محمداحمد
لائبریرین
مستنصر حسین تارڑ سے مکالمہ
خرم سہیل
مستنصر حسین تارڑ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ پاکستان کے معروف ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، سفر نامہ نگار، کالم نگار، خاکہ نگار، اداکار اور مقبول اناؤنسر (میزبان) ہیں۔
اب ان کا علم، فہم اور ادراک ایک محقق اور تاریخ شناس ہونے کی گواہی بھی دیتا ہے۔ وہ یکم مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان کا نام عباسی خلیفہ مستنصر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ان کے والد چوہدری رحمت خان کی شخصیت اور زندگی ان کا آدرش ہے، جبکہ ادبی زندگی میں روسی ادیب ٹالسٹائی اور صوفی شاعر فریدالدین عطار کو مرشد مانتے ہیں۔ ترکی کے یاشر کمال، اُرحان پاموک، فلسطین کے محمود درویش، مصر کے نجیب محفوظ، فرانس کے سارتر، کافکا، کامیو اور جاپان کے ادیب ہاروکی موراکامی کے بھی مداح ہیں۔ قرۃ العین حیدر کو اردو کی سب سے بڑی ادیبہ مانتے ہیں، لیکن اردو زبان کے حوالے سے اپنا مخصوص نکتہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ منٹو، بیدی اور ممتاز مفتی کی نثر کے معترف ہیں۔ معروف ادیب اور مزاح نگار شفیق الرحمن کی نثر کے معترف بھی ہیں۔ پنجابی زبان میں صوفی شعراء کے کلام پر گہری نظر ہے، خود کو بابا بلھے شاہ اور شاہ حسین کی شاعری سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔
ان کا نام عباسی خلیفہ مستنصر کے نام پر رکھا گیا تھا
لاہور میں جب ان کی رہائش ہال روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں تھی تو یہاں انہیں سعادت حسن منٹو، معراج خالد، خورشید شاہد اور عائشہ جلال کے پڑوسی ہونے کا موقع ملا، وہ یادیں بھی ان کی تحریروں میں شامل رہی ہیں۔ 1954ء میں مسلم ماڈل ہائی اسکول سے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا، دورانِ تعلیم ہی والد کی ہدایت پر ٹیکسٹائیل کی ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے کی خاطر برطانیہ چلے گئے، جس کی وجہ سے روایتی تعلیم کا سلسلہ ادھورا ہی رہ گیا۔
1957ء میں یوتھ فیسٹیول کی غرض سے روس کے شہر ماسکو گئے۔ روزنامہ نوائے وقت کے مجید نظامی کی تحریک پر پہلی مرتبہ اس سفر کو تحریری طور پر قلم بند کیا، جو 1958ء کو ایک موقر جریدے ’قندیل‘ میں شائع ہوکر پہلا سفر نامہ قرار پایا۔ 1969ء میں بذریعہ سڑک 17 ممالک کی سیاحت کی اور کئی سفرنامے لکھے، بلکہ آج تک لکھ رہے ہیں۔ ان کی کئی کتابوں کے تراجم انگریزی سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ہوچکے ہیں، روس کی ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ان کے ناول وہاں کے نصاب کا حصہ بھی ہیں۔
1970ء میں شادی کے بندھن میں بندھے، ان کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ شادی سے پہلے اوائل جوانی میں ماڈلنگ اور اداکاری کی، پھر ٹیلی ویژن میں مستقل طور پر خود کو صرف میزبانی تک محدود کرلیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی صبح میں پیش ہونے والی نشریات میں بطور بچوں کے چاچا جی ملک گیر شہرت حاصل کی۔ انگریزی اور اردو اخبارات میں کالم لکھنے کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی اور وزیراعظم ادبی ایوارڈ سمیت متعدد اہم ملکی و غیرملکی اعزازات بھی وصول کرچکے ہیں۔
اب تک ان کے 31 سفر نامے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں، جبکہ 2 ناولٹ، 2 افسانوں کے مجموعے اور 3 کتابیں خاکوں اور خطوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کی تعداد 7 ہے، جبکہ کالموں کے 13 مجموعے بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ اس کے علاوہ 11 ناول اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
2001ء میں ان کے لکھے ہوئے مقبول ترین ناول ’پیار کا پہلا شہر‘ کا 76واں ایڈیشن شائع ہوا۔ دنیا بھر کی سیاحت کرنے کے بعد، اب اپنے گھر میں مطالعہ کے لیے گوشہ عافیت میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں، صبح کی سیر کو ضروری سمجھتے ہیں۔ مداحوں اور قارئین سے ایک محتاط فاصلہ رکھتے ہیں، لیکن میڈیا کے دوستوں سے گفتگو کرنے کے لیے رضامند ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں ان سے کیا گیا مکالمہ پیشِ خدمت ہے، جس میں ان کی فکری و ادبی زندگی کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔
سوال: آپ کا تازہ ترین ناول ’منطق الطیر، جدید‘ شائع ہوا ہے، جبکہ اس سے پہلے شائع ہونے والے چند ناول اور ان کے موضوعات دیکھ کر یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ان دنوں آپ کا رجحان زیادہ مذہبی موضوعات کی طرف ہوگیا ہے، اس تناظر میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا، ایسا نہیں ہے۔ ’منطق الطیر‘ معروف صوفی شاعر فریدالدین عطار کی کتاب ہے۔ یہ تصوف کی ایک بہت بڑی کتاب ہے، میں پچھلے 50 سال سے اس کے سحر میں مبتلا ہوں، جب بھی کچھ لکھتا ہوں تو اُس میں کہیں، اس کتاب کے پرندے آجاتے ہیں، تو اصل بات یہ ہے کہ میرا ناول ’منطق الطیر، جدید‘ ایک خراج عقیدت ہے جو میں نے اپنے مرشد فریدالدین عطار کو پیش کیا ہے۔ اُنہوں نے وہ لکھا اور میں نے یہ لکھا ہے۔ آپ اب اس کو مذہبی موضوع کہہ لیں یا تصوف کہہ لیں، لیکن آپ کے ذہن میں میرے متعلق اس حوالے سے اگر مذہب کا کوئی روایتی خیال موجود ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کا علم، فہم اور ادراک ایک محقق اور تاریخ شناس ہونے کی گواہی بھی دیتا ہے
سوال: آپ کے بارے میں معروف ناول نگار ’عبداللہ حسین‘ نے کہا تھا کہ ’آپ دھرتی کے بائیوگرافر ہیں۔‘ یہی وجہ ہے کہ آپ کی کہانیوں میں کردار بھی اپنی زمین سے مانوس ہیں۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے آپ نے اپنے ناول ’بہاؤ‘ سے دھرتی کی سوانح عمری لکھنے کی ابتدا کی، اب ’خش و خاشاک زمانے‘ اور ’منطق الطیر، جدید‘ پڑھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ اس سفر کی انتہا تک آن پہنچے ہیں، یہ رجحان اور رویہ آپ کی کہانیوں میں کیسے در آیا؟
جواب: یہ کوئی رویہ نہیں ہے۔ میں ایک مرتبہ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں کلیدی خطبہ دے رہا تھا تب میں نے وہاں ایک بات کی تھی جو کچھ یوں ہے کہ میری عمر تک جب آپ ریاضت کرکے پہنچیں، آپ کا ایک مقام بن جائے، فہم و ادراک رکھنے والی شخصیت میں ڈھل جائیں، تب ایسی بات ہوسکتی ہے، وہ بات یوں تھی ’وادئ گنگا و جمنا کی تہذیب سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں نے تو گنگا و جمنا دیکھا ہی نہیں ہے، تو اس تہذیب سے میرا کوئی تعلق ہو بھی نہیں سکتا، لیکن وہ تہذیب میرے ورثے کا حصہ ہے، وہ مشترکہ ورثہ، جس میں سعدی شیرازی بھی شامل ہے، شیخ فریدالدین عطار بھی اور وسطی ایشیا کے مشاہیر بھی مگر سوائے اپنی تہذیب کے، کسی اور تہذیب کا پروردہ نہیں ہوں، گنگا و جمنا کی تہذیب میری تہذیب نہیں ہے۔ اس لیے وہ میری تحریروں میں بھی منعکس نہیں ہوگی۔‘
سوال: لیکن اپنی دھرتی سے قریب ہونے کی کوئی وجہ بھی تو ہوگی؟
