مذاہب کا تقابلی مطالعہ

حسن نظامی

لائبریرین
کیونکہ ۔۔۔ جب قرآن ہی میں کوئی ذکر نہ ہو تب ؟؟ تب کون سی کسوٹی استعمال میں لائی جائے گی

اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ دو صحیح احادیث ، واضح طور پر نصِ قرآنی سے متعارض ہیں ! کیا ان صحیح احادیث کو ریجکٹ کر دیا جائے گا ؟ حالانکہ امتِ مسلمہ کا صدیوں سے ان احادیث پر اجماع و عملِ متواتر ہے۔
حوالے کے لیے : نکتہ نمبر (4) اور (5) ، یہاں (پوسٹ نمبر 76) ملاحظہ فرمائیں۔

باذوق انکل کون سي ايسي بات ہے جو قرآن ميں موجود نہيں آپ تو نص قطعي کے منکر ہو رہے ہيں
اللہ تعالي فرماتے ہيں
لا رطب و لايابس الا في کتاب مبين

اور دوسري بات کے جواب ميں صرف ايک عبارت

وحکم الخاص من الکتاب وجوب العمل بہ لا محالت فان قابلہ خبرالواحد والقياس فان امکن الجمع بينہما بدون تغيير في حکم الخاص يعمل بھما والا يعمل بالکتاب و يترک ما يقابلہ

ترجمہ خود ہي کر ليجيے گا يہ اصول الشاشي کي عبارت ہے ۔۔

اور اب خدارا مناظرے سے پرہيز کريں
ميري آپ سے يہي بنتي ہے
 

فرید احمد

محفلین
اول تو با ذوق کو اصول الشاشی کا معیار ابول نہ ہوگا ۔
دوسرا یہ کہ حدیث صحیح کو نص قرآنی کا مقابل کہنا درست نہیں ، یہ ایک منطق ہے کہ پہلے الفاظ حدیث کا ایسا مطلب بیان کرو جو قران کے مخالف ہو ، پھر دوسرا مطلب بیان کرو ۔
اگر احادیث پر اجماع و عمل ہے تو آیت متروک ہے ؟
وہاں آپ نے یہ مثال پیش فرمائی ہے :
4۔ قرآن کہتا ہے : جب تم سفر پر جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کچھ کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر تم کو ایذا دیں گے۔ (انساء : 101)
یعنی قرآن میں “نمازِ قصر“ ایسے سفر کے ساتھ مشروط ہے جس میں کافروں کی ایذا کا خوف بھی ہو۔
اب صرف ایک مثال سعودی عرب سے۔ یہ تو ساری دنیا مانتی ہے کہ یہاں ملک کے مختلف علاقوں سے عمرہ یا حج کی غرض سے مکہ کی طرف سفر کرنے والوں کو “کافروں کی ایذا“ کا کوئی خوف نہیں۔ پھر بھی ہر کوئی اس سفر کے دوران “نمازِ قصر“ اس لیے ادا کرتا ہے کہ حالتِ امن میں بھی “نمازِ قصر“ کی چھوٹ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

یعلی بن امیہ نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اللہ تو فرماتا ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر قصر کرو تم نماز میں اگر تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ ستائیں گے۔ اور اب تو لوگ امن میں ہو گئے ( یعنی اب قصر کیا ضروری ہے ؟ )
تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا تھا جیسے تم کو تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اللہ نے تم کو صدقہ دیا تو اس کا صدقہ قبول کرو (یعنی بغیر خوف کے بھی ، سفر میں قصر کرو)۔
صحیح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها ، باب : صلاة المسافرين وقصرها ، حدیث : 1605

ذرا بتائیے کہ اس صحیح حدیث کو قرآن سے کیسا پرکھا جائے گا؟ جبکہ یہ حدیث تو اعلانیہ قرآن کی “شرط“ کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔
فقط اتنا عرض ہے کہ آیت کریمہ قصر فی الخوف کے بارے میں ہے ، مطلقا سفر میں قصر کی اجازت اس سے پہلے آچکی تھی ۔
چونکہ بعد میں آیت میں "شرط" دیکھی گئی تو صحابی رض نے اپنا شبہ دور کرنا چاہا تو جواب وہی دیا گیا جو اصل قصر کا ہے ۔ شاید تحقیق سے یہ بات واضح ہو جائے ۔
خیر اس پر بحث کا ارادہ نہیں ۔ جو آپ کی تحقیق ہو ۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔ بھئي بحث موضوع سے ہٹ رہي ہے اور ابھي تک متعلقہ شعبہ سے تحقيق ہو کر نہيں آئي ۔۔ :mad:
ابھی تک تو تفصیل نہیں ملی ، لیکن ۔۔۔
آپ نے راوی "مجالد" پر جو جرح نقل کی ہے ، بےشک وہ جرح انہی "مجالد" کے متعلق ہے جن کا نام "مجالد بن سعيد بن عمير" ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ : آپ کو کیسے معلوم کہ الدارمی کی اس حدیث کی سند میں جس راوی "مجالد" کا ذکر ہے وہ "مجالد بن سعيد بن عمير" ہی ہے؟ کیونکہ جرح و تعدیل کی کتب میں یہ نام بھی ملتے ہیں :
مجالد بن یزید ، مجالد بن اسماعیل ، مجالد بن مسعود ، مجالد بن عوف الحضرمي ، مجالد بن ابى راشد ، مجالد ابو عبد العزيز ، مجالد بن نعيم وغیرہ
اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔
مشکوٰة المصابیح میں یہی حدیث ، الدارمی کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔ اور مشکوٰة کی شرح "مرعاة المفاتيح" (علامہ محمد عبدالسلام مباركپوری) میں اس حدیث کی تشریح کے عین بعد لکھا ہے :

ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، اسی باب میں ابن عباس سے بھی مسند احمد میں درج ہے، اور عبدالله بن ثابت الانصاری کی روایت سے مسند احمد اور ابن سعد میں ، طبرانی کبیر میں ابي الدرداء کی روایت سے ، عبدالله بن الحارث کی روایت سے بیھقی کی شعب الایمان میں۔

"مرعاة المفاتيح" ذرا خود چیک کر کے ہمیں بھی کنفرم کیجئے گا ، مہربانی ہوگی۔
اور ہاں جب بھی متعلقہ ادارے سے مکمل تفصیل ملے گی ، یہاں ضرور لگاؤں گا ، بےفکر رہئے گا !
 

باذوق

محفلین
باذوق انکل کون سي ايسي بات ہے جو قرآن ميں موجود نہيں آپ تو نص قطعي کے منکر ہو رہے ہيں
حضرت علامہ !
کبھی تو آپ چلاتے ہیں‌کہ تھریڈ بند ہو جانا چاہئے اور کبھی چن چن کر غیر ضروری مکالمے اچھالتے ہیں ! خود ہی سوچ لیں کہ مناظرہ بازی کون کر رہا ہے؟ :confused:
یہ تو امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ قرآن اجمالی معنوں مکمل ہے ، تفصیلی معنوں میں‌ نہیں ۔ اسی لیے تو قرآن میں‌ اطاعت و اتباعِ رسول پر زور دیا گیا ہے اور اسی لیے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مثلہ معہ والی حدیث ارشاد فرمائی ہے !!
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔
دوسرا یہ کہ حدیث صحیح کو نص قرآنی کا مقابل کہنا درست نہیں ، یہ ایک منطق ہے کہ پہلے الفاظ حدیث کا ایسا مطلب بیان کرو جو قران کے مخالف ہو ، پھر دوسرا مطلب بیان کرو ۔
اگر احادیث پر اجماع و عمل ہے تو آیت متروک ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقط اتنا عرض ہے کہ آیت کریمہ قصر فی الخوف کے بارے میں ہے ، مطلقا سفر میں قصر کی اجازت اس سے پہلے آچکی تھی ۔
چونکہ بعد میں آیت میں "شرط" دیکھی گئی تو صحابی رض نے اپنا شبہ دور کرنا چاہا تو جواب وہی دیا گیا جو اصل قصر کا ہے ۔ شاید تحقیق سے یہ بات واضح ہو جائے ۔
خیر اس پر بحث کا ارادہ نہیں ۔ جو آپ کی تحقیق ہو ۔
فرید احمد صاحب ! آپ بھی جانتے ہیں‌کہ صحیح حدیث‌ اور قرآن میں کوئی تعارض نہیں‌ہے۔ (بظاہر کسی کو اپنے فہم سے نظر آتا ہو ۔ اور ایسا تعارض تو خود مختلف قرآنی آیات میں‌ بھی بتایا جا سکتا ہے)۔
تشریح ‌و تطبیق کے اصول عوام نہیں‌ جانتے ، اسی وجہ سے انہیں‌ دھوکہ ہوتا ہے۔
ویسے بھی جو مثال صلوٰۃ قصر کی دی گئی ، وہ منکرینِ حدیث کے ردّ میں‌ لکھے گئے ایک مضمون سے Quote کی گئی تھی۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
ابھی تک تو تفصیل نہیں ملی ، لیکن ۔۔۔
آپ نے راوی "مجالد" پر جو جرح نقل کی ہے ، بےشک وہ جرح انہی "مجالد" کے متعلق ہے جن کا نام "مجالد بن سعيد بن عمير" ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ : آپ کو کیسے معلوم کہ الدارمی کی اس حدیث کی سند میں جس راوی "مجالد" کا ذکر ہے وہ "مجالد بن سعيد بن عمير" ہی ہے؟ کیونکہ جرح و تعدیل کی کتب میں یہ نام بھی ملتے ہیں :

يہي سوال ميں آپ سے کرتا ہوں انکل کہ آپ کو کيسے معلوم کہ وہ راوي مجالد بن سعيد بن عمير نہيں ہے
 

