مذاہب کا تقابلی مطالعہ

باذوق

محفلین
بائی دا وے، اس پورے واقعے یعنی حضرت عمر کی طرف سے توریت کے جملے پڑھنے والے پورے واقعے کو سیاق و سباق سے پیش کیجئے۔ اگر وقت کی کمی کا فرمائیں گے تو میں‌آپ کی معصومیت کی داد دوں گا
یہ واقعہ یا روایت نہیں بلکہ حدیثِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے اور صحیح حدیث۔ اور اتفاق کی بات کہ راقم کی حدیث کی سائیٹ پر پہلے سے موجود ہے ، آپ کے لیے یہاں پیسٹ کر دیتا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر تشریف لائے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ تورات کا ایک نسخہ ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) چپ ہوگئے ۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے پڑھنا شروع کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : تمہاری ماں تم کو روئے ، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا چہرا بدل رہا ہے؟
پھر عمر (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے غصے سے ، ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نبی ہونے پر !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے ، اگر آج موسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئیں اور تم لوگ میرے بجائے ان کی اتباع شروع کر دو ، تو سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے ۔ اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے ۔
سنن الدارمی ، كتاب المقدمة ، باب : ما يتقى من تفسير حديث النبي صلى الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلى الله عليه وسلم ، حدیث : 436
برادر محترم قیصرانی ! اس حدیث کو ذرا غور سے پڑھئے اور اس کے مفہوم پر مکرر غور کر کے بتائیے کہ : کیا یہ "تنبیہ" نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے اُن جانثاروں کو نہیں دی جنہیں قرآن السابقون الاولون کا خطاب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔ صرف تورات کے چند جملے پڑھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے عزیز از جان صحابہ کو گمراہی کی وعید سنا ڈالی تو ہماری آپ کی بات ہی کیا؟
آپ کا کیا خیال ہے؟ دین سے بےبہرہ یا کم علم اردوداں ، "خدا عظیم نہیں ہے" جیسی کتب (یا تبصرۂ کتب) پڑھ کر اپنے عقیدے کی اصلاح فرمائیں گے یا مزید تشکیک کا شکار ہوں گے ؟؟
ہمارے اُن بھائی صاحب نے تو اپنے بلاگ پر بہت سی ایسی تحریریں بھی لگا رکھی ہیں جن کو بہت سے مخصوص مذہبی طبقے "متنازعہ" سمجھتے ہیں ، شائد یہی وجہ ہو ( یا کوئی اور وجہ) ، مگر ایسی تحاریر آزادیء رائے یا تبصرہ و تجزیہ کے خوبصورت عناوین کے تحت یہاں محفل پر سجائی نہیں جاتیں !
کیا یہی ہماری مسلمانی ہے کہ : اطاعت و اتباعِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب دعوت دینے کے بجائے ، آزادیء رائے کے بلند بانگ دعوؤں کے تحت اللہ اور رسول کی تضحیک پر مبنی تحاریر لگا کر خود ہم نے ہی اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے؟؟؟؟

جوس سے یاد آیا، کیا آپ نے قادیانیت یا دیگر مذاہب پر بحث سے قبل ان کی کوئی کتاب پڑھی ہوتی ہے یا تکے مارتے ہیں اور سنی سنائی پر بات ہوتی ہے؟ اگر کتاب پڑھتے ہیں‌تو لازماً خریدتے ہوں گے۔ اس کا منافع کہاں‌جاتا ہوگا، مجھ جیسے معصوم کو تو شاید علم نہ ہو، آپ بہتر بتا سکیں‌گے
اس طرح اندازوں کے تیر برسانے کے بجائے کیا یہ بہتر نہ تھا کہ آپ پہلے یہ بتا دیتے کہ : کیا کتاب پڑھنے کے لیے اس کا خریدا جانا لازمی ہوتا ہے؟
بھائی صاحب اب ایسی بھی کیا معصومیت ؟ برصغیر کے معاشرے میں اردو دانوں کا حال تو یہ ہے کہ کوئی فرد ایک اردو اخبار بھی خریدتا ہے تو اسے پڑھنے والے دس پندرہ ہوتے ہیں۔ پھر کتابوں کا یہ حال ہے کہ اسے خریدتا ایک ہے اور پڑھتے کئی۔ اور پھر انٹرنیٹ نے خوب سہولت پیدا کر ڈالی۔ تقریباً ہر اہم کتاب آپ کو ایک کلک پر مفت میں دستیاب ہو جائے گی۔ اور مزید یہ کہ ہر شہر میں لائیبریریاں بھی تو ہوتی ہیں۔ لہذا خریداریء کتاب اور منافع کا طعنہ غیر ضروری ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے محض اپنی ٹانگ اونچی رکھنی ہوتی ہے۔ ورنہ تو جب کسی معاملے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمانِ مبارک سامنے آ جائے تو بےجا تاویلات اور بحث برائے بحث سے احتراز بہتر ہوتا ہے۔

رہی بات اس ذاتی حملے کی کہ : میں مخالفین کی کتابیں پڑھتا بھی ہوں یا تکے مارتا ہوں
ممکن ہے تعلیماتِ اسلامی میں ردود (Refutations) کا موضوع آپ کے لیے نیا ہو۔ لیکن نیٹ پر انگریزی اور اردو میں بہت مواد موجود ہے۔ خاص طور پر ، شائد اردو ہی کی ایک سائیٹ ایسی ہے جہاں ہزار کے قریب ردِّ قادیانیت پر کتب (e-books) مفت دستیاب ہیں۔ تو جب ہم قرآن و سنت کے حوالوں سے ردود پر کتابیں پڑھتے ہیں تو مخالفین کے خلافِ شرع نظریات بھی علم میں آ ہی جاتے ہیں۔ اور مخالفین کی کتب میں حوالے خود چیک کرنے کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ مخالفین کی کتب لازماً ہی خریدی جائیں۔
اور دوسری اہم بات یہ کہ : کیا یہ ضروری ہے کہ بحث کرنے کے لیے مخالفین کی تمام کتب شروع سے آخر تک لازماً ہی پڑھی جائیں؟ کیا خیر القرون سے کوئی ایک مثال ایسی لائی جا سکتی ہے کہ تبلیغِ دین کے ضمن میں صحابہ یا تابعین نے غیر اسلامی یا شریعت کا مذاق اڑانے والی کتب کے مطالعے کا رحجان اپنایا ہو یا ترغیب ہی دلائی ہو؟
شائد ایک حدیث صاحبانِ علم یہ پیش فرما دیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے ‫: پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک آیت ہی ہو اور روایت کرو یہودیوں سے اس میں کوئی حرج نہیں اور جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
صحيح بخاري ، كتاب احاديث الانبياء ، باب : ما ذكر عن بني اسرائيل ، حدیث : 3499

لیکن اگر آپ اس حدیث پر شارحینِ حدیث کی وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں تو واضح ہو جائے گا کہ اس حدیث سے یہودیوں کی کتب کے مطالعے یا ان کی روایات کو بلاکھٹکے بیان کرنے کی دلیل نہیں لی جا سکتی۔ یہ حدیث تبلیغ کی اجازتِ عام پر نہیں بلکہ تبلیغ کی قیود پر مبنی ہے یعنی یہ حدیث تبلیغ کرنے والوں پر تین شرطیں عائد کرتی ہے۔ اولاً : اس بات کا اطمینان کہ جو کچھ کہاجارہا ہے اس پر یہ یقین کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منقول ہے۔ ثانیاً : یہودیوں سے صرف ان روایات کو بیان کرنے کی اجازت جو دین اسلام کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے یعنی بیان کرنے والے کو دین کے بنیادی اصولوں کا علم ہونا چاہیے۔ ثالثاً : موضوع احادیث کوتبلیغ کی خاطر بیان کرنے سے مکمل پرہیز کرنا البتہ تردید کے مقصد سے کسی موضوع حدیث کو بیان کرنا پڑ جائے تو جائز ہوگا۔

پسِ نوشت :
یہی وجہ ہے کہ معتبر علماء کا ایک طبقہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی دیانت داری اور تبلیغِ دین کے ضمن میں ان کی مخلصانہ کوششوں کا معترف ہونے کے باوجود ان کے اس طرح کے جملوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
The study of various religions has been an extremely rewarding experience for me
پر گرفت کرتے ہوئے بجا طور پر اعتراض کرتا ہے !!
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی تورات کی تلاوت کو برائے ثواب سمجھ کر پڑھنا یا اس سے شرعی مطالب اخذ کرنا ممنوع ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اسی لئے منع فرمایا گیا۔ ایک اور واقعہ کا حوالہ دیتا ہوں جب صحابہ کرام (غالباً حضرت عبداللہ ابن سلام) سے دریافت کیا کرتے تھے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تورات میں کیا مذکور ہے اور وہ جواب میں انہیں تورات کی وہ آیات سُنایا کرتے تھے جن میں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد اور نشانیاں مذکور ہیں۔ اور اگر آپ کسی کے عقائد کے بارے میں پڑھیں‌گے ہی نہیں تو پھر آپ کو ان کا علم کیسے ہوگا اور بغیر علم کے آپ ان کے حق ناحق ہونے کا فیصلہ کیسے کر سکیں گے؟ بدقسمتی سے یہی چلن شروع ہوا مسلمانوں میں چند صدیاں پہلے جب ہم نے اپنے ذہنوں کے اور کتب خانوں کے دروازے بند کر لئے اور نتیجتاً نہ ہم اچھے مسلمان رہے اور نہ کامیاب انسان۔ دین میں علم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہاں عمل صرف اس پر ہونا چاہئے جو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
 

