مزاح برائے تاوان

سیما علی

لائبریرین
گزری رات یعنی چاند رات کا مختصر مگر دلچسپ واقعہ ہے ۔۔ میں ایک گاؤں میں رہتا ہوں اور گوشی عافیت یعنی ایک چھوٹی سی آبادی کے آخری مکان میں ۔۔ ڈیڑھ سے دو بجے کے درمیان باہر سے واپس آیا اور چھڑوں کے لباس یعنی گھنٹوں تک آتی نیکر میں ملبوس کچن میں میں ٹھنڈا ٹھنڈااملی آلو بخارے کا شربت بنانے لگ گیا شدید گرمی کی وجہ سے تو برابر کے پلاٹ میں بندھا پڑوسیوں کا کھوتا اپنی مکروہ آواز میں رینگنا شروع ہوگیا اور اسکی آواز سن کر دماغی گرمی دو چند ہوگئی اور میں ڈنڈا اٹھاکر بھاگا کہ اس منحوس کھوتے کو تو بھگاؤں کیونکہ اسکی رسی بہت لمبی چھوڑی ہوتی ہے اسکے مالکان نے ۔۔ اب اس آبادی میں صرف میرے گھر کے باہر لائٹ جل رہی ہوتی ہے ۔۔ مزاحیہ صورتحال اس وقت پیش آئی جب سامنے سڑک سے گزرتے ہوئے جاننے والے لڑکوں نے مجھے اس حلیے میں ڈنڈا اٹھاکر مین گیٹ سے چھلانگ مار کر اندھیرے میں گم ہوتے دیکھا تو وہ سمجھے کے میرا جھگڑا ہوگیا ہے کسی اور وہ لڑکے سڑک سے میرے گھر کی جانب مڑ گئے اور قریب آکر رکتے ہی ایک ہوائی فائر کردیا ( گاؤں دیہات میں ایسا عموماً ہوتا رہتا ہے اور جہاں میں رہتا ہوں وہاں ایک مخصوص ذات کے لوگوں میں آپس میں قتل و غارت ہوتی رہتی ہے )
اور مجھے آوازیں دینے کے گئے کہ شاہ جی کی ہویا اے خیر اے کیدے نال لڑائی ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔۔ تو میں ہاتھ ٹوٹا ہوا ڈنڈا اٹھائے جب ان کے پس پہنچا تو وہ اور پریشان ہوئے اور ان سے زیادہ پریشان میں ہوا کہ انہوں نے فائر کیوں کیا 🤔 ۔۔ خیر جب صورتحال واضح ہوئی تو ہم خوب ہنسے لڑکے کہنے لگے کہ ہم نے آپ کو اڑ کر جاتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ اللہ خیر کرے ۔۔ لیکن میں مطمئن اسلیے تھا کہ میں نے رسی کاٹ کر اور ڈنڈے سے ڈراکر کھوتا بھگادیا تھا جو کہ گھوم پھر کر پھر مالکان کے دروازے پہ پہنچ گیا 😬 لیکن میں نے صبح الٹی میٹم دیا کہ اب میرے گھر کے پاس نا با ندھنا اسے
🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣
 

سیما علی

لائبریرین
دل دریا سمندروں ڈونگھے‘ کون دلاں دیاں جانے ہُو۔
حضرت سلطان باہوؒ
حضرت سلطان باہو کے کلام کا ایک اور پہلو ۔ دل دریا ہو یا سمندر۔ لق و دق صحرا ہویا گھنا جنگل۔ دلوں کا حال جاننے والے نجانے کون کون سے روپ میں نہ صرف دلوں کا حال بتا رہے ہیں بلکہ ایسے ایسے بھید بھی آشکار کیے چلے جارہے ہیں جو رہتی دنیا تک انہیں زندہ اور جاوید رکھیں گے۔
 
عید بخار و کھانسی اور بکروں کی قربانی کے ساتھ اچھی گذر گئی
بقول ہمارے رضا کے اسلام کے نام پر سب سے زیادہ قربانی بکروں نے دی ہے ۔۔۔
اذهب الباس رب الناس، واشف انت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما
اللہ تعالی آپ کو شفائے کاملہ عطا فرمائیں! آمین۔

اسلام کے نام پر کٹ مرنے والے لوگ بڑے۔۔۔۔جینے والے کم!
 
