سولھویں سالگرہ محمد وارث صاحب سے علمی و ادبی مکالمہ

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
چلیں ہم عنوان میں تبدیلی کر دیتے ہیں اور یہ لڑی قبلہ محترم سے سوالات و جوابات کے لیے مخصوص کر دیتے ہیں ۔
میرے خیال میں تو الگ سے دھاگہ بنا لیا جائے تو زیادہ بہتر ویسے آپ صاحبِ دھاگہ ہیں جدھر کو چاہیں پتنگ تو مڑ جائے گی :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میرا سوال محترم محمّد احسن سمیع :راحل: اور محترم سید عاطف علی سے ہے کہ کیا شاعری محض فنی جمالیات کا نام ہے یا اس کی اصل اس کا مضمون ہے؟
کیونکہ ہم فنی اعتبارات سے میر و غالب کو یقیناً شاعری کی معراج کہہ سکتے ہیں لیکن جس طرح کردار سازی کا کام علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری نے کیا اردو میں ایسی مثال نہیں ملتی
چونکہ یہ لڑی اب محمد وارث صاحب سے سوالات کے لیے مخصوص کر دی گئی ہے تو اس سوال کو بھی ہم وارث بھائی کی طرف منتقل کر دیتے ہیں
جی وارث بھائی آپ کیا فرماتے ہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
چلیں ہم عنوان میں تبدیلی کر دیتے ہیں اور یہ لڑی قبلہ محترم سے سوالات و جوابات کے لیے مخصوص کر دیتے ہیں ۔
یہ ویسے آپ نے زیادتی کر دی میرے ساتھ۔ عنوان بدلنا ہی تھا تو اسے صرف "مکالمہ" رہنے دیتے میرا بھی کچھ بھرم رہ جاتا۔ اسے "علمی و دابی مکالمہ" کر کے آپ نے مجھے کانٹوں میں گھسیٹ لیا ہے، اللہ اللہ۔ :)
 
عنوان بدلنا ہی تھا تو اسے صرف "مکالمہ" رہنے دیتے میرا بھی کچھ بھرم رہ جاتا۔ اسے "علمی و دابی مکالمہ" کر کے آپ نے مجھے کانٹوں میں گھسیٹ لیا ہے
پھر ذاتی نوعیت کے سوالات کے ساتھ عمومی انٹرویو بن سکتا تھا۔
ویسے آپ کی عام باتیں بھی ہمارے جیسوں کے لیے علمی و ادبی ہی ہوتی ہیں۔ :)
 

علی وقار

محفلین
سوالات کا سلسلہ چل نکلا ہے تو شاید میرا سوال بھی اس قابل ہو کہ وارث بھائی نظر عنایت فرمائیں۔

اردو ادب، بالخصوص، اردو شاعری سے شغف رکھنے والے بعض اوقات بلا ارادہ، بسا اوقات محض فیشن یا زمانے کے چلن کے طور پر ہی، غالب کی شاعری پڑھنے کی طرف مائل ہو جاتے تھے، اور ہیں، اور شاعری تو غالب کی ایسی ہے کہ اپنے سحر میں انسان کو جکڑ ہی لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی غالب سے شناسائی کیونکر ہوئی؟ کیا نصابی کتب کے ذریعے، یا پھر، اس حوالے سے کوئی واقعہ آپ کو یاد ہو ، یعنی کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس حوالے سے کسی شخصیت نے آپ کو غالب کی شاعرانہ عظمت سے باقاعدہ طور پرروشناس کروایا ہو؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا شاعری محض فنی جمالیات کا نام ہے یا اس کی اصل اس کا مضمون ہے؟
کیونکہ ہم فنی اعتبارات سے میر و غالب کو یقیناً شاعری کی معراج کہہ سکتے ہیں لیکن جس طرح کردار سازی کا کام علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری نے کیا اردو میں ایسی مثال نہیں ملتی
یہ ایک اور پرانی ، گھمبیر اور متنازع بحث ہے، یعنی "ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی" کی بحث۔

