سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ نور دفعتا بھی نمایاں نہیں ہوا
پہنے رہا امانت و حق گوئی کی قبا
قندیل صدق سے نظر آتی رہی ضیا
اظہار کے لیے ابھی موزوں نہ تھی فضا
پہنچی نگاہِ خلق نہ اس کے جمال تک
دیکھا کیا زمانے کو چالیس سال تک
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چالیس سال تک وہ تامل وہ غور و فکر
دیکھا کہ روز بگڑا ہے دنیا کا رنگ اور
انسانیت کی حد سے گرے ہیں بشر کے طور
چھایا ہوا ہے جہل و ضلالت کی ایک دور
ڈوبے ہوئے ہیں کبر و خودی کے سرور میں
انساں خدا کو بھول گئے ہیں غرور میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گھر میں خدا کے بُت نظر آتے تھے ہر طرف
ایک ایک گھر میں رکھے تھے اصنام صف بہ صف
منعم قوی تھے اور ضعیف ہوتے تھے ہدف
باہم مخاصمت میں قبائل تھے سر بکف
موجود بے حیائی کے انداز سب میں تھے
اشعارِ فحش عام زباں زد عرب میں تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انساں درندگی میں بہائم سے ہولناک
حالت تباہ، دامنِ تہذیب چاک چاک
حق سے نفور اور معاصی میں انہماک
ہر سو قتال و جنگ و جدال اور خون و خاک
کوئی کراہتا تھا کوئی مُسکراتا تھا
مظلوم رو رہا تھا قوی گنگناتا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دیکھا کیے یہ حال مگر تھا اک انتظار
آخر حِرا میں آئی نظر شانِ کردگار
رنگِ زمانہ دیکھ کے بڑھتا جو اضطرار
غارِ حرا میں ملتا تھا دل کو ذرا قرار
حُکمِ خُدا سے پیک مشیت زمیں پہ آئے
جبریل لے کے خلعت بعثت وہیں پہ آئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آیا پیام رب جہاں اے رسول پڑھ
انسانیت کا درس وفا کے اصول پڑھ
ان کو پڑھا، قواعدِ رد و قبول پڑھ
آئیں گے راہِ حق پہ ظلوم و جہول پڑھ
بعثت کے بعد رنگ ہی عالم کا اور تھا
وہ تھم گیا وہیں پہ جو دنیا کا دور تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وحدت کے درس ان کو ملے، تھے جو بت پرست
آنے لگے وہ ہوش میں جو ہو چکے تھے مست
اک سطح پر سب آئے، زبردست و زیرِ دست
اٹھا تھا سنگ و خشت سے بھی نعرہ الست
ہر ایک کی تلافی مافات ہو گئی
انسانیت کی حد پہ مساوات ہو گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عقدے تمام حلِّ مسائل میں ڈھل گئے
اوراق جہل علم کی بھٹی میں جل گئے
بل رشتہ حیات میں جو تھے نکل گئے
صدیوں سے جو بدل نہ سکے تھے بدل گئے
تاریخ پیش کر نہیں سکتی مثال میں
جو انقلاب آیا تھا تئیس سال میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیئس سالہ عہدِ رسالت تو دیکھئے
یہ انقلاب اور یہ مدت تو دیکھئے
تبلیغِ دینِ حق کی یہ صورت تو دیکھئے
بدلے ہوئے عرب کی یہ حالت تو دیکھئے
جو باعثِ فساد تھی وہ چیز اٹھ گئی
آقا کی اور غلام کی تمیز اٹھ گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھی جن میں سرکشی نظر آئے وہ سرنگوں
جو بےقرار تھے اُنھیں حاصل ہوا سکوں
کبر و نفاق و ظلم کی حالت ہوئی زبوں
انگڑائی لے کے عین خرد بن گیا جنوں
فیضِ رسولِ پاک سے کیا شان ہو گئی