حسن نظامی

لائبریرین
اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔
مشکوٰة المصابیح میں یہی حدیث ، الدارمی کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔ اور مشکوٰة کی شرح "مرعاة المفاتيح" (علامہ محمد عبدالسلام مباركپوری) میں اس حدیث کی تشریح کے عین بعد لکھا ہے :

ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، اسی باب میں ابن عباس سے بھی مسند احمد میں درج ہے، اور عبدالله بن ثابت الانصاری کی روایت سے مسند احمد اور ابن سعد میں ، طبرانی کبیر میں ابي الدرداء کی روایت سے ، عبدالله بن الحارث کی روایت سے بیھقی کی شعب الایمان میں۔

"مرعاة المفاتيح" ذرا خود چیک کر کے ہمیں بھی کنفرم کیجئے گا ، مہربانی ہوگی۔
اور ہاں جب بھی متعلقہ ادارے سے مکمل تفصیل ملے گی ، یہاں ضرور لگاؤں گا ، بےفکر رہئے گا !

ميں نے کبھي بھي يہ نہيں کہا کہ يہ حديث غلط ہے ۔۔ ہاں اس ميں مذکورہ ضعف کي طرف ميں نے اشارہ کيا تھا ۔۔

اور محترمي انکل

ميں نے فتح الباري کے حوالے سے جو بات لکھي ہے اس کے بعد کسي بحث کي کوئي گنجائش ہي نہيں رہتي

اور ہاں متعلقہ ادارے سے تفصيل آنے کا ميں بھي منتظر ہوں
:)
 

حسن نظامی

لائبریرین
حضرت علامہ !
کبھی تو آپ چلاتے ہیں‌کہ تھریڈ بند ہو جانا چاہئے اور کبھی چن چن کر غیر ضروری مکالمے اچھالتے ہیں ! خود ہی سوچ لیں کہ مناظرہ بازی کون کر رہا ہے؟ :confused:
یہ تو امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ قرآن اجمالی معنوں مکمل ہے ، تفصیلی معنوں میں‌ نہیں ۔ اسی لیے تو قرآن میں‌ اطاعت و اتباعِ رسول پر زور دیا گیا ہے اور اسی لیے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مثلہ معہ والی حدیث ارشاد فرمائی ہے !!

چليں اجمالي معنوں سہي مکمل تو ہے ہي نا اور ميں نے تو يہي کہا تھا :rolleyes: اجمالي يا تفصيلي کي تو ميں نے بات ہي نہيں‌کي
خير

انکل ميں‌ آپ کے سامنے طفل مکتب ہوں مجھ پر اتنا غصہ نہ کيا کريں ميں نے بطور طالبعلم آپ کي ايک بات سے اختلاف کيا تھا اور اس کا مجھے حق حاصل ہے

آپ خواہ مخواہ ہي ميري درگت بنانے پر تل گئے ہيں ۔۔ :cool:
 

باذوق

محفلین
يہي سوال ميں آپ سے کرتا ہوں انکل کہ آپ کو کيسے معلوم کہ وہ راوي مجالد بن سعيد بن عمير نہيں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ميں نے کبھي بھي يہ نہيں کہا کہ يہ حديث غلط ہے ۔۔ ہاں اس ميں مذکورہ ضعف کي طرف ميں نے اشارہ کيا تھا ۔۔
ميں نے فتح الباري کے حوالے سے جو بات لکھي ہے اس کے بعد کسي بحث کي کوئي گنجائش ہي نہيں رہتي
دیکھئے بھائی ، ایسے کھیل علمی مباحث میں‌ نہ کھیلئے گا ، مہربانی ہوگی۔

سب سے پہلے الدارمی کی حدیث کی شرح‌ آپ نے پیش کی تھی اور جرح و تعدیل کی کتب میں‌ درج ایک راوی (مجالد بن سعيد بن عمير) کی "خصوصیات" آپ نے اس حدیث کے راوی "مجالد" پر منطبق کر دیں۔ لہذا یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اس بات کو ثابت کریں :
الدارمی کی حدیث کی سند میں‌ موجود راوی "مجالد" اصل میں "مجالد بن سعيد بن عمير" ہیں !
میں الدارمی کے راوی "مجالد" کے سلسلے میں‌ فی الوقت بالکل لاعلم ہوں‌ لہذا اس راوی کے اصل نام پر میرا قطعاَ کوئی تبصرہ نہ تھا اور نہ ہے !!

