اقتباسات مختلف کتابوں سے اقتباسات

سیما علی

لائبریرین
لُوٹا ہوا مال برآمد کرنے کیلیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کئے۔ لوگ ڈر کے مارے لُوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے، کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کر دیا تا کہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

ایک آدمی کو بہت دِقّت پیش آئی۔ اُس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اُس نے پنساری کی دکان سے لُوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جُوں کی تُوں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک آیا، لیکن جب دُوسری اُٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔

شور سُن کر لوگ اکھٹے ہو گئے۔ کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔ دو جوان نیچے اترے اور اُس آدمی کو باہر نکال لیا۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مر گیا۔ دُوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کیلیے اُس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ مِیٹھا تھا۔ اُسی رات اس آدمی کی قبر پر دِیئے جل رہے تھے۔

سعادت حسن منٹو کی کتاب سیاہ حاشیے سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
ضلع جھنگ کے ایک سابق ڈپٹی کمشنر قدرت اللہ شہاب اپنی آپ بیتی’’ شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں:۔ایک روزجھنگ کے ایک پرائمری سکول کا استادرحمت الٰہی میرے دفتر میں آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ملازمت سے ریٹائرہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں‘ رہنے کیلئے اپنا گھر بھی نہ تھا۔ پنشن نہایت معمولی ہوگی‘ اسے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کہاں رہے گا۔ لڑکیوں کی شادیاں کس طرح ہوں گی‘ کھانے پینے کا خرچ کیسے چلے گا۔ اس نے مجھے سرگوشی میں بتلایا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جھنگ جاکر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتاؤ‘ اللہ تمہاری مدد کرےگا۔پہلے تو مجھے شک ہوا کہ یہ شخص ایک جھوٹا خواب سنا کر مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے میرے چہرے پر شک اور تذبذب کے آثار دیکھ کر رحمت الٰہی آبدیدہ ہوگیا اور بولا جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا‘ اگر جھوٹ بولتا تو شاید خدا کےنام پرتو بول لیتا لیکن حضور نبی کریم ﷺ کے نام پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں‘ اس کی اس منطق پر میں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ آپ نے سنا نہیں کہ ’’باخدا دیوانہ وبامصطفیٰ ہشیار باش‘‘ یہ سن کر میرا شک پوری طرح رفع تو نہ ہوا لیکن سوچا کہ اگر یہ شخص غلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کافرض ہے۔ چنانچہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتوں کے بعد دوبارہ آنے کیلئے کہا۔ اس دوران میں نے خفیہ طور پر اس کے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہوگئی کہ وہ اپنے علاقے میں نہایت سچا‘ پاکیزہ اور پابند صوم و صلوٰۃ آدمی مشہور ہے اور اس کے گھریلو حالات بھی وہی ہیں جو اس نے بیان کیے تھے۔
اس زمانے میں کچھ عرصہ کیلئے صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنروں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ سرکاری بنجر زمین کے آٹھ مربع تک ایسے خواہش مندوں کو طویل میعاد پر دے سکتے تھے جو انہیں آباد کرنے کیلئے آمادہ ہوں۔ میں نے اپنے مال افسر غلام عباس کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کراؤن لینڈ کے ایسے آٹھ مربع تلاش کرے جنہیں جلدازجلد کاشت کرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے۔ مال افسر نے غالباً یہ سمجھا کہ شاید یہ اراضی میں اپنے کسی عزیز کو دینا چاہتا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پکی سڑک کے قریب نیم آباد سی زمین ڈھونڈ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کرکے سارے کاغذات میرے حوالے کردئیے۔دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے اسے مال افسر کے حوالے کردیا کہ یہ قبضہ وغیرہ دلوانے اور باقی ساری ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کرے‘ تقریباً 9 برس بعد میں کراچی میں فیلڈمارشل جنرل ایوب کے ساتھ کام کررہا تھا کہ ایوان صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا (اس زمانے میں پاکستان کا صدر مقام اسلام آباد کی بجائے کراچی تھا)۔یہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھا کہ اس زمین پر محنت کرکے اس نے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی ہے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم آباد ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ فریضہ حج بھی ادا کرلیا ہے‘ اپنے گزارے اوررہائش کیلئے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا کوٹھا بھی تعمیر کرلیا ہے۔ اسی خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت نہیں‘ چنانچہ اس الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات اس خط کے ساتھ واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ یہ خط پڑھ کر میں کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگیا‘ میں اس طرح گم سم بیٹھا تھا کہ صدر پاکستان کوئی بات کرنے کیلئے میرے کمرے میں آگئے ’’کس سوچ میں گم ہو‘‘ انہوں نے حالت بھانپ کر پوچھا‘ میں نے انہیں رحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی نہایت حیران ہوئے‘ کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ اچانک بولے۔ تم نے بہت نیک کام سرانجام دیا ہے۔ میں گورنر کو لاہور ٹیلیفون کردیتا ہوں کہ وہ یہ اراضی اب تمہارے نام کردیں‘ میں نے نہایت لجاحت سے گزارش کی کہ یہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں یہ سن کر صدر پاکستان بولے کہ تمہیں زرعی اراضی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ’’جی نہیں سر‘‘ میں نے التجا کی۔ آخر میں فقط دو گز زمین ہی قبر کیلئے کام آتی ہے‘ وہ کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی طرح سے مل ہی جاتی ہے۔