ساجد

محفلین
باذوق بھائی تورات کی تلاوت کو برائے ثواب سمجھ کر پڑھنا یا اس سے شرعی مطالب اخذ کرنا ممنوع ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اسی لئے منع فرمایا گیا۔ ایک اور واقعہ کا حوالہ دیتا ہوں جب صحابہ کرام (غالباً حضرت عبداللہ ابن سلام) سے دریافت کیا کرتے تھے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تورات میں کیا مذکور ہے اور وہ جواب میں انہیں تورات کی وہ آیات سُنایا کرتے تھے جن میں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد اور نشانیاں مذکور ہیں۔ اور اگر آپ کسی کے عقائد کے بارے میں پڑھیں‌گے ہی نہیں تو پھر آپ کو ان کا علم کیسے ہوگا اور بغیر علم کے آپ ان کے حق ناحق ہونے کا فیصلہ کیسے کر سکیں گے؟ بدقسمتی سے یہی چلن شروع ہوا مسلمانوں میں چند صدیاں پہلے جب ہم نے اپنے ذہنوں کے اور کتب خانوں کے دروازے بند کر لئے اور نتیجتاً نہ ہم اچھے مسلمان رہے اور نہ کامیاب انسان۔ دین میں علم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہاں عمل صرف اس پر ہونا چاہئے جو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
خرم بھائی ،
اچھا ہوا کہ آپ نے وضاحت فرما دی۔ دراصل میرے پاس پاکستان میں انجیل کے دو نسخے پڑے ہیں اور میں کل سے یہی سوچ رہا تھا کہ میری مسلمانی تو ناقص ہو گئی۔
( یہ نسخے صرف علمی حوالوں کے کام آتے ہیں ۔ کوئی فتوی نہ دے اس لئیے وضاحت کر دی ہے )۔
 

باذوق

محفلین
باذوق بھائی تورات کی تلاوت کو برائے ثواب سمجھ کر پڑھنا یا اس سے شرعی مطالب اخذ کرنا ممنوع ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اسی لئے منع فرمایا گیا۔ ایک اور واقعہ کا حوالہ دیتا ہوں جب صحابہ کرام (غالباً حضرت عبداللہ ابن سلام) سے دریافت کیا کرتے تھے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تورات میں کیا مذکور ہے اور وہ جواب میں انہیں تورات کی وہ آیات سُنایا کرتے تھے جن میں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد اور نشانیاں مذکور ہیں۔ اور اگر آپ کسی کے عقائد کے بارے میں پڑھیں‌گے ہی نہیں تو پھر آپ کو ان کا علم کیسے ہوگا اور بغیر علم کے آپ ان کے حق ناحق ہونے کا فیصلہ کیسے کر سکیں گے؟ بدقسمتی سے یہی چلن شروع ہوا مسلمانوں میں چند صدیاں پہلے جب ہم نے اپنے ذہنوں کے اور کتب خانوں کے دروازے بند کر لئے اور نتیجتاً نہ ہم اچھے مسلمان رہے اور نہ کامیاب انسان۔ دین میں علم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہاں عمل صرف اس پر ہونا چاہئے جو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
تورات کی تلاوت کو برائے ثواب سمجھ کر پڑھنا یا اس سے شرعی مطالب اخذ کرنا ممنوع ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اسی لئے منع فرمایا گیا۔
اگر آپ برا نہ مانیں ، اور اگر آپ کے علم میں ہو تو بتا دیں کہ حدیث مذکورہ کی یہ تشریح کس محدث کی بیان کردہ ہے ؟

اگر آپ کسی کے عقائد کے بارے میں پڑھیں‌گے ہی نہیں تو پھر آپ کو ان کا علم کیسے ہوگا اور بغیر علم کے آپ ان کے حق ناحق ہونے کا فیصلہ کیسے کر سکیں گے؟
بھائی جان ! آپ بھی کیسی معصومانہ باتیں کرتے ہیں ؟:rolleyes:
ہمارے ہاں‌ ایک عام مسلمان کو بنیادی اصولِ دین یا طریق ہائے عبادات کا تک پتا نہیں اور ہم انہیں دوسروں‌ کے عقائد جاننے کی ترغیب دلائیں ؟ آخر ایک مسلمان نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی تو اسلام قبول کیا ہوگا۔ اور جب قبول کیا ہی ہے تو وہ اپنے "اصل دین" کی کھوج کیوں نہیں‌ کرتا؟
خدا کو ہم نے دیکھا نہیں ، نہ ہی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو۔ نہ جنت دیکھی ہے اور نہ دوزخ۔ پھر بھی ایسی لاعلمی کے ساتھ ساتھ ہمارا "عقیدہ" ہے کہ یہ سب سچ ہے!
تو حقیقت صرف یہ ہے کہ بعض معاملات میں‌ بات صرف "علم" کی نہیں بلکہ "عقیدے" کی ہوتی ہے۔ اور کون سا عقیدہ؟ وہ جو آج کے نام نہاد مشائخ الاسلام کا ہو یا وہ جو خیرالقرون کی مبارک ہستیوں سے ثابت ہو؟؟
 
ایک نسخہ میرے پاس بھی پڑاہوا ہے کورین میں‌جس سے وقتا فوقتا حوالہ دیا جاتا ہے۔
کیا کروں اس کا؟ رکھوں؟یا۔۔
 

باذوق

محفلین
خرم بھائی ،
اچھا ہوا کہ آپ نے وضاحت فرما دی۔ دراصل میرے پاس پاکستان میں انجیل کے دو نسخے پڑے ہیں اور میں کل سے یہی سوچ رہا تھا کہ میری مسلمانی تو ناقص ہو گئی۔
( یہ نسخے صرف علمی حوالوں کے کام آتے ہیں ۔ کوئی فتوی نہ دے اس لئیے وضاحت کر دی ہے )۔
میں کل سے یہی سوچ رہا تھا کہ میری مسلمانی تو ناقص ہو گئی۔
نہیں‌ بھائی ، صرف کتاب کو اپنے ہاں رکھنے سے مسلمانی کے ناقص ہو جانے کا فتویٰ کوئی باشعور مسلمان ہرگز نہیں‌ دیتا ! :)
 

خرم

محفلین
اگر آپ برا نہ مانیں ، اور اگر آپ کے علم میں ہو تو بتا دیں کہ حدیث مذکورہ کی یہ تشریح کس محدث کی بیان کردہ ہے ؟
اگر تورات اور انجیل کو پڑھنا حرام ہے تو پھر تو اکابرینِ امت میں سے کسی نے کبھی بھی انہیں پڑھا ہی نہ ہوگا؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو ہمیں تورات کی کسی آیت کا کوئی حوالہ نہیں ملنا چاہئے سابقون کے کسی کام میں۔ اور اگر ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں تو پھر اس کی حرمت ناقص ثابت ہوگی؟
اور بات عام مسلمان کی نہیں ہو رہی۔ بات علمی نقطۂ نظر کی ہو رہی ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں، میرا جی چاہا کہ میں انجیل میں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد کی آیات دیکھوں۔ میں‌نے انجیل کھولی اور وہ آیات پڑھیں اور مجھے بہت اچھا لگا اپنے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کا انجیل میں پڑھنا اور قرآن کی وہ آیت جس میں‌اللہ تعالٰی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بابت بیان فرماتے ہیں کہ "میں تمہیں اپنے بعد ایک نبی کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا" اس پر میرا حق الیقین ہو گیا۔ اور یہ بات بھی احادیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے یہود کا فیصلہ تورات کے مطابق کیا۔ اور اگر آپ کسی عیسائی کو کہتے ہیں کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق بشارت تورات و انجیل میں موجود ہے اور وہ پوچھتا ہے کہ کہاں تو آپ کیا کہئے گا؟ اور پھر مذاہب کا تقابلی جائزہ، یہ موضوع تو کبھی بھی اسلام میں منع نہیں ہے۔ اولیائے کرام اور اکابرین امت تو اس پر عمل پیرا تھے کہ کسی کے عقائد جانے بغیر اس کو دعوت کیسے دیجئے گا؟ پہلے بھی کہیں عرض کیا تھا کہ احادیث‌کے متعلق ناسخ و منسوخ کا ایک بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے جو اکابرین نے بڑی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے۔ اسلامی فقہ اسی فلسفہ پر استوار ہے اور صرف ایک ایسا آدمی جسے اس کا اور احادیث‌کا علم ہو وہی بیان کر سکتا ہے کہ کونسی حدیث کن حالات کے لئے ہے۔ صرف ایک حدیث پکڑ کر حلت اور حرمت کی ریت اچھی نہیں بھائی۔ بہتر یہی کہ کسی ایسے سے پوچھ لیا جائے جو "علم" رکھتا ہو۔ صرف لکھنا پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔
ہاں اس بات میں کوئی دو آراء نہیں کہ تورات اور انجیل کے معانی میں غوروفکر کرنا اور انہیں روز پڑھنا مناسب نہیں کہ ہمارے اوپر نہ تو ان کو جاننا فرض ہے اور نہ ان کے احکام کو ماننا اور نہ ہماری شریعت ان کتب کی موجودہ حالت کی پابند ہے۔ صرف تحصیل علم کےلئے اور حقانیت قرآن کے لئے پڑھنا میں نے اس کی ممانعت نہیں پڑھی کہیں۔
 