گزری رات یعنی چاند رات کا مختصر مگر دلچسپ واقعہ ہے ۔۔ میں ایک گاؤں میں رہتا ہوں اور گوشیہ عافیت یعنی ایک چھوٹی سی آبادی کے آخری مکان میں ۔۔ ڈیڑھ سے دو بجے کے درمیان باہر سے واپس آیا اور چھڑوں کے لباس یعنی گھٹنوں تک آتی نیکر میں ملبوس کچن میں ٹھنڈا ٹھنڈااملی آلو بخارے کا شربت بنانے لگ گیا شدید گرمی کی وجہ سے تو برابر کے پلاٹ میں بندھا پڑوسیوں کا کھوتا اپنی مکروہ آواز میں رینگنا شروع ہوگیا اور اسکی آواز سن کر دماغی گرمی دو چند ہوگئی اور میں ڈنڈا اٹھاکر بھاگا کہ اس منحوس کھوتے کو تو بھگاؤں کیونکہ اسکی رسی بہت لمبی چھوڑی ہوتی ہے اسکے مالکان نے ۔۔ اب اس آبادی میں صرف میرے گھر کے باہر لائٹ جل رہی ہوتی ہے ۔۔ مزاحیہ صورتحال اس وقت پیش آئی جب سامنے سڑک سے گزرتے ہوئے جاننے والے لڑکوں نے مجھے اس حلیے میں ڈنڈا اٹھاکر مین گیٹ سے چھلانگ مار کر اندھیرے میں گم ہوتے دیکھا تو وہ سمجھے کے میرا جھگڑا ہوگیا ہے کسی اور وہ لڑکے سڑک سے میرے گھر کی جانب مڑ گئے اور قریب آکر رکتے ہی ایک ہوائی فائر کردیا ( گاؤں دیہات میں ایسا عموماً ہوتا رہتا ہے اور جہاں میں رہتا ہوں وہاں ایک مخصوص ذات کے لوگوں میں آپس میں قتل و غارت ہوتی رہتی ہے )
اور مجھے آوازیں دینے لگے کہ شاہ جی کی ہویا اے خیر اے کیدے نال لڑائی ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔۔ تو میں ہاتھ ٹوٹا ہوا ڈنڈا اٹھائے جب ان کے پس پہنچا تو وہ میرا حلیہ دیکھ کراور پریشان ہوئے اور ان سے زیادہ پریشان میں ہوا کہ انہوں نے فائر کیوں کیا 🤔 ۔۔ خیر جب صورتحال واضح ہوئی تو ہم خوب ہنسے لڑکے کہنے لگے کہ ہم نے آپ کو اڑ کر جاتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ اللہ خیر کرے ۔۔ لیکن میں مطمئن اسلیے تھا کہ میں نے رسی کاٹ کر اور ڈنڈے سے ڈراکر کھوتا بھگادیا تھا جو کہ گھوم پھر کر پھر مالکان کے دروازے پہ پہنچ گیا 😬 لیکن میں نے صبح الٹی میٹم دیا کہ اب میرے گھر کے پاس نا با ندھنا اسے
یعنی جتھے دی کھوتی، اینی قتل و غارت توں بعد وی اوتھے آ ن کھلوتی!
آپ کو دکھ تو نہیں ہوا اس ریورسیبل ری ایکشن کا؟
 
آخری تدوین:
دل بدست آرد کہ حج اکبر است
کسی کا دل جیت لو۔ یہ بہت بڑا حج ہے۔ یہ حج نہیں کیا جاتا۔

جو کسی کا دل جیت لے، اس نے گویا حجِ اکبر کر لیا
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا
پر کسے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا
 

زیک

فوٹوگرافر

باباجی

محفلین
یعنی جتھے دی کھوتی، اینی قتل و غارت توں بعد وی اوتھے آ ن کھلوتی!
آپ کو دکھ تو نہیں ہوا اس ریورسیبل ری ایکشن کا؟
عین فطرت انسانی کے تحت مجھے دکھ تو ہوا لیکن اتنا نہیں اور تسلی یہ ہوئی کہ وہ اپنے مالکان کے دروازے پہ ہی رہا جو کہ میرے گھر سے کافی پرے رہتے ہیں ۔۔ اب میرے گھر کے پاس اگر باندھیں گے تو میں رسی کاٹ دیا کروں گا ۔۔ اٹس لائک اے کولڈ وار 🤭🤭🤭
 

اے خان

محفلین
یہ اردو محفل کی غالبا چالیسویں اور آخری عید تھی۔ آپ سب کی عید کیسی رہی؟عید سے متعلق کوئی پرمزاح واقعہ اگر بتانا چاہیں؟
اس دھاگے میں پہلے سبھی آنے والے حاضر ہووووووں!