! اس واقعہ کے پانچوں کردار آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن جھنگ کے ایک پرائمری ٹیچر رحمت الٰہی کا کردار ہم سب کیلئے منارہ نور ہے۔!!!!
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ عبدالمجید سالک کسی کام کے سلسلے میں حکیم فقیر محمّد چشتی صاحب کے مطب پر گئے۔

وہاں ایک مشہور طوائف نجو بھی دوا لینے آئی ہوئی تھی۔ کِھلا ہوا چمپئی رنگ ، سر پر ایک سفید ریشمی دوپٹہ جس کے کنارے چوڑا نقرئی لپہ لگا ہوا تھا۔

سالک جو پہنچے تو حکیم صاحب نے نجو سے کہا: "یہ تمہارے شہر کے بہت بڑے شاعر اور ادیب سالک صاحب ہیں۔ آداب بجا لاؤ۔"

وہ سَرو قد اُٹھ کھڑی ہوئی اور جُھک کر آداب بجا لائی۔

پھر سالک سے کہا ٫ "یہ لاہور کی مشہور طوائف نجو ہیں۔ آپ اُس کُوچے سے نابلد سہی لیکن نام تو سُنا ہو گا؟"

سالک بولے: "جی ہاں نام تو سُنا ہے لیکن نجو بھلا کیا نام ہوا؟"

حکیم صاحب فرمانے لگے ، "لوگ نجو نجو کہہ کے پکارتے ہیں اِس کا پُورا نام تو نجاتُ المومنین ہے۔"

"سعادت حسن منٹو"
"اندھیر نگری" سے اقتباس
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ کسی آدمی نے گوتم بدھ سے گالم گلاچ کی۔ گوتم سکون سے سنتا رہا اور آخر میں کہنے لگا”بیٹا!اگر کوئی کسی کو تحفہ دے،لیکن وہ آدمی تحفہ لینے سے انکار کردے تو یہ تحفہ کس کا ہوا؟“

”یہ تحفہ دینے والے کا ہی ہوگا“۔اس آدمی نے جواب دیا۔

گوتم نے سکون سے کہا”بیٹا!پھر میں تمھارا دیا ہوا تحفہ قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں۔“

اقتباس کتاب:فلسفے کی تاریخ
تالیف:اکبر لغاری
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزتی کردی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔ قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔ پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لئے مجھے جیل بھیج دو۔

پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑگیا. گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔ اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے’’شورش نے میری عزت بچالی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘

یہ واقعہ بزرگ صحافی محمد رفیق ڈوگر نے اپنی آپ بیتی’’ڈوگرنامہ‘‘ میں لکھا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک دن میں، آپا اور اماں باہر صحن میں بیٹھی تھیں۔ اس وقت بھائی صاحب اندر اپنے کمرے میں بدو سے کہہ رہے تھے، ’’میرے یار ہم تو اس سے بیاہ کریں گے جو ہم سے انگریزی میں باتیں کر سکے، کتابیں پڑھ سکے، شطرنج، کیرم اور چڑیا کھیل سکے۔ چڑیا جانتے ہو؟ وہ گول گول پروں والا گیند بلے سے یوں ڈز، ٹن، ڈز اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں مزے دار کھانے پکا کر کھلا سکے، سمجھے؟‘‘