جواب: جی ہاں، کیونکہ میری تہذیب سندھ، چناب اور راوی کے پانیوں سے پھوٹتی ہے، میں اس دھرتی کی کوک سے پھوٹا ہوں۔ اس لیے مجھے اس کو لکھنے کی کوئی تیاری نہیں کرنی پڑتی کہ میں اس دھرتی سے جڑے ہوئے کرداروں کو شعوری کوشش کے تحت لکھوں۔ یہ میری تہذیب ہے، وہ مجھ میں شامل ہے تو یقینی طور پر میرے کرداروں کے خمیر میں بھی شامل ہوگی۔ یہ جو کھیت کھلیان ہیں، انہی کی ہریالی سے میری آنکھوں میں تراوٹ آتی ہے۔ اسی طرح کیکر کا درخت ہے، جو عام طور پر کانٹوں والا ہوتا ہے، یہ مجھے دنیا کا سب سے پیارا درخت لگتا ہے۔ ہمارے ایک مصوردوست ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’کیکر ایک ایسا درخت ہے، جس کو لاکھ بار پینٹ کریں، ہر بار وہ کیکر مختلف ہوگا۔‘ کیکر کا کوئی ایک درخت دوسرے درخت سے نہیں ملتا ہے۔ یہ میں نے صرف ایک درخت کی بات کی ہے۔ اس طرح کے درجنوں درخت ہیں جو ہماری ثقافت کے مظہر ہیں، خاص طور پر پنجاب کی ثقافت میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
میری تہذیب سندھ، چناب اور راوی کے پانیوں سے پھوٹتی ہے
سوال: پنجاب کے ثقافتی منظرنامے سے کچھ حوالے دیں تاکہ قاری کو آپ کی اس نظریاتی وابستگی کا ادراک بھی ہوسکے۔
جواب: مثال کے طور پر پنجابی ثقافت میں ایک درخت کو ’دریک‘ کہا جاتا ہے جس پر ترکونے اُگتے ہیں۔ اسی طرح ایک درخت ’شریں‘ ہے جس کے پیلے پھولوں پر جب سرِشام دھوپ پڑتی ہے تو منظر قابل دید ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں معروف صوفی شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا۔ ’وچھڑ گیاں دی کی اے نشانی، جیویں دیگر رنگ شریاں‘ یعنی جو اپنے محبوب سے بچھڑ چکے ہیں ان کی نشانی کیا ہے، ہم انہیں کیسے پہچان سکتے ہیں؟ تو اس بارے میں کہا ہے کہ ان کا رنگ ایسا ہوتا ہے، جس طرح شریں کے درختوں کا رنگ، جس میں گہری اداسی ہوتی ہے۔ یہ جتنی مثالیں اور استعارے ہیں وہ لکھتے وقت مجھے اپنی سرزمین سے لینے ہوتے ہیں۔ میرا شہر لاہور ہے، دلی نہیں، چنانچہ میں کبھی دلی کے پس منظر میں نہیں لکھوں گا۔ اسی طرح میں لکھنؤ یا کسی اور اس طرح کے شہر کے پس منظر میں نہیں لکھ سکتا، البتہ میں پنجاب کے کسی شہر کے بارے میں لکھوں گا، جس طرح میں نے اپنا ناول ’خس و خاشاک زمانے‘ اپنے آبائی علاقہ ضلع گجرات اور پنجاب کے دیگر شہروں کے پس منظر میں لکھا تھا۔ یہ صرف ناول ہی نہیں تھا بلکہ پنجاب کی 100 سالہ تاریخ بھی تھی جس کو میں نے ناول کے سپرد کیا۔
سوال: آپ کے ناول ’خس و خاشاک زمانے‘ کا موازنہ ہندوستانی ناول نگار شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھے سرے آسماں‘ سے کیا جاتا ہے؟ یہ بات درست ہے؟
جواب: جی، وہ جب پاکستان آئے تو میری ان سے ملاقات بھی ہوئی، ہمارا 40 سے 50 سال پر محیط ایک تعلق ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ’آپ کا یہ ناول بہت پڑھا جاتا ہے اور مقبولیت بھی حاصل کررہا ہے، اس کا موازنہ میرے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسمان‘ سے کیا جانے لگا ہے۔‘ اب اس میں یہ بحث نہیں ہے کہ ان میں کوئی چھوٹے بڑے ناول ہونے کا مقابلہ ہے بلکہ وہ موازنہ اس لیے ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے دلی اور دیگر شہروں کے 100 سالہ کلچر کو بیان کیا ہے جبکہ میں نے اپنے ناول میں پنجاب کی ثقافت کو بیان کیا ہے لہٰذا موازنہ اس پس منظر کا ہے جس میں دونوں ناول لکھے گئے ہیں۔ اس لیے میرے کردار مقامی ہوں گے تو وہ اپنے ثقافتی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں گے، لیکن ان کا تعلق باہر کی دنیا سے ہے، جس طرح یورپ کی مثال ہے، تو پھر ظاہر ہے وہ بھی میرے تجربات ہیں، جو سفر میں نے کیے ہیں انہیں کرداروں اور کہانیوں میں قلم بند کیا۔
سوال: آپ کی تحریروں میں فطری مناظر اور پرندوں کا تذکرہ جابجا ملتا ہے، آپ کے کردار، دریا، سمندر اور جھیلوں کی طرف بھی جانکلتے ہیں، اس بارے میں مزید کیا کہیں گے؟
جواب: میرا تعلق چونکہ کاشتکار خاندان سے ہے اس لیے ہمارے گاؤں میں پڑھنے لکھنے کا رجحان نہیں تھا۔ میرے دادا ان پڑھ کسان تھے۔ دادی پڑھے لکھے خاندان سے تھیں۔ یہ تقسیم سے بھی بہت پہلے کا ذکر ہے۔ میرے والد روزگار کی تلاش میں لاہور آگئے، بہت محنت کی، زراعت کے شعبے میں کاروبار کیا، اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں اور ساری زندگی زمین سے جڑے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری جتنی بھی رشتے داریاں تھیں، وہ سب زمین کے ساتھ تھیں۔ میں زمین کی قدر جانتا تھا، اس سے کیا پھوٹتا ہے، کیا اُگتا ہے، مٹی کی مہک کیا ہوتی ہے، یہ سب مجھے والد کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔ پھر والدہ کی طرف سے تربیت ملی، اس طرح میں فطرت سے قریب ہوگیا۔ میں نے جن لوگوں کو پڑھا انہوں نے بھی مجھے بہت متاثر کیا، جیسے لیو ٹالسٹائی، یاشر کمال اور فریدالدین عطار، ان سب کی تخلیقات میں فطرت اور چرند و پرند سے جڑے ہوئے استعاروں اور تشبیہات سے میں بہت مستفید ہوا ہوں۔
سوال: ٹیلی ویژن کے تجربے نے بھی آپ کے لکھنے پڑھنے میں اپنا حصہ ڈالا؟ شہرت میں بھی اضافہ ہوا۔
جواب: جی ہاں، اس تجربے کی بنا پر میں روایتی اردو بھی بول سکتا ہوں، مرصع و مقفع اردو لکھنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ آپ لکھتے چلے جائیے۔
سوال: یعنی اندھا دھند لکھتے چلے جائیے؟ (قہقہہ)
جواب: (مسکراتے ہوئے) اب دیکھیے۔ میں اگر کچھ اس طرح لکھنا شروع کروں کہ ’میری روح کی تاریکیوں میں جو پناہ گزیں ہے ایک تاریکی دل اور اس میں سے جو ایک شمع پھوٹتی ہے، اس میں سے شرارے پھوٹتے ہیں تو گویا ہر شرارہ ایک کائنات بسیط ہے اور ۔۔۔۔‘ اس طرح آپ لکھتے چلے جائیں، اس میں کیا مسئلہ ہے۔ مشکل زبان لکھنا کوئی مشکل بات نہیں بلکہ اصل مشکل ہے آسان زبان لکھنا کہ وہ کیسے لکھی جائے۔ ورنہ غالب کیوں ایک شعر کے لیے مومن کو اپنا پورا دیوان دینے کے لیے تیار ہوگیا تھا، اس نے سہل ممتنع میں کہا تھا کہ۔۔۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ٹی وی کیرئیر کا آغاز ڈرامہ پرانی باتیں سے کیا
مستنصر حسین تارڑ روحی بانو کے ہمراہ
سوال: اس کا مطلب یہ ہوا، سہل ممتنع صرف شاعری تک ہی محدود نہیں، اس کا اطلاق نثر لکھنے پر بھی ہوتا ہے؟
جواب: جی بالکل، شفیق الرحمن کی نثر کو سب کہتے تھے کہ وہ بہت سادہ لکھنے والے ہیں۔ وہ سب سے مقبول ہوئے اور مجھے بھی بے حد پسند ہیں۔ وہ اپنی تحریر کم ازکم 6 مرتبہ لکھتے تھے تب کہیں جاکر وہ حتمی تحریر ہوتی تھی۔ لفاظی کرنا اور بات ہے، لکھنا اور اچھا لکھنا بالکل مختلف بات ہے۔
سوال: آپ پنجاب اور پنجابی زبان وتہذیب پر بہت نازاں ہیں مگر مرصع اردو لکھنے والے اکثر ادیبوں کا یہ اعتراض بھی ہے کہ آپ پھر پنجابی زبان میں کیوں نہیں لکھتے؟
جواب: یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو شدید احساسِ کمتری کا شکار ہیں کیونکہ وہ خود نہیں لکھ سکتے جو میں لکھ سکتا ہوں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ میں اردو کا ادیب ہوں، اس زبان کی ترویج میں سب سے زیادہ حصہ میرا ہے۔ اردو اور غیر اردو بولنے اور لکھنے والوں میں مجھ سے زیادہ کسی نے اردو کی خدمت نہیں کی، آپ چھان بین کرکے دیکھ لیں۔ سب سے زیادہ میری کتابیں فروخت ہوتی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ قارئین میری کتابیں پڑھ رہے ہیں، کتابیں فروخت ہو رہی ہیں اور لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، اردو کی ترقی ہو رہی ہے، اسے دن بدن فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اس زبان کی ترویج میں میرا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
