اقتباسات مختلف کتابوں سے اقتباسات

شمشاد

لائبریرین
انسان کے دل میں ایک شہر ہوتا ہے۔ اس کی گلیاں اور بازار ہوتے ہیں، جہاں یادوں اور مُرادوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ اس کی دکانوں میں ہزاروں طرح کی تمنائیں بکتی ہیں، خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اس کے کارخانوں میں محنت سانس لیتی ہے۔ اور اس کے باغوں میں کبھی کبھی چاند چمکتا ہے۔ اور پھول مہکتے ہیں اور آہستہ خرام جوڑے ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے خاموش نگاہوں سے محبت کا پیام دیتے ہیں۔

دل کا شہر بھی انسان کے شہر کی طرح بستا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کام کرتا ہے۔ ہنستا ہے اور روتا ہے۔ کبھی کبھی ایسے دن آتے ہیں جب ہر لمحہ عید ہوتا ہے۔ ہر یاد اک نیا جوڑا پہن کر نکلتی ہے۔ ہر تمنا بنی سنوری ہتھلیوں میں حِنا کی منقش تصویریں سجائے، ہر اُمنگ ننھے ننھے بچوں کی طرح خوشی سے ہنستی ہوئی، کلکاریاں مارتی ہوئی ہر آرزو جوان اور بلند مستقبل کی خوشبو سے مہکتی ہوئی دل کی گلیوں اور بازاروں میں نکل آتی ہے۔ اور خوشیوں کے میلے میں اور مسرتوں کے اژدہام میں کھو جاتی ہے۔

مگر آج اس شہر میں کیسا سناٹا ہے؟ آج دل کی پُر پیچ گلیوں اور بازاروں اور سڑکوں پر اندھیرا ہے۔ آج کہیں پر روشنی نہیں ہے۔ آج کوئی مراد نہیں چلتی، کوئی آرزو نہیں بکتی، کوئی اُمنگ نہیں ہنستی۔ آج سارے دریچے بند ہیں اور سارے دروازے مقفل ہیں اور سارے بازار خالی ہیں۔ صرف کہیں کہیں نکڑ پر چند بوڑھی یادیں گزرے ہوئے ایام کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے ایک دوسرے سے سرگوشی کر رہی ہیں۔

آج سارا شہر خالی ہے۔ آج سڑکوں پر روشنی نہیں۔ باغوں میں چاند نہیں، پیڑوں میں پھول نہیں۔ آج وہ بینچ بھی خالی ہے جہاں ہم یادوں کی محفل سجایا کرتے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج کے بعد یہ بینچ ہمیشہ خالی رہے گا۔

انسان کا دل بھی ایک عجیب شے ہے۔ وہ کسی یاد کو تو ایک خوشبو میں بدل دیتا ہے۔ جو زندگی بھر ایک ہی چوکٹھے میں جڑی، ایک ہی دیوار پر ٹنگی ایک ہی زاویے سے دکھائی دیتی چلی جاتی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج کے بعد میں اس باغ میں کبھی نہیں جا پاؤں گا۔ جہاں میں اپنے محبوب کے ساتھ خیالوں میں گھومنے جایا کرتا تھا۔ اس خیالی بینچ پر کبھی نہ بیٹھ پاؤں گا جہاں میرے ہاتھ خود بخود محبوب کے ہاتھوں میں آ جاتے تھے۔

نہیں، وہ خیالی بینچ آج کے بعد ہمیشہ خالی رہے گا۔

(باون پتے از کرشن چندر)
 

شمشاد

لائبریرین
شفا کا معاملہ سراسر شفا دینے والی ذات سے متعلق ہے۔ وہ ذات پاک جسے چاہے شافی بنا دے۔ یہ انسان کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ جب وہ انتہائی مہلک زہر میں زندگی اور انتہائی صحت بخش غذا میں موت رکھ سکتا ہے تو پھر اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کے بارے میں سوال اٹھانا نادانی اور بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ (ابن شیطان از ملک صفدر حیات، ریٹائرڈ ڈی ایس پی)
 

شمشاد

لائبریرین
"آپ پاکستانی ہو کر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہیں؟" اس نے میری جواب طلبی کی۔

میں نے معذرت کی کہ مجھے عربی نہیں آتی۔ اس لئے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑی۔

