مزاح برائے تاوان

باباجی

محفلین
تقریبا ان دنوں کی بات ہے جب ہم لگ بھگ دوم جماعت میں ہوں گے۔گاؤں میں رہتے تھے اور ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور تھا۔ عید کے لگ بھگ سبھی بچوں کا ہئیر کٹ بھی نائی ہی کرتا تھا۔ یعنی نائی صاحب ایک بار بیٹھک میں تشریف لے آتے اور پہلے دادا ابا، ابا، چچا وغیرہ کی باریاں لگتیں، پھر ہم بچوں کی۔
عیدالاضحی کے قریب قریب کا واقعہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب بچے بیٹھک میں جمع تھے۔ ایک کی حجامت ہو رہی تھی بقیہ انتظار کی سولی پہ ٹنگے تھے۔ ہوا یوں کہ نائی صاحب (جن کا نام ہی واڈو تھا) ہمارے دادا جان کو بتانے لگے (پنجابی میں) کہ میں شہر (منڈی میں) گیا، وہاں میں نے ایک بکرا دیکھا، اس بکرے کے اتنےےےےے لمبے کان تھے!!

قارئین پرواز تخیل کو اس منظر پر لے کر جائیں کہ واڈو صاحب کے سامنے ایک بچی بیٹھی ہے، واڈو صاحب دادا جان کو واقعہ سناتے ہوئے مبالغے کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں اوررررر ایسا کرتے کرتے پتہ ہے انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے "اتنےےےےےےے لمبے کان" کہتے ہوئے اپنی بازو کو بھی یہ لمبائی دکھانے کے لیے حرکت دی، ایسی حرکت کہ سامنے بیٹھی بچی چارپائی سے ہٹ کے بازو کے ساتھ ساتھ چارپائی سے نیچے گر پڑی۔ جیسے حجامت کرنے والے نے حجامت کروانے والے پر جھاڑو پھیر دیا ہو (وہ بھی بنا حجامت کیے )!!!

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بچی میں ہوں!!! اگرچہ میں اس واقعے کی تردید کرتی ہوں مگر کہانی کا لطف یہ ہے کہ میں اس کو آپ کے قیاس اور تخیل کی پرواز پر چھوڑ دوں۔ بس یہ ہوا کہ عینی شاہدین نے وہ واقعہ ہماری خاندانی تاریخ میں لکھ لیا اور جب وہ بچی کزنز کے ساتھ بکر عید کے قریب اکٹھی ہوتی ہے تو اس کے ماضی کے بخیے ادھڑتے ہیں کہ کیسےبکرے کے کانوں کی درست منظر کشی کے لیے حجام نے اسی کو قربانی کا بکرا بنا ڈالا!!!
اتنی تفصیل یقیناً وہ بچی ہی بتا سکتی ہے جو اس وقت نائی کے تخیل میں بکرا بنی ہوئی تھی
🤭
 
Top