سوال: اردو ادب میں پنجابیت کے اثرات کے بارے میں بھی آپ کا اپنا نکتہ نظر ہے، وہ کیا ہے؟
جواب: اس کے جواب میں اب ایک قصہ سنیے، اسی میں جواب ہے۔ ہوا یوں کہ ایک بار مغربی محقق پاکستان آئیں، ان کا نام ’لِنڈ اوینڈینگ‘ تھا، وہ امریکا میں اردو زبان کے جدید افسانوں پر پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے سلسلے میں انڈیا پاکستان سے 40 سے 50 ادیبوں سے مکالمہ کیا، مجھ سے بھی رابطہ کرکے ملنے آئیں۔ مجھ سے مکالمہ کیا اور پہلا سوال یہ کیا کہ ’آپ نثر ہی کیوں لکھتے ہیں؟‘ تو میں نے جواب دیا ’کیونکہ میں پنجابی ہوں۔‘ انہوں نے کہا ’اس بات کو تفصیل سے سمجھائیے۔‘ میں نے جواب دیا ’سوائے قرۃ العین حیدر کے اردو زبان میں جتنی بڑی نثر لکھی گئی ہے، وہ سب پنجابیوں نے لکھی ہے۔‘ انہوں نے حوالے مانگے تو میں نے ایک طویل فہرست گنوا دی۔ وہ حیران رہ گئیں اور کہنے لگیں ’اس پہلو سے دیکھا جائے تو میری تحقیق کا رُخ ہی تبدیل ہوجائے گا۔‘ ایک ایسی زبان جس کا بڑا لٹریچر ان لوگوں نے لکھا ہے جن کی وہ زبان نہیں ہے۔ کرشن چندر، بیدی، منٹو، پطرس اور اس سے آگے ایک طویل فہرست ہے، کہاں تک نام گنوائے جاؤں، تو یہ معاملہ ہے۔
لاہور میں جب ان کی رہائش ہال روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں تھی تو یہاں انہیں سعادت حسن منٹو، معراج خالد، خورشید شاہد اور عائشہ جلال کے پڑوسی ہونے کا موقع ملا
سوال: لیکن دورِ حاضر کے ادبی منظرنامے پر انتظار حسین بھی ایک اہم ادبی شخصیت رہے، جن کا پس منظر خالص اردو کا ہی تھا؟
جواب: انتظار حسین اگر لاہور نہ آتا تو وہ کبھی انتظار حسین نہ ہوتا۔ اس کو پنجاب کا تڑکا لگا تو وہ انتظار بنا ورنہ وہ بدایوں میں ہی بیٹھا رہتا۔
سوال: عالمی ادب کے تناظر میں نوبیل ادبی انعام کے بارے میں آپ کا مؤقف کیا ہے؟
جواب: عالمی سطح پر لکھنے کے لیے عالمگیر زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اردو بنیادی طور پر اتنی اہم زبان نہیں ہے کیونکہ جب ہم اردو میں لکھتے ہیں تو ہمارا حلقہ محدود ہوجاتا ہے۔ میں عالمی ادب میں مختلف بڑے ادبی ایوارڈز حاصل کرنے والے ادیبوں کو ضرور پڑھتا ہوں اور نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے والوں کا مطالعہ تو خاص طور پر کرتا ہوں، انہیں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان میں سے 10 ادیب تو ایسے ہیں جن کا ہمارے ہاں کسی سے بھی موازنہ نہیں ہوسکتا، 5 ایسے ہیں جو شاید ہمارے ہاں بھی ہوں گے اور 5 ایسے بھی ہیں جن سے ہمارے ادیب بہتر ہیں۔ یہ تو بھول جائیں کہ بڑا ادب اردو میں تخلیق ہوگا۔ عربی، ترکی، بنگالی بڑی زبانیں ہیں، ایک دور تھا جب کہا جاتا تھا کہ زمانے بھر میں دھوم اردو کی ہے، اب کوئی دھوم نہیں ہے، دنیا کی چند جامعات میں اردو جبکہ زیادہ تر میں ہندی پڑھائی جاتی ہے۔
سوال: ملک کے جس بڑے چھوٹے ناشر سے بات کرو، وہ کہتا ہے کہ اس کام میں اب کچھ نہیں رہ گیا، کتاب کا خریدار ختم ہوگیا، کتاب نہیں بکتی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کتاب بک بھی رہی ہے، نت نئے ناشرین کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب: برِصغیر کی نفسیات رونے دھونے سے جڑی ہوئی ہے۔ ناخوشی اور ناآسودگی میں ڈوبے رہنا، شکایتیں کرنا اور کہنا، ہائے ہائے کیا زمانے تھے ہمارے، کیا خوراک کھائی تھی ہم نے، کیا استاد تھے ہمارے اور اب یہ اخلاقیات ہیں۔ اس سے گھٹیا بات میں نے کبھی سنی نہیں ہے۔ ان باتوں سے بیمار ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ کون سی خوراکیں تھیں، یہ وہ خطہ ہے جہاں ان زمانوں میں بھوک تھی جن زمانوں کا وہ تذکرہ کرتے ہیں۔ اچھے بھلے مڈل کلاس گھروں میں بھی دوپہر کا کھانا نہیں پکتا تھا۔ ہمارے گھر گوشت پکتا تھا تو شہرت ہوگئی تھی کہ ان کے گھر روز گوشت آتا ہے۔ باقی خوراک کون سی کھائی، اصل خوراک تو اب آئی ہے! موجودہ زمانے میں تو چونکہ عادتاً رونا دھونا کرنا ہوتا ہے، اس لیے کہتے ہیں ہائے ہائے کتاب کوئی نہیں پڑھتا، کتاب کلچر ختم ہوگیا۔ ابھی جو بیسٹ سیلر ادیب ہیں، جن کی کتابیں بک رہی ہیں، اگر ان کے نام لوں تو ان میں سعادت حسن منٹو، قرۃ العین حیدر، اشفاق احمد، کرنل محمد خان، بیدی اور کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔ بازار میں ان کے درجنوں ایڈیشن آرہے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ فروخت بھی ہو رہے ہیں۔
انتظار حسین اگر لاہور نہ آتا تو وہ کبھی انتظار حسین نہ ہوتا۔ اس کو پنجاب کا تڑکا لگا تو وہ انتظار بنا ورنہ وہ بدایوں میں ہی بیٹھا رہتا
سوال: پھر کیوں ناشرین یہ رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ کتابیں فروخت نہیں ہوتیں؟
جواب: پرانے زمانے میں کتابوں کا ایک ایڈیشن چھپتا تھا تو وہ 20 سال تک ختم نہیں ہوتا تھا۔ اب کتنے نئے ناشرین آگئے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر کتنی کتابیں دھڑا دھڑ شائع ہو رہی ہیں۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ہے، الحمد پبلی کیشنز، لاہور ہے، بک کارنر جہلم ہے، دیگر اور ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ سب پاگل ہیں؟ اگر کتابیں بک نہیں رہیں تو وہ کتابیں کیا انہوں نے چھاپ کر گھر میں رکھی ہوئی ہیں؟ اب یہاں مجھے مجبوراً اپنا حوالہ دینا پڑتا ہے، میری اب 30 سے بیشتر کتابیں ہوچکی ہیں، ان سب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔
میرا ابتدائی ناول ’پیار کا پہلا شہر‘ تھا، جس پر میں بہت زیادہ فخر نہیں کرتا لیکن ابھی اس کا 76واں ایڈیشن چھپ کر آیا ہے۔ اب یہ اتنی کتابیں کہاں جاتی ہیں، کیا لوگ کنویں میں ڈال دیتے ہیں؟ لوگ پڑھ رہے ہیں، بس اتنا ہوا ہے کہ کتاب کے علاوہ اب کچھ لوگ انٹرنیٹ پر پڑھ رہے ہیں، کچھ کینڈل پر پڑھ رہے ہیں۔ اب رونا دھونا کرنا ہے تو ٹھیک ہے، ہر عہد میں یہ کہا جاتا ہے کہ ادب روبہ زوال ہے اور آج تک لوگ پڑھ ہی رہے ہیں، زوال آیا تو نہیں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ دورانِ سفر
سوال: لیکن جیسا کہ آپ نے اپنے ناول ’پیار کا پہلا شہر‘ کا تذکرہ کیا، آپ کے اس طرح کے ناولوں کو پاپولر لٹریچر کہا جاتا ہے۔ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
جواب: درج بالابات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میں پاپولر لٹریچر نہیں لکھتا بلکہ جو میں لکھتا ہوں وہ لٹریچر پاپولر ہوجاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مجھے طعنہ دیا جاتا تھا کہ میری کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں اور میں یہ بات سن کر شرمندہ ہوجایا کرتا تھا، کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے جب لٹریچر اس کو سمجھا جاتا تھا جس کتاب کے ایڈیشن اگلے 20 سال تک ختم نہ ہوں، اس کے سرورق پر گرد جمی رہے مگر اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔
سوال: پنجاب کی قدیم تاریخ یا سکھ دور کے بارے میں کبھی لکھنے کا دل کیا؟ رنجیت سنگھ کے بارے میں کبھی کچھ لکھنے کا خیال آیا؟