ميں نے کبھي بھي يہ نہيں کہا کہ يہ حديث غلط ہے ۔۔
اور میں‌ نے بھی آپ پر ایسا کوئی الزام نہیں‌ لگایا کہ آپ نے دارمی کی اس حدیث‌ کو غلط کہا ہے ۔۔۔ :)

ہاں اس ميں مذکورہ ضعف کي طرف ميں نے اشارہ کيا تھا ۔۔
نہیں !!
یہاں‌ آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں‌ ۔۔۔ :)
آپ نے حدیث‌ میں‌ مذکور ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ اس کی سند میں‌ موجود ایک راوی (کے اصل نام کو جانے بغیر) پر جرح‌ کر ڈالی ہے !!
البتہ اگر آپ فتح‌الباری کے حوالے سے دارمی کی اس حدیث‌ کے متن کو مضطرب ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ۔۔۔
تو یہ بھی آپ کا فرض ہے کہ درج ذیل تفصیلات مہیا فرمائیں :
  1. دارمی کی حدیث اور بخاری کی متذکرہ حدیث پر ناسخ و منسوخ کا اصول اگر کسی ایک محدث نے باقاعدہ انہی دو احادیث کے حوالے سے پیش کیا ہے تو وہ جرح بحوالہ پیش فرمائیں
  2. کن کن محدثین نے دارمی کی حدیث کے متن کو مضطرب قرار دیا ہے ، مکمل حوالے پیش فرمائیں

برادرِ محترم ! علمِ حدیث کوئی کھیل نہیں ہے کہ ہم مکتبہ شاملہ یا الفیہ کی چند سی۔ڈیز سے سرچ کر کے فیصلے گھڑتے چلے جائیں۔ کسی بھی فن میں ، اس فن کے ماہر یا ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ جب تک آپ محدثین کی اصولی تحقیقات کو پیش نہیں فرماتے ، آپ کی ایسی عقلی تُک بندیاں ، ہم قبول کرنے سے معذور ہیں۔
معذرت !!
:mad:
 

حسن نظامی

لائبریرین
دیکھئے بھائی ، ایسے کھیل علمی مباحث میں‌ نہ کھیلئے گا ، مہربانی ہوگی۔

سب سے پہلے الدارمی کی حدیث کی شرح‌ آپ نے پیش کی تھی اور جرح و تعدیل کی کتب میں‌ درج ایک راوی (مجالد بن سعيد بن عمير) کی "خصوصیات" آپ نے اس حدیث کے راوی "مجالد" پر منطبق کر دیں۔ لہذا یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اس بات کو ثابت کریں :
الدارمی کی حدیث کی سند میں‌ موجود راوی "مجالد" اصل میں "مجالد بن سعيد بن عمير" ہیں !
میں الدارمی کے راوی "مجالد" کے سلسلے میں‌ فی الوقت بالکل لاعلم ہوں‌ لہذا اس راوی کے اصل نام پر میرا قطعاَ کوئی تبصرہ نہ تھا اور نہ ہے !!

ميں نے کبھي بھي يہ نہيں کہا کہ يہ حديث غلط ہے ۔۔
اور میں‌ نے بھی آپ پر ایسا کوئی الزام نہیں‌ لگایا کہ آپ نے دارمی کی اس حدیث‌ کو غلط کہا ہے ۔۔۔ :)

ہاں اس ميں مذکورہ ضعف کي طرف ميں نے اشارہ کيا تھا ۔۔
نہیں !!
یہاں‌ آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں‌ ۔۔۔ :)
آپ نے حدیث‌ میں‌ مذکور ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ اس کی سند میں‌ موجود ایک راوی (کے اصل نام کو جانے بغیر) پر جرح‌ کر ڈالی ہے !!
البتہ اگر آپ فتح‌الباری کے حوالے سے دارمی کی اس حدیث‌ کے متن کو مضطرب ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ۔۔۔
تو یہ بھی آپ کا فرض ہے کہ درج ذیل تفصیلات مہیا فرمائیں :
  1. دارمی کی حدیث اور بخاری کی متذکرہ حدیث پر ناسخ و منسوخ کا اصول اگر کسی ایک محدث نے باقاعدہ انہی دو احادیث کے حوالے سے پیش کیا ہے تو وہ جرح بحوالہ پیش فرمائیں
  2. کن کن محدثین نے دارمی کی حدیث کے متن کو مضطرب قرار دیا ہے ، مکمل حوالے پیش فرمائیں

برادرِ محترم ! علمِ حدیث کوئی کھیل نہیں ہے کہ ہم مکتبہ شاملہ یا الفیہ کی چند سی۔ڈیز سے سرچ کر کے فیصلے گھڑتے چلے جائیں۔ کسی بھی فن میں ، اس فن کے ماہر یا ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ جب تک آپ محدثین کی اصولی تحقیقات کو پیش نہیں فرماتے ، آپ کی ایسی عقلی تُک بندیاں ، ہم قبول کرنے سے معذور ہیں۔
معذرت !!
:mad:


باذوق انکل

اگر آپ اپنے موقف کے حق ميں کوئي ٹھوس دليل پيش کر سکيں تو ضرور کريں ۔۔

ليکن مسئلہ واقعي ميں يہ ہے کہ مکتبہ شاملہ کي سي ڈي سے کوئي ٹھوس دليل نہيں حاصل کي جا سکتي :)

