مذاہب کا تقابلی مطالعہ

باذوق

محفلین
ذیل کا ایک ریفرنس ملاحظہ فرمائیں:

[تفسیر ابن کثیر کے مقدمے کو پڑھنے پر مجھے ایک ریفرنس وہاں بھی ملا تھا کہ اسرائیلیات بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔

کعب بن الاحبار نے بہت سی اسرائیلیات بیان کی ہیں اور ان سے بہت سے راویان حدیث نے روایات لی ہیں۔
آپ نے شائد اس تھریڈ کی شروعات کی چند پوسٹس کو غور سے پڑھا نہیں ۔۔۔
ورنہ یہ بات خرم صاحب بھی کہہ چکے ہیں کہ : اسرائیلیات بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔
اور اسی اصول پر انہوں نے اپنے قیاس سے ایک نیا اصول یہ نکالا کہ غیرمذاہب کی کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے !

جب کہ ان کے اسی قیاسی اصول کی نفی میں ، راقم نے الدارمی کی وہ حدیث بیان کی ، جس کی اسناد پر یہاں بحث جاری ہے حضرت حسن نظامی صاحب سے۔

آپ نے جو تفسیر ابن کثیر کے مقدمے کے ایک ریفرنس کی بات کی ہے ، اُسی کے متعلق میں نے یہاں ایک اقتباس لگایا ہے ، ذرا دیکھ لیجئے گا۔

اسرائیلیات کا بیان ۔۔۔ جن جن تحفظات کے ساتھ ہے ، وہ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ واضح کر چکے ہیں۔
میرا موقف یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسرائیلیات کا بیان ایک علیحدہ چیز ہے اور غیر مذاہب کی کتب کا مطالعہ ایک الگ معاملہ ہے۔
دونوں کو آپ صرف اسی صورت میں جوڑ کر یہ قیاسی فیصلہ (کہ : غیر مذاہب کی کتب کا مطالعہ جائز ہے) نکال سکتے ہیں ، جب غیر مذاہب کی کتب کے مطالعے سے روکنے والی واضح حدیث (الدارمی) یا تو ضعیف یا موضوع نکلے یا کسی دوسری حدیث سے منسوخ ثابت ہو !!

کیا یہ اصول غیر عقلی نہیں کہ : اسرائیلی روایات کو بیان کرنے کے لیے غیرمذاہب کی کتب کا مطالعہ کیا جانا لازمی امر ہے؟
جبکہ مفتی تقی عثمانی تو "معارف القرآن" کے مقدمے میں واضح کر چکے ہیں کہ صحابہ و تابعین نے مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل جو انہوں نے سنا یا پڑھا تھا وہی بیان کر دیا۔

اور پھر بخاری کی اس حدیث سے ، کہ ۔۔۔ روایت کرو یہودیوں سے ۔۔۔۔
یہ وضاحت بھلا کہاں ہوتی ہے کہ : غیر مذاہب کی کتب کے مطالعہ کی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بلا کھٹکے اجازت دے دی ہے؟؟

ایک بار پھر دہراؤں گا کہ :
اسرائیلی روایات کا بیان کرنا (شرعی حدود کے اندر رہ کر) ایک علیحدہ امر ہے اور
غیر مذاہب کی کتب کا مطالعہ ایک بالکل الگ واقعہ ہے !!
دونوں کو ایک دوسرے سے بہرحال مربوط نہیں کیا جا سکتا۔

غیرمذاہب کی کتب کے ایسے ہی بےدھڑک مطالعے نے اکابرین امت کو ضلالت کی جن پستیوں کی جانب دھکیلا ہے ، اس کی جانب بھی اسی دھاگے کی کسی پوسٹ میں ، مَیں اشارہ کر چکا ہوں۔
 

خرم

محفلین
صرف ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا۔ جو بھٹک گئے وہ اکابرین امت نہیں رہتے۔ اکابرین صرف وہ ہیں جو صراطِ مستقیم پر قائم رہے۔ ایک طرف تو آپ ان کے "ایک" چلن کو ممنوع اور خلافِ حدیث قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف آپ انہیں اکابرینِ امت بھی قرار دے رہے ہیں۔ بات کچھ جمتی نہیں۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
اس کو کہتے ہیں : بلی کا تھیلے سے باہر آنا !!

قارئین ، ذرا غور فرمائیں ، کتنی حیرت اور تعجب کی بات ہے۔ ایک صاحب جراءت کر کے اٹھتے ہیں اور الدارمی کی حدیث کے ایک راوی پر ببانگ دہل جسارت فرماتے ہوئے الزامات کے طومار باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔
باذوق انکل ميں نے کوئي جسارت نہيں کي اورنہ ہي الزامات کے طومار باندھے ہيں ۔ چند محدثين کے حوالے سے بات کي ہے ۔۔
اورافسوس کہ آپ بجائے اس کے کہ مجھ طالب علم کي اس تحقيق کو تحسين و آفرين کي نظر سے ديکھتے ۔ لفاظي کے جادو سے مسلسل رگڑا لگا رہے ہيں ۔
اور مجھے اس سے قطعا کوئي نقصان نہيں‌بلکہ آپ کو ہي ہے کہ اس طرح آپ کي قلي کھل رہي ہے ۔
بجائے اس کے کہ آپ مسند دلائل کے ساتھ ميري بات کا رد کرتے بغير کسي دليل کے شروع ہيں ۔ اور کبھي بلي اور کبھي چور کہے جا رہے ہيں ۔۔
کم از کم اپنے اور ميرے علم کا موازنہ کر کے ہي مجھے ڈيل کرنے کي کوشش کرتے ۔۔ ميں کہاں 19 سال کا طالب علم اور آپ کہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خير مجھے قطعي افسوس نہيں
کمال ہے ! علم اسماءِ رجال پر تو ایسی دسترس کہ منٹوں میں کسی راوی پر کی گئی جرح کو ڈھونڈ نکالیں اور ۔۔۔۔ دوسری جانب ایسی بےبسی کہ حدیث کی کسی کتاب سے اسی متذکرہ حدیث کو ڈھونڈ نکالنے سے خود کو قاصر پائیں ؟؟!!