"آپ کی زبان کیا ہے؟" افسر نے پوچھا۔

"اردو" میں نے جواب دیا۔

"پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ ہے؟" افسر نے طنزیہ پوچھا۔

میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں یہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے۔
"شہاب نامہ - قدرت اللہ شہابؔ
 

سیما علی

لائبریرین
"لڑکیاں سوانگ رچنے کی بے حد شوقین ہوتیں ہیں۔ بچپن میں وہ پلنگ کھڑے کر کے ان کے پلنگ پوش کے پردے لگا کر گھر گھر کھیلتی ہیں۔ گھروندا سجا کر تصور کرتی ہیں یہ سچ مچ کا مکان ہے- ہنڈکلیا ان کے نزدیک بڑا اہم دعوتی کھانا ہوتا ہے۔ گڑیاں گڈے ان کے لئے جاندار انسان ہیں۔ جب ذرا بڑی ہوتی ہیں تو اپنا بناوء سِنگھار کر کے کس قدر مسرور ہوتی ہیں۔ باہر جانے سے پہلے گھنٹہ بھر آئینے کے سامنے صرف کریں گی۔ جوتوں اور کپڑوں کا انتخاب ان کے لئے آفاقی اہمیت کا حامل ہے۔ سجنا بہروپ بھرنا ان کے لئے بے حد ضروری ہے۔ رادھا اور کرشن کا ناچ ناچتی ہیں تو تصور کرتی ہیں کہ واقعی ورندابن میں موجود ہیں۔ ساری عمر ان کی اپنی ایک نازک سی دنیا بسانے میں گزرتی ہے اور یہ دنیا بسا کر وہ بڑے اطمینان سے اس میں اپنے آپ کو پجارن یا کنیز کا درجہ تفویض کر دیتی ہیں۔ اوّل دن سے ان کے بہت چھوٹے بڑے دیوتا ہوتے ہیں جو ان کی رنگ بھوم کے سنگھاسن پر آرام سے آلتی پالتی مارے بیٹھے رہتے ہیں۔ باپ، بھائی، شوہر، خدا، بھگوان، کرشن، بیٹے، پرستش ان کے مقدر میں لکھا ہے۔ جب رنگ بھوم کا ڈائریکٹر ان سے کہتا ہے کہ تم مہارانی ہو، دل کی ملکہ ہو، دنیا کی حسین ترین لڑکی ہو، روپ وتی ہو تو یہ بی چاریاں بہت خوش ہوتی ہیں۔"

قرۃالعین حیدر کی کتاب “آگ کا دریا” سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پر جھگڑ رہی تھی۔ اوپر باورچی خانے میں دال چاول ابالنے کے لیے چڑھا دیئے تھے۔ ملازم سودا لینے کے لیے بازار جا چکا تھا۔ غسل خانے میں وقار صاحب چینی کی چمچی کے اوپر لگے ہوئے مدھم آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہوئے گنگنا رہے تھے اور شیو کرتے جاتے تھے۔ میں سبزی والے سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے میں مصروف تھی کہ رات کے کھانے کے لیے کیا کیا تیار کیا جائے۔ اتنے میں سامنے ایک کار آن کر رکی۔ ایک لڑکی نے کھڑکی سے جھانکا اور پھر دروازہ کھول کر باہر اترآئی۔ میں پیسے گن رہی تھی۔ اس لیے میں نے اسے نہ دیکھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی۔ اب میں نے سر اٹھاکر اس پر نظر ڈالی۔

’’ارے۔۔۔ تم۔۔۔‘‘ اس نے ہکا بکا ہوکر کہا اور وہیں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے وہ مدتوں سے مجھے مردہ تصور کرچکی ہے، اور اب میرا بھوت اس کے سامنے کھڑا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک لحظہ کے لیے جو دہشت میں نے دیکھی اس کی یاد نے مجھے باولا کردیا ہے۔ میں تو سوچ سوچ کے دیوانی ہوجاؤں گی۔

یہ لڑکی (اس کا نام ذہن میں محفوظ نہیں، اور اس وقت میں نے جھینپ کے مارے اس سے پوچھا بھی نہیں، ورنہ وہ کتنا برا مانتی) میرے ساتھ دلی کے کوئین میری میں پڑھتی تھی۔ یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت کوئی سترہ سال کی رہی ہوں گی۔ مگر میری صحت اتنی اچھی تھی کہ اپنی عمر سے کہیں بڑی معلوم ہوتی تھی، اور میری خوب صورتی کی دھوم مچنی شروع ہوچکی تھی۔ دلّی میں قاعدہ تھا کہ لڑکے والیاں اسکول اسکول گھوم کے لڑکیاں پسند کرتی پھرتی تھیں، اور جو لڑکی پسند آتی تھی اس کے گھر رقعہ بھجوادیا جاتا تھا۔