اس ليے رہنے ديں ۔

الفاظ کے ہير پھير سے ايويں ہي رگڑا لگاتے جا رہے ہيں بس ۔۔ :mad:
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔اگر آپ اپنے موقف کے حق ميں کوئي ٹھوس دليل پيش کر سکيں تو ضرور کريں ۔۔
بھئی واہ ، اچھی زبردستی ہے ! دلیل پیش کرنے کیلئے آپ سے کہا جا رہا ہے اور آپ مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیں؟؟ :eek:
آپ پہلے اپنے اس موقف کو محدثین کی تحقیق سے ثابت تو کریں کہ حدیث الدارمی کے راوی "مجالد" اصل میں "مجالد بن سعيد بن عمير" ہیں !
الفاظ کے ہير پھير سے ايويں ہي رگڑا لگاتے جا رہے ہيں بس ۔۔
اس کو اردو کی محاوراتی زبان میں‌ کہتے ہیں : الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے !
:)
 

ویج

محفلین
باذوق صاحب، السلام علیکم
کیا کتاب مشکوۃ اور اسکی شرح "مرعاة المفاتيح" (علامہ محمد عبدالسلام مباركپوری) نیٹ پر ڈیجیٹل شکل میں موجود ہے؟ دینِ خالص ڈاٹ کام پر مجھے مشکوۃ نظر آئی تھی مگر افسوس کہ اب یہ ویب سائیٹ کام نہیں کر رہا۔ اگر آپ کے پاس مشکوۃ اور اسکی شرح کا یہ نسخہ موجود ہو تو کیا مہربانی کے کے آپ اسے ای سنپس پر پوسٹ کر سکتے ہیں؟ نیز یہ مکتبہ شاملہ کی اس سی ڈی کے متعلق کچھ تفصیلات فراہم فرما دیں۔ کیا یہ علم الرجال کی کوئی سی ڈی ہے؟ بہت بہت شکریہ۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
بھئی واہ ، اچھی زبردستی ہے !
اس کو اردو کی محاوراتی زبان میں‌ کہتے ہیں : الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے !
:)

يہي تو ميں‌ کہنا چاہ رہا ہوں ۔۔ :grin:

يہ دعوي تو آپ کا ہے ۔ کہ يہ مجالد بن سعيد بن عمير نہيں ہيں ۔ جو کہ کوفي ہيں ۔ بلکہ يہ دوسرے ہيں جن کي کنيت ابو معبد ہے يا کوئي تيسرے ہيں جو صحابي ہيں ۔
پر حضرت والا آپ کے پاس اس دعوي کي کوئي دليل نہيں ہے ۔ اگر ہے تو پيش کيجيے وگرنہ آپ کے دعوے کي کوئي حيثيت نہيں ۔
ميں تو مدعا عليہ ہوں اور مجھ پر بينہ لازم نہيں :)
 

حسن نظامی

لائبریرین
ابھی تک تو تفصیل نہیں ملی ،
آپ نے راوی "مجالد" پر جو جرح نقل کی ہے ، بےشک وہ جرح انہی "مجالد" کے متعلق ہے جن کا نام "مجالد بن سعيد بن عمير" ہے۔
ميرا خيال ہے جب تک تفصيل نہ ملے خاموشي اختيار کر ليں ۔
آپ نے راوی "مجالد" پر جو جرح نقل کی ہے ، بےشک وہ جرح انہی "مجالد" کے متعلق ہے جن کا نام "مجالد بن سعيد بن عمير" ہے۔
يہ تو آپ بھي درست مان چکے ہيں
مگر سوال یہ ہے کہ : آپ کو کیسے معلوم کہ الدارمی کی اس حدیث کی سند میں جس راوی "مجالد" کا ذکر ہے وہ "مجالد بن سعيد بن عمير" ہی ہے؟ کیونکہ جرح و تعدیل کی کتب میں یہ نام بھی ملتے ہیں :
مجالد بن یزید ، مجالد بن اسماعیل ، مجالد بن مسعود ، مجالد بن عوف الحضرمي ، مجالد بن ابى راشد ، مجالد ابو عبد العزيز ، مجالد بن نعيم وغیرہ
آپ کا يہ سوال درست ہے ۔ ليکن بچکانہ سا دکھتا ہے ۔۔ آپ کو خود معلوم ہونا چاہيے کہ کسي حديث کے راوي کے متعلق کس طرح معلوم کيا جاتا ہے کہ وہ کون ہے ۔
اور اگر آپ کي معلومات ميں يہ کوئي اور مجالد ہے تو بتائيں ورنہ ايويں ہي اعتراض نہ کريں ۔
اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔
مشکوٰة المصابیح میں یہی حدیث ، الدارمی کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔ اور مشکوٰة کی شرح "مرعاة المفاتيح" (علامہ محمد عبدالسلام مباركپوری) میں اس حدیث کی تشریح کے عین بعد لکھا ہے :

ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، اسی باب میں ابن عباس سے بھی مسند احمد میں درج ہے، اور عبدالله بن ثابت الانصاری کی روایت سے مسند احمد اور ابن سعد میں ، طبرانی کبیر میں ابي الدرداء کی روایت سے ، عبدالله بن الحارث کی روایت سے بیھقی کی شعب الایمان میں۔
"مرعاة المفاتيح" ذرا خود چیک کر کے ہمیں بھی کنفرم کیجئے گا ، مہربانی ہوگی۔
اور ہاں جب بھی متعلقہ ادارے سے مکمل تفصیل ملے گی ، یہاں ضرور لگاؤں گا ، بےفکر رہئے گا !
ميرے پاس مشکوت موجود ہے آپ از راہ کرم ريفرنس دے ديں ۔ ہاں مرعات المفاتيح دستياب نہيں ہے ۔ خير کہيں سے ديکھ لوں گا ۔:cool:
 

حسن نظامی

لائبریرین
باذوق صاحب آپ سے گزارش ہے کہ اس دھاگے کي پوسٹ نمبر 16 اور 17 ايک بار پھر پڑھيں خاص طور پر بخاري کي حديث اور اس کي درج ذيل شرح ۔۔۔
فتح الباري بشرح صحيح البخاري ميں اس حديث کے ذيل ميں چند باتيں ہيں جو درج ذيل ہيں ۔
قوله : ( وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج ) أي لا ضيق عليكم في الحديث عنهم لأنه كان تقدم منه صلى الله عليه وسلم الزجر عن الأخذ عنهم والنظر في كتبهم ثم حصل التوسع في ذلك , وكأن النهي وقع قبل استقرار الأحكام الإسلامية والقواعد الدينية خشية الفتنة , ثم لما زال المحذور وقع الإذن في ذلك لما في سماع الأخبار التي كانت في زمانهم من الاعتبار
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ﴿وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ﴾ یعنی تم پر کوئی تنگی نہیں ہے ان سے روایت کے بیان کرنے میں یہ اس وجہ سے ہے کہ اس سے پہلے ان سے روایات لینے پر اور ان کی کتابوں کو پڑھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زجر فرمائی تھی اور یہ نہی احکام اسلامیہ اور قواعد دینیہ کے استقرار سے بیشتر فتنہ کے خوف سے فرمائی تھی پھر جب محزود زائل ہو گیا تو اجازت دے دی گئی جس طرح کے زمانے کے اعتبار سے روایت کے واقع ہونے سے علم ہوتا ہے

يا تو اس حديث کو دارمي والي حديث کے مقابلے ميں کمزور ثابت کريں ۔ يا يہ ثابت کريں کہ مذکورہ شرح کي روشني ميں يا ناسخ نہيں ہے ۔
ورنہ کوئي قطعي دليل لائيں ۔
اگر نہيں تو پھر خاموش ہو جائيں :rolleyes:
 

مہوش علی

لائبریرین
ذیل کا ایک ریفرنس ملاحظہ فرمائیں:

Ibn Taymeeya in his book "al-qaida al-jaleela fit- tawwasali wal-waseela", with commentary of Dr. Rabi'a bin Hadi 'Umayr al-Mudkhali, professor in the Islamic University of Madinah al-Munawwara, Page 162, - gives a detailed discussion on the fact that it is acceptable to use a hadith whose authenticity is unknown, as long as the hadith is known not to have been an actual lie. On the same page paragraph 480 Ibn Taymeeya states same principle can be applied to Jewish traditions:

"This is like the [situation] of the Isra'iliyyaat [stories related by the Jews]. It is permissible to be narrated as long as we know that it is not a lie, for encouraging or discouraging in what we know that Allah has ordered in our law [shar'] or forbade in our law [shar']."


//////////////////////

تفسیر ابن کثیر کے مقدمے کو پڑھنے پر مجھے ایک ریفرنس وہاں بھی ملا تھا کہ اسرائیلیات بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔

/////////////////////

کعب بن الاحبار نے بہت سی اسرائیلیات بیان کی ہیں اور ان سے بہت سے راویان حدیث نے روایات لی ہیں۔
 

باذوق

محفلین
يہ دعوي تو آپ کا ہے ۔ کہ يہ مجالد بن سعيد بن عمير نہيں ہيں ۔ جو کہ کوفي ہيں ۔ بلکہ يہ دوسرے ہيں جن کي کنيت ابو معبد ہے يا کوئي تيسرے ہيں جو صحابي ہيں ۔
پر حضرت والا آپ کے پاس اس دعوي کي کوئي دليل نہيں ہے ۔ اگر ہے تو پيش کيجيے وگرنہ آپ کے دعوے کي کوئي حيثيت نہيں ۔
ميں تو مدعا عليہ ہوں اور مجھ پر بينہ لازم نہيں :)
بھائی ! آپ آخر بچوں جیسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ :confused:
دارمی کی حدیث کی سند میں جو راوی "مجالد" ہے ، اس کے متعلق میں اس دھاگے کی پوسٹ نمبر 49 میں واضح طور پر لکھ چکا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں حدیث الدارمی کے راوی "مجالد" کے سلسلے میں‌ فی الوقت بالکل لاعلم ہوں‌ لہذا اس راوی کے اصل نام پر میرا قطعاَ کوئی تبصرہ نہ تھا اور نہ ہے !!
اس کے باوجود آپ بار بار الزام لگا رہے ہیں کہ ۔۔۔
يہ دعوي تو آپ کا ہے ۔ کہ يہ مجالد بن سعيد بن عمير نہيں ہيں ۔ جو کہ کوفي ہيں ۔ بلکہ يہ دوسرے ہيں جن کي کنيت ابو معبد ہے يا کوئي تيسرے ہيں جو صحابي ہيں ۔
اگر آپ میں ذرہ برابر بھی دیانت ہے تو ذرا بتائیے کہ اس دھاگے کی کس پوسٹ میں مَیں نے ایسا دعویٰ دائر کیا ہے؟ حالانکہ میں صاف صاف لکھ چکا ہوں کہ : میں حدیث الدارمی کے راوی "مجالد" کے سلسلے میں‌ فی الوقت بالکل لاعلم ہوں‌ لہذا اس راوی کے اصل نام پر میرا قطعاَ کوئی تبصرہ نہ تھا اور نہ ہے !!

