مذاہب کا تقابلی مطالعہ

فاروق جی ، کتے کا جوتا پانی ، کیا حکم رکھتا ہے ؟ بن باز کے اصول پر پرکھ کر بتائیں ؟

چونکہ آپ ذاتیات اور من و تو کے دائرے سے باہر نہیں‌نکل رہے ہیں، اور اب جب آپ رسول اکرم کی حدیث کے منکر ہو کر تارک رسول اور تارک حدیث کا درجہ اختیار کرچکے ہیں، لہذا مجبور ہوں‌کہ اسی سطح‌ پر اترا جائے۔ پہلے آپ کی بات کا جواب اور اس کے بعد ذرا یہ دیکھتے ہیں‌کے اللہ تعالی کے عاید کردہ فرائض‌کی تکمیل کس قدر ہے؟

آپ کے سوال کا جواب، بہت ہی آسان۔ پہلے آپ طے کرلیجئے کہ آپ جھوٹا کہنا چاہتے ہیں یا جوتا؟ پھر آپ یہ آیت دیکھ لیجئے:

[AYAH]5:4[/AYAH] لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لئے (مار کر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے

قرآن کے اصول اور جدید علم کی روشنی میں اس آیت کو استعمال کرکے دیکھئے۔ اگر پاک ہے تو جائز اور اگر ناپاک ہے تو ناجائز؟ اگر جدید علم آپ کے پاس ہے اور کتے کے منہہ کے بکٹیریا آپ کو ناپاک لگتے ہیں تو نہ استعمال کیجئے۔

ایسے پر جہالت سوالات سے گریز کیجئے۔ ایسے سوالات بے تحاشا ان کتب میں درج ہیں جو مولویت استعمال کرتی رہی ہے۔

آپ اب کے لئے ایسا ہی بے وقوفی سے بھرپور ایک سوال۔ یہ بتائیے کہ آپ ایک پانی کے پاس پہنچتے ہیں تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کتا یہاں پانی پی کر گیا ہے کہ نہیں؟

اگر آپ پسند کریں تو ایسے سوالات و جوابات سے پر، پوری کتاب اکٹھی فراہم کردیتا ہوں۔

جن کتب پر لوگ مصر ہیں۔ ان کتب نے کسی کو بھی کہیں کا نہیں رکھا۔ کچھ لوگوں نے جن کا بالکل اتا پتا نہیں طرح طرح کی باتیں جن کا سرا ہم خود ان سے بھی نہیں ملا سکتے، لکھ ماری ہیں اور کم علمی کے باعث کچھ لوگ ان بے سرو پا باتوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔

اب آپ سے ایک سوال:
آپ مسلمان ہیں؟
اگر ہاں‌، تو کیا جس طور پر ایمان لانے کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے اس پر عمل کرتے ہیں؟‌
جس طور پر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے پڑھتے ہیں؟
اگر ہاں، تو یہ آیت پڑھئے اور بتائیے کے ایمان اور نماز جب اتنے اہم ہیں تو ایمان کے فوراَ‌بعد اور نماز سے فوراَ پہلے اللہ تعالی نے جس فرض کا حکم دیا ہے وہ کیا ہے؟
اور کیا آپ یہ فرض پورا کرتے ہیں؟ دیکھئے [AYAH]2:177[/AYAH] اور بتائیے کہ [ARABIC]وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ[/ARABIC] کا فرض‌آپ نے اب تک کی زندگی میں کس طور ادا کیا؟ اور اگر یہ فرض‌نہیں‌ادا کیا تو کیا وجہ ہے؟

آپ کی آسانی کے لئے آیت یہاں درج ہے۔ اور اس سے پیشتر آپ پوچھیں میں‌اس فرض کو جس کا پوچھا ہے پورا کرتا ہوں، اور باقاعدگی سے۔
[AYAH]2:177[/AYAH] [ARABIC] لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونََ [/ARABIC]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال دے قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