میرے تاثرات۔
تورات اور انجیل کے چند نسخے، اردو اور انگریزی کے میرے پاس بھی ہیں اور میں انہیں پڑھتا بھی ہوں تاکہ اپنے وہ لیکچرز جو میں اسلام کے بارے میں کبھی کبھار چرچ میں موقع ملنے پر دیتا ہوں ان میں عیسائیوں‌کی کتب کا مواد استعمال کرسکوں۔ بنیادی مقصد ان کتب کو پڑھنے کا یہ ہے کہ یہ معلوم ہو کہ دوسرے مذاہب کے افراد ‌کس طرح سوچتے ہیں اور کس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ یقیناَ‌اس کو اسلام سیکھنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا اور نہ کوئی مسلمان اس کو اس مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔

قرآن اور تورات و انجیل کا نمایاں فرق یہ ہے کہ انجیل و تورات کے لکھنے والے واضح‌طور طور پر یہ لکھتے ہیں کے میرا نام فلاں فلاں ہے اور میں 'یہ سب' اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ ۔۔۔۔
یا یہ کہ میں‌نے یسوع کو یہ کہتے سنا۔۔۔۔۔

بہر صورت روایت لکھنے والا، انسان واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح جیسے روایات کی کتب میں راوی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر انجیل سنی سنائی ہوئی لگتی ہے، عیسی علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوئی نہیں لگتی۔ توریت اور زبور میں زبردستی شامل شدہ تاریخ‌ بہت واضح نظر آتی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ "قرطاس ابیض‌"‌ والی روایت درست ہے کہ یہودی اپنی مقدس کتب کے آخر میں سفید کاغذ لگا کر رکھتے تھے، اور تمام بڑے واقعات اس میں لکھ لیتے تھے، اس طرح کے واقعات سے تورات میں اضافہ ہوتا گیا۔ مجھ کو ایک مسیحی پریسٹ نے یہ بات بتائی۔ واللہ اعلم!

وہ انداز جو قرآن میں‌ملتا ہے، کہ انسان کی بات نہیں لگتی، عموماَ‌انجیل و توریت میں‌موجود نہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ کہ کسی نہ کسی وجہ سے ان کتب سے الوہی فرمودات غائب ہوگئے یا یہ کتب لکھی ہی انسانوں‌نے تھیں ان پیغمبروں اور لیڈروں کے بارے میں، جس طرح تاریخ‌ لکھی جاتی ہے۔ َ‌پیغمبروں‌کا فرمایا ہوا یا اللہ کا فرمایا ہوا بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ جو احساس قرآن پڑھتے ہوئے ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا۔ آپ ایک تجربہ کیجئے، ‌ وہ یہ کہ قرآن کی کچھ آیات کا ایک اچھا ترجمہ انگریزی میں یاد کرلیجئے اور جب موقع ہو نرمی سے کسی غیر مسلم کو سنا دیجئے بناء‌ یہ کہے کہ یہ قرآن کی آیت ہے، آپ سامنے والے کی زبان گنگ کم از کم کچھ دیر کے لئے ہوتے دیکھیں گے۔ میں‌نے کئی بار آزمایا ہے۔ ایک دو آیات کا ترجمہ آزما کر دیکھئے اور اپنا تجربہ بتائیے

قرآن کا یہ اثر تو انگریزی میں‌ہوتا ہے، عربی میں قرآن کا مزید خوبصورت انداز ہے۔ یہ خوبصورتی کسی طور مجھے توریت یا انجیل کے متن میں نظر نہیں آئی۔ زبور چونکہ شاعری میں ہے، اس لئے کچھ کچھ اس میں خوبصورتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے عبرانی و یونانی زبانوں‌میں‌خوبصورت رہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں‌کہیں فرودات الہی ہوں‌ لیکن بتانا مشکل ہے۔ جن جملوں کی طرف قرآن نے اشارہ کیا وہ البتہ ضرور موجود ہیں۔

برائی کرناقطعاَ مقصد نہیں۔ جو احساس ہوتا ہے وہ ایمانداری سے ظاہر کررہا ہوں۔
 

باذوق

محفلین
مزید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر تورات اور انجیل کو پڑھنا حرام ہے تو پھر تو اکابرینِ امت میں سے کسی نے کبھی بھی انہیں پڑھا ہی نہ ہوگا؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو ہمیں تورات کی کسی آیت کا کوئی حوالہ نہیں ملنا چاہئے سابقون کے کسی کام میں۔ اور اگر ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں تو پھر اس کی حرمت ناقص ثابت ہوگی؟
اور بات عام مسلمان کی نہیں ہو رہی۔ بات علمی نقطۂ نظر کی ہو رہی ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں، میرا جی چاہا کہ میں انجیل میں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد کی آیات دیکھوں۔ میں‌نے انجیل کھولی اور وہ آیات پڑھیں اور مجھے بہت اچھا لگا اپنے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کا انجیل میں پڑھنا اور قرآن کی وہ آیت جس میں‌اللہ تعالٰی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بابت بیان فرماتے ہیں کہ "میں تمہیں اپنے بعد ایک نبی کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا" اس پر میرا حق الیقین ہو گیا۔ اور یہ بات بھی احادیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے یہود کا فیصلہ تورات کے مطابق کیا۔ اور اگر آپ کسی عیسائی کو کہتے ہیں کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق بشارت تورات و انجیل میں موجود ہے اور وہ پوچھتا ہے کہ کہاں تو آپ کیا کہئے گا؟ اور پھر مذاہب کا تقابلی جائزہ، یہ موضوع تو کبھی بھی اسلام میں منع نہیں ہے۔ اولیائے کرام اور اکابرین امت تو اس پر عمل پیرا تھے کہ کسی کے عقائد جانے بغیر اس کو دعوت کیسے دیجئے گا؟ پہلے بھی کہیں عرض کیا تھا کہ احادیث‌کے متعلق ناسخ و منسوخ کا ایک بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے جو اکابرین نے بڑی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے۔ اسلامی فقہ اسی فلسفہ پر استوار ہے اور صرف ایک ایسا آدمی جسے اس کا اور احادیث‌کا علم ہو وہی بیان کر سکتا ہے کہ کونسی حدیث کن حالات کے لئے ہے۔ صرف ایک حدیث پکڑ کر حلت اور حرمت کی ریت اچھی نہیں بھائی۔ بہتر یہی کہ کسی ایسے سے پوچھ لیا جائے جو "علم" رکھتا ہو۔ صرف لکھنا پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔
ہاں اس بات میں کوئی دو آراء نہیں کہ تورات اور انجیل کے معانی میں غوروفکر کرنا اور انہیں روز پڑھنا مناسب نہیں کہ ہمارے اوپر نہ تو ان کو جاننا فرض ہے اور نہ ان کے احکام کو ماننا اور نہ ہماری شریعت ان کتب کی موجودہ حالت کی پابند ہے۔ صرف تحصیل علم کےلئے اور حقانیت قرآن کے لئے پڑھنا میں نے اس کی ممانعت نہیں پڑھی کہیں۔
ممکن ہے آپ کی کچھ باتوں سے میں اتفاق کروں ۔ لیکن میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جس بات کو میں لطیف اشاراتی پیرائے میں بیان کر رہا تھا اسی کو آپ چاہتے ہیں کہ کھل کر بیان کروں۔ حالانکہ میں نے واضح طور پر اپنے بلاگ کی تحریر میں لکھ دیا تھا کہ کسی اوپن فورم پر "آزادیء رائے یا علمی نقطۂ نظر کی تحقیق" کے بہانے سے امتِ مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر نہیں بھونکا جا سکتا !

آپ نے احادیث کے ناسخ و منسوخ کی بات چھیڑ کر حدیثِ مذکورہ کی تشریح میں شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ جو تشریح آپ نے بیان فرمائی ہے اس کے متعلق یہ بتائیں کہ یہ تشریح کس محدث یا شارح کی بیان کردہ ہے ؟ اس کے جواب میں آپ نے یوں اپنے قیاس و منطق کا سہارا لیا :
اگر تورات اور انجیل کو پڑھنا حرام ہے تو پھر تو اکابرینِ امت میں سے کسی نے کبھی بھی انہیں پڑھا ہی نہ ہوگا؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو ہمیں تورات کی کسی آیت کا کوئی حوالہ نہیں ملنا چاہئے سابقون کے کسی کام میں۔ اور اگر ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں تو پھر اس کی حرمت ناقص ثابت ہوگی؟
بھائی اگر یوں ہی بحث کرنا ہے تو ہم کیوں نہ حدیث کے معاملے میں فاروق سرور خان صاحب کی بعض باتیں مان لیں کہ وہ بھی تو منطقی نظر آتی ہیں اور جس کو قبول کرنے کا رحجان محفل کے بعض اہم احباب کی جانب سے بھی پیدا ہوا ہے !
قرآن و حدیث کی تعلیمات کی ایسی ہی قیاسی تشریح کے زور پر ہر فرقے نے تو اپنے کو حق پر بیان کر رکھا ہے۔ فرق ہی کیا رہ گیا پھر ؟؟