حسن نظامی ! دانا بزرگوں کا یہ فرمانا بالکل سچ ہے کہ ۔۔۔ جب آدمی ایک جھوٹ بولے اور حقیقت سامنے آنے پر اپنی جھوٹی بات سے رجوع کرنے کے بجائے اپنی ٹانگ اونچی رکھنے بیجا تاویلات کا سہارا لے تو پھر وہ جھوٹ کے ہی سمندر میں غرق ہو کر رہ جاتا ہے !!
اللہ ہم تمام کو نیک ہدایت سے نوازے ، آمین !!
يہ بات ظاہر کرتي ہے کہ آپ کے پاس مشکوت والي بات کا ريفرنس نہيں ۔۔
خير کوئي بات نہيں ۔۔
ٹانگ اونچي رکھنے کي مسلسل کوشش کون کر رہا ہے يہ قارئين کو بخوبي معلوم ہے ۔۔

رہي يہ بات کہ ميري تحقيق جھوٹ پر مبني ہے تو آپ اس جھوٹ کي قلي کھوليں آپ کو منع کس نے کيا ہے ۔۔
دلائل سے رد کريں ۔۔
نہ کہ لفاظي کر کے جھوٹا ثابت کريں ۔۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
میں حدیث الدارمی کے راوی "مجالد" کے سلسلے میں‌ فی الوقت بالکل لاعلم ہوں‌ لہذا اس راوی کے اصل نام پر میرا قطعاَ کوئی تبصرہ نہ تھا اور نہ ہے
محض آپ کی ایسی درج بالا تُک بندیاں ہم کیوں کر قبول کر لیں بھلا؟؟ :(

آپ بالکل بھي ايسي درج بالا تک بندياں نہ قبول کريں ۔ آپ کو کسي نے مجبور تو نہيں نہ کيا ۔۔ :confused:
ليکن جب آپ کو راوي مجالد کے بارے ميں بالکل علم ہي نہيں تو آپ کيا کريں گے ۔۔
ميں نے اپنے مبلغ علم کے مطابق بات کي ہے آپ بھي کيجيے ۔۔۔:rolleyes:
 

حسن نظامی

لائبریرین
انصاف کيجيے

قارئین کرام میرا موقف یہ تھا کہ
درج ذیل حدیث جس کی بنیاد پر یہ موضوع شروع کیا گیا ۔
الدارمي ۔۔ کتاب المقدمہ
اس کے بالکل مخالف ایک روایت بخاری شریف میں موجود ہے ۔ اور بخاری شریف احادیث کی کتب میں سب سے مستند مانی جاتی ہے ۔ اوراصح الکتب کہلاتی ہے ۔۔
اسی پربس نہیں بلکہ یہ روایت بذات خود بھی ہر طرح کي جرح سے پاک ہے ۔۔ اور یہ اصول ہے کہ جب بھی دو روایتیں ایک دوسرے کے متضاد ہوں تو ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی ناسخ ہوا کرتی ہے ۔۔
یا دونوں میں تطبیق کی کوئی صورت ہوتی ہے ۔۔
یا پھر کوئی ایک روایت گھڑی گئی ہوتی ہے ۔۔۔
میں نے پہلی روایت کے ایک راوی مجالد کے بارے میں چندمحدثین کی جرح پیش کی تھی ۔۔
خیر وہ نزاع کا سبب بنی ہم اسے فی الحال رہنے دیتے ہیں ۔۔
ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ایک ایسی روایت جو کہ دارمی کی نسبت زیادہ مستند کتاب میں درج ہے اور جو اپنے مضمون کے لحاظ سے پہلی روایت کے بالکل مخالف ہے اس کو کیا حیثیت دی جائے گی ۔
اس حدیث کی شرح میں صاحب فتح الباری کی بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے روایات کرنے سے منع کیا گیا تھا ۔ جب اسلام دلوں میں راسخ نہ ہوا تھا ۔
اور بعد میں اجازت دے دی گئی ۔۔ ظاہر ہے یہ اجازت کسی حکمت کے تحت ہی دی گئ ہو گی ۔
بہر حال میری اس بات کو تو لفاظی کی نذر کر دیا گیا ۔۔ اور اس حوالے کو اہمیت ہی نہیں دی گئی ۔۔
اب میں ایک اور کتاب سے اسی مضمون کو دوبارہ پیش کرتا ہوں ۔۔
بخاری شریف کی کتاب احادیث الانبیاء کے باب ما ذکر عن بنی اسرائیل کی حدیث نمبر 3217 کی شرح میں کچھ یوں لکھا ہے ۔

"شروع شروع میں آپ نے اس سے منع فرما دیا تھا جب اسلام دلوں میں خوب جما نہ تھا اس کے بعد اجازت دے دی مگر اجازت انہی باتوں سے متعلق ہے جو قرآن اور حدیث کے خلاف نہ ہوں ۔۔ "
حوالہ ۔۔۔۔۔
کتاب : صحیح البخاری
حصہ
جلد سوم مشتمل بر ارہ نمبر 9 تا 15
مولف
امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ
یعنی شیخ الاسلام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ
مترجم
مولانا وحیدالزمان و مولانا عبدالرزاق
مطبع
اللہ والا پرنٹرز لاہور
ایڈیشن
طبع اول
ادارہ اشاعت
ناشران قرآن لمیٹڈ 38 اردو بازار لاہور
قارئین اب آپ خودانصاف کریں کہ میں جھوٹ پر جھوٹ بول رہا ہوں ۔ چوری اور پھر سینہ زوری کر رہا ہوں ۔ کوتوال کو ڈانٹ رہا ہوں ۔ بلی تھیلے سے باہر نکال رہا ہوں یا کسی مستند حوالے سے بات کر رہا ہوں ۔۔
 

دوست

محفلین
اپنا تو بڑا سادہ سا اصول ہے۔ دشمن کی زبان سیکھو تو اس کے شر سے محفوظ رہو گے۔ ان کے مذہب کا مطالعہ بھی کرلو تو انھی کی جوتی انھیں کے منہ پر مار سکو گے۔
بحث کا کیا ہے یہ بحث تو ابھی پچاس صفحے مزید بڑے پیار سے چل سکتی ہے بغیر کسی نتیجے کے۔:cool:
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ نے شائد اس تھریڈ کی شروعات کی چند پوسٹس کو غور سے پڑھا نہیں ۔۔۔
ورنہ یہ بات خرم صاحب بھی کہہ چکے ہیں کہ : اسرائیلیات بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔
اور اسی اصول پر انہوں نے اپنے قیاس سے ایک نیا اصول یہ نکالا کہ غیرمذاہب کی کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے !

جب کہ ان کے اسی قیاسی اصول کی نفی میں ، راقم نے الدارمی کی وہ حدیث بیان کی ، جس کی اسناد پر یہاں بحث جاری ہے حضرت حسن نظامی صاحب سے۔

آپ نے جو تفسیر ابن کثیر کے مقدمے کے ایک ریفرنس کی بات کی ہے ، اُسی کے متعلق میں نے یہاں ایک اقتباس لگایا ہے ، ذرا دیکھ لیجئے گا۔

اسرائیلیات کا بیان ۔۔۔ جن جن تحفظات کے ساتھ ہے ، وہ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ واضح کر چکے ہیں۔
میرا موقف یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسرائیلیات کا بیان ایک علیحدہ چیز ہے اور غیر مذاہب کی کتب کا مطالعہ ایک الگ معاملہ ہے۔
دونوں کو آپ صرف اسی صورت میں جوڑ کر یہ قیاسی فیصلہ (کہ : غیر مذاہب کی کتب کا مطالعہ جائز ہے) نکال سکتے ہیں ، جب غیر مذاہب کی کتب کے مطالعے سے روکنے والی واضح حدیث (الدارمی) یا تو ضعیف یا موضوع نکلے یا کسی دوسری حدیث سے منسوخ ثابت ہو !!