والسلام
 
آپ خوب جانتے ہیں کہ میرے نزدیک نہ کوئی کتاب، خدا کی کتاب کے سوا، غلطی سے پاک ہے، گو وہ کیسی ہی اصح الکتب کیوں نہ سمجھی گئی ہو۔ اور نہ کوئی شخص سوائے رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کے خطا اور غلطی سے محفوظ ہے۔ گو وہ صحابی اور امام ہی کیوں نہ ہو۔ بلا شبہ اسلام اس پرفخر کرسکتا ہے کہ اس میں بہت بڑے مفسر اور محدث اور مجتہد اور عالم اور فقیہ اور حکیم ہوئے۔ اور بہت مفید اور قابل قدر کتابیں لکھی گئیں۔ اور ہمارے بزرگوں نے بہت بڑا ذخیرہ علم کا ہمارے لئے چھوڑا اور ہم ان کے علم اور اجتہاد اور رائے اور تالیفات سے بہت بڑی مدد پاتے ہیں۔ مگر کوئی بھی ان میں‌ معصوم نہ تھا۔ نہ کسی پر جبریل امین وحی لائے تھے نہ کسی کی شان میں خدا نے [AYAH]53:3[/AYAH] [ARABIC]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/ARABIC] [AYAH]53:4[/AYAH] [ARABIC] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [/ARABIC]فرمایا تھا۔ اس پر بھی اگر کوئی "کسی"‌ کو ہر طرح سے ہر بات میں اور ہر حالت میں واجب التقلید سمجھے اور باوجود ظاہر ہوجانے غلطی کے خواہ وہ عقل و فطرت کی وجہ سے ہو یا کسی اور سبب سے" اسی" کی کہی ہوئی یا لکھی ہوئی بات کو سچ سمجھتا اور یقین کرتا رہے تو وہ میرے نزدیک مشرک فی صفۃ النبوۃ‌ ہے۔ اور عقل سے خارج اور راہ راست سے کوسوں دور۔۔۔

19 ستمبر 1892ع ، حیدرآباد، دکن،
مخطوطہ جناب محسن الملک مولوی سید مہدی علیخان بنام جناب سر سید احمد خان۔
صفحہ 9 تفسیر القرآن سرسید احمد خان۔
http://aboutquran.com/ba/bio/sirsyed_ahmed_khan/tqss_preface.djvu
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ابھی مجھے نبیل اراکین کے اس زمرے میں تو نہیں‌ ڈالیں‌ گے ، جس میں‌ موجود اراکین جب کبھی محفل پر جواب دینے جائیں‌ تو "سرور بزی" کا ایرر آتا ہے !! ;):eek::grin:
حضرت! يہ اپنے آزمودہ اور مجرب نسخے نبيل کو تو نہ بتائيں،پھر ہم لوگ کہاں جائيں گے؟؟
:eek:
 

فرید احمد

محفلین
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لئے (مار کر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے
جواب صاف پاک ناپاک کا لکھ دیں ۔ تو کرم ہوگا ۔
جن کتب پر لوگ مصر ہیں۔ ان کتب نے کسی کو بھی کہیں کا نہیں رکھا۔ کچھ لوگوں نے جن کا بالکل اتا پتا نہیں طرح طرح کی باتیں جن کا سرا ہم خود ان سے بھی نہیں ملا سکتے، لکھ ماری ہیں اور کم علمی کے باعث کچھ لوگ ان بے سرو پا باتوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔
شاید یہ بات تم نے ہی خود ہی یوں ہی لکھ ماری ۔
میں اس پانی کے بارے میں سوال کرتا ہوں جس کے بارے میں معلوم ہو ، جس کے بارے میں معلوم نہ ہو اس پر بحث بعد میں ہوگی ۔
ذاتیات کا مسئلہ نہیں ، دین کی بات کرنے والا خود کیوں مثال نہیں بنتا ؟
آج کل سیاست میں نامزدگی میں بھی یہ شرط ہے کہ اس کا بایودیٹا ظاہر کیا جائے ۔
 