آپ فرماتے ہیں کہ : بات عام مسلمان کی نہیں ہو رہی۔ بات علمی نقطۂ نظر کی ہو رہی ہے۔
کیا آپ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اس قسم کے علمی نقاط نظر نے امتِ مسلمہ کو کیا فائدہ پہنچایا ہے یا اس سے اسلام کی تبلیغ میں کیا آسانیاں پیدا ہوئی ہیں؟
بےشک اولیائے کرام اور اکابرین امت کی اہمیت و فضیلت اپنی جگہ ہے لیکن یہ بات تو آپ بھی مانیں گے کہ دین ان کے اقوال و افعال کا نام نہیں ہے ! دین نام ہے اتباعِ قرآن و سنت کا۔ لہذا دینِ خالص کی بات کیجئے تو حوالہ بھی قرآن و حدیث اور اصحابِ خیر القرون کے فہم سے دیجئے گا کہ ان کی تربیت رسول کریم (ص) نے کیسے کی اور اجماعی طور پر خود انہوں نے دین کو کیسے سمجھا؟

آئیے اب ذرا ایک نظر دوڑاتے ہیں ان اکابرینِ امت پر جن کے علمی نقطہ نظر کی تحقیق نے ایک زمانے میں دھوم مچائی اور ایک نسل کو متاثر کیا۔
سید قطب شہید (رحمہ اللہ) نے مغرب کی جمہوریت اور بادشاہت کے علمی نقطہ نظر سے متاثر ہو کر جب "العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام" تحریر کی تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے متعلق ناگوار تاثرات کا اظہار کیا۔
بالکل اسی طرح علامہ رشید رضا مصری نے اپنی تصنیف "الخلافۃ العظمیٰ" میں حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے خلاف "گھناؤنے جرائم" کی ایک فہرست پیش فرمائی۔
سرسید احمد خان جو انگریزی تہذیب کی "خوبیوں" سے متاثر ہوئے تو قرآن کی اپنی تفسیر میں ایسی ایسی تاویلات سے کام لیا کہ الامان الحفظ۔
مسٹر غلام احمد پرویز ، ڈارون کے "علمی" نظریہ ارتقا سے متاثر ہوئے تو آپ نے اس کو عین اسلامی نظریہ قرار دیا اور قرآن سے ثابت کرنے کی جراءت بھی کر ڈالی۔
مولانا قاسم نانوتوی ، صوفیانہ فلسفۂ حقیقتِ محمدیہ سے مرعوب ہوئے تو ختمِ نبوت کو بھی دو حصوں خاتمیت ذاتی اور خاتمیت مرتبی میں بانٹ ڈالا۔
شاہ اسمٰعیل شہید (رحمۃ اللہ) ، تصوف کے ایک خاص علمی نقطۂ نظر سے مرعوب ہوئے تو ، تقویۃ الایمان والے یہی موحد مصنف مرحوم اپنی ایک دوسری تصنیف (صراط مستقیم) میں کہہ گئے کہ : اولیاء کو کائینات میں تصرف کی اجازت حاصل ہوتی ہے۔
اور سب سے بڑھ کر مولانا مودودی (رحمۃ اللہ) بھی جب مغرب کی ملوکیت والے "علمی نظریہ" کے جادو کے زیرِ دام آئے تو آپ محترم نے اردو میں تاریخِ اسلام کی وہ زہریلی ترین کتاب تحریر فرمائی جسے آج بھی ہم "خلافت و ملوکیت" کے نام سے بازار میں بکتی دیکھ سکتے ہیں !

اب ان اکابرینِ امت کے سامنے ڈاکٹر ذاکر نائک کی کیا حیثیت ہے ؟ کیا ان سے بھی غلطی نہیں ہوئی ہوگی؟
جب اولیاء و اکابرینِ امت کے "علمی نقطۂ نظر" کی تحقیق کا یہ حال ہے تو آپ اور ہم کس قطار میں جناب ؟؟
پہلے ہی امتِ مسلمہ ، اسلام کے اصل الاصول عقیدۂ توحید کے سلسلے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ہم اس کو علمی نقاط نظر کی تحقیق کی خوشنما تھپکیاں دے کر مزید کس غنودگی میں ڈالنا چاہتے ہیں؟ للہ کچھ تو رحم کیجئے !!

آپ فرماتے ہیں کہ : انجیل میں خاتم النبیین کا ذکر پڑھ کر آپ کو حق الیقین حاصل ہوا۔
اور اس سے قبل یوں بھی کہا کہ : اگر آپ کسی کے عقائد کے بارے میں پڑھیں‌گے ہی نہیں تو پھر آپ کو ان کا علم کیسے ہوگا اور بغیر علم کے آپ ان کے حق ناحق ہونے کا فیصلہ کیسے کر سکیں گے؟
حالانکہ یہ بات طےشدہ ہے کہ شریعتِ اسلامی کے سوا اللہ نے کسی دوسری الہامی کتاب کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا۔ پھر قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کے لیے دینِ اسلام کو پسند کیا اور روزِ قیامت کوئی دوسرا دین قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیا قرآن کی اتنی مضبوط گواہی ہمارے حق الیقین کا سبب نہیں بن سکتی؟ کیا ہم قرآن کو مہجور بنانا چاہتے ہیں کہ اس کی آیات کی تصدیق تحریف شدہ دیگر الہامی کتب سے ہوگی ؟ حق یا ناحق کا فیصلہ کرنے کے لیے کیا قرآن و حدیث کافی نہیں ہیں؟ کیا راست قرآن و حدیث کی تعلیمات حق کے اظہار کے لیے ناکافی سمجھی جاتی ہیں؟؟

دین میں علم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہاں عمل صرف اس پر ہونا چاہئے جو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
آپ اگر اس جملے میں تھوڑا سی تبدیلی پیدا کر لیں تو مناسب رہے گا۔ ورنہ تو شریعتِ اسلامی نے بعض علوم کے حصول کو ممنوع بھی قرار دیا ہے ، جیسے علمِ نجوم یا علمِ جادو۔

آپ پوچھتے ہیں کہ : کسی کے عقائد جانے بغیر اس کو دعوت کیسے دیجئے گا؟
کیا اسلام کی دعوت دینے کے لیے یہ کوئی ضروری امر ہے کہ فلاں فلاں معاشرے کے عقائد سے واقفیت حاصل کی جائے؟ اور پھر اس کی بھی کیا گیارنٹی ہے کہ آپ اُن ہولناک عقائد کی گمراہی سے دامن بھی بچا پائیں گے ؟ مثالیں تو اوپر دی جا چکی ہیں کہ غیروں کے عقائد کو علمی نقطۂ نظر کی تحقیق کے سہارے جاننے کی دھن میں اکابرینِ امت نے کیسی کیسی ٹھوکریں کھائی ہیں ؟ برصغیر میں اسی موضوع کے حوالے سے تصوف نے جو تباہ کاریاں پہنچائیں اور دین اسلام کی اصل کو مسخ کیا اس کی بھی بیشمار مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ غیروں کے معاشرے سے واقفیت اور ہم آہنگی کے اس پھوڑے نے امتِ مسلمہ کے زخم خوردہ جسم کو مزید کس حد تک متاثر کیا؟
ہاں ، صحابہ نے اگر دیگر کتبِ الہامی سے مثالیں دی تھیں تو ان کے درمیان رحمة العالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت اور آپ (ص) کی تعلیمات کے اصل اثرات موجود تھے۔ کیا آج ہم میں سے کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہی فہم ہمیں بھی حاصل ہے جو صحابہ کو میسر تھا؟
بات وہی ہے کہ : دین کی تبلیغ میں سلف الصالحین کا جو طریقہ تھا ، اس سے نہ آگے برھئے اور نہ اس کو نظرانداز کیجئے ورنہ ہم کو اپنے بنیادی عقائد سے بھی ہاتھ دھو لینا پڑیں گے۔

صرف ایک حدیث پکڑ کر حلت اور حرمت کی ریت اچھی نہیں بھائی۔ بہتر یہی کہ کسی ایسے سے پوچھ لیا جائے جو "علم" رکھتا ہو۔ صرف لکھنا پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔
ابھی جو میں نے اکابرینِ امت کے نام گنائے ہیں کیا وہ "علم" نہیں رکھتے تھے؟ اگر صرف لکھنا پڑھنا کافی نہیں ہوتا تو کیا صرف "علم" رکھنا کفایت کر جائے گا؟ پھر تو دورِ حاضر کے ایک شیخ الاسلام بھی بہت بڑے عالم ہوئے کہ نیٹ پر ان کی علمیت ، ان کی لائیبریری اور ان کی بیشمار اردو تصنیفات کے ڈنکے بج رہے ہیں !