کیا یہ اصول غیر عقلی نہیں کہ : اسرائیلی روایات کو بیان کرنے کے لیے غیرمذاہب کی کتب کا مطالعہ کیا جانا لازمی امر ہے؟
جبکہ مفتی تقی عثمانی تو "معارف القرآن" کے مقدمے میں واضح کر چکے ہیں کہ صحابہ و تابعین نے مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل جو انہوں نے سنا یا پڑھا تھا وہی بیان کر دیا۔

اور پھر بخاری کی اس حدیث سے ، کہ ۔۔۔ روایت کرو یہودیوں سے ۔۔۔۔
یہ وضاحت بھلا کہاں ہوتی ہے کہ : غیر مذاہب کی کتب کے مطالعہ کی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بلا کھٹکے اجازت دے دی ہے؟؟

ایک بار پھر دہراؤں گا کہ :
اسرائیلی روایات کا بیان کرنا (شرعی حدود کے اندر رہ کر) ایک علیحدہ امر ہے اور
غیر مذاہب کی کتب کا مطالعہ ایک بالکل الگ واقعہ ہے !!
دونوں کو ایک دوسرے سے بہرحال مربوط نہیں کیا جا سکتا۔

غیرمذاہب کی کتب کے ایسے ہی بےدھڑک مطالعے نے اکابرین امت کو ضلالت کی جن پستیوں کی جانب دھکیلا ہے ، اس کی جانب بھی اسی دھاگے کی کسی پوسٹ میں ، مَیں اشارہ کر چکا ہوں۔

باذوق برادر،

صرف خرم صاحب پر ہی "قیاس" کا الزام کیوں؟
اگر "قیاس" ہی کی بات ہے تو پھر ابن کثیر الدمشقی صاحب پر بھی اسی "قیاس" کا الزام لگائیں۔ اور ابن تیمیہ نے بھی حدیث کی جگہ اپنے قیاس سے اسرائلیات میں یہ شرائط لگائیں ہیں۔
بلکہ ابن کثیر الدمشقی پر ہی کیوں "کعب بن الاحبار" (اور چند وہ لوگ جو کعب بن الاحبار سے اسرائلیات سنتے تھے اور پھر ان میں سے کچھ اسے آگے روایت بھی کرتے تھے) وہ بھی اسی قیاس کے حملے کی زد میں آ جائیں گے۔

اور اگر آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ خرم صاحب کے علاوہ اوپر بیان کردہ باقی لوگ قیاس سے کام نہیں لے رہے ہیں تو رسول ص کی وہ حدیث دکھا دیں جو کہہ رہی ہو کہ ڈائریکٹ بائیبل پرھنا تو گمراہی ہے مگر اسرائلیات کو فلاں فلاں فلاں شرائط کے ساتھ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور رسول ص نے یہ بھی فرمایا ہو کہ یہ صرف چند اصحاب ہیں کہ جنہیں اسرائلیات بیان کرنے کی اجازت ہے اور باقی قوم کو نہیں ہو گی۔

دیکھئیے قیاس کو میں بھی نہیں مانتی، مگر یہ مطلقا حرام بھی نہیں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لوگ بلا وجہ ہی اور حد سے زیادہ گذر کے امام ابو حنیفہ پر قیاس کے حوالے سے اعتراضات کرتے ہیں حالانکہ اُن کے اپنے لٹریچر میں بہت سی جگہ پر ایسے قیاسات مل جائیں گے۔

ؔ"عقل" اللہ کا بہت بڑا تحفہ ہے اور اسکا استعمال کہیں نہ کہیں ضرور ہو گا۔
قیاس یقینا "نص" کے مقابلے میں حرام ہے، مگر کہیں پر شریعت صرف کچھ بنیادی اصول فراہم کرتی ہے اور پھر ان بنیادی اصولوں کا اطلاق صرف قیاس کی بنیاد پر ہی عملی زندگی کے مسائل پر کیا جا سکتا ہے۔

////////////////

بہرحال بات کہیں اور نہ نکل جائے اور آپ نے "مجالد" پر "مسلسل" طبع آزمائی کی ہے جبکہ فتح الباری کی روایت کو "مسلسل" ہی نظر انداز کرتے آئے ہیں۔

تو اس لیے میرے سوالات کے جوابات دینے سے قبل گذارش کرنا چاہوں گی کہ فتح الباری اور وحید الزمان کے ترجمے والی روایت کے متعلق اپن موقف پہلے واضح فرما دیں۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔
يہ بات ظاہر کرتي ہے کہ آپ کے پاس مشکوت والي بات کا ريفرنس نہيں ۔۔
خير کوئي بات نہيں ۔۔
ٹانگ اونچي رکھنے کي مسلسل کوشش کون کر رہا ہے يہ قارئين کو بخوبي معلوم ہے ۔۔
يہ بات ظاہر کرتي ہے کہ آپ کے پاس مشکوت والي بات کا ريفرنس نہيں
بھائی! کیا آپ بھول گئے کہ میں نے مشکوٰة کی اس حدیث کی شرح "مرعاة المفاتيح" سے پیش کی تھی۔ جب میں شرح پیش کر سکتا ہوں تو کیا مشکوٰة کا ریفرینس نہیں دے سکتا؟ آخر آپ سب کو اپنے جیسا ہی کیوں سمجھتے ہیں؟ :rolleyes:
بہرحال مشکوٰة تو میرے پاس کتابی شکل میں موجود ہے۔ پھر بھی ، آپ کی محبت میں :) ، آن لائن ریسرچ کر کے میں آپ کو "مِشْكَاةُ الْمَصَابِيحِ" کا وہ ایڈیشن یہاں دے رہا ہوں جس کی تحقیق و تخریج علامہ البانی نے کی ہے۔
یہ قریب 1-MB کی زپ فائل ہے جس میں دو عدد ایم۔ایس ورڈ فائلوں کی شکل میں عربی زبان میں مکمل "مِشْكَاةُ الْمَصَابِيحِ" ہے۔

الدارمی کی متذکرہ حدیث کا ریفرینس مشکوٰة میں :
مِشْكَاةُ الْمَصَابِيحِ للخطيب التبريزي
تحقيق وتخريج : الشيخ الالباني
جلد اول (جملہ 487 صفحات)
باب الاعتصام بالكتاب والسنة
الفصل الثالث
page:38

ڈاؤن لوڈ لنک : یہاں (فائل سائز : 982KB)

اور برادر حسن نظامی ، آپ کی اور دیگر قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ :
مشکوٰة میں درج الدارمی کی اس حدیث کو عصرِ حاضر کے جلیل القدر محدث علامہ ناصرالدین البانی نے "حسن" قرار دیا یے !!
(اور یاد رہے کہ ۔۔۔۔۔۔ علامہ البانی نے سب سے پہلے حدیث کی صحت درج فرمائی ہے ، اس کے بعد حدیث تحریر کی گئی ہے۔ الدارمی کی "حسن" حدیث کے فوری بعد جو مزید دو عدد مختصر روایات درج ہیں وہ بقول البانی "موضوع" ہیں)
 

حسن نظامی

لائبریرین
اپنا تو بڑا سادہ سا اصول ہے۔ دشمن کی زبان سیکھو تو اس کے شر سے محفوظ رہو گے۔ ان کے مذہب کا مطالعہ بھی کرلو تو انھی کی جوتی انھیں کے منہ پر مار سکو گے۔
بحث کا کیا ہے یہ بحث تو ابھی پچاس صفحے مزید بڑے پیار سے چل سکتی ہے بغیر کسی نتیجے کے۔:cool:


بہت خوب دوست اور يہ حضر عمر فاروق رضي اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جو جس قوم کي زبان سيکھ ليتا ہے اس کے شر سے محفوظ رہتا ہے ۔۔۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
يہ بات ظاہر کرتي ہے کہ آپ کے پاس مشکوت والي بات کا ريفرنس نہيں
بھائی! کیا آپ بھول گئے کہ میں نے مشکوٰة کی اس حدیث کی شرح "مرعاة المفاتيح" سے پیش کی تھی۔ جب میں شرح پیش کر سکتا ہوں تو کیا مشکوٰة کا ریفرینس نہیں دے سکتا؟ آخر آپ سب کو اپنے جیسا ہی کیوں سمجھتے ہیں؟ :rolleyes:
بہرحال مشکوٰة تو میرے پاس کتابی شکل میں موجود ہے۔ پھر بھی ، آپ کی محبت میں :) ، آن لائن ریسرچ کر کے میں آپ کو "مِشْكَاةُ الْمَصَابِيحِ" کا وہ ایڈیشن یہاں دے رہا ہوں جس کی تحقیق و تخریج علامہ البانی نے کی ہے۔
یہ قریب 1-MB کی زپ فائل ہے جس میں دو عدد ایم۔ایس ورڈ فائلوں کی شکل میں عربی زبان میں مکمل "مِشْكَاةُ الْمَصَابِيحِ" ہے۔

الدارمی کی متذکرہ حدیث کا ریفرینس مشکوٰة میں :
مِشْكَاةُ الْمَصَابِيحِ للخطيب التبريزي
تحقيق وتخريج : الشيخ الالباني
جلد اول (جملہ 487 صفحات)
باب الاعتصام بالكتاب والسنة
الفصل الثالث
page:38

ڈاؤن لوڈ لنک : یہاں (فائل سائز : 982KB)

اور برادر حسن نظامی ، آپ کی اور دیگر قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ :
مشکوٰة میں درج الدارمی کی اس حدیث کو عصرِ حاضر کے جلیل القدر محدث علامہ ناصرالدین البانی نے "حسن" قرار دیا یے !!
(اور یاد رہے کہ ۔۔۔۔۔۔ علامہ البانی نے سب سے پہلے حدیث کی صحت درج فرمائی ہے ، اس کے بعد حدیث تحریر کی گئی ہے۔ الدارمی کی "حسن" حدیث کے فوری بعد جو مزید دو عدد مختصر روایات درج ہیں وہ بقول البانی "موضوع" ہیں)
شکريہ اب کم از کم مجھے يقين تو ہو گيا !!:rolleyes:
بہرحال باذوق انکل بخاري کي حديث اور فتح الباري کي شرح اور پھر مولانا وحيد الزمان اور عبدالرزاق کي شرح کے بارے ميں کيا خيال ہے ۔

ميرا خيال ہے کہ يہ بحث ختم ہوتي ہے اگر اس عبارت کو ديکھ ليا جائے ۔۔
أن المراد بالتحدث هاهنا التحدث بالقصص من الآيات العجيبة كحكاية عوج بن عنق , وتفصيل القصص المذكورة في القرآن لأن في ذلك عبرة وموعظة لأولي الألباب
کہ حدثوا سے مراد يہاں عجيب وغريب قصوں کو بيان کرنا ہے جيسا کہ عوج بن عنق کا قصہ اور ان قصوں کي تفصيل جو کہ قرآن مجيد ميں مذکور ہيں اس ليے کہ ان ميں سامان عبرت ہے اور اولي الالباب کے ليے نصيحت ہے "
وأن المراد بالنهي هناك النهي عن نقل أحكام كتبهم لأن جميع الشرائع والأديان منسوخة بشريعة نبينا صلى الله عليه وسلم انتهى
اور يہاں نہي سے مراد ان کي کتابوں کے احکام نقل کرنے سے نہي ہے کيونکہ تمام شريعتيں اور تمام اديان ہمارے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي شريعت کے ساتھ منسوخ ہيں ۔۔ ان کا کلام يہاں ختم ہوا ۔۔(يہ عبارت مصنف نے سيد جمال الدين کے حوالے سے لکھي ہے ) "(تحفت الاحوذی بشرح جامع الترمذی)
اس ميں اتنے جھگڑنے والي بات ہي نہيں ہے ۔:)
 

باذوق

محفلین
باذوق انکل ميں نے کوئي جسارت نہيں کي اورنہ ہي الزامات کے

طومار باندھے ہيں ۔ چند محدثين کے حوالے سے بات کي ہے ۔۔
اورافسوس کہ آپ بجائے اس کے کہ مجھ طالب علم کي اس تحقيق کو تحسين و آفرين کي نظر سے

ديکھتے ۔ لفاظي کے جادو سے مسلسل رگڑا لگا رہے ہيں ۔
اور مجھے اس سے قطعا کوئي نقصان نہيں‌بلکہ آپ کو ہي ہے کہ اس طرح آپ کي قلي کھل رہي ہے ۔
بجائے اس کے کہ آپ مسند دلائل کے ساتھ ميري بات کا رد کرتے بغير کسي دليل کے شروع ہيں ۔ اور

کبھي بلي اور کبھي چور کہے جا رہے ہيں ۔۔
کم از کم اپنے اور ميرے علم کا موازنہ کر کے ہي مجھے ڈيل کرنے کي کوشش کرتے ۔۔ ميں کہاں 19

سال کا طالب علم اور آپ کہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خير مجھے قطعي افسوس نہيں
حسن نظامی ! کیا واقعی آپ اتنے ہی معصوم ہیں یا بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟
اتنی دیر سے میں جو بقول آپ کے ، "رگڑا" دے رہا ہوں ، اس کا سبب آپ کی سمجھ میں نہیں آتا؟
کیا مجھے اتنا ہی کھل کر لکھنا چاہئے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو چلئے یوں ہی سہی۔
میں آپ سب کو بتاتا ہوں کہ میرے اس طرح کے مسلسل اعتراض کی کیا وجہ ہے؟

فرض کیجئے کہ میرا نام "وہاب نظامی" ہے اور معاشرے میں ، مَیں ایک شرپسند جھوٹے شخص کے طور پر مشہور ہوں۔ میں اگر ایک صاحب "فاروق" کے ساتھ فراڈ کروں اور کوئی "خرم" صاحب آپ پر چلانا شروع کریں کہ آپ جھوٹے ، شرپسند اور دھوکہ باز شخص ہیں۔ تو کیا آپ کے دوست احباب کو غصہ نہیں آئے گا جبکہ وہ تمام جانتے ہیں کہ آپ یعنی "حسن نظامی" تو ایک امن نواز ، صلح پسند اور مخلص سچے آدمی ہیں۔ اور اگر آپ کا کوئی دوست اٹھ کر "خرم صاحب" سے پوچھ لے کہ "حسن نظامی" کو متہم کرنے کی دلیل کیا ہے؟ اس کے جواب میں خرم صاحب کہیں کہ :
"نظامی" نام کے ایک شخص نے ایک صاحب "فاروق" کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور "نظامی" معاشرے میں ایک شرپسند اور جھوٹے شخص کے طور پر مشہور ہے!
بتائیے خرم صاحب کی ایسی "دلیل" کو آپ کے دوست احباب قبول کر کے "خاموش" بیٹھ جائیں گے؟؟
اگر ایسی بچکانہ دلیل کو آپ کے دوست احباب قطعاً قبول نہیں کر سکتے تو آپ سب "باذوق" سے ایسی امید کیوں رکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
الدارمی کی وہ حدیث ، جس کو معتبر محدثین نے صحیح قرار دیا ہے ، یعنی اس حدیث کے تمام راویان کی صداقت و ثقاہت پر اعتماد و اعتبار کیا ہے ، اس کے کسی راوی پر کوئی منچلا اٹھ کر الزامات کے پلندے باندھ دے تو مجھے منہ میں گھنگیاں ڈال کر خاموش بیٹھے رہ جانا چاہئے ؟ کیوں ؟؟