بدو بولا، ’’ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔‘‘

’’انہہ!‘‘ بھائی صاحب کہنے لگے۔

بدو چیخنے لگا، ’’میں جانتا ہوں تم آپا سے بیاہ کرو گے۔ ہاں‘‘ اس وقت اماں نے مسکرا کر آپا کی طرف دیکھا۔ مگر آپا اپنے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن توڑنے میں اس قدر مصروف تھی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔ اندر بھائی صاحب کہہ رہے تھے، ’’واہ تمہاری آپا فرنی پکاتی ہے تو اس میں پوری طرح شکر بھی نہیں ڈالتی۔ بالکل پھیکی۔ آخ تھو!‘‘

بدو نے کہا، ’’ابا جو کہتے ہیں فرنی میں کم میٹھا ہونا چاہئے۔‘‘

’’تو وہ اپنے ابا کے لئے پکاتی ہے نا۔ ہمارے لئے تو نہیں۔‘‘

’’میں کہوں آپا سے؟‘‘ بدو چیخا۔

بھائی چلائے، ’’او پگلا۔ ڈھنڈورا۔ لو تمہیں ڈھنڈورا پیٹ کر دکھائیں۔ یہ دیکھو اس طرف ڈگمگ ڈگمگ۔‘‘ بدو پھر چلانے لگا، ’’میں جانتا ہوں تم میز بجا رہے ہو نا؟‘‘

’’ہاں ہاں اسی طرح ڈھنڈورا پٹتا ہے نا۔‘‘ بھائی صاحب کہہ رہے تھے، ’’کشتیوں میں، اچھا بدو تم نے کبھی کشتی لڑی ہے، آؤ ہم تم کشتی لڑیں۔ میں ہوں گاما اور تم بدو پہلوان۔ لو آؤ، ٹھہرو، جب میں تین کہوں۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مدھم آواز میں کہا، ’’ارے یار تمہاری دوستی تو مجھے بہت مہنگی پڑتی ہے۔‘‘ میرا خیال ہے آپا ہنسی نہ روک سکی اس لیے وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ میرا تو ہنسی کے مارے دم نکلا جا رہا تھا اور اماں نے اپنے منہ میں دوپٹہ ٹھونس لیا تھا تاکہ آواز نہ نکلے۔

میں اور آپا دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بھائی صاحب آ گیے۔ کہنے لگے، ’’کیا پڑھ رہی ہو جہنیا؟‘‘ ان کے منہ سے جہنیا سن کر مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ حالانکہ مجھے اپنے نام سے بے حد نفرت تھی۔ نور جہاں کیسا پرانا نام ہے۔ بولتے ہی منہ میں باسی روٹی کا مزا آنے لگتا ہے۔ میں تو نور جہاں سن کر یوں محسوس کیا کرتی تھی جیسے کسی تاریخ کی کتاب کے بوسیدہ ورق سے کوئی بوڑھی اماں سونٹا ٹیکتی ہوئی آ رہی ہوں مگر بھائی صاحب کو نام بگاڑ کر اسے سنوار دینے میں کمال حاصل تھا۔ ان کے منہ سے جہنیا سن کر مجھے اپنے نام سے کوئی شکایت نہ رہتی اور میں محسوس کرتی گویا ایران کی شہزادی ہوں۔ آپا کو وہ سجادہ سے سجدے کہا کر تھے مگر وہ تو بات تھی، جب آپا چھوٹی تھی۔ اب تو بھائی جان اسے سجد ے نہ کہتے بلکہ اس کا پورا نام تک لینے سے گھبراتے تھے۔ خیر میں نے جواب دے دیا، ’’سکول کا کام کر ہی ہوں۔‘‘

پوچھنے لگے، ’’تم نے کوئی برنارڈ شا کی کتاب پڑھی ہے کیا؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’نہیں!‘‘

انہوں نے میرے اور آپا کے درمیان دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’تمہاری آپا نے تو ہارٹ بریک ہاؤس پڑھی ہو گی۔‘‘ وہ کنکھیوں سے آپا کی طرف دیکھ رہے تھے۔ آپا نے آنکھیں اٹھائے بغیر ہی سر ہلا دیا اور مدھم آواز میں کہا، ’’نہیں!‘‘ اور سویٹر بننے میں لگی رہی۔ بھائی جان بولے، ’’اوہ کیا بتاؤں جہنیا کہ وہ کیا چیز ہے، نشہ ہے نشہ، خالص شہد، تم اسے ضرور پڑھو بالکل آسان ہے یعنی امتحان کے بعد ضرور پڑھنا۔ میرے پاس پڑی ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ضرور پڑھوں گی۔‘‘ پھر پوچھنے لگے، ’’میں کہتا ہوں تمہاری آپا نے میٹرک کے بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