اب ذرا آپ اپنا کارنامہ دیکھئے
بحوالہ : پوسٹ نمبر 16
ميں نے اس دھاگے کا مطالعہ کيا ہے ۔۔
ميں زيادہ کچھ نہيں کہنا چاہوں گا ۔
صرف ان دو احاديث پر تھوڑي سي بحث کرنے کي جسارت حاصل کروں گا جن پر اس موضوع کي بنياد رکھي گئي ہے ۔
پہلي حديث يہ ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
اس کا ترجمہ جناب ب ا ذوق دے ہي چکے ہيں ويسے ان کے احاديث والے فورم پر بھي موجود ہے ۔
مجھے اس کي سند کے ايک راوي "مجالد" کے بارے ميں کچھ کہنا ہے ۔
ان کا نام :مجالد بن سعيد بن عمير
ان کا طبقہ :يہ صحابہ ميں سے کسي سے بھي نہيں ملے يعني تبع تابعي ہيں ۔
کنيت : ابو عمرو
بلدِاقامت: کوفہ
تاريخ وفات:144 ہجري
ان کے بارے ميں اہل حديث ميں سے چند کي آراء "ياد رہے کہ اہل حديث سے مراد آجکل کے اہل حديث نہيں بلکہ محدثين ہيں "
یحیی بن سعید القطان :" یہ راوی ضعیف ہیں "
احمد بن حنبل "لیس بشیئ "
یحیی بن معین "لا یحتج بحدیثہ "ومرۃ "ضعیف واھی"
آپ نے خود دعویٰ کیا ہے کہ : آپ الدارمی کی اس حدیث پر بحث کرنے کی "جسارت" فرما رہے ہیں !!
تو اسی "جسارت" کا حوالہ میں آپ سے مسلسل دریافت کرنے کی ناکام کوشش کیے جا رہا ہوں اتنے دن سے !
جناب والا ، آپ کوئی محدث نہیں ہیں ، لہذا ایسی خودساختہ "جسارت" کا آپ کو قطعا حق نہیں پہنچتا کہ آپ کسی حدیث کے راوی کا اصل نام اپنی "مرضی" سے بیان فرمائیں !!
مہربانی فرما کر ہم عام قارئین کو ذرا اُن دو چار نامور محدثین کے نام (بحوالہ کتب) تو عنایت فرمائیں جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ : الدارمی کی اس حدیث کے راوی "مجالد" کا اصل نام "مجالد بن سعيد بن عمير" ہے !
مجھے اس کي سند کے ايک راوي "مجالد" کے بارے ميں کچھ کہنا ہے ۔
محض آپ کی ایسی درج بالا تُک بندیاں ہم کیوں کر قبول کر لیں بھلا؟؟ :(
 