فرید احمد

محفلین
میں نے پوچھا ھا کہ بن باز کے اصول کے مطابق حدیث اور قرآن کے مقابلہ کرکے بتائیں ، صرف حوالہ دے کر نہ نکلیں ، یہ ذاتیات کا بہانہ اچھی چیز ہے ، جو ہر بار عذر کے طور پر پیش فرماتے ہو ۔
 
فرید احمد صاحب۔ بن باز نے رسول اللہ کی ایک حدیث بیان کی ہے جو، آپ کو قابل قبول نہیں۔ رسول اللہ کے قول مبارک کو بن باز کی ہدائت کے مطابق، رسول اللہ کے بتائے ہوئے اصول کے تحت، آپ کی بات کو قرآن کی روشنی میں پرکھا۔ بہت سے بھائیوں کے لئے یہ قابل قبول ہے۔ آپ کو وہ بھی قبول نہیں۔ اللہ تعالی جوفرماتا ہے وہ قبول نہیں، رسول جو فرماتا ہے وہ قبول نہیں۔ جب لوگ اللہ تعالی کا سکھلایا ہوا علم جو کہتا ہے وہ قبول نہیں، فرض‌جو لازم ہیں وہ پورے نہیں کرتے، جو سوال کئے جاتے ہیں‌ ان کا جواب نہیں دیتے، توصاحب بحث کس طور کریں؟

ایسے اشخاص سے تووہ لوگ بہتر ہیں جو کہ صاف طور پر انکار کرتے ہیں۔ یہاں تو حیلے بہانوں سے حدیث رسول کا انکار، قرآن کی آیات کا انکار ہورہا ہے اور لوگ اپنی اپنی کبریائی کے نشے میں چور ہیں۔ نہ قرآن قبول ہے، نہ حدیث قبول ہے، نہ ہی جدید علم کی روشنی میں نتائج قبول ہیں۔ کچھ قرآن بغور پڑھئے اور ہدائت کے لئے دعا کیجئے۔ ہماری دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ قرآن پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں‌رکھئے کے کہنے والی ذات پاک خالق کائنات کی ہے، اللہ تعالی کی ہے۔ جوآپ سے پیار کرتا ہے، ارحم الراحمین ہے، آپ کو نیک راہ پر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر آپ کا خیال نہیں کرتا تو یہ ہدایت نامہ آپ کے اور ہمارے لئے نہ بھیجتا۔

والسلام،
 

قسیم حیدر

محفلین
یہ آیت پڑھئے اور بتائیے کے ایمان اور نماز جب اتنے اہم ہیں تو ایمان کے فوراَ‌بعد اور نماز سے فوراَ پہلے اللہ تعالی نے جس فرض کا حکم دیا ہے وہ کیا ہے؟
اور کیا آپ یہ فرض پورا کرتے ہیں؟ دیکھئے [AYAH]2:177[/AYAH] اور بتائیے کہ [ARABIC]وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ[/ARABIC] کا فرض‌آپ نے اب تک کی زندگی میں کس طور ادا کیا؟ اور اگر یہ فرض‌نہیں‌ادا کیا تو کیا وجہ ہے؟

آپ کی آسانی کے لئے آیت یہاں درج ہے۔ اور اس سے پیشتر آپ پوچھیں میں‌اس فرض کو جس کا پوچھا ہے پورا کرتا ہوں، اور باقاعدگی سے۔
[AYAH]2:177[/AYAH] [ARABIC] لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونََ [/ARABIC]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال دے قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