میں نے چڑ کر کہا، ’’مجھے کیا معلوم آپ خود ہی پوچھ لیجیئے۔‘‘ حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپا نے کالج جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ کہتی تھی میرا تو کالج جانے کو جی نہیں چاہتا۔ وہاں لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کوئی نمائش گاہ ہو۔ درسگاہ تو معلوم ہی نہیں ہوتی جیسے مطالعہ کے بہانے میلہ لگا ہو۔ مجھے آپا کی یہ بات بہت بری لگی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ گھر میں بیٹھ رہنے کے لیے کالج جانا نہیں چاہتی۔ بڑی آئی نکتہ چین۔ اس کے علاوہ جب کبھی بھائی جان آپا کی بات کرتے تو میں خواہ مخواہ چڑ جاتی۔ آپا تو بات کا جواب تک نہیں دیتی اور یہ آپا آپا کر رہے ہیں اور پھر آپا کی بات مجھ سے پوچھنے کا مطلب؟ میں کیا ٹیلی فون تھی؟ خود آپا سے پوچھ لیتے اور آپا، بیٹھی ہوئی گم سم آپا، بھیگی بلی۔

شام کو ابا کھانے پر بیٹھے ہوئے چلا اٹھے، ’’آج فیرنی میں اتنی شکر کیوں ہے؟ قند سے ہونٹ چپکے جاتے ہیں۔ سجادہ! سجادہ بیٹی کیا کھانڈ اتنی سستی ہو گئی ہے۔ ایک لقمہ نگلنا بھی مشکل ہے۔‘‘ آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھوم رہی تھیں۔ حالانکہ جب کبھی ابا جان خفا ہوتے تو آپا کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ مگر اس وقت اس کے گال تمتما رہے تھے، کہنے لگی، ’’شاید زیادہ پڑ گئی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تو باورچی خانے میں چلی گئی اور میں دانت پیس رہی تھی۔ ’’شاید۔ کیا خوب۔ شاید۔‘‘

ادھر ابا بدستور بڑبڑا رہے تھے، ’’چار پانچ دن سے دیکھ رہا ہوں کہ فیرنی میں قند بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘ صحن میں اماں دوڑی دوڑی آئیں اور آتے ہی ابا پر برس پڑیں، جیسے ان کی عادت ہے۔ ’’آپ تو نا حق بگڑتے ہیں۔ آپ ہلکا میٹھا پسند کرتے ہیں تو کیا باقی لوگ بھی کم کھائیں؟ اللہ رکھے گھر میں جوان لڑکا ہے اس کا تو خیال کرنا چاہئے۔ ’’ابا کو جان چھڑانی مشکل ہو گئی‘‘، کہنے لگے، ’’ارے یہ بات ہے مجھے بتا دیا ہوتا میں کہتا ہوں سجادہ کی ماں۔‘‘ اور وہ دونوں کھسر پھسر کرنے لگے۔ آپا، ساحرہ کے گھر جانے کو تیار ہوئی تو میں بڑی حیران ہوئی۔ آپا اس سے ملنا تو کیا بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس کے نام پر ہی ناک بھوں چڑھایا کرتی تھی۔ میں نے خیال کیا ضرور کوئی بھید ہے اس بات میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپا
ممتاز مفتی صاحب
 