جواب: یہ اتنا زرخیز دور ہے کہ اس کے لیے بہت ساری تحقیق چاہیے۔ رنجیت سنگھ میرا پسندیدہ حکمران ہے۔ پورے برِصغیر میں اگر کسی حکمران کو دھرتی کا بیٹا کہا گیا ہے تو وہ رنجیت سنگھ ہے۔ اس کے زمانے میں دنیا کی صرف 3 عالمی طاقتیں تھیں، ایک روس، دوسرا برطانیہ اور تیسرا پنجاب، اس کی سلطنت تبت، لداخ سے شروع ہوتی تھی اور ادھر ملتان تک اس کا اقتدار پھیلا ہوا تھا۔ انگریز کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ پنجاب پر حملہ آور ہو کیونکہ رنجیت سنگھ کی فوج کو نپولین کے جنرلز نے تربیت دی تھی۔ اس نے ان جنرلوں کے ذریعے اپنی فوج کو مغربی طرز کی تربیت دلوائی، اس کے بعد وہ فوج کسی سے بھی مقابلہ کرسکتی تھی، یہی وجہ ہے اس کی فوج کی وردیاں فرانسیسی انداز کی تھیں کیونکہ وہ فرانسیسی فوج کے جنرل کے ہاتھوں تربیت یافتہ ہوئے تھے۔ پھر وہ ایک روشن خیال حکمران تھا، کسی ایک طبقے کے بجائے سب کی نمائندگی کرتا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر کے بعد یہ دوسرا حکمران تھا جس نے متوازن اور غیرجانبدارانہ رویہ اپناتے ہوئے اپنے عوام کے دل جیت لیے۔ اسی طرح برِصغیر سے واحد حکمران ہری سنگھ نلوا تھا، جس نے ہندوستان سے جا کر افغانستان پر قبضہ کیا۔ اس بارے میں ہمارے مؤرخ اور تاریخ خاموش ہیں اور اس معرکے پر کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر مزید بہت بات ہوسکتی ہے۔
والد کی ہدایت پر ٹیکسٹائیل کی ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے کی خاطر برطانیہ بھی گئے
ان کے 31 سفر نامے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں
سوال: تازہ ترین ادبی منظرنامے پر کئی ناول نگار دکھائی دے رہے ہیں، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: بہت اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بھرپور آغاز ہوا ہے۔ اب تو منظرنامے پر موجود چند ناول نگاروں کی عمدہ ناول نگاری کی بدولت ان کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں۔ جس طرح طاہرہ اقبال کا ناول ’نیلی بار‘ ہے، کمال ناول ہے۔ خالد فتح محمد کے مختلف ناول ہیں۔ اختر رضا سلیمی ہیں، جنہوں نے ’جاگے ہیں خواب میں‘ اور ’جندر‘ ناول لکھے، بہت اچھے ہیں۔ رفاقت حیات کا ناول ’میرواہ کی راتیں‘ بھی ٹھیک ناول ہے۔ ابھی مجھے کئی نئے لکھنے والے مزید ناول نگاروں کی تخلیقات موصول ہوئی ہیں جن کو میں پڑھوں گا۔
سوال: آپ نے فہمیدہ ریاض کا آخری ناول ’قلعہ فراموشی‘ پڑھا ہے؟َ جو ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی شائع ہوا تھا۔
جواب: جی نہیں، وہ میں نے نہیں پڑھا۔ مجھے اس ناول کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے۔
سوال: لکھنے کے لیے پڑھنا کتنا ضروری ہوتا ہے؟
جواب: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ نے لکھنا کیا ہے؟ اگر شاعری کرنی ہے تو اس کے لیے کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ احمد فراز میرا بہت اچھا دوست تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ ’نثر نگار کی ساری زندگی لکھنے کی میز پر گزرجاتی ہے جبکہ ہم تو چلتے پھرتے بھی شاعری کرلیتے ہیں۔‘ فکشن لکھنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے کیونکہ اندر کا کنواں لکھتے لکھتے خالی ہوجاتا ہے، اس کو بھی تو بھرنا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو لکھنے کے لیے مسلسل پڑھنا ضروری ہے جبکہ دوسری طرف تجربہ بھی معاونت کرتا ہے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ ’کس چیز نے آپ سے وفا کی اور کبھی دھوکہ نہیں دیا؟‘ تو میرا جواب تھا ’لکھنے کی میز، سفید کاغذ اور قلم، میں انہیں جب بھی لے کر بیٹھتا ہوں تو یہ چیزیں مجھ سے وفا کرتی ہیں۔‘
مستنصر حسین تارڑ دمشق میں
سوال: ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کے لکھنے کی ابتدا کہاں سے ہوئی، گمنامی کے دور میں آپ کہاں تھے؟
جواب: میں اسی معاشرے میں رہ رہا تھا، ابتدائی زندگی میں والد کے کاروبارمیں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ میرا کافی وقت لاہور کی گوالمنڈی میں والد کی دکان پر گزرا۔ میں نے جب اپنی کتاب ’نکلے تیری تلاش میں‘ لکھی، تو میں کسی ادیب کو نہیں جانتا تھا، مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ادبی جرائد کہاں سے شائع ہوتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ بھی پڑھا لکھا، اپنی مرضی سے اور آزادی سے لکھا۔ شاید یہی انداز قارئین میں مقبولیت کی وجہ بنا۔ میری پہلی تحریر 1958ء میں ایک رسالے ’قندیل‘ میں شائع ہوئی تھی، جس کا عنوان ’لندن سے ماسکو تک‘ تھا۔ میں برطانیہ سے نوجوانوں کے ایک وفد کے ساتھ ماسکو گیا تھا، نوائے وقت کے حمید نظامی کو پتا چلا کہ اس وفد میں ایک پاکستانی لڑکا بھی ہے تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور تحریک دی کہ میں سفر نامہ لکھوں، اس طرح 3 اقساط میں لکھا ہوا یہ سفرنامہ چھپا۔
سوال: آپ نے اپنے ناولوں میں کئی سارے حقیقی کرداروں کو بھی بطور کردار شریک کیا ہے، بلکہ آپ کی اپنی ذاتی زندگی کے عکس بھی ناولوں میں ملتے ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟ جس طرح ’خس و خاشاک زمانے‘ ایک مثال ہے۔
جواب: جتنے بڑے ناول ہوتے ہیں، ان میں خودنوشت کی جھلک زیادہ ہوتی ہے۔ مصنف کی ذات اور تجربات ناول کا حوالہ بنتے ہیں۔ میری زندگی بہت سہل گزری، میں گھر کا بڑا بیٹا تھا، میرے والد علاقے کے معتبر شخص تھے۔ انہوں نے مجھے 1956ء میں اپنے خرچے پر برطانیہ بھیجا، وہاں میرا دل لگنے لگا، مگر پھر والد کی خواہش تھی کہ میں واپس آجاؤں تو میں سب کچھ چھوڑ کر واپس بھی چلا آیا۔ زندگی کے یہ رشتے ناطے، محبتیں، کامیابیاں ناکامیاں اور دیگر احساسات ایک ناول نگار کی تخلیقات کا حصہ بنتے ہیں، جس میں اس کی ذات کی جھلک فطری ہے۔
مستنصر حسین تارڑ صادقین اور احمد ندیم قاسمی کے ہمراہ
سوال: زندگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
جواب: میرے خیال میں زندگی عشق ہے، ہر چیز سے عشق جبکہ اس کی سب سے خوبصورت حالت ’عورت‘ ہے۔ میرے ناولوں میں عورتوں کے کردار زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم سب کے اندر ایک عورت بھی ہوتی ہے۔ میرے ایک ناول ’بہاؤ‘ میں ایک عورت کا کردار تھا جس کی ممتا کو میں نے مفصل طورسے بیان کیا تھا۔ اس کردار کے بارے میں مجھ سے ایک لڑکی نے پوچھا کہ ’آپ تو مرد ہیں، اس جذبے اور احساس کو کس طرح محسوس کیا؟‘ میں نے جواب دیا کہ ’اس کیفیت کو خود پر طاری کیا تھا۔‘ ایک زمانہ تھا جب مادری معاشرہ ہوا کرتا تھا، محبت کسی بھی رنگ میں ہو یہ زندگی سے ہی جوڑتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ میں کبھی محبت کے بغیر رہا ہوں کیونکہ میرے نزدیک محبت بھی ضرورت ہے۔ میں جب بھی خوبصورت چہرہ دیکھتا ہوں تو میرا دن اچھا گزرتا ہے۔ اسی طرح جب میں نے حج کیا تو میری وہ کیفیات بھی اس محبت کا انعام تھیں۔ غارِ حرا میں گزاری ہوئی ایک رات بھی میری ریاضت کا حاصل ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر محبت اور حسن بکھرا ہوا ہے، بس محسوس کرنے کی بات ہے۔
۔
