سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر قلب میں بسی ہے وہی ہے یہ کربلا
جو سرِّ سرمدی ہے وہی ہے یہ کربلا
جنت جہاں بنی ہے وہی ہے یہ کربلا
پہچان لو وہی ہے وہی ہے یہ کربلا
کل خاک اُڑ رہی تھی جہاں آج نُور ہے
جو ذرّہ جس مقام پہ پے رشکِ طور ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میزانِ قوّتِ حق و باطل ہے یہ مقام
کرتا ہے بڑھ کے اَوجِ ثرّیا اسے سلام
چمکا ہے اس جگہ نئے سر سے خدا کا نام
پایا ہے اس میں عظمتِ اسلام نے دوام
کیا اوس پڑ گئی ہوس انتقام پر
باطل بھڑک کے خاک ہوا اس مقام پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آئین زندگی جو بتایا تھا دین نے
باطل کے بند کر دیے تھے اُس نے راستے
دُنیا پرست قتل ہوئے تھے بڑے بڑے
اُن سب کے داغ سینہ باطل پہ ثبت تھے
بعد از نبی علی ہوئے پھر کتنے نام تھے
شبیر ہی تو دیں کے مدار المہام تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبیر ہی کے نانا تھے اللہ کے رسول
جاری وہی تو کر گئے تھے دین کے اصول
شبیر ہی کی والدہ تھیں سیدہ بتول
شبیر ہی کو بیعتِ باطل نہ تھی قبول
باطل سے جب فضاؤں میں کچھ برہمی ہوئی
شبیر ہی پہ سب کی نظر تھی جمی ہوئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قُرآن دے رہا تھا دُہائی مجھے بچاؤ
اسلام کہہ رہا تھا کہ میری مدد کو آؤ
دُنیا کی مصلحت کے یہ تھے مشورے نہ جاؤ
باطل کا بڑھ رہا تھا اُدھر سے بڑا دباؤ
شبّیر اپنے فرض سے منہ موڑتے بھلا؟
قرآن و دیں کے ساتھ کو اب چھوڑتے بھلا؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُٹھے کمر کو کس کے ردائے رسول سے
مانگی دُعا ثبات کی رُوحِ بتول سے
رُخصت ہوئے مدینے میں ہر با اصول سے
اب تو مقابلہ تھا ظلوم و جہول سے
قرآن سے کہا کہ بچاتے ہیں ہم ابھی
اسلام سے کہا ٹھہر، آتے ہیں ہم ابھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب کربلا تھی اور جگر بند مرتضٰے
اِک سمت ظلم ایک طرف دینِ مصطفٰے
رایت اُدھر کھلے یہاں قرآں کُھلا ہوا
اُس سمت ظلم و جور اِدھر صبر اور رضا
کس درجہ فوجِ دینِ خدا ولولے میں تھی
باطل سے جنگ فیصلہ کُن مرحلے میں تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بیعت کے اس طرف سے تقاضے وہ بار بار
انکار اس طرف سے بصد ہمّت و وقار
اُس سمت یاس، خوف، گھٹن، رنج، اضطرار
اِن کی طرف سکون و شکیبائی و قرار
تھے آتشِ حسد سے ستمگر جلے ہوئے
سانچے میں سب وفا کے اِدھر تھے ڈھلے ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خیموں کے گرد پھرتے تھے عباسِ نامدار
پروانہ وار شمع امامت پہ تھے نثار
تھا زندگی کا خدمتِ شبیر پر مدار
بس دیکھتے تھے اُن کی نگاہوں کو بار بار
فوجیں تو اک طرف تھیں وہ جذبے تھے شیر کے
رکھ دیتے یہ فرات کی موجوں کو پھیر کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اکبر کو انتظار کہ حکمِ پدر ملے
جوہر دکھائیں اپنے اجازت اگر ملے
مل جائے اذن بھی جو دُعا کو اثر ملے
غربت کا دور ختم ہو جنّت میں گھر ملے
غم تھا پھوپھی نہ روئیں کہیں پُھوٹ پُھوٹ کر
رکھا تھا جذبِ دل کا گلا گھوٹ گھوٹ کر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قاسم سلاح جنگ سجاتے تھے بار بار
قبضے میں لے کے تولتے تھے تیغِ آبدار
اُنگلی سے چُھو کے دیکھتے گاہے انی کی دھار
ترکش اُلٹ کے تیروں کا کرتے کبھی شمار
یا دُور ہی سے زہ پہ چڑھا کر کمان کو
کرتے نشانہ فوجِ ستم کے نشان کو
 
Top