سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہاں اے سحابِ فکر گُہر بار پھر سے ہو
ہاں اے نوائے شوق اثر آثار پھر سے ہو
اہلِ نظر میں ذوق کا اظہار پھر سے ہو
کافی ہے وقت، رونقِ بازار پھر سے ہو
کاسد نہ ہو متاع تو پھر مُشتری بہت
جوہر سُخن میں چاہیے ہیں جوہری بہت
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خون جگر سے نظم کی صورت سنوار دے
ایک ایک لفظ سے رُخِ معنی نکھار دے
گلزار فکر کو تر و تازہ بہار دے
ایک ایک بند آج دلوں میں اتار دے
اُترا ہے آسمان سے بس یہ گمان ہو
ہر بیت اہلِ بیت کے شایانِ شان ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیغِ زباں پہ صیقلِ غم کچھ سوا تو ہو
آئینہ سُخن پہ ذرا کچھ جِلا تو ہو
اشکِ رواں سے نخلِ وفا کچھ ہرا تو ہو
فصلِ عزا ہے حقِ عزا کچھ ادا تو ہو
اک مرثیہ جو کہہ لیا اک اور بھی سہی
وہ دَور ہو چکا ہے تو یہ دَور بھی سہی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دورِ عزا کے واسطے کیا وقت کا سوال
کم فُرصتی میں بھی تر و تازہ ہے یہ نہال
مداحی حسین میں کیا فکرِ قیل و قال
اُن کے کرم سے کام نہیں ہے کوئی محال
پائے ہیں حُب آلِ نبی کے ایاغ بھی
اللہ نے قلم بھی دیا ہے دماغ بھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چلنے میں بے نظیر ہے یہ توسن قلم
ہر فاصلے کو طے کرے اس کا ہر اک قدم
ہر معرکے میں اس نے رکھا ہے بڑا بھرم
میدان وہ غزل کا ہو یا مجلس الم
جس راستے پہ چلتا ہے رُکتا نہیں کبھی
بارِ گرانِ وقت سے جُھکتا نہیں کبھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہنائے شش جہات پہ ہے اس کی دسترس
ٹھوکر میں اس کی ہیں گل و ریحان و خار و خس
رستہ طویل بھی ہو تو کرتا نہیں ہے بس
ہو مدتوں کا کام تو کر لے بہ یک نفس
ہمراہِ فکر دشتِ سخن میں چلا ہے یہ
ہے ہم قدم خیال کا وہ باد پا ہے یہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہے وقفہ طویل اسے فرصت قلیل
اپنی روانیوں میں یہ اپنا ہی ہے عدیل
چاہے زمینِ سخت ہو یا بحر ہو طویل
اک جست میں عبور یہ کرتا ہے ہر فصیل
مہمیز کی نہ تاب اسے تازیانے کی
جنبش میں اس کی وسعتیں سارے زمانے کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
با وصفِ تیزگامی و طراری و زقند
کرتا ہے اپنے دل کا کہا بس یہ خود پسند
چلتا ہے اپنے آپ تو ہوتا ہے آپ بند
اتنا ہی خاک گیر ہے یہ جس قدر بلند
کیا مصلحت ہے وقت کی کچھ جانتا نہیں
دل کے سوا کسی کا کہا مانتا نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
منہ زور اس بلا کا جو اس کا نہ دل کھلے
اپنی جگہ سے پھر یہ ہلائے نہیں ہلے
اتنا ہی اور رُکتا ہے جتنی سزا ملے
دیکھے ہیں خوب اس کی شرارت کے سلسلے
رُک جائے جب تو اس پہ کسی کا نہ بس چلے
ہو جائے جب رواں تو یہ بے پیش و پس چلے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اک معرکے کے بعد ہوا تھا جو مضمحل
چاہا کہ پھر سے اس کے ہوں آرام میں مخل
کوشش کے باوجود بھی لیکن کھلا نہ دل
پھر لَو لگائی ساقی کوثر سے مستقل
جب جام حب آل پیمبر ملے اسے
مثل براق اڑنے لگا پَر ملے اسے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجلس میں اربعین کی دن رہ گئے تھے دس
ماحول وہ تھا جیسے کہ ہو تنگی نفس
کوتاہ وقت دیکھ کے رُکنے لگا نفس
طعنہ روانیوں کو دیا اس کی دل نے، بس؟
میدان آج کوئی میسر نہیں تجھے
کچھ بھی لحاظ وعدہ یاور نہیں تجھے

----------------------------------------------
ڈاکٹر یاور عباس مرحوم جن کی منعقدہ مجلس کے لیے یہ مرثیہ کہا گیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ سن کے جب چلا تو چلا صورت شمیم
اک جادہ جدید بنی منزل قدیم
کچھ فاصلے کا خوف نہ کچھ راستے کا بیم
یہ کارنامہ اس نے دکھایا بڑا عظیم
مکّے گیا مدینے گیا کربلا گیا
راہ نجف سے منزل مقصد پہ آ گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شکر خُدا قلم کو وہ میداں عطا ہوا
ڈانڈا ہے جس کا باغ جناں سے ملا ہوا
ہے ہر قدم پہ اک گل رحمت کھلا ہوا
جو پہلے نینوا تھا وہ اب کربلا ہوا
جو ذرہ اس زمین کا ہے حق پناہ ہے
عظمت کی اس کے عظمت کعبہ گواہ ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کعبہ خلیل رب کی بنا اور خدا کا گھر
قلب زمین، قبلہ عالم بئے بشر
عظمت پناہ، مرکز دیں، قصر معتبر
جاروب کش جہاں رہے روح القدس کے پر
بندوں کا بارگاہِ خدا میں خراج ہے
یعنی سرزمیں پہ بزرگی کا تاج ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تعمیر میں شریک خلیل و ذبیح پاک
کس درجہ راہ حق میں تھا دونوں کو انہماک
پیغمبروں نے سنگ کا سینہ کیا تھا چاک
اللہ کا مکان بنایا تھا ہو کے خاک
آثار میں ہے حمد خدائے جلیل کی
آواز آ رہی ہے دعائے خلیل کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آواز آ رہی ہے کہ اے رب کار ساز
اس گھر کو کائنات میں تو رکھیو سرفراز
اس ارض بے گیاہ کو دے نعمت مجاز
رُخ کر کے اس کی سمت زمانہ پڑھے نماز
دینِ حنیفِ حق کی شکایت یہیں سے ہو
ایک آخری رسول کی بعثت یہیں سے ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آ جائے وہ رسول میرے خاندان میں
نکلے جو کامیاب ہر اک امتحان میں
اترے ترا کلام اسی کی زبان میں
ہو تیری شان جلوہ نما اس کی شان میں
تکمیل دین و نعمت کامل عطا کرے
وہ کشتی حیات کو ساحل عطا کرے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آخر ہوئی دُعائے براہیم مُستجاب
اُبھرا زمینِ مکّہ سے وحدت کا آفتاب
روشن ہوا زمانہ چھٹا ظلم کا سحاب
اٹھنے لگا حیات سے ظلمت کا ہر حجاب
روشن کچھ ایسا رنگِ شب تار ہو گیا
عالم تمام مطلع انوار ہو گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھا عرش کا چراغ سرِ فرش جلوہ گر
اہلِ یقیں کو طوروفا آمنہ کا گھر
انوار میں نہا گئے کعبے کے بام و در
وہ روشنی تھی جس پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
وہ نور تھا کہ خاک کے دل سے ضیا اٹھے
ذرّے ستارے بن گئے اور جگمگا اٹھے
 
Top