آپ مجھے تو کہتے ہیں کہ : صرف ایک حدیث کو پکڑ کر حلت اور حرمت کی ریت اچھی نہیں بھائی۔
اور خود آپ نے اس بحث میں اس حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ : نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کا فیصلہ تورات کے مطابق کیا۔
جناب عالی ، یہ تو خود اسلامی شریعت سے ثابت ہے کہ غیر مسلم شریعتِ اسلامی کے تمام قوانین کی پاسداری کے مکلف نہیں ہیں۔ اور پھر وہ تو رسول اللہ تھے جن پر اللہ کی وحی آتی تھی اور آپ (ص) خوب جانتے تھے کہ تورات کس حد تک اصل باقی ہے اور کس حد تک متحرف ہو چکی ہے ؟ کیا کوئی امتی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے ؟ پھر اس حدیث سے آپ یہ اصول کیسے اخذ کر سکتے ہیں کہ غیر مذہب کی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے ؟
مجھ سے تو کہا گیا تھا کہ : توریت کے جملے پڑھنے والے پورے واقعے کو سیاق و سباق سے پیش کیجئے۔ اور خود آپ احباب اپنے قیاس و منطق کے سہارے ایسے واقعات پیش کرتے ہیں کہ صحابہ تورات کی وہ آیات سُنایا کرتے تھے جن میں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی آمد اور نشانیاں مذکور ہیں۔ کیا یہاں پورے واقعے کو سیاق و سباق سے پیش کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا؟
اور پھر ذرا یہ بھی تو سوچئے کہ ۔۔۔۔۔
جہاں حدیث کے ظاہری مطلب کو اختیار کرنا چاہئے وہاں آپ تاویل کر کے "علمی نقطۂ نظر" کے چور دروازے نکال رہے ہیں اور جہاں حدیث کی تاویل کرنا چاہئے وہاں آپ ظاہری معنی کو پسند فرما رہے ہیں۔ ذرا مہربانی فرما کر ہم کو بتائیے کہ فہمِ دین کی یہ کون سی روش ہے جس کی تبلیغ پر چند افراد کمربستہ ہیں ؟

صرف تحصیل علم کےلئے اور حقانیت قرآن کے لئے پڑھنا میں نے اس کی ممانعت نہیں پڑھی کہیں۔
ممکن ہے آپ کے علم میں ایسی کوئی ممانعت نہ ہو اور ممکن ہے ایسی ممانعت شریعت میں بھی نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن بھائی ، تبلیغِ دین کے ضمن میں جس راستے کو سلف الصالحین نے اختیار نہیں کیا ، تو اس راستہ کی درستگی کی کیا گیارنٹی دی جا سکتی ہے؟

برادرِ عزیز ! جس چیز کی طرف آپ دھیان نہیں دے پا رہے ہیں وہ صرف "علم" نہیں ہے بلکہ وہ درحقیقت اکابرینِ خیر القرون کا فہم ہے جس کے ذریعے انہوں نے رسول عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دین سمجھا اور سیکھا تھا اور آج ہم کو اسی کے احیاء کی ضرورت ہے برادر !
 

باذوق

محفلین
بہر صورت روایت لکھنے والا، انسان واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح جیسے روایات کی کتب میں راوی ہوتے ہیں۔
محترم فاروق سرور خان صاحب ! میں شائد آپ کی اس پوسٹ کا جواب نہ دیتا کہ آپ کے "خاص نقطۂ نظر" سے راقم ہی نہیں تقریباً تمام اہلِ محفل واقف ہیں ! :)
صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ "حدیث" کے معاملے میں انسانی روایت کے بہانوں سے عام مسلمانوں کے اذہان میں شکوک کے بیج نہ بوئے جا سکیں !
پہلی بات تو یہی کہ قرآن بھی آسمان سے لکھا لکھایا نہیں اترا بلکہ یہ بھی انہی انسانوں کے ہاتھوں لکھا گیا جن کو علمِ حدیث کی زبان میں کاتبِ وحی اور عام زبان میں راوی کہا جاتا ہے۔ لہذا قرآن کی ہر آیت اللہ کا کلام ہونے کی اگر تصدیق کرتی ہے تو ہر صحیح حدیث بھی اللہ کے اسی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کلام ہونے کی تصدیق کرتی ہے جو بقول قرآن اللہ کی مرضی سے ہی کلام کرتے تھے !!
ایک عام سا مسلمان بھی جانتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمایا ہوا کلام صرف قرآن کریم میں موجود نہیں ہے بلکہ حدیث میں بھی ہے !
یعنی وہ حدیث جو عرفِ عام میں "حدیثِ قدسی" کے عنوان سے مشہور ہے اور جس میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں !
حدیث قدسی کی ایک مثال وہ دعائیں بھی ہیں جو ہم نماز میں اور مختلف مواقع پر پڑھتے ہیں۔ ان دعاؤں کا ایک ایک لفظ ، بعینہ اسی طرح اللہ کا کلام ہے جس طرح قرآن کے الفاظ !
اور یہ امتِ مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے جسے چند افراد کی لفاظی کے ہیر پھیر سے مسلمانوں کے اذہان سے مٹایا نہیں جا سکتا !
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی سب سے پہلے تو بہت شکریہ آپ کی پوسٹ‌کا۔ مجھے اعتراف ہے کہ آپ کی باتوں‌کی اصل سے مجھے اتفاق ہے۔ مجھے اتفاق ہے اس بات سے کہ امت کا عمل صرف اور صرف قرآن پر ہونا چاہئے، اور یہ کہ ہمارے لئے نمونہ صرف نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کبار ہیں اور کچھ نہیں۔ باقی جو باتیں ہیں وہ فروعی ہیں اور ان میں سے کچھ مخصوص لوگوں کے لئے جائز ہیں اور باقی لوگوں کے لئے لازم ہے کہ ان سے پرہیز کریں۔
بھائی اگر یوں ہی بحث کرنا ہے تو ہم کیوں نہ حدیث کے معاملے میں فاروق سرور خان صاحب کی بعض باتیں مان لیں کہ وہ بھی تو منطقی نظر آتی ہیں اور جس کو قبول کرنے کا رحجان محفل کے بعض اہم احباب کی جانب سے بھی پیدا ہوا ہے !
بھائی بحث‌تو اللہ معاف فرمائے مقصد ہی نہیں ہے۔ میں‌تو صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ ہر معاملہ میں یہ دیکھ لینا چاہئے کہ اس پر علمائے اکابرین کی کیا رائے ہے کہ ان کا علم ہم سے یقیناً بہت زیادہ تھا اور ان کا اجتہاد ہمارے اجتہاد سے بہتر تھا اور پھر ان میں سے جس کی بات آپ کے جی کو لگتی ہے اسے مان لیجئے کہ حدیثِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم تو یہ بھی ہے نا کہ علماء کے اختلاف میں امت کے لئے رحمت ہے۔ (یہاں‌وہ پاکستان اختلاف نہیں علمی اختلاف کی بات ہے جیسا کہ ائمہ کرام کے درمیان تھا اور ہے)۔ تو بس یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ اگر کسی امام یا سچے عالم کی رائے میں یہ ممنوع نہیں ہے تو پھر اس کی حرمت پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔
سورۃ بقرہ کی آیات97-98 کی شانِ نزول کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہود کے مدرسہ میں جایا کرتے تھے کہ ان کے عقائد کے متعلق جانیں اور وہاں جب انہوں نے یہود کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے خلاف باتیں کرتے سُنا تو طیش میں آکر فرمایا کہ جبرائیل تو اللہ کا بندہ ہے اور جو اس کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے اللہ اس کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ دربارِ رسولی صل اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ عمر اللہ نے تمہاری تصدیق کے لئے آیات نازل فرمائی ہیں اور پھر یہ آیاتِ مبارکہ تلاوت فرمائیں۔
حالانکہ یہ بات طےشدہ ہے کہ شریعتِ اسلامی کے سوا اللہ نے کسی دوسری الہامی کتاب کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا۔ پھر قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کے لیے دینِ اسلام کو پسند کیا اور روزِ قیامت کوئی دوسرا دین قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیا قرآن کی اتنی مضبوط گواہی ہمارے حق الیقین کا سبب نہیں بن سکتی؟ کیا ہم قرآن کو مہجور بنانا چاہتے ہیں کہ اس کی آیات کی تصدیق تحریف شدہ دیگر الہامی کتب سے ہوگی ؟ حق یا ناحق کا فیصلہ کرنے کے لیے کیا قرآن و حدیث کافی نہیں ہیں؟ کیا راست قرآن و حدیث کی تعلیمات حق کے اظہار کے لیے ناکافی سمجھی جاتی ہیں؟؟
نہیں بھائی ایسی بات نہیں۔ یقین کی بھی تو تین اقسام ہیں نا اور اللہ نے بھی عین الیقین، علم الیقین کی اصطلاحیں‌بیان فرمائی ہیں۔ تو جب کوئی چیز دیکھے بغیر مان لی تو غیب پر یقین ہو گیا کہ بغیر جانے یقین ہوا، دیکھ لی تو عین الیقین ہو گیا کہ آنکھوں‌سے یقین کر لیا اور جب دیکھ کر مان لیا تو حق الیقین ہو گیا کہ دیکھا بھی اور مانا بھی۔ تو دیکھے بغیر تو بھائی حق الیقین نہیں ہوگا نا۔ خدانخواستہ یہاں یہ عرض نہیں کررہا کہ دیکھو نہ تو یقین ہی نہ کرو، صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ دیکھ کر کیا گیا یقین اور بن دیکھے یقین میں فرق ہوتا ہے۔
کیا اسلام کی دعوت دینے کے لیے یہ کوئی ضروری امر ہے کہ فلاں فلاں معاشرے کے عقائد سے واقفیت حاصل کی جائے؟ اور پھر اس کی بھی کیا گیارنٹی ہے کہ آپ اُن ہولناک عقائد کی گمراہی سے دامن بھی بچا پائیں گے ؟ مثالیں تو اوپر دی جا چکی ہیں کہ غیروں کے عقائد کو علمی نقطۂ نظر کی تحقیق کے سہارے جاننے کی دھن میں اکابرینِ امت نے کیسی کیسی ٹھوکریں کھائی ہیں ؟ برصغیر میں اسی موضوع کے حوالے سے تصوف نے جو تباہ کاریاں پہنچائیں اور دین اسلام کی اصل کو مسخ کیا اس کی بھی بیشمار مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ غیروں کے معاشرے سے واقفیت اور ہم آہنگی کے اس پھوڑے نے امتِ مسلمہ کے زخم خوردہ جسم کو مزید کس حد تک متاثر کیا؟
ابھی جو میں نے اکابرینِ امت کے نام گنائے ہیں کیا وہ "علم" نہیں رکھتے تھے؟ اگر صرف لکھنا پڑھنا کافی نہیں ہوتا تو کیا صرف "علم" رکھنا کفایت کر جائے گا؟ پھر تو دورِ حاضر کے ایک شیخ الاسلام بھی بہت بڑے عالم ہوئے کہ نیٹ پر ان کی علمیت ، ان کی لائیبریری اور ان کی بیشمار اردو تصنیفات کے ڈنکے بج رہے ہیں
جب اولیاء و اکابرینِ امت کے "علمی نقطۂ نظر" کی تحقیق کا یہ حال ہے تو آپ اور ہم کس قطار میں جناب ؟؟
اب پہلا تو خالصتاً ایک علمی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ کووں کو دعوت دینے کے لئے کوا بننا پڑتا ہے ہنس بن کر بات نہیں‌بنتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک مرض کی تشخیص نہ ہو تب تک علاج ناممکن ہے۔ اسی لئے میرا یہ بھی ماننا ہے کہ جب تک آپ خود تقوٰی کے ایک خاص مقام تک نہیں پہنچ جاتے آپ کو وعظ و تبلیغ نہیں کرنا چاہئے کہ آپ کے عقائد کا خام ہونا آپ کے اپنے ایمان کو ہی خراب کر سکتا ہے۔
ابھی جو میں نے اکابرینِ امت کے نام گنائے ہیں کیا وہ "علم" نہیں رکھتے تھے؟ اگر صرف لکھنا پڑھنا کافی نہیں ہوتا تو کیا صرف "علم" رکھنا کفایت کر جائے گا؟ پھر تو دورِ حاضر کے ایک شیخ الاسلام بھی بہت بڑے عالم ہوئے کہ نیٹ پر ان کی علمیت ، ان کی لائیبریری اور ان کی بیشمار اردو تصنیفات کے ڈنکے بج رہے ہیں
جب اولیاء و اکابرینِ امت کے "علمی نقطۂ نظر" کی تحقیق کا یہ حال ہے تو آپ اور ہم کس قطار میں جناب ؟؟
اور جن اصحاب کو آپ نے اکابرین امت میں گردانا ماسوا شاہ اسماعیل شہید کے میں انہیں ایسا نہیں سمجھتا کہ ان کے اپنے عقائد خام تھے اور اسی لئے انہوں‌نے خود بھی ٹھوکر کھائی اور اپنے ماننے والوں کو بھی گمراہ کیا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ میرے تئیں تو صرف وہی شخص قابل تقلید ہے جس کا رواں رُواں عشق نبی صل اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہو اور ثبوت اس کا یہ ہو کہ اس کا ہر عمل حُبِ نبی اور سُنت نبوی صل اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہو۔ جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ایسا شخص جس کی ایک سنت بھی نہ قضا ہو (یہاں‌صرف نماز والی سُنت مراد نہیں بلکہ عمل والی سُنت مراد ہے)۔ تصوف کے موضوع پر ہمارا آپ کا اختلاف ہے لہٰذا اس بحث میں نہیں پڑتے۔
ممکن ہے آپ کے علم میں ایسی کوئی ممانعت نہ ہو اور ممکن ہے ایسی ممانعت شریعت میں بھی نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن بھائی ، تبلیغِ دین کے ضمن میں جس راستے کو سلف الصالحین نے اختیار نہیں کیا ، تو اس راستہ کی درستگی کی کیا گیارنٹی دی جا سکتی ہے؟
بھائی میرے خیال میں تو اسلاف نے یہی طریق اختیار کیا تھا۔ آپ ہندوستان میں ہی تبلیغِ دین کا عمل دیکھ لیں کہ کن لوگوں نے اور کیسے سرانجام دیا۔ شیخ سعدی نے تو ہندوؤں کی درسگاہ میں تعلیم تک حاصل کی ان کے عقائد جاننے کے لئے۔ لیکن بات وہی ہے کہ ایک خالصتاً علمی مسئلہ ہے اور یقیناً اس بات کی ہر کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ غیر مسلموں کے مذہب پر تحقیق کرتا پھرے کہ اس سے اپنا ایمان مجروح ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
گزشتہ صدی کے اوائل میں ایک تحریک شروع کی تھی ہندوؤں نے "گوروکُل" کے نام سے جس میں اسلام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ شاید آج بھی کہیں اس کے متعلق مواد موجود ہو۔ ایسے فتنوں کا سد باب ان کے متعلق جانے بغیر نہیں کیا جاسکتا لیکن بات وہی ہے کہ ہر ایک کے لئے نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی مرفوع۔
 