والسلام

خان صاحب کو اللہ جزائے خیر دے کہ انہوں‌نے انفاق فی سبیل اللہ کی طرف ہم سب کی توجہ دلائی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اس اہم فریضے کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔
خان صاحب نے جس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں ترتیب کچھ یوں ہے۔
ایمان، انفاق، نماز، زکٰوۃ، ایفائے عہد وغیرہ۔
اس آیت سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ اسلام کی عمومی ترتیب میں ایمان کے بعد انفاق کا درجہ ہے۔ بعض خاص حالات میں انفاق فی سبیل اللہ نماز کی ادائیگی سے زیادہ بڑھ کر اجر رکھتا ہے لیکن عمومی حالات میں ایسا نہیں ہے۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب رہا ہو اور نماز کا وقت ہو جائے تو ڈوبنے والے کو بچانا ادائیگی نماز سے زیادہ ضروری ہے۔ اسی طرح جب دشمن حملہ کر دے، یا جہاد فرض عین ہو جائے تو مساجد کی تعمیر میں بلا ضرورت پیسہ لگانا منع ہے۔(سورۃ التوبۃ : والذین اتخذوا مسجدا ضرارا و کفرا ۔ ۔ ۔ )
سورۃ البقرۃ کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو ریاست مدینہ سخت معاشی مشکلات کا شکار تھی۔ مفسرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سورت کا نزول سن 2 ھ میں ہوا تھا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ہجرت کے بعد ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کو کن کن مالی پریشانیوں سے گزرنا پڑا۔ اس موقع پر سورۃ البقرۃ نازل ہوئی جس میں صاحب استطاعت لوگوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ سورت کے دوسرے حصے اور آخری حصے میں انفاق فی سبیل اللہ کے احکام کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ ایسے غیرمعمولی حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نماز سے بڑھ جاتا ہے لیکن خود قرآن کریم سے ثابت ہے کہ عمومی حالات میں ایمان کے بعد نماز کا درجہ ہے:
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (3۔4)"جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں، ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں"قرآن کریم کے آغاز میں بھی ایمان کے بعد اقامت صلٰوۃ ہی کا ذکر ہے:
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (البقرۃ۔ 2۔3)[/FONT]"یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں"فریضہ صلٰوۃ کی ادائیگی میں سستی کرنے کو منافقین کی نشانی بتایا گیا ہے اور قرآن کریم بتاتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو بھی ان کا انفاق شرف قبولیت نہیں پا سکتا۔
وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلاَّ أَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلاَ يَأْتُونَ الصَّلاَةَ إِلاَّ وَهُمْ كُسَالَى وَلاَ يُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ كَارِهُونَ (التوبۃ۔55)
"(ان منافقین کا) مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کفر کیا ہے اور نماز کے لیے آتے ہیں تو کَسمَساتے ہوئے آتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو بادل نخواستہ خرچ کرتے ہیں"
امید ہے اس وضاحت سے اس ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے گا جو مذکورہ مسئلے کے بارے میں دوسری آیات کو سامنے نہ رکھنے سے پیش آ سکتی ہے۔
 

باذوق

محفلین
فرید احمد صاحب۔ بن باز نے رسول اللہ کی ایک حدیث بیان کی ہے جو، آپ کو قابل قبول نہیں۔ رسول اللہ کے قول مبارک کو بن باز کی ہدائت کے مطابق، رسول اللہ کے بتائے ہوئے اصول کے تحت، آپ کی بات کو قرآن کی روشنی میں پرکھا۔
محبی فاروق صاحب
مہربانی ہوگی اگر آپ درج بالا حدیث یہاں پیش فرمائیں یا لنک دیں۔
(اور ہاں غالباَ آپ کو بھی یہ بات معلوم ہوگی کہ شیخ بن باز رحمۃ اللہ محدث نہیں تھے)۔
 

فرید احمد

محفلین
فرید احمد صاحب۔ بن باز نے رسول اللہ کی ایک حدیث بیان کی ہے جو، آپ کو قابل قبول نہیں۔ رسول اللہ کے قول مبارک کو بن باز کی ہدائت کے مطابق، رسول اللہ کے بتائے ہوئے اصول کے تحت، آپ کی بات کو قرآن کی روشنی میں پرکھا۔
معاملہ شاید نمرود و ابراہیم والا ہے ،
بن باز کے فتوی میں حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو قرآن پر پرکھا جائے ،
یہاں جناب نے میرے سوال کا جواب قرآن سے دیا ۔
میں چاہتا تھا کہ میری بات کا جواب جو حدیث میں ہے اسے قرآن پر پرکھیے ۔
 