قرۃالعین حیدر
پت جھڑ کی آواز سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
آنندی ایک بڑے اونچےخاندان کی لڑکی تھی۔ اس کے باپ ایک چھوٹی سی ریاست کے تعلقہ دار تھے۔ عالیشان محل، ایک ہاتھی، تین گھوڑے۔ پانچ وردی پوش سپاہی۔ فٹن ،بہلیاں، شکاری کتے، باز، بحری، شکرے، جرے، فرش فروش شیشہ آلات، آنریری مجسٹریٹی اور قرض جو ایک معزز تعلقہ دار کے لوازم ہیں۔ وہ ان سے بہرہ ور تھے۔ بھوپ سنگھ نام تھا۔ فراخدل، حوصلہ مند آدمی تھے، مگر قسمت کی خوبی لڑکا ایک بھی نہ تھا۔ سات لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوئیں اور ساتوں زندہ رہیں۔ اپنے برابریا زیادہ اونچے خاندان میں ان کی شادی کرنا اپنی ریاست کو مٹی میں ملانا تھا۔ پہلے جوش میں تو انھوں نے تین شادیاں دل کھول کر کیں۔ مگر جب پندرہ بیس ہزار کے مقروض ہوگئے تو آنکھیں کھلیں۔ ہاتھ پیر پیٹ لئے۔آنندی چوتھی لڑکی تھی۔ مگر اپنی سب بہنوں سے زیادہ حسین اور نیک اسی وجہ سے ٹھاکر بھوپ سنگھ اسے بہت پیار کرتے تھے۔ حسین بچے کو شاید اس کے ماں باپ بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ٹھاکر صاحب بڑے پس و پیش میں تھے کہ اس کی شادی کہاں کریں۔ نہ تو یہی چاہتے تھے کہ قرض کا بوجھ بڑھے اور نہ یہی منظور تھا کہ اسے اپنے آپ کو بد قسمت سمجھنے کا موقع ملے۔ ایک روز سری کنٹھ ان کے پاس کسی چندے کے لئے روپیہ مانگنے آئے۔ شاید ناگری پرچار کا چندہ تھا۔ بھوپ سنگھ ان کے طور و طریق پر ریجھ گئے کھینچ تان کر زائچے ملائے گئے۔ اور شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔

آنندی دیوی اپنے نئے گھر میں آئیں تو یہاں کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی دیکھا۔ جن دلچسپیوں اور تفریحوں کی وہ بچپن سے عادی تھی ان کا یہاں وجود بھی نہ تھا۔ ہاتھی گھوڑوں کا تو ذکر کیا کوئی سجی ہوئی خوبصورت بہلی بھی نہ تھی۔ ریشمی سلیپر ساتھ لائی تھی مگر یہاں باغ کہاں مکان میں کھڑکیاں تک نہ تھیں۔ نہ زمین پر فرش نہ دیواروں پر تصویریں یہ ایک سیدھا سادا دہقانی مکان تھا۔مگرآنندی نے تھوڑے ہی دنوں میں ان تبدیلیوں سے اپنے تئیں اس قدر مانوس بنالیا۔ گویا اس نے تکلفات کبھی دیکھے ہی نہیں۔

ایک روز دوپہر کے وقت لال بہاری سنگھ دو مرغابیاں لئے ہوئے آئے۔ اور بھاوج سے کہا۔ جلدی سے گوشت پکا دو۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ آنندی کھانا پکا کر ان کی منتظر بیٹھی تھی۔ گوشت پکانے بیٹھی مگر ہانڈی میں دیکھا تو گھی پاؤ بھرسے زیادہ نہ تھا۔ بڑے گھر کی بیٹی۔ کفایت شعاری کا سبق ابھی اچھی طرح نہ پڑھی تھی۔ اس نے سب گھی گوشت میں ڈال دیا۔ لال بہاری سنگھ کھانے بیٹھے تو دال میں گھی نہ تھا۔ ’’دال میں گھی کیوں نہیں چھوڑا؟‘‘