حسن نظامی ! میں اگر منہ کھولوں تو وہ وہ واقعات گناؤں گا کہ کس طرح "بعض" لوگوں کی "جماعت" نے حدیث کے مستند و ثقہ راویوں پر بےبنیاد جرح کرنے کا مشن باندھ رکھا ہے؟ لیکن ۔۔۔ چھوڑئیے ، کسی کے قلم کو ہم روک نہیں سکتے ، اپنی اپنی سائیٹوں پر جو لکھنا ہے ضرور لکھئے ، لیکن یہاں ۔۔۔ اردو محفل جیسے اوپن فورم پر حدیث کے معاملے میں ایسی گھٹیا حرکت ہوگی تو کسی "باذوق" کی جانب سے اس کا منہ توڑ جواب سننے کی ہمت بھی بنا رکھئے ، بس اتنی سی گذارش ہے !!

میں نے آپ پر حجت تمام کر دی ہے۔ آپ کو یا تو ثابت کرنا ہوگا کہ جس راوی "مجالد" (مجالد بن سعيد بن عمير) کی جرح آپ نے پیش فرمائی (پوسٹ نمبر:16) ہے ، الدارمی کی حدیث کی سند میں موجود "مجالد" ، یہی مجالد بن سعيد بن عمير ہیں!
ورنہ آپ کو اپنی غلطی قبول کر کے اپنی بات سے رجوع کرنا ہوگا۔
اگر پھر بھی آپ نہیں مانتے تو یہ معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں !!
 

باذوق

محفلین
صرف ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا۔ جو بھٹک گئے وہ اکابرین امت نہیں رہتے۔ اکابرین صرف وہ ہیں جو صراطِ مستقیم پر قائم رہے۔ ایک طرف تو آپ ان کے "ایک" چلن کو ممنوع اور خلافِ حدیث قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف آپ انہیں اکابرینِ امت بھی قرار دے رہے ہیں۔ بات کچھ جمتی نہیں۔
برادر ! :) میں‌ نے سوچ سمجھ کر ہی "اکابرینِ امت" کی اصطلاح‌ استعمال کی ہے۔ میں نے "اکابرینِ دین" نہیں کہا !! ;)
اس ترکیب کا سادہ اردو ترجمہ "امت کے بڑے لوگ" ہوتا ہے۔ اور "بڑے لوگ" ضروری نہیں‌ کہ "حق" پر ہی ہوں ، خطاکار بھی ہو سکتے ہیں !
جن لوگوں‌ کے نام میں‌ نے گنائے تھے ، ان کا شمار بہرحال "بڑے لوگوں" میں ہی ہوتا ہے۔ اب اگر ہم دونوں ان میں سے بعض کو "بڑے لوگ" نہیں مانتے تو یہ میرا اور آپ کا ذاتی مسئلہ ہے :grin:
 

باذوق

محفلین
اپنا تو بڑا سادہ سا اصول ہے۔ دشمن کی زبان سیکھو تو اس کے شر سے محفوظ رہو گے۔ ان کے مذہب کا مطالعہ بھی کرلو تو انھی کی جوتی انھیں کے منہ پر مار سکو گے۔
بحث کا کیا ہے یہ بحث تو ابھی پچاس صفحے مزید بڑے پیار سے چل سکتی ہے بغیر کسی نتیجے کے۔:cool:
دوست بھائی !
بےشک ، ہر آدمی اپنا اپنا "بڑا سادہ سا اصول" اپنی زندگی میں قائم رکھنے کے لیے آزاد ہے۔ :)
زبان کی بات تو بہرحال یہاں نہیں ہو رہی ، کیونکہ یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ دین اسلام میں اردو زبان یا انگریزی زبان یا کسی اور زبان کو سیکھنے بولنے سے منع کیا گیا ہو۔
البتہ "غیر مذہب کا مطالعہ" ۔۔۔۔ یہ راقم کی نظر میں کافی متنازعہ معاملہ ہے ، اس کو آپ ہم "بڑا سادہ سا اصول" کہہ کر نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اس تھریڈ میں بحث کا مرکزی خیال یہی موضوع ہے۔
اور دوست بھائی ! اگر آپ میری تحریروں یا مباحث سے واقف ہوں تو پتا ہوگا کہ میں کسی خاص "نتیجے" پر لانے کے لیے بحث نہیں چھیڑتا۔ میرا مقصد تو صرف یہ ہوتا ہے کہ اصل دین جو سلف الصالحین کی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے ، اس کو اردو یونیکوڈ میں انٹرنیٹ سرچنگ میں لے آؤں۔ یہ مباحث تو محض ضمنی حیثیت رکھتے ہیں میرے نزدیک ۔۔۔ ان کے اختتام یا ان کے نتائج سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی کبھی۔
 

باذوق

محفلین
اچھا تو دوستو !
الدارمی کی حدیث کا معاملہ تو حل ہو گیا کہ
یہ صحیح حدیث ہے اور اس کے ایک راوی پر جرح کرنے میں برادر "حسن نظامی" سے بشری خطا سرزد ہوئی ہے !

اب آئیے دوسری حدیث کی جانب۔
لیکن ذرا پہلے سسٹر مہوش علی کے اعتراضات کا جواب دے لیا جائے ۔۔۔

آپ نے لکھا :
صرف خرم صاحب پر ہی "قیاس" کا الزام کیوں؟
اگر "قیاس" ہی کی بات ہے تو پھر ابن کثیر الدمشقی صاحب پر بھی اسی "قیاس" کا الزام لگائیں۔ اور ابن تیمیہ نے بھی حدیث کی جگہ اپنے قیاس سے اسرائلیات میں یہ شرائط لگائیں ہیں۔
بلکہ ابن کثیر الدمشقی پر ہی کیوں "کعب بن الاحبار" (اور چند وہ لوگ جو کعب بن الاحبار سے اسرائلیات سنتے تھے اور پھر ان میں سے کچھ اسے آگے روایت بھی کرتے تھے) وہ بھی اسی قیاس کے حملے کی زد میں آ جائیں گے۔
محترمہ مجھے حیرت نہیں ہوئی ! کیونکہ میں آپ کے خیالات سے ایک طویل عرصے سے واقف ہوں۔
ذرا مجھے بتائیے کہ یہ "خرم" صاحب ہیں کون؟ دینِ اسلام کی تعلیمات یا اس کی تشریح میں ان صاحبِ محترم کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ آپ آخر کس بنیاد پر ان کے "ذاتی قیاس" کو "قیاسِ شرعی" قرار دینے کی کوششیں فرما رہی ہیں؟
حالانکہ خود خرم صاحب کو بھی اس بات کا اعتراف ہوگا کہ میری طرح وہ خود بھی ایک ایسی گمنام شخصیت ہیں جس کو کسی صورت امام ابن تیمیہ (رح) یا امام ابن کثیر (رح) کی علمیت کے مقابلے میں نہیں لایا جا سکتا !