بشکریہ خرم سہیل ۔ ڈان نیوز
خرم سہیل
مستنصر حسین تارڑ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ پاکستان کے معروف ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، سفر نامہ نگار، کالم نگار، خاکہ نگار، اداکار اور مقبول اناؤنسر (میزبان) ہیں۔
اب ان کا علم، فہم اور ادراک ایک محقق اور تاریخ شناس ہونے کی گواہی بھی دیتا ہے۔ وہ یکم مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان کا نام عباسی خلیفہ مستنصر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ان کے والد چوہدری رحمت خان کی شخصیت اور زندگی ان کا آدرش ہے، جبکہ ادبی زندگی میں روسی ادیب ٹالسٹائی اور صوفی شاعر فریدالدین عطار کو مرشد مانتے ہیں۔ ترکی کے یاشر کمال، اُرحان پاموک، فلسطین کے محمود درویش، مصر کے نجیب محفوظ، فرانس کے سارتر، کافکا، کامیو اور جاپان کے ادیب ہاروکی موراکامی کے بھی مداح ہیں۔ قرۃ العین حیدر کو اردو کی سب سے بڑی ادیبہ مانتے ہیں، لیکن اردو زبان کے حوالے سے اپنا مخصوص نکتہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ منٹو، بیدی اور ممتاز مفتی کی نثر کے معترف ہیں۔ معروف ادیب اور مزاح نگار شفیق الرحمن کی نثر کے معترف بھی ہیں۔ پنجابی زبان میں صوفی شعراء کے کلام پر گہری نظر ہے، خود کو بابا بلھے شاہ اور شاہ حسین کی شاعری سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔
ان کا نام عباسی خلیفہ مستنصر کے نام پر رکھا گیا تھا
لاہور میں جب ان کی رہائش ہال روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں تھی تو یہاں انہیں سعادت حسن منٹو، معراج خالد، خورشید شاہد اور عائشہ جلال کے پڑوسی ہونے کا موقع ملا، وہ یادیں بھی ان کی تحریروں میں شامل رہی ہیں۔ 1954ء میں مسلم ماڈل ہائی اسکول سے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا، دورانِ تعلیم ہی والد کی ہدایت پر ٹیکسٹائیل کی ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے کی خاطر برطانیہ چلے گئے، جس کی وجہ سے روایتی تعلیم کا سلسلہ ادھورا ہی رہ گیا۔
1957ء میں یوتھ فیسٹیول کی غرض سے روس کے شہر ماسکو گئے۔ روزنامہ نوائے وقت کے مجید نظامی کی تحریک پر پہلی مرتبہ اس سفر کو تحریری طور پر قلم بند کیا، جو 1958ء کو ایک موقر جریدے ’قندیل‘ میں شائع ہوکر پہلا سفر نامہ قرار پایا۔ 1969ء میں بذریعہ سڑک 17 ممالک کی سیاحت کی اور کئی سفرنامے لکھے، بلکہ آج تک لکھ رہے ہیں۔ ان کی کئی کتابوں کے تراجم انگریزی سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ہوچکے ہیں، روس کی ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ان کے ناول وہاں کے نصاب کا حصہ بھی ہیں۔
1970ء میں شادی کے بندھن میں بندھے، ان کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ شادی سے پہلے اوائل جوانی میں ماڈلنگ اور اداکاری کی، پھر ٹیلی ویژن میں مستقل طور پر خود کو صرف میزبانی تک محدود کرلیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی صبح میں پیش ہونے والی نشریات میں بطور بچوں کے چاچا جی ملک گیر شہرت حاصل کی۔ انگریزی اور اردو اخبارات میں کالم لکھنے کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی اور وزیراعظم ادبی ایوارڈ سمیت متعدد اہم ملکی و غیرملکی اعزازات بھی وصول کرچکے ہیں۔
اب تک ان کے 31 سفر نامے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں، جبکہ 2 ناولٹ، 2 افسانوں کے مجموعے اور 3 کتابیں خاکوں اور خطوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کی تعداد 7 ہے، جبکہ کالموں کے 13 مجموعے بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ اس کے علاوہ 11 ناول اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
2001ء میں ان کے لکھے ہوئے مقبول ترین ناول ’پیار کا پہلا شہر‘ کا 76واں ایڈیشن شائع ہوا۔ دنیا بھر کی سیاحت کرنے کے بعد، اب اپنے گھر میں مطالعہ کے لیے گوشہ عافیت میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں، صبح کی سیر کو ضروری سمجھتے ہیں۔ مداحوں اور قارئین سے ایک محتاط فاصلہ رکھتے ہیں، لیکن میڈیا کے دوستوں سے گفتگو کرنے کے لیے رضامند ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں ان سے کیا گیا مکالمہ پیشِ خدمت ہے، جس میں ان کی فکری و ادبی زندگی کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔
سوال: آپ کا تازہ ترین ناول ’منطق الطیر، جدید‘ شائع ہوا ہے، جبکہ اس سے پہلے شائع ہونے والے چند ناول اور ان کے موضوعات دیکھ کر یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ان دنوں آپ کا رجحان زیادہ مذہبی موضوعات کی طرف ہوگیا ہے، اس تناظر میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا، ایسا نہیں ہے۔ ’منطق الطیر‘ معروف صوفی شاعر فریدالدین عطار کی کتاب ہے۔ یہ تصوف کی ایک بہت بڑی کتاب ہے، میں پچھلے 50 سال سے اس کے سحر میں مبتلا ہوں، جب بھی کچھ لکھتا ہوں تو اُس میں کہیں، اس کتاب کے پرندے آجاتے ہیں، تو اصل بات یہ ہے کہ میرا ناول ’منطق الطیر، جدید‘ ایک خراج عقیدت ہے جو میں نے اپنے مرشد فریدالدین عطار کو پیش کیا ہے۔ اُنہوں نے وہ لکھا اور میں نے یہ لکھا ہے۔ آپ اب اس کو مذہبی موضوع کہہ لیں یا تصوف کہہ لیں، لیکن آپ کے ذہن میں میرے متعلق اس حوالے سے اگر مذہب کا کوئی روایتی خیال موجود ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کا علم، فہم اور ادراک ایک محقق اور تاریخ شناس ہونے کی گواہی بھی دیتا ہے
سوال: آپ کے بارے میں معروف ناول نگار ’عبداللہ حسین‘ نے کہا تھا کہ ’آپ دھرتی کے بائیوگرافر ہیں۔‘ یہی وجہ ہے کہ آپ کی کہانیوں میں کردار بھی اپنی زمین سے مانوس ہیں۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے آپ نے اپنے ناول ’بہاؤ‘ سے دھرتی کی سوانح عمری لکھنے کی ابتدا کی، اب ’خش و خاشاک زمانے‘ اور ’منطق الطیر، جدید‘ پڑھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ اس سفر کی انتہا تک آن پہنچے ہیں، یہ رجحان اور رویہ آپ کی کہانیوں میں کیسے در آیا؟
جواب: یہ کوئی رویہ نہیں ہے۔ میں ایک مرتبہ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں کلیدی خطبہ دے رہا تھا تب میں نے وہاں ایک بات کی تھی جو کچھ یوں ہے کہ میری عمر تک جب آپ ریاضت کرکے پہنچیں، آپ کا ایک مقام بن جائے، فہم و ادراک رکھنے والی شخصیت میں ڈھل جائیں، تب ایسی بات ہوسکتی ہے، وہ بات یوں تھی ’وادئ گنگا و جمنا کی تہذیب سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں نے تو گنگا و جمنا دیکھا ہی نہیں ہے، تو اس تہذیب سے میرا کوئی تعلق ہو بھی نہیں سکتا، لیکن وہ تہذیب میرے ورثے کا حصہ ہے، وہ مشترکہ ورثہ، جس میں سعدی شیرازی بھی شامل ہے، شیخ فریدالدین عطار بھی اور وسطی ایشیا کے مشاہیر بھی مگر سوائے اپنی تہذیب کے، کسی اور تہذیب کا پروردہ نہیں ہوں، گنگا و جمنا کی تہذیب میری تہذیب نہیں ہے۔ اس لیے وہ میری تحریروں میں بھی منعکس نہیں ہوگی۔‘
سوال: لیکن اپنی دھرتی سے قریب ہونے کی کوئی وجہ بھی تو ہوگی؟