آنندی نے کہا، ’’گھی سب گوشت میں پڑ گیا۔‘‘

لال بہاری، ’’ابھی پرسوں گھی آیا ہے۔ اس قدر جلد اٹھ گیا۔‘‘

آنندی، ’’آج تو کل پاؤ بھر تھا۔ وہ میں نے گوشت میں ڈال دیا۔‘‘
منشی پریم چند کے افسانے
بڑے گھر کی بیٹی سے اقتباس
 

شمشاد

لائبریرین
"یوں تو خدا ہر ہندوستانی کو غلام ہی رکھے کیونکہ اس کا افسر ہونا اس کے ہم قوم ماتحتوں کے لیے قیامت سے کم نہیں۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ پچاس روپلی کا ہندوستانی ملازم بھی خود کو افسر سمجھتا ہے۔ لیکن خصوصیت سے خدا مسلمانوں کو مسلمانوں کا افسر تو کبھی نہ بنائے کیونکہ خیر سے ہندوستانی مسلمان کا دماغ افلاطون کے دماغ سے کسی طرح کم نہیں ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہندوستانی افسر صاحب بیمار ہو گئے یا حرارت ہی ہوگئی تو بس آپ کی بیمار داری کے لیے تمام عملۂ ماتحت کو ہڑتال کرنا پڑتی ہے۔ جس ماتحت کو دیکھیے آپ کے دولت کدہ پر خیریت دریافت کرنے حاضر ہے، اور اگر کوئی خدا کو رازق سمجھنے والا حضور کے دولت کدہ پر حاضر نہ ہوا تو سمجھ لو کہ افسر صاحب کی نظر میں اس کے برابر گستاخ، نمک حرام، کام چور اور نااہل کوئی دوسرا نہیں۔۔۔"