فرید احمد

محفلین
گزشتہ صدی کے اوائل میں ایک تحریک شروع کی تھی ہندوؤں نے "گوروکُل" کے نام سے جس میں اسلام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ شاید آج بھی کہیں اس کے متعلق مواد موجود ہو۔
گوروکل تو ان کی درسگاہوں کو کہتے ہیں ، جیسے ہم دارالعلوم یا خانقاہ کو کہتے ہیں ، تحریک اے تمہاری مراد شاید " شدھی سنگٹھن " ہو ، شدھی : یعنی اصلاح ،اور سنگٹھن : یعنی جماعت "
اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو پھر سے ہندو بناو ، کہ پہلے ان کے آبا و اجداد ہندو ہی تو تھے ۔ یہ تحریک شاید تبلیغ کے مقابلہ میں شروع ہوئی تھی ، سیاسی اعتبار سے اس کے جواب میں انہی دنوں " تنظیم " نام کی تحریک مسلمانوں نے شروع کی تھی ۔
 

خرم

محفلین
جی نہیں‌فرید بھائی گوروکل تحریک ہی تھی۔ اس میں درسگاہیں قائم کی جاتی تھیں جہاں لوگوں کو بطلانِ اسلام کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ درسگاہوں کا نام کیونکہ گوروکُل ہوتا تھا لہٰذا اسے گوروکُل تحریک کے نام سے ہی لکھا گیا۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
ميں نے اس دھاگے کا مطالعہ کيا ہے ۔۔

ميں زيادہ کچھ نہيں کہنا چاہوں گا ۔

صرف ان دو احاديث پر تھوڑي سي بحث کرنے کي جسارت حاصل کروں گا جن پر اس موضوع کي بنياد رکھي گئي ہے ۔

پہلي حديث يہ ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي

اس کا ترجمہ جناب ب ا ذوق دے ہي چکے ہيں ويسے ان کے احاديث والے فورم پر بھي موجود ہے ۔

مجھے اس کي سند کے ايک راوي "مجالد" کے بارے ميں کچھ کہنا ہے ۔
ان کا نام :مجالد بن سعيد بن عمير
ان کا طبقہ :يہ صحابہ ميں سے کسي سے بھي نہيں ملے يعني تبع تابعي ہيں ۔
کنيت : ابو عمرو
بلدِاقامت: کوفہ
تاريخ وفات:144 ہجري

ان کے بارے ميں اہل حديث ميں سے چند کي آراء "ياد رہے کہ اہل حديث سے مراد آجکل کے اہل حديث نہيں بلکہ محدثين ہيں "

یحیی بن سعید القطان :" یہ راوی ضعیف ہیں "
احمد بن حنبل "لیس بشیئ "
یحیی بن معین "لا یحتج بحدیثہ "ومرۃ "ضعیف واھی"

سنن دارمي کے علاوہ مسند احمد بن حنبل ميں اس حديث کو دو جگہ مختلف متن کے ساتھ بيان کيا گيا ہے وہ بھي پيش کيے ديتا ہوں

حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ فَقَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ فَقَالَ أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي
مسند احمد بن حنبل ِباقي مسند المکثرين ِ باقي مسند السابق

حَدَّثَنَا يُونُسُ وَغَيْرُهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسْأَلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَهْدُوكُمْ وَقَدْ ضَلُّوا فَإِنَّكُمْ إِمَّا أَنْ تُصَدِّقُوا بِبَاطِلٍ أَوْ تُكَذِّبُوا بِحَقٍّ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مَا حَلَّ لَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي
مسند احمد بن حنبل ِ باقي مسند المکثرين ِ مسند جابر بن عبداللہ
اس روايت کي ہم معني روايات صحاح ستہ ميں يہ دو ہي ملتي ہيں
تينوں اسناد ميں يہ روايت جابر بن عبداللہ رضي اللہ عنہ سے ہے دو اسناد ميں اسے شعبي نے بيان کيا ہے اور ايک ميں عامر نے مجالد نے عامر اور شعبي دونوں سے اسے مختلف طرح روايت کيا ہے ۔


