڑے پہنے اور کسی بھی ظاہری گندگی سے دور نظر آئے ۔ تو مجھے ذاتی طور پر اس سے معانقہ کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ ہوگا ۔
اور اگر میرا سگا بھائی گندے غلیظ کپڑوں میں جس پر ناپاکی کے واضح آثار ہوں میرے سامنے آئے تو مجھے اس سے ہاتھ ملانا بھی ناگوار محسوس ہوگا ۔
اور جہاں تک اس آیت " لکم دینکم ولی دین " کی دلیل دی آپ نے تو میرے بھائی یہ اس وقت کا بہترین جواب ہے جب کوئی غیر مسلم مجھے اپنے عقیدے کی تعلیم دینے کی کوشش کرے یا پھر مجھے قائل کرنا چاہے ۔
آپس کی بات کہ " میرے کچھ غیر مسلم ستم ظریف دوستوں نے میری تبلیغ کے جواب میں یہی آیت سنا کر خاموش ہونے پر مجبور کر دیا کہ " آپ کی پاک کتاب ہی یہ آزادی دیتی ہے کہ " تمہارے لیئے تمہارا دین میرے لیئے میرا دین "

دودھ میں گٹر کے قطرے والی دلیل بہت بودی ٹھہرتی ہے ۔ الا یہ کہ ہم ایمان کو اک مادی شئے سمجھیں ۔
ایمان کسی دھاگے یا لکڑی کے ڈنڈے کی مثال کوئی مادی شئے نہیں ہے جو کہ اتنی آسانی سے ٹوٹ جائے ۔
ایمان ہمارے دل دماغ ہمارے ضمیر ہماری روح میں غیر مرئی صورت میں عمل پذیر رہتے ہمارے جسمانی افعال کی بنیاد ٹھہرتا ہے ۔
یہ ایمان قائم ہے اس سچی ذات اللہ علیم الخبیر کی وحدانیت اور ہر طرح کی قدرت رکھنے پر قادر ہستی پر
جو نیتوں کو ابھرنے سے پہلے جان جاتی ہے ۔ نیتوں اور اعمال میں فرق وہ ذات بخوبی جانتی ہے ۔ پھر ہمیں سچی نیت کے ساتھ
غیر مسلموں کے ساتھ ملتے جلتے انہیں اپنے کردار سے متاثر کرتے راہ ہدایت کی جانب بلانے میں ہمارا ایمان کہاں اور کیسے خراب ہوگا ۔

آپ بذات خود تسلیم کر رہے ہیں کہ
اسلام کفار سے میل جول سے منع نہیں کرتا۔ ان سے حسن سلوک کی تو تعلیم دیتا ہے۔
غیر اللہ کے نام پر ہوا ذبیحہ کھانا نہ کھانا ہمارا ایسا ذاتی فعل ہے جو کہ ہماری اپنی منشاء پر منحصر ہے ۔ اگر ہم سچے ایمان کے حامل ہوں گے تو ان شاءاللہ ضرور احتیاط رکھیں گے ۔ جیسا کہ آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی نے قربانی کا گوشت کھانے سے انکار کر دیا ۔
میرے بھائی گزارش ہے کہ میری الجھن کو اک بار غور سے دوبارہ پڑھیں ۔ اور میری رہنمائی فرمائیں نا کہ مجھے ہی اور میرے ایمان کو مشکوک ٹھہراتے مجھے " اسلام " کے سچے ہونے کا یقین کرنے کی نصیحت کرنے لگیں ۔
 
نایاب بھائی آپ جو دلائل چاہتے ہیں ایسے دلائل صرف ایک ہی فرد دیتا ہے۔
اور پاکستان کے ہر فرقے نے اس فرد کو کافر باطل اور جانے کیا کیا قرار دیا ہوا ہے۔:)
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی آپ جو دلائل چاہتے ہیں ایسے دلائل صرف ایک ہی فرد دیتا ہے۔
اور پاکستان کے ہر فرقے نے اس فرد کو کافر باطل اور جانے کیا کیا قرار دیا ہوا ہے۔:)
میرے محترم بھائی ۔
یہ قصہ اب پرانا ہوا کہ
سارے کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آکھ
اور ہم کافروں کے کافر ۔ کافر خدا ہمارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے اس " فرد خاص " کا تعارف کہاں سے مل سکتا ہے ؟
 

