سولھویں سالگرہ محمد وارث صاحب سے علمی و ادبی مکالمہ

وسیم

محفلین
بہت بہت شکریہ، آپ نے جو نتیجہ اخذ کیا میری بھی حقیر سی سوچ اسی نظریے کی طرف مائل ہے لیکن میں جاننا چاہتا تھا کہ میرا مسلک اساتذہ والا ہے بھی یا نہیں
ویسے ایک مرتبہ میں نے انور مسعود صاحب سے سن رکھا ہے کہ "شعر کو با مقصد ہونا چاہیے لیکن شعر کو وعظ کی صورت بھی اختیار نہیں کر لینی چاہیے"
یعنی وہی بات کہ شعر کی جمالیات بھی باقی رہیں شعر با مقصد بھی ہو تو پھر مزا ہے، نہیں تو جو آپ نے فرمایا یا صرف جگالی بن کے رہ جائے یا پھر وعظ و تبلیغ

میرا نہیں خیال کہ ادب کو آپ کسی دائرے میں قید کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے چلے مانیے وعظ و تبلیغ کے لیے ہی شعر کہہ رہا ہے، ہے تو وہ بھی ادب ہی۔ ادب آپ کو کبھی محدود نہیں کرتا بلکہ ادب تو لامحدودیت کی طرف لیکر جاتا ہے۔ جو آپ جیسا محسوس کریں، جس پیرائے میں محسوس کریں، آپ بیان کریں۔ کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے اور نا ہی اس پہ کوئی قدغن لگانی چاہیے۔
 

وسیم

محفلین
کیا یاد دلا دیا آپ نے ہم عمری سے۔ ہماری زوجہ اکثر فرماتی ہیں کہ تم اگر غالب کے زمانے میں ہوتے تو غالب کے خادمِ خاص ہوتے، پاؤں بھی دابتے جاتے، شعر بھی سنتے جاتے اور غالب کو پیالے بھی بھر بھر کے دیئے جاتے، اللہ اللہ یہ رتبہ بلند ہماری قسمت میں کہاں، بس یہی "پونے دو سو سال" نگوڑے مار گئے۔ :)

غالب نے تو آپ کو دوڑا دوڑا کر مار دینا تھا، جا بھئی لڑکے جلدی سے جامع مسجد سے آموں کی دو پیٹیاں پکڑ لا۔۔۔
جب آپ تھکے ہارے آم لیکر پہنچتے تو انہوں نے آپ کو پھر جام کے لیے دوڑا دینا تھا۔۔۔۔

سو پونے دو سو سال کا فرق مبارک ہو :sneaky:
 

محمد وارث

لائبریرین
اردو کا سنجیدہ ادب خصوصاً ناول باقی دنیا سے بہت پئچھے کیوں ہے؟ کیا اس کے ذمہ دار ناول نگار ہیں، قارئین ہیں یا ناشران ہیں؟ اردو ادب میں ناول مزید تنزلی کی جانب کیوں گامزن ہے؟
باقی دنیا کی بڑی زبانوں کے مقابلے میں تو اردو ویسے ہی ایک نئی اور جدید زبان ہے جس کا دامن اتنا وسیع نہیں ہے، اور اس لحاظ سے اردو ناول کا دامن بھی کچھ تنگ ہی ہے۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اردو میں اچھے ناول نہیں لکھے گئے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ایک مقصد کے تحت ناولز لکھنے شروع کیے تو بعد میں منشی پریم چند اور کرشن چندر نے ناول لکھے۔ عبداللہ حسین اور قرۃ العین حیدر نے شاہکار ناول لکھے، انتظار حسین اور مستنصر حسین تاررڑ نے عمدہ ناول لکھے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی پیشہ ور ناول نگار نہ ہوتے ہوئے بھی "کئی چاند تھے سر آسمان" جیسا عمدہ ناول لکھا۔