ديکھنا يہ ہے کہ کيا اسے منسوخ تو نہيں کر ديا گيا اگر منسوخ کيا گيا ہے تو ناسخ کون سي چيز ہے

کيا کسي اور حديث کے ذريعے ۔ اگر کسي اور حديث کے ذريعے تو اس حديث کي نوعيت کيا ہے

ذرا ديکھتے ہيں

بخاري کي حديث

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ ۔۔

الجامع الصحيح للبخاري ۔ کتاب احاديث الانبياء ۔ باب ما ذکر عن بني اسرائيل

اس حديث کو

ترمذي نے العلم عن رسول اللہ ميں

احمد نے کتاب مسند المثکرين من الصحابہ ميں چار جگہ اور

دارمي نے کتاب المقدمہ ميں اسے بيان کيا ہے

ترجمہ درج ذيل ہے :
"يہ ترجمہ بھي جناب باذوق کا ہے کيونکہ ميں اتنا اچھا ترجمہ نہيں کر سکتا:( "
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے ‫: پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک آیت ہی ہو اور روایت کرو یہودیوں سے اس میں کوئی حرج نہیں اور جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔


فتح الباري بشرح صحيح البخاري ميں اس حديث کے ذيل ميں چند باتيں ہيں جو درج ذيل ہيں ۔

قوله : ( وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج ) أي لا ضيق عليكم في الحديث عنهم لأنه كان تقدم منه صلى الله عليه وسلم الزجر عن الأخذ عنهم والنظر في كتبهم ثم حصل التوسع في ذلك , وكأن النهي وقع قبل استقرار الأحكام الإسلامية والقواعد الدينية خشية الفتنة , ثم لما زال المحذور وقع الإذن في ذلك لما في سماع الأخبار التي كانت في زمانهم من الاعتبار
"معذرت کے ساتھ يہ ترجمہ ميرا اپنا ہے اس ليے کافي غلط ہو گا ليکن پھر بھي مفہوم درست ہي اخذ کيا گيا ہے اگر کوئي درست ترجمہ کر سکے تو مہرباني ہو گي ۔ باذوق انکل سے گزارش ہے کہ وہ ترجمہ فرما ديں "
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ﴿وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ﴾ یعنی تم پر کوئی تنگی نہیں ہے ان سے روایت کے بیان کرنے میں یہ اس وجہ سے ہے کہ اس سے پہلے ان سے روایات لینے پر اور ان کی کتابوں کو پڑھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زجر فرمائی تھی اور یہ نہی احکام اسلامیہ اور قواعد دینیہ کے استقرار سے بیشتر فتنہ کے خوف سے فرمائی تھی پھر جب محزود زائل ہو گیا تو اجازت دے دی گئی جس طرح کے زمانے کے اعتبار سے روایت کے واقع ہونے سے علم ہوتا ہے

اب تھوڑا سا غوروفکر کر ليا جائے ۔

ميرا خيال يہ ہے کہ سنن دارمي اور الجامع الصحيح کے فرق ہي سے دونوں حديثوں کي حيثيت کا علم ہو جاتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ دارمي والي حديث کے ايک راوي مجالد ميں محدثين نے طعن بھي کيا ہے ۔

جب کہ بخاري کي روايت ميں ايسا نہيں

بخاري کي روايت کے طرق بھي کثرت سے ميسر آتے ہيں جب کہ دوسري حديث کے صرف دو طرق ہيں

يعني مجالد عن شعبي عن جابر

اور مجالد عن عامر عن جابر

بخاري شريف کو تمام علماء متفقہ طور پر اصح الکتتب بعدالقرآن کا لقب ديتے ہيں ":rolleyes:"

سنن دارمي بے شک صحاح ستہ ميں ہے مگر اس کي اہميت اور اتھينٹيسٹي وہ نہيں ۔

پھر فتح الباري ميں اس حديث کي شرح سے تو سارا مسئلہ ہي حل ہو جاتا ہے ۔

رہي يہ بات کہ غير مسلم کي کتابوں اور عقائد کو پڑھنے سے عقائد کي خرابي کا خطرہ ہے ۔

تو ايسي کوئي بات ميرے خيال ميں نہيں ہے ۔

اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ہميں اپنے ايمان اور اپنے دين پر اعتماد ہي نہيں ۔

اقبال تو کہے

نہ چھوٹے ہم سے لندن ميں بھي آداب سحر خيزي

اور ہم انجيل کو اپنے گھر ميں اس نقطہ نظر سے کہ اس ميں غلطياں نوٹ کريں يا اپنے موافق باتيں تلاش کريں پڑھيں اور پھر بھي ہمارا ايمان خراب ہو جائے ۔

تف ہے ايسے ايمان پر ۔

حق اليقين اور عين اليقين حاصل کرنے کا يہي طريقہ ہے جو اللہ تعالي کے پيغمبر ابراہيم عليہ السلام نے اختيار کيا
ان کا طريقہ کار کيا تھا ؟

کيا انہوں نے پہلے يہ نہيں کہا تھا کہ چاند ميرا رب ہے پھر جب وہ غروب ہو گيا تو کہا کہ نہيں

پھر سورج کو کہا

کيا اس کا يہ مطلب ہے کہ نبي نے پہلے شرک کيا نہيں انہوں نے تو ان کے عقائد کا منہ توڑ جواب دينے کے ليے يوں کہا

خير

آخر ميں چھوٹا منہ بڑي بات کے طور پر ايک عرض کرنا چاہوں گا

کسي کے اوپر کيچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے بارے ميں ضرور چھان بين کر ليني چاہيے کہ ميں جس شخص کو غلط کہہ رہا ہوں اس کي حيثيت کيا ہے کہيں ايسا تو نہيں کہ وہ چاند کي مانند بلند ہے اور ميں زمين پر کھڑا ہوں اور جب ميں اس پر تھوک پھينکوں گا تو وہ ميرے اپنے اوپر آئے گي

والسلام
 

باذوق

محفلین
مجھے اس کي سند کے ايک راوي "مجالد" کے بارے ميں کچھ کہنا ہے ۔
افسوس کہ میرے پاس اس وقت مکتبہ شاملہ کی سی۔ڈی کام نہیں کر رہی ورنہ میں "آپ کی تحقیق" پر ضرور تبصرہ کرتا۔ :)
ویسے میں نے یہ حدیث متعلقہ ادارہ کو (بغرض تشریح) بھیج دی ہے۔ جو بھی جواب آئے گا، ان شاءاللہ یہاں پوسٹ کر دوں گا۔

ترجمہ درج ذيل ہے :
"يہ ترجمہ بھي جناب باذوق کا ہے کيونکہ ميں اتنا اچھا ترجمہ نہيں کر سکتا:( "
میں یہاں محفل میں بھی اور احادیث کی اپنی سائیٹ پر بھی لکھ چکا ہوں کہ کسی بھی حدیث کا اردو ترجمہ راقم نے ذاتی طور پر نہیں کیا ہے۔ بلکہ میں نے تو احادیث کی سائیٹ پر واضح طور پر لکھا ہے :
احادیث کے اُردو ترجمے کے لیے مولانا وحید الزماں کے ترجمے کے علاوہ بعض نامور علماء اور محدثین کی اُردو کتب سے بھی خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے ۔
بشریت کے تقاضے کے تحت ترجمے میں غلطی کا امکان بھی موجود ہے ۔ اگر ایسی کوئی غلطی نظر میں آئے تو براہ مہربانی ذاتی پیغام کے ذریعے انتظامیہ کو فوری مطلع فرما کر اپنی دینی ذمہ داری کا ثبوت دیں (جس کے لیے ہم آپ کے تہہ دل سے شکرگذار رہیں گے) ۔

رہي يہ بات کہ غير مسلم کي کتابوں اور عقائد کو پڑھنے سے عقائد کي خرابي کا خطرہ ہے ۔
تو ايسي کوئي بات ميرے خيال ميں نہيں ہے ۔
اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ہميں اپنے ايمان اور اپنے دين پر اعتماد ہي نہيں ۔
یہ تو مرجئہ کا عقیدہ ہے کہ ایمان ایک جامد (fix) چیز ہے۔ جبکہ قرآن کے مطابق ( سورة المدثر : 74 ، آیت : 31 ) ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ دین پر اعتماد ایک الگ چیز ہے اور ایمان کا گھٹنا بڑھنا یا خرابی یا تشکیک کا شکار ہونا ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن میں درج بالا آیت ہی نہ ہوتی !