arifkarim

معطل
شمشاد بھائی یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے ہی نہیں۔
قرآن پاک اور احادیث میں واضح طور پر ممانعت ہے کسی دوسرے کی مذہبی رسومات کو اپنانے یا شامل ہونے کی۔
اب بھلے آپ اپنے طور پر کچھ بھی وجہ تراش لیں اپنے دل کو تسلی دینے کے واسطے۔ حقیقت کو ٹالا نہیں جاسکتا۔
مجھے نہ ہی کرسمس اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے کسی تہوار کو منانے میں دلچسپی ہے۔۔:)
اور نہ ہی کسی دوسرے مسلمان کو ایسا کرنا چاہیے۔۔
اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کے ثقافتی تہوار میں شامل ہوتا ہے تو اسمیں کیا برائی ہے؟ اول آپ غیر مسلمین کے ممالک میں جا کر نہ رہیں۔ اگر رہنا ہی یہیں ہے تو یہاں کے قوانین، رواج اور تہذیب کا خیال تو رکھنا پڑے گا؟ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کیا فائدہ؟ وہ خوشی منارہے ہوں اور ہم منہ چڑھا کر بیٹھے ہوں۔ وہ ٹھیک ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے کرسمس کے تمام لوازمات پورے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن غیر مسلمین سے دوستانہ تعلقات اور باہمی روابط قائم کرنے کی خاطر انکو کرسمس کے تحائف دینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ کرسمس آجکل مغرب کی بالکل غیر مذہبی دنیا میں ایک محض ثقافتی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے جو کہ عیسائیت سے بھی قبل یہاں منایا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی طرح مغرب میں بسنے والے یہود اور یے حووا عیسائی بھی کرسمس نہیں مناتے لیکن کرسمس کو ثقافتی حد تک قبول کرتے ہیں:
http://www.jewfaq.org/xmas.htm
http://wiki.answers.com/Q/Why_do_Jehovah's_Witnesses_not_celebrate_Christmas
 
اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کے ثقافتی تہوار میں شامل ہوتا ہے تو اسمیں کیا برائی ہے؟ اول آپ غیر مسلمین کے ممالک میں جا کر نہ رہیں۔ اگر رہنا ہی یہیں ہے تو یہاں کے قوانین، رواج اور تہذیب کا خیال تو رکھنا پڑے گا؟ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کیا فائدہ؟ وہ خوشی منارہے ہوں اور ہم منہ چڑھا کر بیٹھے ہوں۔ وہ ٹھیک ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے کرسمس کے تمام لوازمات پورے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن غیر مسلمین سے دوستانہ تعلقات اور باہمی روابط قائم کرنے کی خاطر انکو کرسمس کے تحائف دینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ کرسمس آجکل مغرب کی بالکل غیر مذہبی دنیا میں ایک محض ثقافتی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے جو کہ عیسائیت سے بھی قبل یہاں منایا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی طرح مغرب میں بسنے والے یہود اور یے حووا عیسائی بھی کرسمس نہیں مناتے لیکن کرسمس کو ثقافتی حد تک قبول کرتے ہیں:
http://www.jewfaq.org/xmas.htm
http://wiki.answers.com/Q/Why_do_Jehovah's_Witnesses_not_celebrate_Christmas
1۔ مذہبی تہوار اور ثقافتی تہوار الگ الگ چیزیں ہیں۔
2۔ قوانین، رواج اور تہذیب کا خیال رکھنے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ میں ان جیسا بن جاؤں۔
3۔ کرسمس پر میں منہ کیوں چڑھانے لگا؟ وہ منارہے ہیں تو مناتے رہیں۔ مجھے ان کے کرسمس بنانے پر کیا اعتراض بھلا۔ :)
 