باذوق

محفلین
لیں جناب ۔۔ مجھ عاجز کی تحقیق پیش خدمت ہے ۔۔

راوی مجالد پر ایک جائزہ میں نے دیا ہے ۔۔
امید ہے کچھ نہ کچھ تسلی ہو جائے گی ۔
شکریہ جناب !
میں نے آپ کو مذکورہ تھریڈ کاپی کر لیا ہے ، اور عید کی چھٹیوں میں تفصیل سے پڑھوں گا ، ان شاءاللہ۔
مگر ۔۔۔۔
آپ اس تھریڈ کے اہم مقصد کو بھول رہے ہیں۔ اس مقصد کو ثابت کرنے کی دلیل میں الدارمی کی وہ حدیث پیش کی گئی تھی ، جس کا درجہ "حسن" ہے۔
درج ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
بحوالہ : پوسٹ نمبر 43
مشکوٰة المصابیح میں یہی حدیث ، الدارمی کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔ اور مشکوٰة کی شرح "مرعاة المفاتيح" (علامہ محمد عبدالسلام مباركپوری) میں اس حدیث کی تشریح کے عین بعد لکھا ہے :
ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، اسی باب میں ابن عباس سے بھی مسند احمد میں درج ہے، اور عبدالله بن ثابت الانصاری کی روایت سے مسند احمد اور ابن سعد میں ، طبرانی کبیر میں ابي الدرداء کی روایت سے ، عبدالله بن الحارث کی روایت سے بیھقی کی شعب الایمان میں۔
بحوالہ : پوسٹ نمبر 68
مشکوٰة میں درج الدارمی کی اس حدیث کو عصرِ حاضر کے جلیل القدر محدث علامہ ناصرالدین البانی نے "حسن" قرار دیا یے !!
(اور یاد رہے کہ ۔۔۔۔۔۔ علامہ البانی نے سب سے پہلے حدیث کی صحت درج فرمائی ہے ، اس کے بعد حدیث تحریر کی گئی ہے۔ الدارمی کی "حسن" حدیث کے فوری بعد جو مزید دو عدد مختصر روایات درج ہیں وہ بقول البانی "موضوع" ہیں)

بےشک آپ اپنی "تحقیق" پیش فرما سکتے ہیں ، جس طرح کہ بیشمار لوگ بخاری و مسلم کی احادیث کو "مشکوک" بتانے کے چکر میں اپنی اپنی تحقیق پیش کر چکے ہیں۔
لیکن آپ کسی حدیث کی "صحت" پر کوئی "حکم" ، اس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک کہ علومِ حدیث میں آپ کی علمیت ایک "محدث" کے طور پر معروف نہ ہو۔ یہ اصولی بات ہے !!
اور اوپر بحوالہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ ۔۔۔۔ کبار محدثین نے الدارمی کی حدیث کو "حسن" قرار دیا ہے !!
اور اس بات کا اقرار تو خود آپ نے بھی کر رکھا ہے اسی تھریڈ میں کہ ۔۔۔
بحوالہ : پوسٹ نمبر 43
ميں نے کبھي بھي يہ نہيں کہا کہ يہ حديث غلط ہے ۔۔ ہاں اس ميں مذکورہ ضعف کي طرف ميں نے اشارہ کيا تھا ۔۔

میرا سوال یہ ہے کہ :
جب پندرھویں صدی ہجری کے کسی انیس سالہ لڑکے (بقول خود حسن نظامی ، بحوالہ پوسٹ نمبر 63) کو اپنی "ذاتی تحقیق" کے سہارے کسی حدیث کے "ضعف" کا پتا چل سکتا ہے تو کیا ان کبار محدثین کو اس "ضعف" کا علم نہیں ہوا ہوگا جو کہ وہ اس حدیث کو "حسن" قرار دیتے ہیں؟ حالانکہ احادیث اور جرح و تعدیل کی کتب اُس وقت بھی وہی تھیں جو آج محترم جناب حسن نظامی کے زیر مطالعہ ہیں !!