ہم بھلا کیوں حق پرست ائمہ دین پر "ذاتی قیاس" کا الزام لگائیں؟ کیا ہم نے ان کے وہ پورے مباحث مکمل طور سے پڑھے ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے اسرائیلی روایات کے بیان میں "شرائط" کی قید لگائی ہے؟
حافظ ابن کثیر (رحمة اللہ) تو کہتے ہیں :
وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ۔ ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔
یہاں ابن کثیر نے "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے" کہہ کر واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ ایک "حدیث" کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کس حدیث کی جانب اشارہ کر رہے ہیں؟
ابن کثیر کے پاس تو یہ حدیث ، دلیل ہے کہ : وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں ، ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔
بتائیے اس میں ابن کثیر کا "ذاتی قیاس" کہاں سے آ گیا؟
اور جن اسرائیلی روایات کی تصدیق قرآن و سنت سے ثابت ہے ، اس کے بیان کا فائدہ بھی کیا ہے؟ شرعی لحاظ سے یہ حجت تو ہیں نہیں۔ حجت تو قرآن و سنت ہیں۔
باقی رہ گئے وہ واقعات ، جو سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم ہیں ، ان کو تو ہر مسلمان قابلِ ردّ سمجھتا ہی ہے۔
اب مجھے ذرا بتائیے کہ ان شرائط کا بیان ، کسی کے "ذاتی قیاس" کا نتیجہ ہے یا یہ درحقیقت امت کا "اجماعی شرعی قیاس" ہے؟؟

اور اگر آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ خرم صاحب کے علاوہ اوپر بیان کردہ باقی لوگ قیاس سے کام نہیں لے رہے ہیں تو رسول ص کی وہ حدیث دکھا دیں جو کہہ رہی ہو کہ ڈائریکٹ بائیبل پرھنا تو گمراہی ہے مگر اسرائلیات کو فلاں فلاں فلاں شرائط کے ساتھ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور رسول ص نے یہ بھی فرمایا ہو کہ یہ صرف چند اصحاب ہیں کہ جنہیں اسرائلیات بیان کرنے کی اجازت ہے اور باقی قوم کو نہیں ہو گی۔
ایسی ہی باتوں کا جواب ، ایک فورم پر ہمارے ایک حنفی بھائی نے بہترین طریقے سے دیا تھا۔
وتر کی رکعات کے مسئلے پر ایک اہلحدیث برادر کی حنفی بھائی سے ایک فورم پر بحث ہوئی اور اہلحدیث نے حنفی سے مطالبہ کیا کہ :
کوئی ایک صحیح حدیث ایسی پیش فرمائیں جس میں دوسری رکعت میں بیٹھنے کا ذکر ہو اور ایک سلام سے پڑھنے کا بھی ذکر ہو۔
جو جواب حنفی مقلد بھائی نے دیا وہ اتنا عمدہ تھا کہ اُس وسیع الذہن اہلحدیث بھائی کو اپنے اُس بےجا مطالبے پر معافی مانگنی پڑی۔
محترمہ مہوش علی ! اسی متذکرہ قول پر آپ بھی کچھ غور کیجئے ، شائد ایسے ہی نفسانی مطالبوں سے آپ بھی مستقبل میں گریز اختیار فرمائیں۔

بحوالہ: حافظ عبد القدوس ، اردوپیجز ڈاٹ کام کے اسلام سیکشن کے ایک تھریڈ کی تحریر سے اقتباس۔
یہ قدغن لگانا کہ :
تب تسلیم ہوگا کہ جب ہمارے مقصد و مدعا کے مطابق دلیل لائی جائے گی۔
تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ دین میں دلائل کبھی خواہشات کے مطابق نہیں ملتے۔ معجزات اور دلائل و براہین انسانیت کی مرضی کے نہیں ہو سکتے۔ سوائے ناقہء ، حضرت صالح (علیہ السلام) یا چند ایک واقعے کے ، کبھی بھی اللہ نے خواہشات پر معجزے نہیں دکھائے۔
اگر خواہشات اور مطالبات پر دلائل و معجزات دکھائے جاتے تو پھر ہر ایک کا الگ الگ مطالبہ پورا کرنا پڑتا۔ اور نبی (ص) ایک کے بعد دوسرے کا مطالبہ پورا کرنے میں لگے رہتے۔
ایک اور تناظر میں اگر اس مطالبے کو دیکھا جائے تو یوں نظر آتا ہے گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ (نعوذ باللہ) قرآن و احادیث کو میری خواہشات اور مرضی کے الفاظ کے مطابق ڈھلا ہوا پایا تو مانوں گا ورنہ نہیں۔
اگر میں یہ مطالبہ کروں کہ آپ صرف ایک ایسی حدیث پیش کریں جو صحیح صریح اور غیر مرفوع ہو جس میں 1 ، 3 ، 5 ، 7 ، 9 ، 11 وتر پڑھنے کا ذکر ہو ، ساتھ ہی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھنے کی ممانعت کا ذکر ہو ۔۔۔ ظاہر ہے ایسے مطالبے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

دیکھئیے قیاس کو میں بھی نہیں مانتی، مگر یہ مطلقا حرام بھی نہیں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لوگ بلا وجہ ہی اور حد سے زیادہ گذر کے امام ابو حنیفہ پر قیاس کے حوالے سے اعتراضات کرتے ہیں حالانکہ اُن کے اپنے لٹریچر میں بہت سی جگہ پر ایسے قیاسات مل جائیں گے۔
میں نے کبھی مطلق قیاس کو حرام نہیں کہا۔ دین تو ادلہ اربعہ میں ہے یعنی قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاسِ شرعی۔
امامِ محترم کے "قیاس" پر تو دو تہائی مسائل میں خود ان کے قریبی شاگردان امام محمد اور امام ابویوسف نے اعتراض کیا ہے۔ ویسے بھی یہ ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے لہذا اس سے گریز ہی کریں تو بہتر۔
مخفی مباد کہ ۔۔۔ آپ یہاں بالکل غیرضروری طور پر امام ابوحنیفہ (رحمة اللہ علیہ) کا ذکر کر رہی ہیں ، ورنہ میں بھی چاہوں تو جوابی الزامی طور پر آپ ہی کی طرف کی ان سائیٹس کے ڈاؤن لوڈ سیکشن کی طرف اشارہ کر سکتا ہوں جہاں موجود ایک کتاب میں اسی "قیاس" کے بہانے (جس کا رونا آپ رو رہی ہیں) امام ابوحنیفہ (رحمۃ اللہ) کو بےاندازہ گالیاں دی گئی ہیں !
"عقل" اللہ کا بہت بڑا تحفہ ہے اور اسکا استعمال کہیں نہ کہیں ضرور ہو گا۔
قیاس یقینا "نص" کے مقابلے میں حرام ہے، مگر کہیں پر شریعت صرف کچھ بنیادی اصول فراہم کرتی ہے اور پھر ان بنیادی اصولوں کا اطلاق صرف قیاس کی بنیاد پر ہی عملی زندگی کے مسائل پر کیا جا سکتا ہے۔
بےشک ، عقلِ انسانی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ ہے۔ لیکن اس کو شریعت کے تابع کیا گیا ہے ، بےراہ رو آزاد چھوڑا نہیں گیا ہے۔ غلطی تو ان "اکابرینِ امت" سے ہوئی ہے جنہوں نے ہر بات کو اپنی "عقل" سے سمجھنے اور جانچنے کی کوشش فرمائی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
باذوق برادر،