میرے محترم بھائی گزارش ہے کہ آپ میری الجھن کو سمجھ ہی نہ سکے ۔ آپ مجھے تلقین کرنے لگے کہ
"سب سے پہلے تو یہ دل سے تسلیم کر لیجئے کہ صرف اور صرف ”اسلام“ ہی بر حق ہے اور اس کے علاوہ تمام ادیان ”باطل“۔ صرف اسلام پاک صاف ہے اور باقی ادیان ناپاک اور پلید "
میرے بھائی اعتراضات غیر مسلمین کی جانب سے ہیں جو کہ قران پاک سمیت کسی بھی حدیث و روایت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ انہیں کس دلیل سے قائل کیا جائے کہ وہ یہ تسلیم کر لیں کہ اسلام ہی حق ہے اور باقی سب دین باطل ۔؟
اگر باقی سب دین " ناپاک و پلید " ہیں تو سابقہ کتب پر اک مسلمان کا یقین رکھنا کس درجے میں ہوگا ۔ ؟
پاک صاف اور ناپاک اشیاء کا آپس میں ملنا جلنا ۔ اور نقصان صرف پاک کا ہونا ۔
تو ناپاک و حرام شئے سے بھرا مٹکا اک پیالہ حلال شئے کے ملانے سے کیسے شراب سے بدل سرکہ بن پاک صاف قرار پایا ۔ ؟
کسی مہتر سے گلے ملنا معانقہ کرنا ہاتھ ملانا ان سب عوامل میں احتیاط میری ذمہ داری ہے ۔ اگر مہتر بظاہر صاف ستھرے کپڑے پہنے اور کسی بھی ظاہری گندگی سے دور نظر آئے ۔ تو مجھے ذاتی طور پر اس سے معانقہ کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ ہوگا ۔
اور اگر میرا سگا بھائی گندے غلیظ کپڑوں میں جس پر ناپاکی کے واضح آثار ہوں میرے سامنے آئے تو مجھے اس سے ہاتھ ملانا بھی ناگوار محسوس ہوگا ۔
اور جہاں تک اس آیت " لکم دینکم ولی دین " کی دلیل دی آپ نے تو میرے بھائی یہ اس وقت کا بہترین جواب ہے جب کوئی غیر مسلم مجھے اپنے عقیدے کی تعلیم دینے کی کوشش کرے یا پھر مجھے قائل کرنا چاہے ۔
آپس کی بات کہ " میرے کچھ غیر مسلم ستم ظریف دوستوں نے میری تبلیغ کے جواب میں یہی آیت سنا کر خاموش ہونے پر مجبور کر دیا کہ " آپ کی پاک کتاب ہی یہ آزادی دیتی ہے کہ " تمہارے لیئے تمہارا دین میرے لیئے میرا دین "
دودھ میں گٹر کے قطرے والی دلیل بہت بودی ٹھہرتی ہے ۔ الا یہ کہ ہم ایمان کو اک مادی شئے سمجھیں ۔
ایمان کسی دھاگے یا لکڑی کے ڈنڈے کی مثال کوئی مادی شئے نہیں ہے جو کہ اتنی آسانی سے ٹوٹ جائے ۔
ایمان ہمارے دل دماغ ہمارے ضمیر ہماری روح میں غیر مرئی صورت میں عمل پذیر رہتے ہمارے جسمانی افعال کی بنیاد ٹھہرتا ہے ۔
یہ ایمان قائم ہے اس سچی ذات اللہ علیم الخبیر کی وحدانیت اور ہر طرح کی قدرت رکھنے پر قادر ہستی پر
جو نیتوں کو ابھرنے سے پہلے جان جاتی ہے ۔ نیتوں اور اعمال میں فرق وہ ذات بخوبی جانتی ہے ۔ پھر ہمیں سچی نیت کے ساتھ
غیر مسلموں کے ساتھ ملتے جلتے انہیں اپنے کردار سے متاثر کرتے راہ ہدایت کی جانب بلانے میں ہمارا ایمان کہاں اور کیسے خراب ہوگا ۔
آپ بذات خود تسلیم کر رہے ہیں کہ
اسلام کفار سے میل جول سے منع نہیں کرتا۔ ان سے حسن سلوک کی تو تعلیم دیتا ہے۔
غیر اللہ کے نام پر ہوا ذبیحہ کھانا نہ کھانا ہمارا ایسا ذاتی فعل ہے جو کہ ہماری اپنی منشاء پر منحصر ہے ۔ اگر ہم سچے ایمان کے حامل ہوں گے تو ان شاءاللہ ضرور احتیاط رکھیں گے ۔ جیسا کہ آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی نے قربانی کا گوشت کھانے سے انکار کر دیا ۔
میرے بھائی گزارش ہے کہ میری الجھن کو اک بار غور سے دوبارہ پڑھیں ۔ اور میری رہنمائی فرمائیں نا کہ مجھے ہی اور میرے ایمان کو مشکوک ٹھہراتے مجھے " اسلام " کے سچے ہونے کا یقین کرنے کی نصیحت کرنے لگیں ۔
بہترین بات ۔۔۔لیکن:
یارب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
 