(ملّا رموزی کے مجموعۂ ہفتم 'شفا خانہ' میں شامل مضمون 'بخار' سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کے ساری عمر کے سجدوں میں اتنی طاقت نہیں جتنی غریب اور مظلوم کی ایک آہ میں ہوتی ہے۔
دولت کی چمک سے آپ خدا کی آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ خدا گناہگاروں کی نمازوں کے دھوکے میں نہیں آیا کرتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہم تب خدا سے رجوع کرتے ہیں جب دنیا ہمیں رد کر چکی ہوتی ہے۔۔ تمام دروازوں سے دھتکارے جانے کے بعد ہم خدا کے در پر دستک دیتے ہیں۔۔۔ ہماری اولین ترجیح ہمیشہ دنیا ہوتی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے خدا کو غلط سمجھا شاید ہم سب ہی خدا کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کی طاقت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں، ہمیں خدا پر صرف اسوقت پیار آتا ہے جب وہ ہمیں مالی طور پر آسودہ کر دے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہم اسے طاقتور ہی نہیں سمجھتے
عمیرہ احمد کے ناول “زندگی گلزار ہے” سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
ممتاز مفتی سے انٹرویو کے دوران پوچھا گیا ایک سوال
سوال: “یہ الله کیا ہے ؟”
جواب: ” الله الله ہے- لیکن ہے بلکل بچہ-
آپ کفر کریں شرک کریں، زنا کریں جو جی چاہے کریں ، جب تھک جائیں تو سر پر ٹوپی رکھ کر آنکھوں میں دو آنسو سجا کر اس کے پاس چلے جائیں وہ فورا خوش ہو جائے گا، وہ فورا مان جائے گا-
میرا اور الله کا تعلق بڑا پرانا ہے-
پہلے میں اسے مولوی کی آنکھ سے دیکھتا تھا، لہٰذا اس سے ڈرتا تھا ، مجھے لگتا تھا الله ایک بھٹیارن ہے جس نے دوزخ کے نام پر بہت بڑی بھٹی جلا رکھی ہے، بھٹی پر دانے بھن رہے ہیں-
لوگ بھٹی کے قریب آتے ہیں اور الله انھیں پکڑ پکڑ کر بھٹی میں جھونک دیتا ہے-
پھر میں نے الله کو شہاب کی آنکھ سے دیکھا تو وہ فورا صوفے پر میرے قریب آ کے بیٹھ گیا، اب تک بیٹھا ہے-
میں روز اس سے باتیں کرتا ہوں، وہ مجھے جواب دیتا ہے-
ہم گھنٹوں گپیں لگاتے ہیں-
جوک شیر کرتے ہیں- ہنستے ہنساتے ہیں-
میں تھک جاتا ہوں تو اٹھ کر سونے چلا جاتا ہوں، لیکن الله اسی طرح صوفے پر بیٹھا رہتا ہے-
الله میرے ساتھ اس حد تک رہا ہے کہ میں اب اس سے تنگ آگیا ہوں، رج گیا ہوں-
میں نے بھٹیارن الله اور دوست الله دونوں کو بڑے قریب سے دیکھا لیکن مجھے سمجھ دونوں کی نہیں آئی-
اس کے غصے اور اس کی رحمت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی-
معمولی معمولی سی بات پر شاتم کو قتل کر دے تو جنتی، دانشور گستاخی کو اختلاف رائے سمجھ کر فراخ دلی کا مظاہرہ کرے تو وہ بھی جنتی-
لو یہ کیا بات ہوئی، پوچھوں گا میں اس سے-
وہ بہت عجیب ہے-
بلکل عورت کی طرح ، میں جب اسے نہیں مانتا تھا تو سارا سارا دن اس کے خلاف تقریریں کرتا تھا- لوگوں کو اس کے خلاف اکساتا تھا-
وہ مجھ پر بڑا مہربان تھا-
سارا سارا دن میرے پیچھے پھرتا رہتا تھا-
مجھے اپنی اداؤں سے لبھاتا ، اپنے حسن ، خوبصورتی اور اخلاق سے قائل کرنے کی کوشش کرتا تھا-
لیکن جب میں نے اسے مان لیا، میں اس کا پبلک ریلیشن آفیسر بن گیا- پبلسٹی منیجر بن گیا تو وہ آگے آگے چل پڑا-اب وہ میری طرف دیکھتا تک نہیں-
میں نے کئی مرتبہ اس کا پلو پکڑ کر جھٹکا اس کو متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھ پر ایک ترچھی نظر تک نہ ڈالی-
کبھی ملاقات ہوئی تو اس سے ضرور کہوں گا –
” جناب الله صاحب الله اس قسم کے نہیں ہواکرتے ،آپ فورا اپنی پالیسی بدلیں-”
لوگوں میں آپ کی ریپوٹیشن متاثر ہو رہی ہے ”
چلو تمہیں ایک اور کام کی بات بتاتا ہوں-
کبھی زندگی میں زیادہ الله الله نہ کرنا اگر اس نے چھبا ڈال لیا تو پھر کہانی ختم ، دنیا رہنے کے قابل نہیں رہے گی-
درمیانی درجے کی مسلمانی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خوش قسمتی نہیں ہوتی-
از جاوید چودھری،
کتاب: گئے دنوں کے سورج
 

سیما علی

لائبریرین

" ہم سب ایسے ہیں....... جو بات ہمیں سمجھ نہیں آتی ........وہ بات بے بنیاد ہے ، جھوٹ ہے ..... کچھ علم دو اور دو چار نہیں ہوتے ....... ان کو تصوف کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے........!!"

(اشفاق احمد - "حیرت کدہ " سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا_جنگ کے دوران اس شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا_ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے_دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے،دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے_انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا"بیت المال کس طرف ہے؟" آزاد کشمیر میں خزانے کو بیت المال ہی کہا جاتا ہے۔

میں نے پوچھا_بیت المال میں تمہارا کیا کام؟

بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں،اب انہیں اس "کھوتی" پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں۔

ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تا کہ انہیں بیت المال لے جائیں-

آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا۔ مجھے تو چاہیئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں۔

قدرت اللہ شہاب کی تصنیف "شہاب نامہ" سے ایک اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
اپریل کا مہینہ تھا۔ بادام کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئی تھیں اور ہوا میں برفیلی خنکی کے باوجود بہار کی لطافت آ گئی تھی۔ بلند و بالا تنگوں کے نیچے مخملیں دوب پر کہیں کہیں برف کے ٹکڑے سپید پھولوں کی طرح کھلے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اگلے ماہ تک یہ سپید پھول اسی دوب میں جذب ہو جائیں گے اور دوب کا رنگ گہرا سبز ہو جائے گا اور بادام کی شاخوں پر ہرے ہرے بادام پکھراج کے نگینوں کی طرح جھلملائیں گے اور نیلگوں پہاڑوں کے چہروں سے کہرا دور ہوتا جائے گا اور اس جھیل کے پل کے پار پگڈنڈی کی خاک ملائم بھیڑوں کی جانی پہچانی با آ آ سے جھنجھنا اٹھے گی۔ اور پھر ان بلند و بالا تنگوں کے نیچے چرواہے بھیڑوں کے جسموں سے سردیوں کی پلی ہوئی موٹی موٹی گف اون گرمیوں میں کترتے جائیں گے اور گیت گاتے جائیں گے۔