جواب: جی ہاں، کیونکہ میری تہذیب سندھ، چناب اور راوی کے پانیوں سے پھوٹتی ہے، میں اس دھرتی کی کوک سے پھوٹا ہوں۔ اس لیے مجھے اس کو لکھنے کی کوئی تیاری نہیں کرنی پڑتی کہ میں اس دھرتی سے جڑے ہوئے کرداروں کو شعوری کوشش کے تحت لکھوں۔ یہ میری تہذیب ہے، وہ مجھ میں شامل ہے تو یقینی طور پر میرے کرداروں کے خمیر میں بھی شامل ہوگی۔ یہ جو کھیت کھلیان ہیں، انہی کی ہریالی سے میری آنکھوں میں تراوٹ آتی ہے۔ اسی طرح کیکر کا درخت ہے، جو عام طور پر کانٹوں والا ہوتا ہے، یہ مجھے دنیا کا سب سے پیارا درخت لگتا ہے۔ ہمارے ایک مصوردوست ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’کیکر ایک ایسا درخت ہے، جس کو لاکھ بار پینٹ کریں، ہر بار وہ کیکر مختلف ہوگا۔‘ کیکر کا کوئی ایک درخت دوسرے درخت سے نہیں ملتا ہے۔ یہ میں نے صرف ایک درخت کی بات کی ہے۔ اس طرح کے درجنوں درخت ہیں جو ہماری ثقافت کے مظہر ہیں، خاص طور پر پنجاب کی ثقافت میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
میری تہذیب سندھ، چناب اور راوی کے پانیوں سے پھوٹتی ہے
سوال: پنجاب کے ثقافتی منظرنامے سے کچھ حوالے دیں تاکہ قاری کو آپ کی اس نظریاتی وابستگی کا ادراک بھی ہوسکے۔
جواب: مثال کے طور پر پنجابی ثقافت میں ایک درخت کو ’دریک‘ کہا جاتا ہے جس پر ترکونے اُگتے ہیں۔ اسی طرح ایک درخت ’شریں‘ ہے جس کے پیلے پھولوں پر جب سرِشام دھوپ پڑتی ہے تو منظر قابل دید ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں معروف صوفی شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا۔ ’وچھڑ گیاں دی کی اے نشانی، جیویں دیگر رنگ شریاں‘ یعنی جو اپنے محبوب سے بچھڑ چکے ہیں ان کی نشانی کیا ہے، ہم انہیں کیسے پہچان سکتے ہیں؟ تو اس بارے میں کہا ہے کہ ان کا رنگ ایسا ہوتا ہے، جس طرح شریں کے درختوں کا رنگ، جس میں گہری اداسی ہوتی ہے۔ یہ جتنی مثالیں اور استعارے ہیں وہ لکھتے وقت مجھے اپنی سرزمین سے لینے ہوتے ہیں۔ میرا شہر لاہور ہے، دلی نہیں، چنانچہ میں کبھی دلی کے پس منظر میں نہیں لکھوں گا۔ اسی طرح میں لکھنؤ یا کسی اور اس طرح کے شہر کے پس منظر میں نہیں لکھ سکتا، البتہ میں پنجاب کے کسی شہر کے بارے میں لکھوں گا، جس طرح میں نے اپنا ناول ’خس و خاشاک زمانے‘ اپنے آبائی علاقہ ضلع گجرات اور پنجاب کے دیگر شہروں کے پس منظر میں لکھا تھا۔ یہ صرف ناول ہی نہیں تھا بلکہ پنجاب کی 100 سالہ تاریخ بھی تھی جس کو میں نے ناول کے سپرد کیا۔
سوال: آپ کے ناول ’خس و خاشاک زمانے‘ کا موازنہ ہندوستانی ناول نگار شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھے سرے آسماں‘ سے کیا جاتا ہے؟ یہ بات درست ہے؟
جواب: جی، وہ جب پاکستان آئے تو میری ان سے ملاقات بھی ہوئی، ہمارا 40 سے 50 سال پر محیط ایک تعلق ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ’آپ کا یہ ناول بہت پڑھا جاتا ہے اور مقبولیت بھی حاصل کررہا ہے، اس کا موازنہ میرے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسمان‘ سے کیا جانے لگا ہے۔‘ اب اس میں یہ بحث نہیں ہے کہ ان میں کوئی چھوٹے بڑے ناول ہونے کا مقابلہ ہے بلکہ وہ موازنہ اس لیے ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے دلی اور دیگر شہروں کے 100 سالہ کلچر کو بیان کیا ہے جبکہ میں نے اپنے ناول میں پنجاب کی ثقافت کو بیان کیا ہے لہٰذا موازنہ اس پس منظر کا ہے جس میں دونوں ناول لکھے گئے ہیں۔ اس لیے میرے کردار مقامی ہوں گے تو وہ اپنے ثقافتی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں گے، لیکن ان کا تعلق باہر کی دنیا سے ہے، جس طرح یورپ کی مثال ہے، تو پھر ظاہر ہے وہ بھی میرے تجربات ہیں، جو سفر میں نے کیے ہیں انہیں کرداروں اور کہانیوں میں قلم بند کیا۔
سوال: آپ کی تحریروں میں فطری مناظر اور پرندوں کا تذکرہ جابجا ملتا ہے، آپ کے کردار، دریا، سمندر اور جھیلوں کی طرف بھی جانکلتے ہیں، اس بارے میں مزید کیا کہیں گے؟
جواب: میرا تعلق چونکہ کاشتکار خاندان سے ہے اس لیے ہمارے گاؤں میں پڑھنے لکھنے کا رجحان نہیں تھا۔ میرے دادا ان پڑھ کسان تھے۔ دادی پڑھے لکھے خاندان سے تھیں۔ یہ تقسیم سے بھی بہت پہلے کا ذکر ہے۔ میرے والد روزگار کی تلاش میں لاہور آگئے، بہت محنت کی، زراعت کے شعبے میں کاروبار کیا، اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں اور ساری زندگی زمین سے جڑے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری جتنی بھی رشتے داریاں تھیں، وہ سب زمین کے ساتھ تھیں۔ میں زمین کی قدر جانتا تھا، اس سے کیا پھوٹتا ہے، کیا اُگتا ہے، مٹی کی مہک کیا ہوتی ہے، یہ سب مجھے والد کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔ پھر والدہ کی طرف سے تربیت ملی، اس طرح میں فطرت سے قریب ہوگیا۔ میں نے جن لوگوں کو پڑھا انہوں نے بھی مجھے بہت متاثر کیا، جیسے لیو ٹالسٹائی، یاشر کمال اور فریدالدین عطار، ان سب کی تخلیقات میں فطرت اور چرند و پرند سے جڑے ہوئے استعاروں اور تشبیہات سے میں بہت مستفید ہوا ہوں۔
سوال: ٹیلی ویژن کے تجربے نے بھی آپ کے لکھنے پڑھنے میں اپنا حصہ ڈالا؟ شہرت میں بھی اضافہ ہوا۔
جواب: جی ہاں، اس تجربے کی بنا پر میں روایتی اردو بھی بول سکتا ہوں، مرصع و مقفع اردو لکھنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ آپ لکھتے چلے جائیے۔
سوال: یعنی اندھا دھند لکھتے چلے جائیے؟ (قہقہہ)
جواب: (مسکراتے ہوئے) اب دیکھیے۔ میں اگر کچھ اس طرح لکھنا شروع کروں کہ ’میری روح کی تاریکیوں میں جو پناہ گزیں ہے ایک تاریکی دل اور اس میں سے جو ایک شمع پھوٹتی ہے، اس میں سے شرارے پھوٹتے ہیں تو گویا ہر شرارہ ایک کائنات بسیط ہے اور ۔۔۔۔‘ اس طرح آپ لکھتے چلے جائیں، اس میں کیا مسئلہ ہے۔ مشکل زبان لکھنا کوئی مشکل بات نہیں بلکہ اصل مشکل ہے آسان زبان لکھنا کہ وہ کیسے لکھی جائے۔ ورنہ غالب کیوں ایک شعر کے لیے مومن کو اپنا پورا دیوان دینے کے لیے تیار ہوگیا تھا، اس نے سہل ممتنع میں کہا تھا کہ۔۔۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ٹی وی کیرئیر کا آغاز ڈرامہ پرانی باتیں سے کیا
مستنصر حسین تارڑ روحی بانو کے ہمراہ
سوال: اس کا مطلب یہ ہوا، سہل ممتنع صرف شاعری تک ہی محدود نہیں، اس کا اطلاق نثر لکھنے پر بھی ہوتا ہے؟
جواب: جی بالکل، شفیق الرحمن کی نثر کو سب کہتے تھے کہ وہ بہت سادہ لکھنے والے ہیں۔ وہ سب سے مقبول ہوئے اور مجھے بھی بے حد پسند ہیں۔ وہ اپنی تحریر کم ازکم 6 مرتبہ لکھتے تھے تب کہیں جاکر وہ حتمی تحریر ہوتی تھی۔ لفاظی کرنا اور بات ہے، لکھنا اور اچھا لکھنا بالکل مختلف بات ہے۔
سوال: آپ پنجاب اور پنجابی زبان وتہذیب پر بہت نازاں ہیں مگر مرصع اردو لکھنے والے اکثر ادیبوں کا یہ اعتراض بھی ہے کہ آپ پھر پنجابی زبان میں کیوں نہیں لکھتے؟
جواب: یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو شدید احساسِ کمتری کا شکار ہیں کیونکہ وہ خود نہیں لکھ سکتے جو میں لکھ سکتا ہوں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ میں اردو کا ادیب ہوں، اس زبان کی ترویج میں سب سے زیادہ حصہ میرا ہے۔ اردو اور غیر اردو بولنے اور لکھنے والوں میں مجھ سے زیادہ کسی نے اردو کی خدمت نہیں کی، آپ چھان بین کرکے دیکھ لیں۔ سب سے زیادہ میری کتابیں فروخت ہوتی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ قارئین میری کتابیں پڑھ رہے ہیں، کتابیں فروخت ہو رہی ہیں اور لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، اردو کی ترقی ہو رہی ہے، اسے دن بدن فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اس زبان کی ترویج میں میرا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