باشعور قارئین خود سمجھ سکتے ہیں کہ کس کس نے قرآن کو اپنے فہم کے مطابق اور کس کس نے حدیث کو اپنے تحقیق کے مطابق متعارف کروانے کا سلسلہ چلا رکھا ہے؟ اور کتاب و سنت کی حقیقی تحقیق، تشریح ، تفہیم و تفسیر کے ماہرین رجال تو گویا بس ایویں ہی ہیں ۔۔۔ اللہ کی پناہ ایسی سوچ سے !!!
 
خان صاحب کو اللہ جزائے خیر دے کہ انہوں‌نے انفاق فی سبیل اللہ کی طرف ہم سب کی توجہ دلائی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اس اہم فریضے کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔
خان صاحب نے جس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں ترتیب کچھ یوں ہے۔
ایمان، انفاق، نماز، زکٰوۃ، ایفائے عہد وغیرہ۔
اس آیت سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ اسلام کی عمومی ترتیب میں ایمان کے بعد انفاق کا درجہ ہے۔ بعض خاص حالات میں انفاق فی سبیل اللہ نماز کی ادائیگی سے زیادہ بڑھ کر اجر رکھتا ہے لیکن عمومی حالات میں ایسا نہیں ہے۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب رہا ہو اور نماز کا وقت ہو جائے تو ڈوبنے والے کو بچانا ادائیگی نماز سے زیادہ ضروری ہے۔ اسی طرح جب دشمن حملہ کر دے، یا جہاد فرض عین ہو جائے تو مساجد کی تعمیر میں بلا ضرورت پیسہ لگانا منع ہے۔(سورۃ التوبۃ : والذین اتخذوا مسجدا ضرارا و کفرا ۔ ۔ ۔ )
سورۃ البقرۃ کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو ریاست مدینہ سخت معاشی مشکلات کا شکار تھی۔ مفسرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سورت کا نزول سن 2 ھ میں ہوا تھا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ہجرت کے بعد ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کو کن کن مالی پریشانیوں سے گزرنا پڑا۔ اس موقع پر سورۃ البقرۃ نازل ہوئی جس میں صاحب استطاعت لوگوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ سورت کے دوسرے حصے اور آخری حصے میں انفاق فی سبیل اللہ کے احکام کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ ایسے غیرمعمولی حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نماز سے بڑھ جاتا ہے لیکن خود قرآن کریم سے ثابت ہے کہ عمومی حالات میں ایمان کے بعد نماز کا درجہ ہے:
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (3۔4)"جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں، ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں"قرآن کریم کے آغاز میں بھی ایمان کے بعد اقامت صلٰوۃ ہی کا ذکر ہے:
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (البقرۃ۔ 2۔3)[/FONT]"یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں"فریضہ صلٰوۃ کی ادائیگی میں سستی کرنے کو منافقین کی نشانی بتایا گیا ہے اور قرآن کریم بتاتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو بھی ان کا انفاق شرف قبولیت نہیں پا سکتا۔
وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلاَّ أَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلاَ يَأْتُونَ الصَّلاَةَ إِلاَّ وَهُمْ كُسَالَى وَلاَ يُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ كَارِهُونَ (التوبۃ۔55)
"(ان منافقین کا) مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کفر کیا ہے اور نماز کے لیے آتے ہیں تو کَسمَساتے ہوئے آتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو بادل نخواستہ خرچ کرتے ہیں"
امید ہے اس وضاحت سے اس ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے گا جو مذکورہ مسئلے کے بارے میں دوسری آیات کو سامنے نہ رکھنے سے پیش آ سکتی ہے۔