ميرا خيال يہ ہے کہ سنن دارمي اور الجامع الصحيح کے فرق ہي سے دونوں حديثوں کي حيثيت کا علم ہو جاتا ہے ۔
یہ آپ کا ذاتی خیال ہے ۔ حالانکہ یہ بات ایک عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ تمام کی تمام صحیح احادیث صرف صحیحین (بخاری و مسلم) میں درج نہیں ہیں۔
ایک صحیح حدیث اگر ابن خزیمہ یا سنن بیھقی میں بھی مل جائے تو اس کا درجہ بھی اسی صحیح حدیث کے برابر ہوگا جو صحیحین میں ہے۔

سنن دارمي بے شک صحاح ستہ ميں ہے مگر اس کي اہميت اور اتھينٹيسٹي وہ نہيں ۔
سنن دارمی ، صحاح ستہ میں شمار نہیں ہوتی۔ ممکن ہے جلدبازی میں آپ ایسا لکھ گئے ہوں۔

اور ہم انجيل کو اپنے گھر ميں اس نقطہ نظر سے کہ اس ميں غلطياں نوٹ کريں يا اپنے موافق باتيں تلاش کريں پڑھيں اور پھر بھي ہمارا ايمان خراب ہو جائے ۔ تف ہے ايسے ايمان پر ۔
آپ ایسے ہی تف بھیجتے رہئے اوروں کے ایمان پر۔ بہرحال یہ بات زندہ مثالوں کے عین خلاف ہے۔

کسي کے اوپر کيچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے بارے ميں ضرور چھان بين کر ليني چاہيے کہ ميں جس شخص کو غلط کہہ رہا ہوں اس کي حيثيت کيا ہے کہيں ايسا تو نہيں کہ وہ چاند کي مانند بلند ہے اور ميں زمين پر کھڑا ہوں اور جب ميں اس پر تھوک پھينکوں گا تو وہ ميرے اپنے اوپر آئے گي
یہ محض ادبی لفاظی ہے !
ورنہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ سوائے نبی کے کوئی بھی بشر معصوم عن الخطاء نہیں۔ ہاں ، صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم) کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے روک دیا ہے۔ بہت سی صحیح احادیث اس ضمن میں وارد ہیں۔
جہاں تک کیچڑ ، چاند اور زمین کی ادبی تراکیب ہیں تو عرض ہے کہ یہ کوئی میری ذاتی تحقیق نہیں ہے ، بلکہ ایسی نشاندہی خود علمائے کرام کی کتب میں درج ہے ، جس کی تصدیق خرم صاحب بھی کر چکے ہیں ( ماسوا شاہ اسماعیل شہید)
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ : جو کوئی عالم دین ، کسی دوسرے عالم یا امام کی غلطی پر گرفت کرتا ہے وہ درحقیقت اس پر کیچڑ اچھالتا ہے یا اس پر تھوکتا ہے ؟؟
 

حسن نظامی

لائبریرین
افسوس کہ میرے پاس اس وقت مکتبہ شاملہ کی سی۔ڈی کام نہیں کر رہی ورنہ میں "آپ کی تحقیق" پر ضرور تبصرہ کرتا۔ :)
ویسے میں نے یہ حدیث متعلقہ ادارہ کو (بغرض تشریح) بھیج دی ہے۔ جو بھی جواب آئے گا، ان شاءاللہ یہاں پوسٹ کر دوں گا۔

:a3:

يہ بھي خوب رہي چليں شايد متعلقہ شعبہ سے ہي کوئي جواب آ جائے
یہ تو مرجئہ کا عقیدہ ہے کہ ایمان ایک جامد (fix) چیز ہے۔ جبکہ قرآن کے مطابق ( سورة المدثر : 74 ، آیت : 31 ) ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ دین پر اعتماد ایک الگ چیز ہے اور ایمان کا گھٹنا بڑھنا یا خرابی یا تشکیک کا شکار ہونا ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن میں درج بالا آیت ہی نہ ہوتی !

چليں ميں اپني اس بات سے رجوع کيے ليتا ہوں ليکن يہ موضوع سے متعلق نہيں ۔

یہ آپ کا ذاتی خیال ہے ۔ حالانکہ یہ بات ایک عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ تمام کی تمام صحیح احادیث صرف صحیحین (بخاری و مسلم) میں درج نہیں ہیں۔
ایک صحیح حدیث اگر ابن خزیمہ یا سنن بیھقی میں بھی مل جائے تو اس کا درجہ بھی اسی صحیح حدیث کے برابر ہوگا جو صحیحین میں ہے۔!

معذرت کے ساتھ شايد آپ نے پڑھا نہيں ہے اپني اس بات پر غور کيجيے ۔ ہم نے تو اصول حديث ميں يہي پڑھا ہے کہ

اگر کوئي حديث مسلم اور بخاري دونوں کي شرائط کے مطابق بھي صحيح ثابت ہو جائے تب بھي اس کا درجہ صحت ميں صحيح بخاري کي حديث سےبہر حال کم ہو گا

يہ تو علامہ ابن حجر لکھتے ہيں کہيں تو عبارت نقل کيے دوں گا مگر ميرا خيال ہے يہ تو اصول حديث کا ادني طالب علم بھي جانتا ہے اور آپ تو cool:

سنن دارمی ، صحاح ستہ میں شمار نہیں ہوتی۔ ممکن ہے جلدبازی میں آپ ایسا لکھ گئے ہوں۔!
چليں صحاح ستہ سبعہ نہ سہي صحاح تسعہ ميں تو شمار ہوتي ہي ہو گي "از راہ مذاق "اس سے تو ميرا موقف اور بھي پختہ ہو جاتا ہے ۔۔ :)

آپ ایسے ہی تف بھیجتے رہئے اوروں کے ایمان پر۔ بہرحال یہ بات زندہ مثالوں کے عین خلاف ہے۔!
ٹھيک ہے نہيں بھيجتا

کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ : جو کوئی عالم دین ، کسی دوسرے عالم یا امام کی غلطی پر گرفت کرتا ہے وہ درحقیقت اس پر کیچڑ اچھالتا ہے یا اس پر تھوکتا ہے ؟؟
ارررے توبہ ميں نے کب کہا آپ خود ہي کہے جا رہے ہيں :

ويسے عالم دين کسے کہتے ہيں ۔ مولويوں کا تو آجکل کام ہي يہي ہے ۔ "يعني کيچڑ اچھالنا" اور ديکھ ليں کيا حال ہو گيا خود کا ۔

بہر حال متعلقہ شعبہ سے جواب آنے کا انتظار رہے گا ۔:rolleyes:
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔
ان میں سے جس کی بات آپ کے جی کو لگتی ہے اسے مان لیجئے کہ حدیثِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم تو یہ بھی ہے نا کہ علماء کے اختلاف میں امت کے لئے رحمت ہے۔ (یہاں‌وہ پاکستان اختلاف نہیں علمی اختلاف کی بات ہے جیسا کہ ائمہ کرام کے درمیان تھا اور ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس کا جواب یہاں ہے۔
 
جو ٹکنالوجی انجیل و توریت کی ہے کہ انسانوں نے لکھا اور نبیوں‌کے واقعات کو یعنی حدیث الانبیا (محمد الرسول اللہ سے پہلے) کو اپنے طور پر قلمبند کیا۔ جو پسند آیا وہ دیا، جو نا پسند آیا وہ چھپا دیا۔ اللہ تعالی نے یہ امر، قرآن میں خوب واضح کیا ہے۔ اور قرآن نازل فرما کر واضح طور پر اس کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ اسرائیلیات ختم نہیں‌ہوئی۔ مختلف شکلوں‌میں‌جاری ہے، کانوں ‌سنی روایات کی جو ٹکنالوجی حدیث الانبیا ( قبل رسول اللہ)کی شکل میں‌آج توریت اور انجیل میں‌ملتی ہے کہ کچھ ان انبیاء‌کا فرمایا ہوا، کچھ شائد اللہ کا فرمایا ہوا اور کچھ اپنا شامل کیا ہوا لگتا ہے۔ اس تکنیک کی اسرائیلیاتی ماہرین کو اشد ضرورت تھی کہ اس طریقہ کے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ سنت اللہ (جو تبدیل نہیں ہوتی) میں‌اپنی بات شامل کی جائے اور اپنی بات، اصول و قوانین شامل کرنے کا یہی طریقہ تھا کہ حدیث الانبیاء‌ (قبل محمد الرسول اللہ)‌ خود سے لکھی جائیں، لگتا ہے رفتہ رفتہ ان کتب الحدیث الانبیا کی صحیح و غلط احادیث کی ضخامت برھتی چلی گئی اور توریت، زبور و انجیل کی آیات آہستا آہستہ غائب ہوتی چلی گئیں یا نظریہ ضرورت کے تحت عبوری انسانی قوانین سے تبدیل کردی گئیں۔ موجودہ کتب انجیل و زبور و توریت کو قرآن پڑھنے کے بعد پڑھا اور دیکھا جائے تو مندرجہ بالاء احساس قوی تر ہوتا جاتا ہے۔

قرآن اور سنت کو اس ممکنہ جرم سے بچانے کے لئے اللہ تعالی نے قرآن یعنی اپنے احکام کو سنت و اقوال رسول کو حضرت محمد صلعم کے مرحلے پر الگ کردیا تاکہ توریت ، زبور و انجیل کی قسم کا جرم ممکن ہی نہ ہو۔ اقوال رسول و سنت رسول اپنے طور پر الگ کتب میں درج ہوئے، کہ صرف سنت و فرمان رسول میں صحیح و ضعیف کی ذمہ داری مسلمان ‌ پر رہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ پچھلے 1400 سے زائد سال اس امر کے گواہ ہیں۔ کسی حدیث کو اصل حدیث رسول قرار دینا آج بھی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ جس کو الفت رسول میں مسلمانوں نے بہت محنت سے نبھایا ہے کہ اصل روح الاقوال و سنت الرسول آج بھی قائم ہے، اور مروجہ اصولوں‌ پر اس کی پرکھ باقاعدہ ہوتی رہتی ہے۔ مزید خوبصورتی اس نظام کی یہ ہے کہ فرمان الہی کو مشیت ایزدی کے مطابق حفاظ نے صفحات کے علاوہ بھی محفوظ رکھا ہوا ہے۔
 
Top