سوال: اردو ادب میں پنجابیت کے اثرات کے بارے میں بھی آپ کا اپنا نکتہ نظر ہے، وہ کیا ہے؟
جواب: اس کے جواب میں اب ایک قصہ سنیے، اسی میں جواب ہے۔ ہوا یوں کہ ایک بار مغربی محقق پاکستان آئیں، ان کا نام ’لِنڈ اوینڈینگ‘ تھا، وہ امریکا میں اردو زبان کے جدید افسانوں پر پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے سلسلے میں انڈیا پاکستان سے 40 سے 50 ادیبوں سے مکالمہ کیا، مجھ سے بھی رابطہ کرکے ملنے آئیں۔ مجھ سے مکالمہ کیا اور پہلا سوال یہ کیا کہ ’آپ نثر ہی کیوں لکھتے ہیں؟‘ تو میں نے جواب دیا ’کیونکہ میں پنجابی ہوں۔‘ انہوں نے کہا ’اس بات کو تفصیل سے سمجھائیے۔‘ میں نے جواب دیا ’سوائے قرۃ العین حیدر کے اردو زبان میں جتنی بڑی نثر لکھی گئی ہے، وہ سب پنجابیوں نے لکھی ہے۔‘ انہوں نے حوالے مانگے تو میں نے ایک طویل فہرست گنوا دی۔ وہ حیران رہ گئیں اور کہنے لگیں ’اس پہلو سے دیکھا جائے تو میری تحقیق کا رُخ ہی تبدیل ہوجائے گا۔‘ ایک ایسی زبان جس کا بڑا لٹریچر ان لوگوں نے لکھا ہے جن کی وہ زبان نہیں ہے۔ کرشن چندر، بیدی، منٹو، پطرس اور اس سے آگے ایک طویل فہرست ہے، کہاں تک نام گنوائے جاؤں، تو یہ معاملہ ہے۔
لاہور میں جب ان کی رہائش ہال روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں تھی تو یہاں انہیں سعادت حسن منٹو، معراج خالد، خورشید شاہد اور عائشہ جلال کے پڑوسی ہونے کا موقع ملا
سوال: لیکن دورِ حاضر کے ادبی منظرنامے پر انتظار حسین بھی ایک اہم ادبی شخصیت رہے، جن کا پس منظر خالص اردو کا ہی تھا؟
جواب: انتظار حسین اگر لاہور نہ آتا تو وہ کبھی انتظار حسین نہ ہوتا۔ اس کو پنجاب کا تڑکا لگا تو وہ انتظار بنا ورنہ وہ بدایوں میں ہی بیٹھا رہتا۔
سوال: عالمی ادب کے تناظر میں نوبیل ادبی انعام کے بارے میں آپ کا مؤقف کیا ہے؟
جواب: عالمی سطح پر لکھنے کے لیے عالمگیر زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اردو بنیادی طور پر اتنی اہم زبان نہیں ہے کیونکہ جب ہم اردو میں لکھتے ہیں تو ہمارا حلقہ محدود ہوجاتا ہے۔ میں عالمی ادب میں مختلف بڑے ادبی ایوارڈز حاصل کرنے والے ادیبوں کو ضرور پڑھتا ہوں اور نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے والوں کا مطالعہ تو خاص طور پر کرتا ہوں، انہیں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان میں سے 10 ادیب تو ایسے ہیں جن کا ہمارے ہاں کسی سے بھی موازنہ نہیں ہوسکتا، 5 ایسے ہیں جو شاید ہمارے ہاں بھی ہوں گے اور 5 ایسے بھی ہیں جن سے ہمارے ادیب بہتر ہیں۔ یہ تو بھول جائیں کہ بڑا ادب اردو میں تخلیق ہوگا۔ عربی، ترکی، بنگالی بڑی زبانیں ہیں، ایک دور تھا جب کہا جاتا تھا کہ زمانے بھر میں دھوم اردو کی ہے، اب کوئی دھوم نہیں ہے، دنیا کی چند جامعات میں اردو جبکہ زیادہ تر میں ہندی پڑھائی جاتی ہے۔
سوال: ملک کے جس بڑے چھوٹے ناشر سے بات کرو، وہ کہتا ہے کہ اس کام میں اب کچھ نہیں رہ گیا، کتاب کا خریدار ختم ہوگیا، کتاب نہیں بکتی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کتاب بک بھی رہی ہے، نت نئے ناشرین کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب: برِصغیر کی نفسیات رونے دھونے سے جڑی ہوئی ہے۔ ناخوشی اور ناآسودگی میں ڈوبے رہنا، شکایتیں کرنا اور کہنا، ہائے ہائے کیا زمانے تھے ہمارے، کیا خوراک کھائی تھی ہم نے، کیا استاد تھے ہمارے اور اب یہ اخلاقیات ہیں۔ اس سے گھٹیا بات میں نے کبھی سنی نہیں ہے۔ ان باتوں سے بیمار ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ کون سی خوراکیں تھیں، یہ وہ خطہ ہے جہاں ان زمانوں میں بھوک تھی جن زمانوں کا وہ تذکرہ کرتے ہیں۔ اچھے بھلے مڈل کلاس گھروں میں بھی دوپہر کا کھانا نہیں پکتا تھا۔ ہمارے گھر گوشت پکتا تھا تو شہرت ہوگئی تھی کہ ان کے گھر روز گوشت آتا ہے۔ باقی خوراک کون سی کھائی، اصل خوراک تو اب آئی ہے! موجودہ زمانے میں تو چونکہ عادتاً رونا دھونا کرنا ہوتا ہے، اس لیے کہتے ہیں ہائے ہائے کتاب کوئی نہیں پڑھتا، کتاب کلچر ختم ہوگیا۔ ابھی جو بیسٹ سیلر ادیب ہیں، جن کی کتابیں بک رہی ہیں، اگر ان کے نام لوں تو ان میں سعادت حسن منٹو، قرۃ العین حیدر، اشفاق احمد، کرنل محمد خان، بیدی اور کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔ بازار میں ان کے درجنوں ایڈیشن آرہے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ فروخت بھی ہو رہے ہیں۔
انتظار حسین اگر لاہور نہ آتا تو وہ کبھی انتظار حسین نہ ہوتا۔ اس کو پنجاب کا تڑکا لگا تو وہ انتظار بنا ورنہ وہ بدایوں میں ہی بیٹھا رہتا
سوال: پھر کیوں ناشرین یہ رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ کتابیں فروخت نہیں ہوتیں؟
جواب: پرانے زمانے میں کتابوں کا ایک ایڈیشن چھپتا تھا تو وہ 20 سال تک ختم نہیں ہوتا تھا۔ اب کتنے نئے ناشرین آگئے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر کتنی کتابیں دھڑا دھڑ شائع ہو رہی ہیں۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ہے، الحمد پبلی کیشنز، لاہور ہے، بک کارنر جہلم ہے، دیگر اور ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ سب پاگل ہیں؟ اگر کتابیں بک نہیں رہیں تو وہ کتابیں کیا انہوں نے چھاپ کر گھر میں رکھی ہوئی ہیں؟ اب یہاں مجھے مجبوراً اپنا حوالہ دینا پڑتا ہے، میری اب 30 سے بیشتر کتابیں ہوچکی ہیں، ان سب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔
میرا ابتدائی ناول ’پیار کا پہلا شہر‘ تھا، جس پر میں بہت زیادہ فخر نہیں کرتا لیکن ابھی اس کا 76واں ایڈیشن چھپ کر آیا ہے۔ اب یہ اتنی کتابیں کہاں جاتی ہیں، کیا لوگ کنویں میں ڈال دیتے ہیں؟ لوگ پڑھ رہے ہیں، بس اتنا ہوا ہے کہ کتاب کے علاوہ اب کچھ لوگ انٹرنیٹ پر پڑھ رہے ہیں، کچھ کینڈل پر پڑھ رہے ہیں۔ اب رونا دھونا کرنا ہے تو ٹھیک ہے، ہر عہد میں یہ کہا جاتا ہے کہ ادب روبہ زوال ہے اور آج تک لوگ پڑھ ہی رہے ہیں، زوال آیا تو نہیں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ دورانِ سفر
سوال: لیکن جیسا کہ آپ نے اپنے ناول ’پیار کا پہلا شہر‘ کا تذکرہ کیا، آپ کے اس طرح کے ناولوں کو پاپولر لٹریچر کہا جاتا ہے۔ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
جواب: درج بالابات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میں پاپولر لٹریچر نہیں لکھتا بلکہ جو میں لکھتا ہوں وہ لٹریچر پاپولر ہوجاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مجھے طعنہ دیا جاتا تھا کہ میری کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں اور میں یہ بات سن کر شرمندہ ہوجایا کرتا تھا، کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے جب لٹریچر اس کو سمجھا جاتا تھا جس کتاب کے ایڈیشن اگلے 20 سال تک ختم نہ ہوں، اس کے سرورق پر گرد جمی رہے مگر اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔
سوال: پنجاب کی قدیم تاریخ یا سکھ دور کے بارے میں کبھی لکھنے کا دل کیا؟ رنجیت سنگھ کے بارے میں کبھی کچھ لکھنے کا خیال آیا؟