دونوں طرف سے اپنے اپنے دلائل ہیں، مثال کے طور پر، لایعنی، فضول، فرضی قصے منظوم کر دینا یا خیالی محبوب کے زلف و رخسار کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے جانا، یا فرضی فراق میں دریا رونا وغیرہ، وہی گھسے پٹے مضامین جسے صدیوں سے ہمارے شعرا باندھتے چلے آ رہے ہیں، وہی گنے چنے موضوعات، اگر کوئی اردو شاعری کی موضوع کے حساب سے تدوین کرے تو وہی کچھ موضوعات ملیں گے جن میں ہجر و فراق و وصال، گل و بلبل، دیدہ و دل، آئینہ و رخسار، زلف و کاکل، چاند ستارے، آفتاب ماہتاب وغیرہ ملیں گے اور بس۔ کیا فائدہ اس جگالی کا جو شاعر صدیوں سے کر رہے ہیں؟ پہلے پہل خواجہ الطاف حسین حالی نے اس طرف شعرا کی توجہ دلائی تھی کہ پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے!

دوسری طرف یہ کہ شاعر صحافی نہیں ہوتا کہ ہر بم دھماکے یا قتل و غارت کے بعد وہ واقعہ منظوم کر کے شور ڈالتا پھرے، یا شاعر و ادیب کوئی مبلغ نہیں ہوتا کہ تبلیغ کرتا پھرے، اگر یہی کچھ کرنا ہے تو شاعری ضرور کرنی ہے؟ سیدھے سادے تبلیغ کیجیے ، صحافت کیجیے، مقرر و خطیب بنیئے، منبر و محراب سنبھالیے، کوئی قدغن نہیں ہے۔

اردو کی تاریخ میں بھی یہ دونوں تحریکیں شد و مد کے ساتھ چلیں، جیسے ترقی پسند تحریک۔ انہوں نے اپنے مقاصد پہلے بنائے، موضوعات چنے اور پھر ا س کے پراپیگنڈے میں جت گئے۔ اسی طرح کوئی منظم "اسلامی تحریک" تو نہیں چلی لیکن شعر و ادب کو "پاک" اور "صالح" بنانے کے لیے آوازیں ضرور اٹھتی رہیں ۔ دوسری طرف حلقہ اربابِ ذوق والے بھی ہیں جو شاعری اور ادب کو صرف اس کے جمالیاتی پہلو پر جانچتے ہیں۔

ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں نکاتِ نظر کے درمیان، اعتدال کا راستہ بہترین ہے۔ شعر و داب کو آپ ذوق و شوق، جمالیات و حسیات اور تخیلات سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ شعر کو پسند کرنے والوں کو اچھا شعر لطف ضرور دیتا ہے، وہ اس سے حظ ضرور اٹھاتے ہیں چاہے اس میں کوئی پیغام، کوئی مقصد ہو یا نہ ہو۔ شعر و ادب کو آپ صرف ایک مقصد یا پراپیگنڈے کے لیے مخصوص نہیں کر سکتے اور حالی کی بات جتنی سو ڈیڑھ سو سال پہلے درست تھی اتنی اب بھی درست ہے کہ لایعنی شعروں کے ردے پر ردے چڑھانے کا کیا فائدہ؟

جہاں تک اقبال کی بات ہے، تو میرے نزدیک اقبال کا پیغام اپنی جگہ، جس سے کسی کو انکار نہیں۔ اقبال ذوق لطیف کے مالک تھے اور گو خود کو فلسفی ہی کہتے رہے لیکن شاعر انتہائی عمدہ تھے اور ان کی شاعرانہ حیثیت مسلم ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
سوالات کا سلسلہ چل نکلا ہے تو شاید میرا سوال بھی اس قابل ہو کہ وارث بھائی نظر عنایت فرمائیں۔

اردو ادب، بالخصوص، اردو شاعری سے شغف رکھنے والے بعض اوقات بلا ارادہ، بسا اوقات محض فیشن یا زمانے کے چلن کے طور پر ہی، غالب کی شاعری پڑھنے کی طرف مائل ہو جاتے تھے، اور ہیں، اور شاعری تو غالب کی ایسی ہے کہ اپنے سحر میں انسان کو جکڑ ہی لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی غالب سے شناسائی کیونکر ہوئی؟ کیا نصابی کتب کے ذریعے، یا پھر، اس حوالے سے کوئی واقعہ آپ کو یاد ہو ، یعنی کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس حوالے سے کسی شخصیت نے آپ کو غالب کی شاعرانہ عظمت سے باقاعدہ طور پرروشناس کروایا ہو؟
غالب پچھلے سو ڈیڑھ سو سال سے "فیشن" میں ہے۔ غالب کی حد سے زیادہ تعریف کرنا اور حد سے زیادہ تنقیص کرنا یا غالب کے مقابلے میں میر کو آگے بڑھانا، دونوں ہی فیشن میں رہے ہیں۔