وحشت نکھر کے ہوش کا عنوان ہو گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُڑتی تھی پہلے خاک، برستا تھا آج زَر
بھرپور انبساط سے تھے مفلسوں کے گھر
دنیا کی شکل دور تک آتی نہ تھی نظر
حاصل ہوئی تھیں نعمتیں سب کے لیے مگر
تھا عرش سے بلند جو رُتبہ رسول کا
کرتا تھا فاقے آج بھی کنبہ بتول کا
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بنت رسول آسیا گرداں ہیں دیکھیے
شانوں پہ داغ مَشک نمایاں ہیں دیکھیے
مزدور آج بھی شہ مرداں ہیں دیکھیے
اور خود رسول بے سر و ساماں ہیں دیکھیے
ہیں ٹھوکروں میں تاج سلاطیں پڑے ہوئے
لیکن قدم ہیں راہِ رضا میں گڑے ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
۔۔۔ پہ شاہِ دو عالم کا ہے گزر
فاقوں میں بھی گزر گئے اوقات بیشتر
آسائشِ حیات کو سوچا نہیں مگر
تھا درس گاہِ صبر رسولِ خدا کا گھر
اوروں میں ملک و مال کی تقسیم کی گئی
اپنوں کو صبر و ضبط کی تعلیم دی گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حسنین دیکھتے تھے کہ نانا بصد وقار
کرتے نہیں ہیں عیشِ زمانہ کو اختیار
دولت ہے ان کو ہیچ، خدا پر ہے اعتبار
دونوں نے ساری عمر نِباہا یہی شعار
کتنے وسیع القلب تھے سب کو بتا دیا
جو کچھ ملا وہ راہِ خدا میں لُٹا دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبّر نے ترک کر دی خلافت اسی لیے
چاہی نہ کوئی زیست کی راحت اسی لیے
برداشت کر لی زہر کی شدّت اسی لیے
قربان کر دی زیست کی دولت اسی لیے
دیں دار ہم ہیں دولتِ دیں چاہیے ہمیں
دنیا جو چاہتی ہے، نہیں چاہیے ہمیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دُنیا کو یاد ہو گی مدینے کی ایک شام
تقسیم کر رہے تھے غنیمت شہِ انام
کچھ اسلحہ تھے چند کنیزیں تھیں کچھ غلام
اُس دم بتول پاک نے آ کر کیا سلام
کی عرض، اِک کنیز عطا کیجیے ہمیں
گھر کی مشقتوں سے رہا کیجیے ہمیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فرمایا شاہِ دیں نے کہ اے میری لختِ دل
دُنیا کو ہے ثبات نہ جینا ہے مُستقل
تکلیف عارضی سے نہیں ہوتے مضمحل
وہ راہ چلیے جو رہِ حق سے ہے متصل
شکرِ خدائے پاک کرد حالِ زشت میں
حوریں کنیز بن کے ملیں گی بہشت میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیوں طبع اہلِ بیت نہ ہوتی بھلا غنی
ہر ایک جانتا تھا کہ دُنیا تو ہے دنی
تھی بارگاہِ حق میں مسلسل فروتنی
دنیا کے سامنے رہیں سب گردنیں تنی
تعمیلِ حُکمِ حق میں رُکا ہی نہیں کوئی
دُنیا نے لاکھ چاہا جُھکا ہی نہیں کوئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبّیر بھی تھے فرد اسی خاندان کے
شبّر کی تھی جو شان اُسی آن بان کے
یہ جانتے تھے لوگ عدو ہوں گے جان کے
معلوم تھا کہ آئیں گے وقت امتحان کے
وہ امتحان گاہ سرِ کربلا بنی
کیا سر زمین منزل صبر و رضا بنی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صبر و ثباتِ شہ کا خزینہ ہے کربلا
جس میں ہے دفن حق وہ دفینہ ہے کربلا
یا خاتمِ جہاں کا نگینہ ہے کربلا
جس میں حسین ہیں وہ مدینہ ہے کربلا
جب سے امین تربتِ شبیّر ہو گئی
اس سر زمیں کی خاک بھی اکسیر ہو گئی
 
Top