برادر من، قسیم حیدر صاحب، بہت شکریہ اس تفصیل کو شئر کرنے کا۔ اتنا مزید عرض‌کروں گا کہ، میں‌انفاق (‌مما رزقناھم ینفقون)‌ اور اتی المال (اتی المال علی حبہ) میں‌ تھوڑا سا فرق کرتا ہوں، آپ نے البتہ (آتی مال علی حبہ ) کی درست تفصیل بیان کی اور بہت اچھی مثال بھی دی۔ اللہ تعالی آپ کو اس کی جزائے کریم عطا فرمائے۔
مزید یہ شیئر کرنا چاہوں گا کہ ، فرق اس طرح کہ ہمارا مذہب ہم کو بے چارگی اور مانگنے کی زندگی گذارنے کی ترغیب نہیں دیتا بلکہ آگے بڑھ کر کمانے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ آتی المال علی حبہ کی کسوٹی پر پورا اتر سکیں۔ اور اللہ تعالی کے حکم کو پورا کرسکیں۔ آپ دیکھیں گے کہ انفاق ہمارے اپنے لئے ہے لیکن آتی المال جن لوگوں کے لئے ہے ان کی ترتیب البقرۃ 177 اورمزید آیات میں‌مل جاتی ہے۔ اس کو دوبارہ سورۃ‌ توبہ 60 میں واضح کیا ہے۔ ان مالی احکامات کو میں فرداَ فرداَ نہیں بلکہ اجتماعی احکامات تصور کرتا ہوں۔ لہذا ان کو ایک ملک یا قوم پر پھیلا کر دیکھئے تو بہت ہی واضح‌ تصویر سامنے آتی ہے کہ یہ اصول ایک نہایت ہی بہترین فلاحی ریاست کاتصور فراہم کرتا ہے۔

والسلام۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
شکریہ جناب !
میں نے آپ کو مذکورہ تھریڈ کاپی کر لیا ہے ، اور عید کی چھٹیوں میں تفصیل سے پڑھوں گا ، ان شاءاللہ۔

جناب عید کی چھٹیاں خیر سے گذر گئی ہیں ۔۔ آپ نے یقینا پڑھ لیا ہو گا میں آپ کی ناقدانہ رائے کا منتظر ہوں ۔۔:rolleyes:


مگر ۔۔۔۔
آپ اس تھریڈ کے اہم مقصد کو بھول رہے ہیں۔ اس مقصد کو ثابت کرنے کی دلیل میں الدارمی کی وہ حدیث پیش کی گئی تھی ، جس کا درجہ "حسن" ہے۔
مقصد کون بھول رہا ہے وہ تو دھاگے کا رخ ہی بتائے دیتا ہے ۔۔

دارمی کی حدیث کے مقابل بخاری کی حدیث پیش کی گئی تھی ۔۔ جس کی شرح قبول کرنا آپ کے لیے باعث عار ہے ۔۔ اور اس سے مسلسل صرف نظر کیے جا رہے ہیں ۔ اور بخاری کی حدیث کا درجہ بلا شبہ خبر متواتر کا ہے ۔۔کیونکہ اس کی بہت سی اسناد ہیں ۔
:mad:

بےشک آپ اپنی "تحقیق" پیش فرما سکتے ہیں ، جس طرح کہ بیشمار لوگ بخاری و مسلم کی احادیث کو "مشکوک" بتانے کے چکر میں اپنی اپنی تحقیق پیش کر چکے ہیں۔
لیکن آپ کسی حدیث کی "صحت" پر کوئی "حکم" ، اس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک کہ علومِ حدیث میں آپ کی علمیت ایک "محدث" کے طور پر معروف نہ ہو۔ یہ اصولی بات ہے !!
اور اوپر بحوالہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ ۔۔۔۔ کبار محدثین نے الدارمی کی حدیث کو "حسن" قرار دیا ہے !!

یعنی ایک تیر سے دو شکار ۔۔۔ :eek: میں بخاری اور مسلم کی حدیثوں کو مشکوک بنانے کے چکر میں نہیں بلکہ آپ کے شک کو رفع کرنے کے گھن چکر میں پھنسا ہوں ۔۔ جبکہ مجھے معلوم ہے کہ آج تک آپ نے کہیں بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی ۔۔ :grin:

میرا سوال یہ ہے کہ :
جب پندرھویں صدی ہجری کے کسی انیس سالہ لڑکے (بقول خود حسن نظامی ، بحوالہ پوسٹ نمبر 63) کو اپنی "ذاتی تحقیق" کے سہارے کسی حدیث کے "ضعف" کا پتا چل سکتا ہے تو کیا ان کبار محدثین کو اس "ضعف" کا علم نہیں ہوا ہوگا جو کہ وہ اس حدیث کو "حسن" قرار دیتے ہیں؟ حالانکہ احادیث اور جرح و تعدیل کی کتب اُس وقت بھی وہی تھیں جو آج محترم جناب حسن نظامی کے زیر مطالعہ ہیں !!