AinAlif

محفلین
آم ، سری پائے، جوتے، گالیاں ۔۔۔۔۔ اور محبت ۔۔۔ ان سب چیزوں میں سلیقے کا دخل نہیں ہوتا۔ نہ ہی کوئی اصول ہے اور نہ ہی کوئی مہذبانہ وضع كرده طریقه ۔۔۔۔ ذرا سا بھی کوئی رہ و رسم دنیا کا خیال کیا ، سارا لطف غارت ہو گیا۔
یہ جهنجھوڑنے ، بھنبھوڑنے ، ٹھکورنے کے علاوہ پلٹنے ، جھپٹنے، پلٹ کر جھپٹنے ، سہلانے ، چلانے ، ہاتھ جوڑنے ، مافی مانگنے ، رونے اور مسکرانے کے مقامات ہیں۔
ان کٹھن مقامات سے وہی سر خرو گزر سکتا ہے جس نے اپنا بچپنا اور اپنے اندر کا حیوان ، ناخن کاٹ ، منہ پر چھکا چڑھائے اپنی ذات کی چار دیواری میں کھلا چھوڑ دیا ہو،
تا کہ وه بھی اپنے ہاتھ پاؤں سیدھے اور اپنی جبلت کے تقاضے پورے کر لے۔
کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی بے ضرر بے ایمانیاں ، معصوم سے كمینگیاں ، بھولی بھالی بے وفائیاں، خفیف سی بد عہدياں ، پیاری پیاری بے خطر لڑائياں ، کبھی عید شبرات پہ میٹھا پان ،کسی کے پیکٹ سے چرائے ہوئے سگریٹ کا کش ، کسی دوست کی شادی پہ الٹی سیدھی لڈی ، شاہی مسجد کے بہانے اس بازار سے گزرنا ۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے ؟ یہی، اندر کے جکڑے ہوئے حیوان کو ذرا سی ہوا لگوانا ، ہے۔ ورنہ یہ حبس دم حیوان بپهر کر انسان کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا انتقام لیتا ہے کہ جاننے والے کہہ اٹھتے ہیں کہ " بندہ تے شریف سی، یقین نئیں آوندا "۔
۔
۔
۔
بابا یحییٰ خان کی کتاب "شب دیدہ " سے اقتباس
 

AinAlif

محفلین
ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزتی کردی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔ قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔ پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لئے مجھے جیل بھیج دو۔

پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑگیا. گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔ اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے’’شورش نے میری عزت بچالی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘

یہ واقعہ بزرگ صحافی محمد رفیق ڈوگر نے اپنی آپ بیتی’’ڈوگرنامہ‘‘ میں لکھا ہے۔


کمال !۔۔۔ آعلیٰ انسان
 

سیما علی

لائبریرین
’’ایک مفکر کہتا ہے، کہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو گے زبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبے پاؤں آتی ہیں- تاریخی کیلنڈر میں ان کا کہیں ذکر نہیں- سب جانتے ہیں کہ سکندر نے کس سن میں کون ساملک فتح کیا- لیکن یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ بن مانس کون سے سن میں انسان بنا- اتنا تو اسکول کے بچے بھی بتا دیں گے کہ سقراط نے کب زہر کا پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگایا لیکن آج تک کوئی مورخ یہ نہیں بتا سکا کہ، لڑکپن کس دن رخصت ہوا- جوانی کس رات ڈھلی ۔۔۔ ادھیڑ پن کب ختم ہوا ۔۔۔ اور بڑھاپا کس گھڑی شروع ہوا .....!!!"

(مشتاق احمد یوسفی - "چراغ تلے” سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
چار آدمیوں کی صحبت ادیب کے تخلیقی کام میں کھنڈت ڈالتی ہے۔ لڑاکا بیوی، باتونی انٹلکچول، لائق معلم، ادب کی سرپرستی کرنے والا افسر۔

انتظار حسین
 

سیما علی

لائبریرین
گھر ہمیشہ مہربانیوں سے لٹتے ہیں۔ نئی محبتوں سے اُجڑتے ہیں۔ ایسی مہربانیاں جو گھر کی سالمیت کو دیمک بن کر چاٹ جاتی ہیں۔ ایسی مہربانیاں جو ماں سے زیادہ چاہ کر کی جاتی ہیں۔ جب کوئی چاہنے والا گھر کے ایک فرد کی انا کو جگا کر اسے وہ سارے مظالم سمجھاتا ہے جو گھر کے دوسرے فرد اس پر کرتے رہے ہیں۔ وہ ان ساری لڑائیوں کے ڈھکے چھپے معنی واضح کر دیتا ہے تو گھر کی پہلی اینٹ گرتی ہے۔ گھر کی ایک ایک اینٹ محبت سے اکھاڑی جاتی ہے۔ ہر چوگاٹ پر دہلیز چوم چوم کر توڑی جاتی ہے۔ جب باہر کا چاہنے والا لفظوں میں شیرینی گھول کر گھر والوں کو بہکاتا ہے تو پھر کوئی سالمیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہر انسان کمزور لمحوں میں خود ترسی کا شکار رہتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق میں لگا رہتا ہے کہ اس پر مظالم ہوئے اور اسی لئے وہ ظلم کرنے میں حق بجانب ہے۔ ہم اپنوں کو تو نہ سمجھا سکے تو ان کو کیا بتاتے کہ ہمارے گھر کی اساس غلط نہ تھی چاہنے والے غلط تھے۔ ہر پُرانی محبت میں پُرانے پن کی وجہ سے جو غلطیاں کوتاہیاں موجود ہوتی ہیں اُن کو اجاگر کرنے والے بہت ذہین تھے.
بانو قدسیہ