مثال کے طور پر پچھلی صدی کے اوائل میں سارا لکھنؤ، غالب کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ اہلیانِ لکھنؤ اس کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے جو غالب کے رنگ میں نہیں کہتا تھا۔ یاس یگانہ چنگیزی نے تھوڑی سی ہمت دکھائی سارا لکھنؤ ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گیا۔ یگانہ کے ساتھ وہ ہوا کہ رہے نام اللہ کا۔ پھر ایک وقت آیا کہ شعرا اور نقاد غالب کے نام پر ٹھٹے مارنے لگے، میر کو اتنا بڑھایا کہ کہہ دیا کہ ہر اچھا شعر میر ہی کا ہے۔ وغیرہ۔

کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ غالب کی اپنی زندگی میں تو کوئی قدر نہ ہوئی لیکن بعد میں بھی وہ کبھی اوجِ کمال پر ہوتے ہیں تو کبھی پاتال میں۔ ذاتی حوالے سے یہ کہ فرسٹ ایئر (1989ء) میں نے اسلامیہ کالج سیالکوٹ کی لائبریری دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا اور پھر وہیں کا ہو گیا۔ نصابی غزلوں سے تو خیر غالب کا تعارف نہم دہم سے ہی ہو گیا تھا سو ان دنوں میں میرے ہاتھ لائبریری سے مولانا غلام رسول مہر کی غالب کی شرح "نوائے سروش" لگ گئی، اس کو پڑھا، غالب کچھ کچھ سمجھ میں آیا سو غالب کا دیوانہ ہو گیا۔ باقی شعرا کو میں نے بعد میں پڑھا، سو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ غالب چونکہ میری "پہلی محبت" تھی شاید اسی وجہ سے ابھی تک میں اسی کا قتیل ہوں۔ :)
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ان کو" خدائے سخن" کا خطاب ایسے ہی نہیں ملا، اور بقولِ جون ایلیا ، "اردو غزل کا ہر اچھا شعر میر کا شعر ہے، چاہے اسے کسی نے بھی کہا ہو"۔ :)

سر آپ کی حاضر جوابی کی مثال نہیں۔
ویسے تو میں علامہ اقبال کی مرشد ہُوں۔مگر غالب کی بھی کافی حد تک شیدائی ہُوں۔اور آج غالب کے متعلق آپ کا نظریہ اور رائے جان کر غالب کی قدر تھوڑی اور بڑھ گئی میری نظر میں:ROFLMAO:
میرے والد بھی غالب کے گرویدہ ہیں اُن کا کہنا ہے کہ جو غالب کو پسند نہیں کرتے وہ احمق ہیں۔ اور یہ بات میں علامہ اقبال کے لئے کہتی ہُوں۔
 

علی وقار

محفلین
غالب پچھلے سو ڈیڑھ سو سال سے "فیشن" میں ہے۔ غالب کی حد سے زیادہ تعریف کرنا اور حد سے زیادہ تنقیص کرنا یا غالب کے مقابلے میں میر کو آگے بڑھانا، دونوں ہی فیشن میں رہے ہیں۔

مثال کے طور پر پچھلی صدی کے اوائل میں سارا لکھنؤ، غالب کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ اہلیانِ لکھنؤ اس کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے جو غالب کے رنگ میں نہیں کہتا تھا۔ یاس یگانہ چنگیزی نے تھوڑی سی ہمت دکھائی سارا لکھنؤ ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گیا۔ یگانہ کے ساتھ وہ ہوا کہ رہے نام اللہ کا۔ پھر ایک وقت آیا کہ شعرا اور نقاد غالب کے نام پر ٹھٹے مارنے لگے، میر کو اتنا بڑھایا کہ کہہ دیا کہ ہر اچھا شعر میر ہی کا ہے۔ وغیرہ۔

کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ غالب کی اپنی زندگی میں تو کوئی قدر نہ ہوئی لیکن بعد میں بھی وہ کبھی اوجِ کمال پر ہوتے ہیں تو کبھی پاتال میں۔ ذاتی حوالے سے یہ کہ فرسٹ ایئر (1989ء) میں نے اسلامیہ کالج سیالکوٹ کی لائبریری دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا اور پھر وہیں کا ہو گیا۔ نصابی غزلوں سے تو خیر غالب کا تعارف نہم دہم سے ہی ہو گیا تھا سو ان دنوں میں میرے ہاتھ لائبریری سے مولانا غلام رسول مہر کی غالب کی شرح "نوائے سروش" لگ گئی، اس کو پڑھا، غالب کچھ کچھ سمجھ میں آیا سو غالب کا دیوانہ ہو گیا۔ باقی شعرا کو میں نے بعد میں پڑھا، سو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ غالب چونکہ میری "پہلی محبت" تھی شاید اسی وجہ سے ابھی تک میں اسی کا قتیل ہوں۔ :)
زبردست۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ ایک اور پرانی ، گھمبیر اور متنازع بحث ہے، یعنی "ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی" کی بحث۔

دونوں طرف سے اپنے اپنے دلائل ہیں، مثال کے طور پر، لایعنی، فضول، فرضی قصے منظوم کر دینا یا خیالی محبوب کے زلف و رخسار کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے جانا، یا فرضی فراق میں دریا رونا وغیرہ، وہی گھسے پٹے مضامین جسے صدیوں سے ہمارے شعرا باندھتے چلے آ رہے ہیں، وہی گنے چنے موضوعات، اگر کوئی اردو شاعری کی موضوع کے حساب سے تدوین کرے تو وہی کچھ موضوعات ملیں گے جن میں ہجر و فراق و وصال، گل و بلبل، دیدہ و دل، آئینہ و رخسار، زلف و کاکل، چاند ستارے، آفتاب ماہتاب وغیرہ ملیں گے اور بس۔ کیا فائدہ اس جگالی کا جو شاعر صدیوں سے کر رہے ہیں؟ پہلے پہل خواجہ الطاف حسین حالی نے اس طرف شعرا کی توجہ دلائی تھی کہ پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے!

دوسری طرف یہ کہ شاعر صحافی نہیں ہوتا کہ ہر بم دھماکے یا قتل و غارت کے بعد وہ واقعہ منظوم کر کے شور ڈالتا پھرے، یا شاعر و ادیب کوئی مبلغ نہیں ہوتا کہ تبلیغ کرتا پھرے، اگر یہی کچھ کرنا ہے تو شاعری ضرور کرنی ہے؟ سیدھے سادے تبلیغ کیجیے ، صحافت کیجیے، مقرر و خطیب بنیئے، منبر و محراب سنبھالیے، کوئی قدغن نہیں ہے۔

اردو کی تاریخ میں بھی یہ دونوں تحریکیں شد و مد کے ساتھ چلیں، جیسے ترقی پسند تحریک۔ انہوں نے اپنے مقاصد پہلے بنائے، موضوعات چنے اور پھر ا س کے پراپیگنڈے میں جت گئے۔ اسی طرح کوئی منظم "اسلامی تحریک" تو نہیں چلی لیکن شعر و ادب کو "پاک" اور "صالح" بنانے کے لیے آوازیں ضرور اٹھتی رہیں ۔ دوسری طرف حلقہ اربابِ ذوق والے بھی ہیں جو شاعری اور ادب کو صرف اس کے جمالیاتی پہلو پر جانچتے ہیں۔

ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں نکاتِ نظر کے درمیان، اعتدال کا راستہ بہترین ہے۔ شعر و داب کو آپ ذوق و شوق، جمالیات و حسیات اور تخیلات سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ شعر کو پسند کرنے والوں کو اچھا شعر لطف ضرور دیتا ہے، وہ اس سے حظ ضرور اٹھاتے ہیں چاہے اس میں کوئی پیغام، کوئی مقصد ہو یا نہ ہو۔ شعر و ادب کو آپ صرف ایک مقصد یا پراپیگنڈے کے لیے مخصوص نہیں کر سکتے اور حالی کی بات جتنی سو ڈیڑھ سو سال پہلے درست تھی اتنی اب بھی درست ہے کہ لایعنی شعروں کے ردے پر ردے چڑھانے کا کیا فائدہ؟