وجی

لائبریرین
میرے محترم بھائی گزارش ہے کہ آپ میری الجھن کو سمجھ ہی نہ سکے ۔ آپ مجھے تلقین کرنے لگے کہ
"سب سے پہلے تو یہ دل سے تسلیم کر لیجئے کہ صرف اور صرف ”اسلام“ ہی بر حق ہے اور اس کے علاوہ تمام ادیان ”باطل“۔ صرف اسلام پاک صاف ہے اور باقی ادیان ناپاک اور پلید "
میرے بھائی اعتراضات غیر مسلمین کی جانب سے ہیں جو کہ قران پاک سمیت کسی بھی حدیث و روایت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ انہیں کس دلیل سے قائل کیا جائے کہ وہ یہ تسلیم کر لیں کہ اسلام ہی حق ہے اور باقی سب دین باطل ۔؟
اگر باقی سب دین " ناپاک و پلید " ہیں تو سابقہ کتب پر اک مسلمان کا یقین رکھنا کس درجے میں ہوگا ۔ ؟
پاک صاف اور ناپاک اشیاء کا آپس میں ملنا جلنا ۔ اور نقصان صرف پاک کا ہونا ۔
تو ناپاک و حرام شئے سے بھرا مٹکا اک پیالہ حلال شئے کے ملانے سے کیسے شراب سے بدل سرکہ بن پاک صاف قرار پایا ۔ ؟
کسی مہتر سے گلے ملنا معانقہ کرنا ہاتھ ملانا ان سب عوامل میں احتیاط میری ذمہ داری ہے ۔ اگر مہتر بظاہر صاف ستھرے کپڑے پہنے اور کسی بھی ظاہری گندگی سے دور نظر آئے ۔ تو مجھے ذاتی طور پر اس سے معانقہ کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ ہوگا ۔
اور اگر میرا سگا بھائی گندے غلیظ کپڑوں میں جس پر ناپاکی کے واضح آثار ہوں میرے سامنے آئے تو مجھے اس سے ہاتھ ملانا بھی ناگوار محسوس ہوگا ۔
اور جہاں تک اس آیت " لکم دینکم ولی دین " کی دلیل دی آپ نے تو میرے بھائی یہ اس وقت کا بہترین جواب ہے جب کوئی غیر مسلم مجھے اپنے عقیدے کی تعلیم دینے کی کوشش کرے یا پھر مجھے قائل کرنا چاہے ۔
آپس کی بات کہ " میرے کچھ غیر مسلم ستم ظریف دوستوں نے میری تبلیغ کے جواب میں یہی آیت سنا کر خاموش ہونے پر مجبور کر دیا کہ " آپ کی پاک کتاب ہی یہ آزادی دیتی ہے کہ " تمہارے لیئے تمہارا دین میرے لیئے میرا دین "
دودھ میں گٹر کے قطرے والی دلیل بہت بودی ٹھہرتی ہے ۔ الا یہ کہ ہم ایمان کو اک مادی شئے سمجھیں ۔
ایمان کسی دھاگے یا لکڑی کے ڈنڈے کی مثال کوئی مادی شئے نہیں ہے جو کہ اتنی آسانی سے ٹوٹ جائے ۔
ایمان ہمارے دل دماغ ہمارے ضمیر ہماری روح میں غیر مرئی صورت میں عمل پذیر رہتے ہمارے جسمانی افعال کی بنیاد ٹھہرتا ہے ۔
یہ ایمان قائم ہے اس سچی ذات اللہ علیم الخبیر کی وحدانیت اور ہر طرح کی قدرت رکھنے پر قادر ہستی پر
جو نیتوں کو ابھرنے سے پہلے جان جاتی ہے ۔ نیتوں اور اعمال میں فرق وہ ذات بخوبی جانتی ہے ۔ پھر ہمیں سچی نیت کے ساتھ
غیر مسلموں کے ساتھ ملتے جلتے انہیں اپنے کردار سے متاثر کرتے راہ ہدایت کی جانب بلانے میں ہمارا ایمان کہاں اور کیسے خراب ہوگا ۔