لیکن ابھی اپریل کا مہینہ تھا۔ ابھی تنگوں پر پتیاں نہ پھوٹی تھیں۔ ابھی پہاڑوں پر برف کا کہرا تھا۔ ابھی پگڈنڈی کا سینہ بھیڑوں کی آواز سے گونجا نہ تھا۔ ابھی سمل کی جھیل پر کنول کے چراغ روشن نہ ہوئے تھے۔ جھیل کا گہرا سبز پانی اپنے سینے کے اندر ان لاکھوں روپوں کو چھپائے بیٹھا تھا جو بہار کی آمد پر یکایک اس کی سطح پر ایک معصوم اور بے لوث ہنسی کی طرح کھل جائیں گے۔ پل کے کنارے کنارے بادام کے پیڑوں کی شاخوں پر شگوفے چمکنے لگے تھے۔ اپریل میں زمستان کی آخری شب میں جب بادام کے پھول جاگتے ہیں اور بہار کے نقیب بن کر جھیل کے پانی میں اپنی کشتیاں تیراتے ہیں۔ پھولوں کے ننھے ننھے شکارے سطح آب پر رقصاں و لرزاں بہار کی آمد کے منتظر ہیں۔

پل کے جنگلے کا سہارا لے کر میں ایک عرصہ سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ سہ پہر ختم ہو گئی۔ شام آ گئی، جھیل ولر کو جانے والے ہاؤس بوٹ، پل کی سنگلاخی محرابوں کے بیچ میں سے گزر گئے اور اب وہ افق کی لکیر پر کاغذ کی ناؤ کی طرح کمزور اور بے بس نظر آرہے تھے۔ شام کا قرمزی رنگ آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک پھیلتا گیا اور قرمزی سے سرمئی اور سرمئی سے سیاہ ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ بادام کے پیڑوں کی قطار کی اوٹ میں پگڈنڈی بھی سو گئی اور پھر رات کے سناٹے میں پہلا تارا کسی مسافر کے گیت کی طرح چمک اٹھا۔ ہوا کی خنکی تیز تر ہوتی گئی اور نتھنے اس کے برفیلے لمس سے سن ہو گئے۔

اور پھر چاند نکل آیا۔

اور پھر وہ آ گئی۔

تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی، بلکہ پگڈنڈی کے ڈھلان پر دوڑتی ہوئی، وہ بالکل میرے قریب آ کے رک گئی۔ اس نے آہستہ سے کہا، ’’ہائے!‘‘

اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی، پھر رک جاتی، پھر تیزی سے چلنے لگتی۔ اس نے میرے شانے کو اپنی انگلیوں سے چھوا اور پھر اپنا سر وہاں رکھ دیا اور اس کے گہرے سیاہ بالوں کا پریشان گھنا جنگل دور تک میری روح کے اندر پھیلتا چلا گیا اور میں نے اس سے کہا، ’’سہ پہر سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

اس نے ہنس کر کہا، ’’اب رات ہو گئی ہے، بڑی اچھی رات ہے۔‘‘ اس نے اپنا کمزور ننھا چھوٹا سا ہاتھ میرے دوسرے شانے پر رکھ دیا اور جیسے بادام کے پھولوں سے بھری شاخ جھک کر میرے کندھے پر سو گئی۔