قبلہ میں تو اب بھی اس بات سے انکاری نہیں ہوں کیا کوئی حسن حدیث منسوخ نہیں ہو سکتی ۔۔ میں نے اس کے ایک راوی پر طعن کا ذکر کیا ہے ۔۔ جس کے لیے میں نے بے شمار حوالے دیے ہیں ۔۔ تہذیب التہذیب ، شرح بخاری ، شرح ترمذی اور خود امام ترمذی کے حوالہ جات جو آپ کو نظر ہی نہیں آتے ۔۔ سچ ہے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ۔۔ :punga:

باشعور قارئین خود سمجھ سکتے ہیں کہ کس کس نے قرآن کو اپنے فہم کے مطابق اور کس کس نے حدیث کو اپنے تحقیق کے مطابق متعارف کروانے کا سلسلہ چلا رکھا ہے؟ اور کتاب و سنت کی حقیقی تحقیق، تشریح ، تفہیم و تفسیر کے ماہرین رجال تو گویا بس ایویں ہی ہیں ۔۔۔ اللہ کی پناہ ایسی سوچ سے !!!

اس بات کے جواب میں اس کے علاوہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ

جواب :confused: باشد خموشی
 

باذوق

محفلین
آج پھر اس تھریڈ پر نظر پڑھی ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی حسن نظامی !
جواب میں میری طرف سے خاموشی نہیں ہے۔
بلکہ میرا جواب اب بھی وہی ہے جو پوسٹ نمبر:133 میں لکھا گیا ہے۔
راوی مجالد سے متعلق آپ کی تحقیق سر آنکھوں پر۔ لیکن کسی حدیث کی صحت ، کسی راوی کی انفرادی تحقیق سے نہیں بلکہ محدثین کے اجماعی فیصلے سے ہی ثابت ہوتی ہے۔
آپ محدثین کا وہ فیصلہ بتائیں جس میں انہوں نے اجماعی طور پر اس حدیث کو "ضعیف" یا "موضوع" قرار دیا ہو ۔۔۔ بس اس کے بعد بات ہی ختم ہو جائے گی۔

دل کے امراض کی تشخیص اور علاج متعلقہ میدان کا ماہر ڈاکٹر ہی کرے گا ، نہ اردو زبان کا استاد کر سکتا ہے اور نہ تاریخ و سیرت کا کوئی طالب علم۔ اسی طرح حدیث کے بارے میں محدثین کی بات ہی حجت قرار پائے گی۔
اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف امام ابوحاتم الرازی اور امام ابن تیمیہ نے اشارہ کیا تھا ۔۔۔

[arabic]واتفاق أهل الحديث على شيء يكون حجة[/arabic]
اور محدثین کا کسی چیز پر اتفاق کر لینا حجت ہوتا ہے۔
(امام ابوحاتم الرازی : کتاب المراسیل)

[arabic]وإذا اجتمع أهل الحديث على تصحيح حديث لم يكن إلا صدقًا[/arabic]
جب محدثین کا ، کسی حدیث کی تصحیح پر اجماع ہو تو وہ یقیناً سچ ہی ہوتی ہے۔
(امام ابن تیمیہ : مجموع فتاوی ، جلد:1)
 

حسن نظامی

لائبریرین
معاملہ سمجھنے کے لیے آپ کو شروع سے پڑھنا پڑے گا۔
پھر ہی کچھ سمجھ میں آئے گا۔
اصل میں ہم لوگوں کا دیرینہ مسئلہ ہے کہ معاملہ الجھا دیتےہیں اور بلاوجہ ہی طول دیتے رہتے ہیں
 
Top