یاز سیما علی زیک نیرنگ خیال سید عاطف علی فیصل عظیم فیصل بابا جی ظفری اے خان محمد احمد @گل یاسمیں فہیم[/US
[/QUOTE]

سارا دن، سانسوں کی مالا پہ سمروں سنتا رہا اور وقفے وقفے سے تلا ہوا گوشت کھاتا رہا
 
تقریبا ان دنوں کی بات ہے جب ہم لگ بھگ دوم جماعت میں ہوں گے۔گاؤں میں رہتے تھے اور ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور تھا۔ عید کے لگ بھگ سبھی بچوں کا ہئیر کٹ بھی نائی ہی کرتا تھا۔ یعنی نائی صاحب ایک بار بیٹھک میں تشریف لے آتے اور پہلے دادا ابا، ابا، چچا وغیرہ کی باریاں لگتیں، پھر ہم بچوں کی۔
عیدالاضحی کے قریب قریب کا واقعہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب بچے بیٹھک میں جمع تھے۔ ایک کی حجامت ہو رہی تھی بقیہ انتظار کی سولی پہ ٹنگے تھے۔ ہوا یوں کہ نائی صاحب (جن کا نام ہی واڈو تھا) ہمارے دادا جان کو بتانے لگے (پنجابی میں) کہ میں شہر (منڈی میں) گیا، وہاں میں نے ایک بکرا دیکھا، اس بکرے کے اتنےےےےے لمبے کان تھے!!

قارئین پرواز تخیل کو اس منظر پر لے کر جائیں کہ واڈو صاحب کے سامنے ایک بچی بیٹھی ہے، واڈو صاحب دادا جان کو واقعہ سناتے ہوئے مبالغے کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں اوررررر ایسا کرتے کرتے پتہ ہے انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے "اتنےےےےےےے لمبے کان" کہتے ہوئے اپنی بازو کو بھی یہ لمبائی دکھانے کے لیے حرکت دی، ایسی حرکت کہ سامنے بیٹھی بچی چارپائی سے ہٹ کے بازو کے ساتھ ساتھ چارپائی سے نیچے گر پڑی۔ جیسے حجامت کرنے والے نے حجامت کروانے والے پر جھاڑو پھیر دیا ہو (وہ بھی بنا حجامت کیے )!!!

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بچی میں ہوں!!! اگرچہ میں اس واقعے کی تردید کرتی ہوں مگر کہانی کا لطف یہ ہے کہ میں اس کو آپ کے قیاس اور تخیل کی پرواز پر چھوڑ دوں۔ بس یہ ہوا کہ عینی شاہدین نے وہ واقعہ ہماری خاندانی تاریخ میں لکھ لیا اور جب وہ بچی کزنز کے ساتھ بکر عید کے قریب اکٹھی ہوتی ہے تو اس کے ماضی کے بخیے ادھڑتے ہیں کہ کیسےبکرے کے کانوں کی درست منظر کشی کے لیے حجام نے اسی کو قربانی کا بکرا بنا ڈالا!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
تقریبا ان دنوں کی بات ہے جب ہم لگ بھگ دوم جماعت میں ہوں گے۔گاؤں میں رہتے تھے اور ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور تھا۔ عید کے لگ بھگ سبھی بچوں کا ہئیر کٹ بھی نائی ہی کرتا تھا۔ یعنی نائی صاحب ایک بار بیٹھک میں تشریف لے آتے اور پہلے دادا ابا، ابا، چچا وغیرہ کی باریاں لگتیں، پھر ہم بچوں کی۔
عیدالاضحی کے قریب قریب کا واقعہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب بچے بیٹھک میں جمع تھے۔ ایک کی حجامت ہو رہی تھی بقیہ انتظار کی سولی پہ ٹنگے تھے۔ ہوا یوں کہ نائی صاحب (جن کا نام ہی واڈو تھا) ہمارے دادا جان کو بتانے لگے (پنجابی میں) کہ میں شہر (منڈی میں) گیا، وہاں میں نے ایک بکرا دیکھا، اس بکرے کے اتنےےےےے لمبے کان تھے!!