آپ بذات خود تسلیم کر رہے ہیں کہ
اسلام کفار سے میل جول سے منع نہیں کرتا۔ ان سے حسن سلوک کی تو تعلیم دیتا ہے۔
غیر اللہ کے نام پر ہوا ذبیحہ کھانا نہ کھانا ہمارا ایسا ذاتی فعل ہے جو کہ ہماری اپنی منشاء پر منحصر ہے ۔ اگر ہم سچے ایمان کے حامل ہوں گے تو ان شاءاللہ ضرور احتیاط رکھیں گے ۔ جیسا کہ آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی نے قربانی کا گوشت کھانے سے انکار کر دیا ۔
میرے بھائی گزارش ہے کہ میری الجھن کو اک بار غور سے دوبارہ پڑھیں ۔ اور میری رہنمائی فرمائیں نا کہ مجھے ہی اور میرے ایمان کو مشکوک ٹھہراتے مجھے " اسلام " کے سچے ہونے کا یقین کرنے کی نصیحت کرنے لگیں ۔
بھائی بات کافی سیدھی سی ہے وہ یہ کہ ہر پیغمبر ، نبی و رسول نے اللہ کا پیغام دیا اب اتنے رسول و پیغمبر و انبیاء کی کیا ضرورت تو میرے خیال میں جب جب لوگوں نے اس پیغام کو (جس کو سچ کہ لیتے ہیں ہم ابھی ) تبدیل کر دیا تو سچ تو سچ نہ رہا اسی لیے اگلا نبی و رسول و پیغمبر بھیجا گیا سچے پیغام کے ساتھ بس اسی طرح جب جب سچ باقی نہ رہا تو اللہ نے اپنا نبی و رسول و پیغمبر کے ذریعے سچ بھیجا جب قرآن آگیا تو اسکی حفاظت اللہ نے کی کہ تبدیل نہ ہو ۔ بس سچ موجود ہے وہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کا اس سچ پر کیسا کیسا ایمان و یقین و عمل ہے یہی ایک اور وجہ ہے نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے کی کہ سچ موجود ہے تو دوسرے نبی کی کیا ضرورت اور پھر وہ حدیث بھی کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ جس میں کہا گیا کہ قیامت سے پہلے قرآن اٹھا لیا جائے گایعنی سچ باقی نہ رہے گا تو ہی قیامت آئے گی کتنی معیوب بات ہوتی کہ سچ موجود ہے اور قیامت برپا ء ہوگئی اسی لیئے سچ موجود نہ ہوگا یا جب خدا کی عبادت و پکارنے کا طریقہ کسی کو معلوم نہ ہوگا تو اس دنیا کے قیام کی کیا حیثیت اور یاد رہے بے شک وہی ذات قدرت رکھتی ہے سچ کو بھیجنے کی ، حفاظت کرنے کی اور ختم کرنے کی ۔
اسلام تو ہر زمانے میں موجود تھا اور اب ہے ۔ دراصل یہودی کوئی مذہب نہیں اسی طرح عیسائیت کوئی مذہب نہیں اسی طرح میں یوں کہوں کہ محمدی کوئ مذہب نہیں مذہب تو صرف اسلام ہے ۔
اور یہ بات یاد رکھیں سچ گوئی ہی اصل عبادت ہے یہ نہیں کہ آپنے کتنے لوگوں کو سچ پر آمادہ کردیا وہ لوگ آزاد ہیں اپنے فیصلے کرنے میں اس بات کی فکر نہ کریں کہ سچ پر کتنے تھوڑے سے لوگ قائل ہوتے ہیں یا پھر کوئی بھی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کو تعداد سے تو کوئی غرض نہیں ۔