جہاں تک اقبال کی بات ہے، تو میرے نزدیک اقبال کا پیغام اپنی جگہ، جس سے کسی کو انکار نہیں۔ اقبال ذوق لطیف کے مالک تھے اور گو خود کو فلسفی ہی کہتے رہے لیکن شاعر انتہائی عمدہ تھے اور ان کی شاعرانہ حیثیت مسلم ہے۔
بہت بہت شکریہ، آپ نے جو نتیجہ اخذ کیا میری بھی حقیر سی سوچ اسی نظریے کی طرف مائل ہے لیکن میں جاننا چاہتا تھا کہ میرا مسلک اساتذہ والا ہے بھی یا نہیں
ویسے ایک مرتبہ میں نے انور مسعود صاحب سے سن رکھا ہے کہ "شعر کو با مقصد ہونا چاہیے لیکن شعر کو وعظ کی صورت بھی اختیار نہیں کر لینی چاہیے"
یعنی وہی بات کہ شعر کی جمالیات بھی باقی رہیں شعر با مقصد بھی ہو تو پھر مزا ہے، نہیں تو جو آپ نے فرمایا یا صرف جگالی بن کے رہ جائے یا پھر وعظ و تبلیغ
 
آخری تدوین:
یہ ویسے آپ نے زیادتی کر دی میرے ساتھ۔ عنوان بدلنا ہی تھا تو اسے صرف "مکالمہ" رہنے دیتے میرا بھی کچھ بھرم رہ جاتا۔ اسے "علمی و دابی مکالمہ" کر کے آپ نے مجھے کانٹوں میں گھسیٹ لیا ہے، اللہ اللہ۔ :)
قبلہ کیوں گناہ گار کر رہے ہیں ،
ہم نے تو بانی محفل اور منتظم صاحب کے مشورے پر عمل کیا ہے ۔
ہم جیسے نالائق آپ کی پرسکون شخصیت کی چھاؤں میں کچھ نا کچھ سیکھ رہے ہیں ۔
 

انتہا

محفلین
شکریہ برادرم۔ یہ ذرا پیچیدہ سوال ہےکیونکہ شاعری کا تعلق مزاج اور کیفیت کے ساتھ ہے سو اپنے اپنے مزاج اور اپنی اپنی کیفیات اور احساسات کے ساتھ قارئین کو مختلف شعرا کرام پسند ہو سکتے ہیں۔ پھر اس میں زمان کا بھی پورا عمل دخل ہے، کسی کو کلاسیکی شاعر پسند ہیں تو کسی کو عصر حاضر کے۔ پھر شاعری کی اصناف، مجھ جیسے غزل کے قتیل ہیں تو تو بے شمار نظم پسند کرتے ہیں وغیرہ۔

اگر کوئی بڑے سے بڑا نقاد بھی ایسی کوئی کوشش کرے گا تو یقین مانیے سب اس پر متفق نہیں ہونگے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑا شاعر تو میں غالب ہی کو مانتا ہوں، اس سے ظاہر ہے آپ حضرات اختلاف کر سکتے ہیں اور میں اس اختلاف کا احترام کرتا ہوں۔ بس آپ کے سوال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک فہرست حاضر ہے، یعنی پسند اپنی اپنی۔ :)

1۔ غالب
2- میر تقی میر
3- علامہ اقبال
4 - جوش ملیح آبادی
5 - فیض احمد فیض
6 - داغ دہلوی
7- مومن خان مومن
8 - جگر مراد آبادی
9- اصغر گونڈوی
10- احمد فراز
محمد وارث بھائی، مجھے آپ کی اس فہرست پر تھوڑی حیرانی صرف میر ببر علی انیسؔ کی عدم شمولیت کی وجہ سے ہے اور بس!
اگر یہ فہرست صرف غزل گوئی کے اعتبار سے ہے تو پھر کوئی اشکال نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث بھائی، مجھے آپ کی اس فہرست پر تھوڑی حیرانی صرف میر ببر علی انیسؔ کی عدم شمولیت کی وجہ سے ہے اور بس!
اگر یہ فہرست صرف غزل گوئی کے اعتبار سے ہے تو پھر کوئی اشکال نہیں۔
جی فہرست تو غزل گو شعرا کی نہیں تھی بلکہ اردو شعرا ہی کی تھی لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے ذاتی میلان کی وجہ سے یہ غزل گو شعرا کی فہرست بن گئی ہے۔ میرا نیس کی شاعرانہ حیثیت سے انکار نہیں۔
 

وسیم

محفلین
اردو کا سنجیدہ ادب خصوصاً ناول باقی دنیا سے بہت پئچھے کیوں ہے؟ کیا اس کے ذمہ دار ناول نگار ہیں، قارئین ہیں یا ناشران ہیں؟ اردو ادب میں ناول مزید تنزلی کی جانب کیوں گامزن ہے؟
 
Top