میری آپ سے پہلی درخواست یہ تھی کہ فتح الباری والی روایت "مسلسل" نظر انداز ہو رہی ہے۔ لہذا مہربانی فرما کر میرے پوسٹ سے قبل اس پر تبصرہ فرمائیں۔

بہرحال، آپ نے میری درخواست کو قابل غور نہ سمجھا۔ چلیں آگے آتے ہیں اور اسرائیلیات اور توریت کے متعلق قیاس پر آپکی تنقید دیکھتے ہیں۔

آپکا دعویٰ ہے کہ:

1۔ خرم صاحب جب توریت کا ذکر کریں تو یہ "حرام قیاس" ہے۔
2۔ مگر جب ابن کثیر "اسرائیلیات" کا ذکر کریں تو یہ "شرعی قیاس" ہے۔
اسی طرح کعب بن الاحبار کو پوری اجازت تھی کہ وہ اسرائیلیات بیان کریں۔
اور دیگر حضرات کو پوری اجازت تھی کہ وہ ان اسرائیلیات کو سنیں، اور پھر اس کو آگے بھی بیان کریں۔
اور آپکے نزدیک ابن کثیر نے یہ بات رسول کے کسی فرمان سے (جس کی مکمل تفصیل اور مکمل حوالہ آپکے پاس موجود ہے اور نہ ابن کثیر نے دیا ہے) بیان کی ہے۔ (یعنی آپ ابن کثیر کا بیان بغیر کسی دلیل کے قبول کر رہے ہیں جبکہ جب امام ابو حنیفہ کے کسی فتوے کی بات آتی ہے تو آپ فورا صحیح حدیث کی شرط عائد کرتے ہیں)
[چنانچہ میرا اعتراض برقرار ہے کہ آپ یا ابن تیمیہ یا ابن کثیر حضرات رسول ص کی وہ صحیح حدیث دکھا دیں کہ جس میں رسول ص نے کعب بن الاحبار یا کسی کو بھی اسرائیلیات بیان کرنے کی اجازت دی ہو۔ اگر ایسی اجازت آپ نہ دکھا سکیں تو اصولی طور پر دارمی والی اس حدیث کو آپکو سب سے پہلے ابن تیمیہ اور ابن کثیر اور کعب بن الاحبار پر لاگو کرنا چاہیے۔ اور اگر آپ دارمی والی حدیث کو صحیح اور غیر منسوخ شدہ تسلیم کر رہے ہیں تو پھر اسکے مقابلے میں ابن کثیر کا بیان (یا پھر آپکے الفاظ میں "شرعی قیاس") کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔]

دیکھئیے "عقل" اور "علم" دو چیزیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خرم صاحب، آپ اور میں علم میں کم ہوں، مگر عقل کے ناخن ہم سب میں موجود ہے۔

یہ بتائیے کہ کعب بن الاحبار (یا اُس وقت کے وہ تمام حضرات جنہوں نے اسرائیلیات بیان کی ہیں اور جن لوگوں نے بغیر حجت کیے سنی ہیں) انہیں کیا یہ اسرائیلیات "بذریعہ وحی" نازل ہوئیں تھیں یا پھر انہوں نے بھی توریت اور انجیل اور دیگر اہل کتاب کی کتب سے بیان کی ہیں؟ تو جب یہ اسرائیلیات اور توریت ایک ہی چیز ہیں تو پھر آپ کو خرم صاحب پر قیاس کا فتوی کیوں دے رہے ہیں؟

ابن کثیر کا بغیر حوالے والا بیان دونوں اسرائیلیات اور توریت کے لیے ہے

اور غور سے دیکھئیے کہ آپ نے بذاتِ خود ابن کثیر کا جو بغیر حوالے والا بیان (یا آپکے الفاظ میں حدیث) بیان کی ہے وہ دونوں اسرائلیات اور توریت کے لیے ہے۔


حافظ ابن کثیر (رحمة اللہ) تو کہتے ہیں :
وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ۔ ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔



باقی آپ مجھے الزام دے رہے ہیں کہ ڈاؤنلوڈ سیکشن میں امام ابو حنیفہ پر اعتراض موجود ہے۔ تو برادر، کیا یہ اعتراض میں نے کیا ہے؟ جب میں نے امام ابو حنیفہ کے متعلق اپنا نظریہ بیان کر دیا کہ میں اِن پر ہونے والے قیاس کے متعلق اعتراضات سے متفق نہیں ہوں تو آپ کسی دوسرے کی تحریر میرے اوپر منڈھنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔ یہ ایسا ہے جیسا ابن تیمیہ سماعت موتی کے قائل ہوں اور میں یہ بات آپ پر منڈھ دوں۔ تو اگر آپ اس مسئلے میں ابن تیمیہ سے اختلاف کر سکتے ہیں تو مجھے یہ حق کیوں نہیں دیتے کہ میں کسی دوسرے کی تحریر سے اختلاف کر سکوں؟ کیا یہ چیز دوغلے رویے میں نہیں آ جائے گی؟
باقی اللہ اور اسکا رسول ص ہمارے اعمال پر بہترین گواہ ہیں۔
والسلام۔
 

باذوق

محفلین
باذوق برادر،

میری آپ سے پہلی درخواست یہ تھی کہ فتح الباری والی روایت "مسلسل" نظر انداز ہو رہی ہے۔ لہذا مہربانی فرما کر میرے پوسٹ سے قبل اس پر تبصرہ فرمائیں۔
دیکھئے ! اور ذرا غور سے ملاحظہ کیجئے کہ میں ایک اکیلا یہاں سب کی پوسٹ سے ہر اس بات کا جواب دئے جا رہا ہوں جو جواب کے قابل ہوں۔ میں کسی بات کو "مسلسل" نظرانداز نہیں‌ کر رہا ہوں۔ بلکہ سچ پوچھئے تو آپ کی مذکورہ بالا بات کا جواب میں بہت پہلے اسی تھریڈ کی کسی پوسٹ‌میں‌دے چکا ہوں۔ اور میرا گمان ہے کہ یہاں بعض دیگر مختلف باتوں‌ کو خلط مبحث‌ کیا جا رہا ہے (جیسا کہ آپ کی اسی آخری پوسٹ سے بھی ظاہر ہے)
بہرحال اطمینان رکھئے ، میں‌ کہیں بھاگا نہیں جا رہا۔ میں پچھلی تمام پوسٹس چیک کر رہا ہوں تاکہ وہ حوالے دے سکوں‌ جس میں‌ میرا جواب ہے۔
ویسے مجھے یقین ہے ۔۔۔۔ :)
ابھی مجھے نبیل اراکین کے اس زمرے میں تو نہیں‌ ڈالیں‌ گے ، جس میں‌ موجود اراکین جب کبھی محفل پر جواب دینے جائیں‌ تو "سرور بزی" کا ایرر آتا ہے !! ;):eek::grin:
 