باذوق

محفلین
اصلی پوسٹ بذریعہ باذوق
مگر سوال یہ ہے کہ : آپ کو کیسے معلوم کہ الدارمی کی اس حدیث کی سند میں جس راوی "مجالد" کا ذکر ہے وہ "مجالد بن سعيد بن عمير" ہی ہے؟ کیونکہ جرح و تعدیل کی کتب میں یہ نام بھی ملتے ہیں :
مجالد بن یزید ، مجالد بن اسماعیل ، مجالد بن مسعود ، مجالد بن عوف الحضرمي ، مجالد بن ابى راشد ، مجالد ابو عبد العزيز ، مجالد بن نعيم وغیرہ
آپ کا يہ سوال درست ہے ۔ ليکن بچکانہ سا دکھتا ہے ۔۔ آپ کو خود معلوم ہونا چاہيے کہ کسي حديث کے راوي کے متعلق کس طرح معلوم کيا جاتا ہے کہ وہ کون ہے ۔
اور اگر آپ کي معلومات ميں يہ کوئي اور مجالد ہے تو بتائيں ورنہ ايويں ہي اعتراض نہ کريں ۔
مجھے کیا معلوم ہونا چاہئے اور کیا نہیں ، یہ آپ کا دردِ سر نہیں ہے !! ;)
البتہ جو قیمتی معلومات (اپنی "جسارت" کی بنا پر) آپ ہمیں فراہم کر رہے ہیں ، اس کی صداقت کا ثبوت محدثین کی تحقیقات کے حوالے سے پہلے آپ پیش کیجئے گا۔ یعنی ، ہمیں پہلے یہ بتائیے کہ :
الدارمی کی متذکرہ حدیث کی سند میں جس راوی "مجالد" کا ذکر ہے ، کس کس محدث نے کس کتاب میں کہا ہے کہ یہ دراصل "مجالد بن سعيد بن عمير" ہیں ؟؟
اور ہم بھلا کیوں نہ اعتراض کریں ؟؟ آپ کیا شیخ الحدیث ہیں یا شیخ الاسلام ؟ جو کہے کہ : "مستند ہے میرا فرمایا ہوا !!"
واللہ ، دین کے معاملے میں ایسا مذاق کرنے سے تو باز آئیے۔
ميرا خيال ہے جب تک تفصيل نہ ملے خاموشي اختيار کر ليں ۔
کیوں جناب کیوں ؟
کیا آپ جنرل مشرف کی فوج کا کوئی اہم کارندہ ہیں ؟ جو ہمارے گھر میں آئے اور ہمارے ایک قریبی عزیز پر یہ الزام لگائے کہ اس نے جنرل صاحب پر قاتلانہ حملہ کی سازش کی تھی اور پھر پکڑ کر لے جائے ؟؟ اور ہم یونہی خاموشی اختیار کر لیں؟
کیا ہمیں یہ ثبوت مانگنے کی بالکل اجازت نہیں کہ اُس قاتلانہ حملے کی سازش میں ہمارے عزیز کے ہاتھ کو پہلے ثابت کیا جائے ؟؟
 

باذوق

محفلین
ميرے پاس مشکوت موجود ہے آپ از راہ کرم ريفرنس دے ديں ۔
اس کو کہتے ہیں : بلی کا تھیلے سے باہر آنا !!

قارئین ، ذرا غور فرمائیں ، کتنی حیرت اور تعجب کی بات ہے۔ ایک صاحب جراءت کر کے اٹھتے ہیں اور الدارمی کی حدیث کے ایک راوی پر ببانگ دہل جسارت فرماتے ہوئے الزامات کے طومار باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ شارح مشکوٰة نے اسی حدیث کی سند کو محدثین کی آراء کے حوالے سے معتبر قرار دیا ہے تو معترض صاحب معصومیت سے فرماتے ہیں : از راہ کرم ريفرنس دے ديں !
کمال ہے ! علم اسماءِ رجال پر تو ایسی دسترس کہ منٹوں میں کسی راوی پر کی گئی جرح کو ڈھونڈ نکالیں اور ۔۔۔۔ دوسری جانب ایسی بےبسی کہ حدیث کی کسی کتاب سے اسی متذکرہ حدیث کو ڈھونڈ نکالنے سے خود کو قاصر پائیں ؟؟!!

حسن نظامی ! دانا بزرگوں کا یہ فرمانا بالکل سچ ہے کہ ۔۔۔ جب آدمی ایک جھوٹ بولے اور حقیقت سامنے آنے پر اپنی جھوٹی بات سے رجوع کرنے کے بجائے اپنی ٹانگ اونچی رکھنے بیجا تاویلات کا سہارا لے تو پھر وہ جھوٹ کے ہی سمندر میں غرق ہو کر رہ جاتا ہے !!

اللہ ہم تمام کو نیک ہدایت سے نوازے ، آمین !!
 

باذوق

محفلین
باذوق صاحب آپ سے گزارش ہے کہ اس دھاگے کي پوسٹ نمبر 16 اور 17 ايک بار پھر پڑھيں خاص طور پر بخاري کي حديث اور اس کي درج ذيل شرح ۔۔۔
يا تو اس حديث کو دارمي والي حديث کے مقابلے ميں کمزور ثابت کريں ۔ يا يہ ثابت کريں کہ مذکورہ شرح کي روشني ميں يا ناسخ نہيں ہے ۔
ورنہ کوئي قطعي دليل لائيں ۔ اگر نہيں تو پھر خاموش ہو جائيں
معاف کیجئے گا۔ میں آپ کی طرح کوئی ایسا بڑا عالم نہیں ہوں کہ راویوں کی استنادی حیثیت پر جرح کرنے کی "جسارت" کروں۔
اور نہ ہی میں کوئی محدث ہوں کہ کسی حدیث کو کمزور / مضطرب یا منسوخ ثابت کروں۔ یہ کام انہی محدثینِ عظام کو مبارک ہو جنہوں نے اس راہِ خار زار میں اپنا قیمتی وقت ، محنت ، تحقیق ، غور و فکر اور سرمایا لگایا ہے۔ جزاک ھم اللہ خیرا کثیرا

اور یہ آپ بار بار مجھے خاموش کرانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ کیا مسئلہ ہو رہا ہے آپ کے ساتھ؟ :rolleyes:
 
Top