(سمجھوتہ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے دنیا بھر کے درجنوں سربراہان مملکت، وزرائے اعظم اور بادشاہوں کو کئی کئی مرتبہ کافی قریب سے دیکھا ہے لیکن میں کسی سے مرعوب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی میں مجھے اس عظمت کا نشان نظر آیا جو جھنگ شہر میں شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے جوتے گانٹھنے والے موچی میں دکھائی دیا تھا۔

اس طرح کی زندگی کے علاوہ مجھے اور کیا چاہیئے؟ اب تو بس یہی جی چاہتا ہے

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

ابن انشاء نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ فہرست میرے حوالے کی، اور وصیت کی کہ اپنی ڈائری کی خفیہ نویسی کو بے نقاب کرو اور دلجمعی سے ایک کتاب لکھو۔ میں تو اسے پڑھنے کے لئے زندہ نہیں رہوں گا لیکن میری روح خوش ہوگی۔

حامی تو میں نے بھر لی، لیکن جب قلم اٹھایا تو ایک شدید الجھن میں گرفتا ر ہوگیا۔ مجھے احساس تھا کہ میں‌نے زندگی بھر کوئی ایسا تیر نہیں مارا جس پر شیخیاں بگھار کر اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر ادب کے میدان میں ایک برخود غلط تیس مار خان بننے کی کوشش کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا لکھوں؟ ——- کیسے لکھوں؟ ——— اور کیوں لکھوں؟ اسی شش وپنج میں کئی برس گزر گئے۔ رفتہ رفتہ میرے دماغ کی تاریک سرنگ میں روشنی کے کچھ آثار نمودار ہونا شروع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ جن واقعات، مشاہدات اور تجربات نے مجھے متاثر کیا ہے ان کی روئیداد بے کم و کاست بیان کردوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہاب نامہ سے اقتباس
قدرت اللّہ شہاب
 

صابرہ امین

لائبریرین
انسان کے دل میں ایک شہر ہوتا ہے۔ اس کی گلیاں اور بازار ہوتے ہیں، جہاں یادوں اور مُرادوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ اس کی دکانوں میں ہزاروں طرح کی تمنائیں بکتی ہیں، خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اس کے کارخانوں میں محنت سانس لیتی ہے۔ اور اس کے باغوں میں کبھی کبھی چاند چمکتا ہے۔ اور پھول مہکتے ہیں اور آہستہ خرام جوڑے ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے خاموش نگاہوں سے محبت کا پیام دیتے ہیں۔

دل کا شہر بھی انسان کے شہر کی طرح بستا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کام کرتا ہے۔ ہنستا ہے اور روتا ہے۔ کبھی کبھی ایسے دن آتے ہیں جب ہر لمحہ عید ہوتا ہے۔ ہر یاد اک نیا جوڑا پہن کر نکلتی ہے۔ ہر تمنا بنی سنوری ہتھلیوں میں حِنا کی منقش تصویریں سجائے، ہر اُمنگ ننھے ننھے بچوں کی طرح خوشی سے ہنستی ہوئی، کلکاریاں مارتی ہوئی ہر آرزو جوان اور بلند مستقبل کی خوشبو سے مہکتی ہوئی دل کی گلیوں اور بازاروں میں نکل آتی ہے۔ اور خوشیوں کے میلے میں اور مسرتوں کے اژدہام میں کھو جاتی ہے۔

مگر آج اس شہر میں کیسا سناٹا ہے؟ آج دل کی پُر پیچ گلیوں اور بازاروں اور سڑکوں پر اندھیرا ہے۔ آج کہیں پر روشنی نہیں ہے۔ آج کوئی مراد نہیں چلتی، کوئی آرزو نہیں بکتی، کوئی اُمنگ نہیں ہنستی۔ آج سارے دریچے بند ہیں اور سارے دروازے مقفل ہیں اور سارے بازار خالی ہیں۔ صرف کہیں کہیں نکڑ پر چند بوڑھی یادیں گزرے ہوئے ایام کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے ایک دوسرے سے سرگوشی کر رہی ہیں۔