قارئین پرواز تخیل کو اس منظر پر لے کر جائیں کہ واڈو صاحب کے سامنے ایک بچی بیٹھی ہے، واڈو صاحب دادا جان کو واقعہ سناتے ہوئے مبالغے کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں اوررررر ایسا کرتے کرتے پتہ ہے انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے "اتنےےےےےےے لمبے کان" کہتے ہوئے اپنی بازو کو بھی یہ لمبائی دکھانے کے لیے حرکت دی، ایسی حرکت کہ سامنے بیٹھی بچی چارپائی سے ہٹ کے بازو کے ساتھ ساتھ چارپائی سے نیچے گر پڑی۔ جیسے حجامت کرنے والے نے حجامت کروانے والے پر جھاڑو پھیر دیا ہو (وہ بھی بنا حجامت کیے )!!!

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بچی میں ہوں!!! اگرچہ میں اس واقعے کی تردید کرتی ہوں مگر کہانی کا لطف یہ ہے کہ میں اس کو آپ کے تخیل کی پرواز اور قیاس پر چھوڑتی ہوں۔ بس یہ ہوا کہ عینی شاہدین نے وہ واقعہ ہماری خاندانی تاریخ میں لکھ لیا اور جب وہ بچی کزنز کے ساتھ بکر عید کے قریب اکٹھی ہوتی ہے تو اس کے ماضی کے بخیے ادھڑتے ہیں کہ کیسےبکرے کے کانوں کی درست منظر کشی کے لیے حجام نے اسی کو قربانی کا بکرا بنا دیا!!!
😆😆😆😆😆😆😆😆
 

زیک

فوٹوگرافر
تقریبا ان دنوں کی بات ہے جب ہم لگ بھگ دوم جماعت میں ہوں گے۔گاؤں میں رہتے تھے اور ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور تھا۔ عید کے لگ بھگ سبھی بچوں کا ہئیر کٹ بھی نائی ہی کرتا تھا۔ یعنی نائی صاحب ایک بار بیٹھک میں تشریف لے آتے اور پہلے دادا ابا، ابا، چچا وغیرہ کی باریاں لگتیں، پھر ہم بچوں کی۔
عیدالاضحی کے قریب قریب کا واقعہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب بچے بیٹھک میں جمع تھے۔ ایک کی حجامت ہو رہی تھی بقیہ انتظار کی سولی پہ ٹنگے تھے۔ ہوا یوں کہ نائی صاحب (جن کا نام ہی واڈو تھا) ہمارے دادا جان کو بتانے لگے (پنجابی میں) کہ میں شہر (منڈی میں) گیا، وہاں میں نے ایک بکرا دیکھا، اس بکرے کے اتنےےےےے لمبے کان تھے!!

قارئین پرواز تخیل کو اس منظر پر لے کر جائیں کہ واڈو صاحب کے سامنے ایک بچی بیٹھی ہے، واڈو صاحب دادا جان کو واقعہ سناتے ہوئے مبالغے کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں اوررررر ایسا کرتے کرتے پتہ ہے انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے "اتنےےےےےےے لمبے کان" کہتے ہوئے اپنی بازو کو بھی یہ لمبائی دکھانے کے لیے حرکت دی، ایسی حرکت کہ سامنے بیٹھی بچی چارپائی سے ہٹ کے بازو کے ساتھ ساتھ چارپائی سے نیچے گر پڑی۔ جیسے حجامت کرنے والے نے حجامت کروانے والے پر جھاڑو پھیر دیا ہو (وہ بھی بنا حجامت کیے )!!!

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بچی میں ہوں!!! اگرچہ میں اس واقعے کی تردید کرتی ہوں مگر کہانی کا لطف یہ ہے کہ میں اس کو آپ کے تخیل کی پرواز اور قیاس پر چھوڑتی ہوں۔ بس یہ ہوا کہ عینی شاہدین نے وہ واقعہ ہماری خاندانی تاریخ میں لکھ لیا اور جب وہ بچی کزنز کے ساتھ بکر عید کے قریب اکٹھی ہوتی ہے تو اس کے ماضی کے بخیے ادھڑتے ہیں کہ کیسےبکرے کے کانوں کی درست منظر کشی کے لیے حجام نے اسی کو قربانی کا بکرا بنا دیا!!!
حجام کے ہاتھ میں استرا نہ تھا؟
 
Top