جواب: یہ اتنا زرخیز دور ہے کہ اس کے لیے بہت ساری تحقیق چاہیے۔ رنجیت سنگھ میرا پسندیدہ حکمران ہے۔ پورے برِصغیر میں اگر کسی حکمران کو دھرتی کا بیٹا کہا گیا ہے تو وہ رنجیت سنگھ ہے۔ اس کے زمانے میں دنیا کی صرف 3 عالمی طاقتیں تھیں، ایک روس، دوسرا برطانیہ اور تیسرا پنجاب، اس کی سلطنت تبت، لداخ سے شروع ہوتی تھی اور ادھر ملتان تک اس کا اقتدار پھیلا ہوا تھا۔ انگریز کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ پنجاب پر حملہ آور ہو کیونکہ رنجیت سنگھ کی فوج کو نپولین کے جنرلز نے تربیت دی تھی۔ اس نے ان جنرلوں کے ذریعے اپنی فوج کو مغربی طرز کی تربیت دلوائی، اس کے بعد وہ فوج کسی سے بھی مقابلہ کرسکتی تھی، یہی وجہ ہے اس کی فوج کی وردیاں فرانسیسی انداز کی تھیں کیونکہ وہ فرانسیسی فوج کے جنرل کے ہاتھوں تربیت یافتہ ہوئے تھے۔ پھر وہ ایک روشن خیال حکمران تھا، کسی ایک طبقے کے بجائے سب کی نمائندگی کرتا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر کے بعد یہ دوسرا حکمران تھا جس نے متوازن اور غیرجانبدارانہ رویہ اپناتے ہوئے اپنے عوام کے دل جیت لیے۔ اسی طرح برِصغیر سے واحد حکمران ہری سنگھ نلوا تھا، جس نے ہندوستان سے جا کر افغانستان پر قبضہ کیا۔ اس بارے میں ہمارے مؤرخ اور تاریخ خاموش ہیں اور اس معرکے پر کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر مزید بہت بات ہوسکتی ہے۔
والد کی ہدایت پر ٹیکسٹائیل کی ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے کی خاطر برطانیہ بھی گئے
ان کے 31 سفر نامے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں
سوال: تازہ ترین ادبی منظرنامے پر کئی ناول نگار دکھائی دے رہے ہیں، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: بہت اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بھرپور آغاز ہوا ہے۔ اب تو منظرنامے پر موجود چند ناول نگاروں کی عمدہ ناول نگاری کی بدولت ان کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں۔ جس طرح طاہرہ اقبال کا ناول ’نیلی بار‘ ہے، کمال ناول ہے۔ خالد فتح محمد کے مختلف ناول ہیں۔ اختر رضا سلیمی ہیں، جنہوں نے ’جاگے ہیں خواب میں‘ اور ’جندر‘ ناول لکھے، بہت اچھے ہیں۔ رفاقت حیات کا ناول ’میرواہ کی راتیں‘ بھی ٹھیک ناول ہے۔ ابھی مجھے کئی نئے لکھنے والے مزید ناول نگاروں کی تخلیقات موصول ہوئی ہیں جن کو میں پڑھوں گا۔
سوال: آپ نے فہمیدہ ریاض کا آخری ناول ’قلعہ فراموشی‘ پڑھا ہے؟َ جو ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی شائع ہوا تھا۔
جواب: جی نہیں، وہ میں نے نہیں پڑھا۔ مجھے اس ناول کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے۔
سوال: لکھنے کے لیے پڑھنا کتنا ضروری ہوتا ہے؟
جواب: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ نے لکھنا کیا ہے؟ اگر شاعری کرنی ہے تو اس کے لیے کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ احمد فراز میرا بہت اچھا دوست تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ ’نثر نگار کی ساری زندگی لکھنے کی میز پر گزرجاتی ہے جبکہ ہم تو چلتے پھرتے بھی شاعری کرلیتے ہیں۔‘ فکشن لکھنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے کیونکہ اندر کا کنواں لکھتے لکھتے خالی ہوجاتا ہے، اس کو بھی تو بھرنا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو لکھنے کے لیے مسلسل پڑھنا ضروری ہے جبکہ دوسری طرف تجربہ بھی معاونت کرتا ہے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ ’کس چیز نے آپ سے وفا کی اور کبھی دھوکہ نہیں دیا؟‘ تو میرا جواب تھا ’لکھنے کی میز، سفید کاغذ اور قلم، میں انہیں جب بھی لے کر بیٹھتا ہوں تو یہ چیزیں مجھ سے وفا کرتی ہیں۔‘
مستنصر حسین تارڑ دمشق میں
سوال: ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کے لکھنے کی ابتدا کہاں سے ہوئی، گمنامی کے دور میں آپ کہاں تھے؟
جواب: میں اسی معاشرے میں رہ رہا تھا، ابتدائی زندگی میں والد کے کاروبارمیں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ میرا کافی وقت لاہور کی گوالمنڈی میں والد کی دکان پر گزرا۔ میں نے جب اپنی کتاب ’نکلے تیری تلاش میں‘ لکھی، تو میں کسی ادیب کو نہیں جانتا تھا، مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ادبی جرائد کہاں سے شائع ہوتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ بھی پڑھا لکھا، اپنی مرضی سے اور آزادی سے لکھا۔ شاید یہی انداز قارئین میں مقبولیت کی وجہ بنا۔ میری پہلی تحریر 1958ء میں ایک رسالے ’قندیل‘ میں شائع ہوئی تھی، جس کا عنوان ’لندن سے ماسکو تک‘ تھا۔ میں برطانیہ سے نوجوانوں کے ایک وفد کے ساتھ ماسکو گیا تھا، نوائے وقت کے حمید نظامی کو پتا چلا کہ اس وفد میں ایک پاکستانی لڑکا بھی ہے تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور تحریک دی کہ میں سفر نامہ لکھوں، اس طرح 3 اقساط میں لکھا ہوا یہ سفرنامہ چھپا۔
سوال: آپ نے اپنے ناولوں میں کئی سارے حقیقی کرداروں کو بھی بطور کردار شریک کیا ہے، بلکہ آپ کی اپنی ذاتی زندگی کے عکس بھی ناولوں میں ملتے ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟ جس طرح ’خس و خاشاک زمانے‘ ایک مثال ہے۔
جواب: جتنے بڑے ناول ہوتے ہیں، ان میں خودنوشت کی جھلک زیادہ ہوتی ہے۔ مصنف کی ذات اور تجربات ناول کا حوالہ بنتے ہیں۔ میری زندگی بہت سہل گزری، میں گھر کا بڑا بیٹا تھا، میرے والد علاقے کے معتبر شخص تھے۔ انہوں نے مجھے 1956ء میں اپنے خرچے پر برطانیہ بھیجا، وہاں میرا دل لگنے لگا، مگر پھر والد کی خواہش تھی کہ میں واپس آجاؤں تو میں سب کچھ چھوڑ کر واپس بھی چلا آیا۔ زندگی کے یہ رشتے ناطے، محبتیں، کامیابیاں ناکامیاں اور دیگر احساسات ایک ناول نگار کی تخلیقات کا حصہ بنتے ہیں، جس میں اس کی ذات کی جھلک فطری ہے۔
مستنصر حسین تارڑ صادقین اور احمد ندیم قاسمی کے ہمراہ
سوال: زندگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
جواب: میرے خیال میں زندگی عشق ہے، ہر چیز سے عشق جبکہ اس کی سب سے خوبصورت حالت ’عورت‘ ہے۔ میرے ناولوں میں عورتوں کے کردار زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم سب کے اندر ایک عورت بھی ہوتی ہے۔ میرے ایک ناول ’بہاؤ‘ میں ایک عورت کا کردار تھا جس کی ممتا کو میں نے مفصل طورسے بیان کیا تھا۔ اس کردار کے بارے میں مجھ سے ایک لڑکی نے پوچھا کہ ’آپ تو مرد ہیں، اس جذبے اور احساس کو کس طرح محسوس کیا؟‘ میں نے جواب دیا کہ ’اس کیفیت کو خود پر طاری کیا تھا۔‘ ایک زمانہ تھا جب مادری معاشرہ ہوا کرتا تھا، محبت کسی بھی رنگ میں ہو یہ زندگی سے ہی جوڑتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ میں کبھی محبت کے بغیر رہا ہوں کیونکہ میرے نزدیک محبت بھی ضرورت ہے۔ میں جب بھی خوبصورت چہرہ دیکھتا ہوں تو میرا دن اچھا گزرتا ہے۔ اسی طرح جب میں نے حج کیا تو میری وہ کیفیات بھی اس محبت کا انعام تھیں۔ غارِ حرا میں گزاری ہوئی ایک رات بھی میری ریاضت کا حاصل ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر محبت اور حسن بکھرا ہوا ہے، بس محسوس کرنے کی بات ہے۔
۔
بشکریہ خرم سہیل ۔ ڈان نیوز