آج سارا شہر خالی ہے۔ آج سڑکوں پر روشنی نہیں۔ باغوں میں چاند نہیں، پیڑوں میں پھول نہیں۔ آج وہ بینچ بھی خالی ہے جہاں ہم یادوں کی محفل سجایا کرتے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج کے بعد یہ بینچ ہمیشہ خالی رہے گا۔

انسان کا دل بھی ایک عجیب شے ہے۔ وہ کسی یاد کو تو ایک خوشبو میں بدل دیتا ہے۔ جو زندگی بھر ایک ہی چوکٹھے میں جڑی، ایک ہی دیوار پر ٹنگی ایک ہی زاویے سے دکھائی دیتی چلی جاتی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج کے بعد میں اس باغ میں کبھی نہیں جا پاؤں گا۔ جہاں میں اپنے محبوب کے ساتھ خیالوں میں گھومنے جایا کرتا تھا۔ اس خیالی بینچ پر کبھی نہ بیٹھ پاؤں گا جہاں میرے ہاتھ خود بخود محبوب کے ہاتھوں میں آ جاتے تھے۔

نہیں، وہ خیالی بینچ آج کے بعد ہمیشہ خالی رہے گا۔

(باون پتے از کرشن چندر)
شمشاد بھائی بہت عمدہ ۔
کہاں ہیں آپ؟
 

سیما علی

لائبریرین
ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔ ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ائیر کنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحاف دئے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھرماں جی کے لئے بر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس زمانے میں لائل پور کے مربعہ داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزت لوگوں میں ہو تا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لئے پے در پے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لئے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لئے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دو بھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربعہ دار کی بیٹی جا رہی ہے۔ دیکھئے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا! ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

توبہ توبہ پت ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں میر ی نظر میں بھلا کوئی کیسے ہو سکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔

ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لئے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبد اللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبد اللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چنانچہ عبد اللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چنانچہ عبد اللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

اڑتے اڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبد اللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچر ہو گئے۔

سر سید کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبد اللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

اس حرکت پر سر سید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا، بجھایا، ڈرایا، دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟ سر سید نے کڑک کر پوچھا۔

جی ہاں عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔

یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نا م بھی نہ سن سکوں۔

عبد اللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چنانچہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو۔۔۔

ماں جی
قدرت اللّہ شہاب
 

سیما علی

لائبریرین
ہماری پسندیدہ محترمہ قرۃالعین حیدر نام ہے اس ادبی لیجنڈ کا جس نے اردو فکشن کا وقار بالا کیا۔۔۔۔۔۔۔
ناولٹ ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ سے اقتباس

’’بٹیا میں در پردہ ہر ممکن طریقے سے آپ کی مدد اور اعانت کروں گا اور آپ کو کسی بھی دفتر میں ایک معقول ملازمت دلوا دوں گا۔ آپ کی اور آپ کی والدہ صاحبہ مکرمہ کی خدمت میرا فرضِ اولین ہے۔ بٹیا — اب میں آپ کے بزرگ کی حیثیت سے چند پند و نصائح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ دنیا بڑی ذلیل جگہ ہے میں بھی دنیا کا ایک فرد ہوں۔ آپ کے بھائی نے دنیا سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ مجھے یقین ہے اور امید ہے کہ بہت جلد اسے معلوم ہو جائے گا یا شاید معلوم ہو چکا ہو کہ اس کے تجزیے اس کی انتہا پسندی اور آئیڈیلزم قطعاً غلط ہے۔ آپ نے اپنے حالات اور اپنی مجبوریوں کے تحت میرے ذریعہ دنیا سے ایک حد تک سمجھوتہ کر لیا جس طرح ثریّا نے میرے ذریعہ دنیا سے سمجھوتہ کر کے سورج کے نیچے اپنی جگہ بنالی مجھے یقین ہے کہ قطعی فیصلہ کرنے سے قبل اسے شدیدذہنی کش مکش کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ مگر اسے معلوم ہو چکا ہے اور آپ بھی دیکھ چکی ہیں کہ آج کی دنیا ایک بہت عظیم الشان بلیک مارکیٹ ہے جس میں ذہنوں دماغوں، دلوں اور روحوں کی اعلیٰ پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے فن کار دانش ور، عینیت پسند اور خدا پرست میں نے اس چور بازار میں بکتے دیکھے ہیں میں خود اکثر ان کی خرید و فروخت کرتا ہوں۔