دیر تک وہ خاموش رہی۔ دیر تک میں خاموش رہا۔ پھر وہ آپ ہی آپ ہنسی، بولی، ’’ابا میرے پگڈنڈی کے موڑ تک میرے ساتھ آئے تھے، کیوں کہ میں نے کہا، مجھے ڈر لگتا ہے۔ آج مجھے اپنی سہیلی رجو کے گھر سونا ہے، سونا نہیں جاگنا ہے۔ کیونکہ بادام کے پہلے شگوفوں کی خوشی میں ہم سب سہیلیاں رات بھر جاگیں گی اور گیت گائیں گی اور میں تو سہ پہر سے تیاری کر رہی تھی، ادھر آنے کی۔ لیکن دھان صاف کرنا تھا اور کپڑوں کا یہ جوڑا جو کل دھویا تھا آج سوکھا نہ تھا۔ اسے آگ پر سکھایا اور اماں جنگل سے لکڑیاں چننے گئی تھیں وہ ابھی آئی نہ تھیں اور جب تک وہ نہ آتیں میں مکی کے بھٹے اور خشک خوبانیاں اور جر دالو تمہارے لئے کیسے لا سکتی ہوں۔ دیکھو یہ سب کچھ لائی ہوں تمہارے لئے۔ ہائے تم سچ مچ خفا کھڑے ہو۔ میری طرف دیکھو میں آ گئی ہوں۔ آج پورے چاند کی رات ہے۔ آؤ کنارے لگی ہوئی کشتی کھولیں اور جھیل کی سیر کریں۔‘‘

اس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور میں نے اس کی محبت اور حیرت میں گم پتلیوں کو دیکھا، جن میں اس وقت چاند چمک رہا تھا اور یہ چاند مجھ سے کہہ رہا تھا، جاؤ کشتی کھول کے جھیل کے پانی پر سیر کرو۔ آج بادام کے پیلے شگوفوں کا مسرت بھرا تیوہار ہے۔ آج اس نے تمہارے لئے اپنی سہیلیوں اپنے ابا، اپنی ننھی بہن اور اپنے بڑے بھائی سب کو فریب میں رکھا ہے، کیونکہ آج پورے چاند کی رات ہے اور بادام کے سپید خشک شگوفے برف کے گالوں کی طرح چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور کشمیر کے گیت اس کی چھاتیوں میں بچے کے دودھ کی طرح امڈ آئے ہیں۔ اس کی گردن میں تم نے موتیوں کی یہ ست لڑی دیکھی۔ یہ سرخ ست لڑی اس کے گلے میں ڈال دی اور اس سے کہا، ’’تو آج رات بھر جاگے گی۔ آج کشمیر کی بہار کی پہلی رات ہے۔ آج تیرے گلے میں کشمیر کے گیت یوں کھلیں گے، جیسے چاندنی رات میں زعفران کے پھول کھلتے ہیں۔ یہ سرخ ست لڑی پہن لے۔‘‘

چاند نے یہ سب کچھ اس کی حیران پتلیوں سے جھانک کے دیکھا پھر یکایک کہیں کسی پیڑ پر ایک بلبل نغمہ سرا ہو اٹھی اور کشتیوں میں چراغ جھلملانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے چاند کی رات
کرشن چندر
 

سیما علی

لائبریرین
سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ہوئے مجھے ہمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آ جاتی ہیں، وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں۔ مثلاً میں پوچھتا ہوں کہ "خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانے کیلئے کیا پکا رہی ہیں؟"۔ تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ "میں جو گھر سے نکلی ہوں تو راستے میں فاطمہ جولاہی مل گئی، اس کا بیٹا دوبئی میں ہے۔ اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ہے، فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے"۔ خالہ جان نہایت تفصیل سے ہر کپڑے اور ہر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے گئے تھے، ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزار ہو کر کہتا کہ "خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رہی ہیں؟"۔ تو وہ سخت خفا ہو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ہے، بات سننے کا حوصلہ نہیں، میں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹینڈے پکائے ہیں"۔ ویسے خالہ جان ان سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں، جو دل میں ہوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگر چہ قدرے "تفصیل" سے کرتی تھیں۔

(مستنصر حسین تارڑ:"مختصر بات اور باتوں کے خربوزے" سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشق حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اسکی شاخ ہے۔جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔۔۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔ (اشفاق احمد کی کتاب زاویہ سوئم، باب :محبت کی حقیقت سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
"سائیکل آف رپلیسمینٹ"میں صرف محبت کی "رپلیسمینٹ" نہیں ہوتی۔خود کو فریب دینے کے باوجودہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ھے۔ہم کبھی بھی اسے دل سے نکال کر باہر نہیں پھینک نہیں سکتے۔تہہ در تہہ اسکے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اب اس سے محبت کرتے ہیں۔اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے۔وہی زیادہ قریب آجاتا ہے۔

اقتباس"امربیل" از "عمیرہ احمد
 
Top