خرم

محفلین
حالانکہ خود خرم صاحب کو بھی اس بات کا اعتراف ہوگا کہ میری طرح وہ خود بھی ایک ایسی گمنام شخصیت ہیں جس کو کسی صورت امام ابن تیمیہ (رح) یا امام ابن کثیر (رح) کی علمیت کے مقابلے میں نہیں لایا جا سکتا !
بجا ارشاد باذوق بھائی۔ لیکن اگر ابن تیمیہ یا امام ابن کثیر کا صاحب علم ہونا اس بات کا متقاضی تو نہیں کہ ان کا علم مکمل تھا۔ اور نہ ہی میں یا کوئی اور اس بات کے پابند ہیں کہ ان کی ہی پیروی کریں۔
ہم بھلا کیوں حق پرست ائمہ دین پر "ذاتی قیاس" کا الزام لگائیں؟ کیا ہم نے ان کے وہ پورے مباحث مکمل طور سے پڑھے ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے اسرائیلی روایات کے بیان میں "شرائط" کی قید لگائی ہے؟
دیکھیں بھائی اگر کچھ علماء نے شرائط کی قید لگائی ہے اور کچھ نے نہیں تو آپ کو جن عالم پر اعتبار ہے ان کی پیروی کر لیجئے۔ میں یہ نہیں مان سکتا کہ اتنے بڑے اولیاء اللہ جن کی بدولت اسلام کی اشاعت و تبلیغ ہوئی وہ دین کے اصول و شرائط ہی سے بے گانہ تھے۔ اور اسرائیلیات کے حوالہ جات تو آج بھی دئے جاتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ لازم ہو جاتا ہے۔ ابھی آپ نے بھائی حسن نظامی کو کہا کہ وہ اپنی بات کا ثبوت مہیا کریں۔ یعنی کہ بات کرنے والا ہی اپنی بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ اب اگر آپ کسی یہودی یا عیسائی کو کہتے ہیں کہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آؤ کہ وہ ہی وہ نبی موعود ہیں جن کا ذکر توریت و انجیل میں مذکور ہے تو وہ آپ سے یقیناً پوچھے گا کہ توریت یا انجیل کا حوالہ لاؤ۔ واضح رہے کہ اس کا یہ سوال ایک ہٹ نہیں بلکہ اصولی بات ہوگی۔ اب کیا آپ اسے یہ کہہ دیں گے کہ میں تو انجیل نہیں پڑھ سکتا تم خود ڈھونڈ لو؟ پھر اگر ان کتب کا مطالعہ مطلقاً ممنوع ہے تو علماء نے فارقلیط کے لفظ پر اتنی تحقیق اور جرح کیوں کی ہے علمائے نصارٰی سے؟
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپکے نزدیک ابن کثیر نے یہ بات رسول کے کسی فرمان سے (جس کی مکمل تفصیل اور مکمل حوالہ آپکے پاس موجود ہے اور نہ ابن کثیر نے دیا ہے) بیان کی ہے۔ (یعنی آپ ابن کثیر کا بیان بغیر کسی دلیل کے قبول کر رہے ہیں جبکہ جب امام ابو حنیفہ کے کسی فتوے کی بات آتی ہے تو آپ فورا صحیح حدیث کی شرط عائد کرتے ہیں)
بہت شکریہ !! :)
لوگوں کی ایسی ہی باتوں سے مجھے اپنی حدیث کی سائیٹ پر احادیث شامل کرتے رہنے کی ترغیب ملتی جاتی ہے۔
ویسے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے ہر معاملے میں تحقیق کی دھن سر پر سوار کر لینے والے آخر دین کے معاملے میں خود کیوں تھوڑی سی آن لائن ریسرچ نہیں کر لیتے ؟ حالانکہ میں دو جگہ مقدمہ تفسیر ابن کثیر کے حوالے سے لکھ چکا تھا کہ :
ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔
ابن کثیر کا درج بالا قول ان کی تفسیر کے مقدمے میں درج ہے۔ کیا تفسیر ابن کثیر عربی میں آن لائن دستیاب نہیں ہے؟ بےشک ہے۔ اس کے "مقدمة" میں ذرا آپ لفظ "الاسرائيليات" چیک کریں تو آپ کو یہی پیراگراف ملے گا جہاں ابن کثیر رسول کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کا قول نقل فرماتے ہیں اور حاشیے میں اس قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تخریج درج ہے ، یعنی :
صحيح بخاري ، كتاب التفسير ، باب : {‏قولوا آمنا بالله وما انزل الينا‏}‏ ، حدیث : 4526
 

باذوق

محفلین
آپکا دعویٰ ہے کہ:
1۔ خرم صاحب جب توریت کا ذکر کریں تو یہ "حرام قیاس" ہے۔
براہ مہربانی ، الزام نہ لگائیں :(
آپ پورا تھریڈ دیکھ لیں ، نہ میں‌ نے ایسا کوئی دعویٰ دائر کیا ہے اور نہ ہی "حرام قیاس" جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
کیا آپ تفصیل سے تھریڈ پڑھے بغیر محض سامنے والے کو زچ کرنے کے لیے یہاں بلائی گئی ہیں ؟؟ :eek:
چنانچہ میرا اعتراض برقرار ہے کہ آپ یا ابن تیمیہ یا ابن کثیر حضرات رسول ص کی وہ صحیح حدیث دکھا دیں کہ جس میں رسول ص نے کعب بن الاحبار یا کسی کو بھی اسرائیلیات بیان کرنے کی اجازت دی ہو۔
وہ تو بخاری کی بہت ہی مشہور حدیث ہے ، میرے علم کے مطابق آپ کو یقیناَ اتنا کم علم نہ ہونا چاہئے!!
اور دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ آپ کا یہ اعتراض بھی ظاہر کرتا ہے کہ ۔۔۔ آپ نے اس تھریڈ کو تفصیل سے پڑھا ہی نہیں۔ ورنہ اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں‌ہی وہ حدیث میں‌نے درج کی تھی :
۔۔۔۔۔۔۔
شائد ایک حدیث صاحبانِ علم یہ پیش فرما دیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے ‫: پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک آیت ہی ہو اور روایت کرو یہودیوں سے اس میں کوئی حرج نہیں اور جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
صحيح بخاري ، كتاب احاديث الانبياء ، باب : ما ذكر عن بني اسرائيل ، حدیث : 3499
 
Top