میں یہ سب باتیں آپ کو اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ ذہنی طور پر بڑی ہو جائیں اور زندگی کی طرف سے کسی قسم کے مزید الوزن اور خوش فہمیاں آپ کے دل میں باقی نہ رہیں ورنہ آپ کو مرتے دم تک مزید صدمے اٹھانے پڑیں گے۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
دراصل سارا جھگڑا سائنس کے بارے میں ہماری خوش فہمی نے پھیلا رکھا ہے۔ ہم سمجھنے لگے ہیں کہ سائنس ایک مکمل علم ہے۔۔۔دراصل آج کی سائنس اللہ کی حکمتوں کو سمجھنے کی ایک نامکمل آوارہ کوشش ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔
‏۔ممتاز مفتی (تلاش)
 

سیما علی

لائبریرین
مسلمان کو مایوس ہونے کا حکم نہیں - شیطان کا اور کیا کام ہے پت - وہ انسان کو الله کی طرف سے مایوس کراتا ہے - آدمی کا معجزے پر اعتماد ختم کراتا ہے ناں ناں پت مایوسی گناہ ہے گناہ ۔
‏۔ بانو قدسیہ
‏(راہِ رواں)
 

سیما علی

لائبریرین
میرا خیال تھا قرآن ایک مذہبی کتاب ہے جس میں اللہ کی عظمت کا بیان ہے اور صراطِ مستقیم کے متعلق ہدایات ہیں۔ میں نے دیکھا کہ قرآن میں تو ایک جہان آباد ہے۔ وہ مذہب تک محدود نہیں ہے۔ وہ تو ایک دانش کدہ ہے جس میں ہر موضوع پر بات کی گئی ہے۔
‏۔ممتاز مفتی (تلاش)
 

سیما علی

لائبریرین
اسرائیل کے خلاف ہماری پالیسی عربوں کی خیر سگالی حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسلام اور فقط اسلام کے ناطے سے ہے۔ یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے کے لیے اس پالیسی میں کسی قسم کی لچک یا کمزوری کو جگہ دینا لاریب اسلام کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔
‏۔ قدرت اللہ شہاب
‏(شہاب نامہ)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
انسان، انسان کے ساتھ مل کر رہے تو ملا رہتا ہے، خوش رہتا ہے لیکن کبھی کبھار ایسی کیفیات بھی آجاتی ہیں کہ سب کے ساتھ رہتا سہتا، سب کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا وہ تنہا رہ جاتا ہے۔ بات کسی سے کرتا ہے دھیان کسی طرف رہتا ہے۔ بیٹھا کہیں ہوتا ہے دھیان کہیں رہتا ہے۔ سامنے کوئی ہوتا ہے اور ذہن کے پردے پر تصویر کسی اور کی ابھرتی ہے۔ یہ تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔
پھر جب انسان کسی ایسے سے بچھڑ رہا ہوں جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے خواب سے زیادہ حسین، سپنوں سے زیادہ سہانے رہے ہیں اور جس کی بات بات پہ دل کے تاروں میں جلترنگ بجتا رہا ہو تو یہ بچھڑنا قیامت کا بچھڑنا ہوتا ہے۔ تب بیتے ہوئے سارے لمحے، گزری ہوئی ساری باتیں، کہے ہوئے سارے بول آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں، نمی کا غبار بن کر آنکھوں میں اتر آتے ہیں۔ انسان بھری محفل میں تنہا رہ جاتا ہے۔ سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اکیلا رہ جاتا ہے۔
اکیلے پن کا یہ دکھ بڑا اذیت ناک ہوتا ہے۔ انسان کو کچھ دیکھنے دیتا ہے نہ سوچنے دیتا ہے۔ بس اندر ہی اندر چاٹتا رہتا ہے۔ موسم کی آنکھ مچولیاں ہوں یا پھولوں اور کلیوں کی مسکراہٹیں،خزاؤں کے رنگ ہوں یا بہار کی شوخیاں، برسات کی پن پن ہو یا دمکتے سورج کی لش لش، اس کی آنکھوں میں اتری نمی کا غبار اسے رنگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ بس وہ اپنے اندر قید ہو جاتا ہے اور اس کی ذات کے قفل کی چابی بچھڑنے والا اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
( کرنل اشفاق حسین کی کتاب " جنٹل مین الحمد للہ" سے اقتباس)
 
Top