اب صرف یہ سمجھ لیں کہ اسلام ہے کیا اور کس چیز کی تعلیم دیتا ہے
لوگ یا سب مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے بھائی مذہب کو کسی بھی خصوصیت میں کیوں ڈال رہے ہو۔
اگر کسی خصوصیت میں ڈالنا ہی ہے تو سلامتی سے بڑھ کر میرے خیال میں اسلام رحم والا مذہب ہے
 

یوسف-2

محفلین
القصہ مختصر کہ ہم مسلمانوں میں دو ”متضاد قسم“ کی آراء پائی جاتی ہیں۔
  1. ہمارا ایمان بہت ”مضبوط“ ہے۔ ہم کرسمس منائیں یا دیوالی، مشرکین و کفار کی مشابہت اختیار کریں یا اُن کی خوشنودی کے حصول کے لئے اُن جیسا بن جائیں، ہمارے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ پھر ہم نے ”اُن کے ملک“ میں انہی کے ساتھ رہنا بھی تو ہے۔ اسلام ہمارا ”ذاتی مسئلہ“ ہے، اس کا اجتماعی یا ریاستی معاملات سے کیا تعلق؟
  2. ایمان یقیناََ ہمارا مضبوط ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کی تعلیمات ہمیں مشرکین و منافقین کی مشابہت اختیار کرنے، ان کے مشرکانہ تہوار منانے سے منع کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر ممکنہ حد تک مشرکین و کافروں کی مشرکانہ تقریبات و تہوار سے دور رہنا چاہئے۔ ہم خواہ مسلمانوں کے اکثریتی ملک میں رہتے ہوں یا کفار کے اکثریتی ملک میں، اسلام کا ”ماڈل“ ہر جگہ یکساں ہے۔ ہمیں مختلف مقامات کے مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق اسلام پر عمل کرنے کی اپنی سی بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔​
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس ”مکتبہ فکر“ کو اپناتے ہیں۔ہم جس مکتبہ فکر کو بھی اپنائیں گے، اس کے ذمہ دار ہم ہی ہوں گے۔ اور دُنیا و آخرت میں نفع و نقصان بھی ہمارا ہی ہوگا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو صرف اپنی دنیا بچانے کی فکر کرے گا، وہ یقیناََ اپنی آخرت کا نقصان کرے گا اور جو اپنی آخرت بچانے کی فکر کرے گا، وہ یقیناََ اپنی دنیا کا نقصان کرے گا۔ ”نفع نقصان“ تو ہر دو گروپ کا ہوگا۔ ہمیں صرف یہ چوائس کرنا ہے کہ ہم کس نقصان کی پروا نہیں کرتے ہیں اور اور کس نفع کو اولیت اور ترجیح دیتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
 
القصہ مختصر کہ ہم مسلمانوں میں دو ”متضاد قسم“ کی آراء پائی جاتی ہیں۔
  1. ہمارا ایمان بہت ”مضبوط“ ہے۔ ہم کرسمس منائیں یا دیوالی، مشرکین و کفار کی مشابہت اختیار کریں یا اُن کی خوشنودی کے حصول کے لئے اُن جیسا بن جائیں، ہمارے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ پھر ہم نے ”اُن کے ملک“ میں انہی کے ساتھ رہنا بھی تو ہے۔ اسلام ہمارا ”ذاتی مسئلہ“ ہے، اس کا اجتماعی یا ریاستی معاملات سے کیا تعلق؟
  2. ایمان یقیناََ ہمارا مضبوط ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کی تعلیمات ہمیں مشرکین و منافقین کی مشابہت اختیار کرنے، ان کے مشرکانہ تہوار منانے سے منع کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر ممکنہ حد تک مشرکین و کافروں کی مشرکانہ تقریبات و تہوار سے دور رہنا چاہئے۔ ہم خواہ مسلمانوں کے اکثریتی ملک میں رہتے ہوں یا کفار کے اکثریتی ملک میں، اسلام کا ”ماڈل“ ہر جگہ یکساں ہے۔ ہمیں مختلف مقامات کے مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق اسلام پر عمل کرنے کی اپنی سی بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔​
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس ”مکتبہ فکر“ کو اپناتے ہیں۔ہم جس مکتبہ فکر کو بھی اپنائیں گے، اس کے ذمہ دار ہم ہی ہوں گے۔ اور دُنیا و آخرت میں نفع و نقصان بھی ہمارا ہی ہوگا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو صرف اپنی دنیا بچانے کی فکر کرے گا، وہ یقیناََ اپنی آخرت کا نقصان کرے گا اور جو اپنی آخرت بچانے کی فکر کرے گا، وہ یقیناََ اپنی دنیا کا نقصان کرے گا۔ ”نفع نقصان“ تو ہر دو گروپ کا ہوگا۔ ہمیں صرف یہ چوائس کرنا ہے کہ ہم کس نقصان کی پروا نہیں کرتے ہیں اور اور کس نفع کو اولیت اور ترجیح دیتے ہیں۔


واللہ اعلم بالصواب
متفق
مگر اس میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر ایک بات کہے دیتے ہیں کہ جو اپنی آخرت بچانے کی فکر کرے گا دنیا بھی اس کی بچے گی انشاللہ
 
Top