باقی انحطاط تو ہے اور کمیابی بھی۔ اچھے ناول لکھے گئے لیکن خال خال۔ وجہ آپ نے پوچھی تو شاید ہم سب مل جل کر ہی اس کے ذمہ دار ہیں، ایک عمدہ اور بڑا ناول لکھنے کے لیے ناول نگار کو محنت کرنی پڑتی ہے، برس ہا برس تک اپنے موضوع پر ریسرچ کرنی پڑتی ہے، کافی عرصہ اس پر سوچ بچار کے بعد وہ قلم اٹھاتا ہے تو ایک عمدہ تخلیق سامنے آتی ہے اور ادھر کچھ یہ حال ہے کہ پاپولر فکشن کے چکر میں ہر دو مہینوں بعد ایک ضخیم ناول چھپ کر تیار ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے کچھ نوجوان ناول نگاروں کے کریڈٹ پر درجنوں ناولز ہیں۔ مقدار کے چکر میں معیار کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ پھر ہمارے قاری بھی پاپولر فکشن یا بورژوا قسم کا رومانس پسند کرتے تھے، ہماری جوانی کے دنوں میں رضیہ بٹ صاحبہ اس قسم کے ناولوں کے لیے مشہور تھیں، اس سے پہلے ایم اسلم، آج کل شاید عمیرہ احمد اور دیگر۔ جو اس رومانس سے بچ جاتے ہیں وہ نیم پختہ، نیم خوابیدہ، نیم حقیقت نیم افسانہ قسم کے تاریخی ناولوں کو پیارے ہو جاتے ہیں، ایسے بھی کتنے ہی ناول نگار آئے اور چلے گئے۔ ناول نگار سہل پسند بھی ہیں اور معاش کے مارے بھی، سو مارکیٹ میں جو بِکتا ہے وہ بھی اسی قسم کا لکھنا شروع کر دیتے ہیں، بجائے قاری کے ذوق کو پروان چڑھانے اور اسکی تربیت کرنے کے وہ فکر دنیا میں سر کھپاتے ہوئے پاپولر فکشن پر اکتفا کرتے ہیں۔ پھر پائریسی کے مسئلے کی وجہ سے ناشر بھی پریشان ہوتے ہیں۔ ناشرین اگر مصنفین کو خاطر خواہ رائلٹی دے کر کتاب چھاپیں تو مصنفین بھی دل جمعی سے کوئی کام کریں، جب کہ یہاں ناشر رائلٹی کیا دے کہ شائع ہونے کے اگلے دن کتاب کا پی ڈی ایف ورژن ہر جگہ پھیلا ہوتا ہے، سو جواب میں ناشرین بھی کسی کتاب کا "پہلا ایڈیشن" پانچ چھ دفعہ چھاپتے ہیں تا کہ مصنف کو ہر بار نئے ایڈیشن کی رائلٹی نہ دینی پڑی، اور اس طرح اپنا نقصان پورا کرتے ہیں۔ مصنفین کسی اور طرح سے یہ نقصان پورا کرنے کی کوشش کرتے ہونگے۔

سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ناول کا مستقل عام طور پر اردو میں کتابوں کی عمومی صورتحال اور اردو ادب کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے جو کہ اتناحوصلہ افزا تو نہیں لیکن کیا جانیے کب کوئی دوسرا عبداللہ حسین یا قرہ العین حیدر پیدا ہو جائے!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میرا نہیں خیال کہ ادب کو آپ کسی دائرے میں قید کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے چلے مانیے وعظ و تبلیغ کے لیے ہی شعر کہہ رہا ہے، ہے تو وہ بھی ادب ہی۔ ادب آپ کو کبھی محدود نہیں کرتا بلکہ ادب تو لامحدودیت کی طرف لیکر جاتا ہے۔ جو آپ جیسا محسوس کریں، جس پیرائے میں محسوس کریں، آپ بیان کریں۔ کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے اور نا ہی اس پہ کوئی قدغن لگانی چاہیے۔
میری کیا مجال کہ میں کسی دائرے میں قید کر سکوں ہاں جو میں سوچتا ہوں اس کا عاجزانہ سا اظہار تو کر سکتا ہوں
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب نے تو آپ کو دوڑا دوڑا کر مار دینا تھا، جا بھئی لڑکے جلدی سے جامع مسجد سے آموں کی دو پیٹیاں پکڑ لا۔۔۔
جب آپ تھکے ہارے آم لیکر پہنچتے تو انہوں نے آپ کو پھر جام کے لیے دوڑا دینا تھا۔۔۔۔

سو پونے دو سو سال کا فرق مبارک ہو :sneaky:
خیر مبارک۔ ویسے تو یوں بھی دوڑ دھوپ لگی ہی رہتی ہے، غالب کے لیے ہوتی تو بسر و چشم و بصد عز وناز۔ :)
 

وسیم

محفلین
خیر مبارک۔ ویسے تو یوں بھی دوڑ دھوپ لگی ہی رہتی ہے، غالب کے لیے ہوتی تو بسر و چشم و بصد عز وناز۔ :)
چلیں جو غالبِ حاضر ہے اسی کے لیے بصد عز و ناز اور خمیدہ سر دوڑ دھوپ کرتے رہیں۔ شاید وہ کبھی خوش ہو کر کلکتے چلی جائے
اور آپ دن رات بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
:LOL:
 

محمد وارث

لائبریرین
چلیں جو غالبِ حاضر ہے اسی کے لیے بصد عز و ناز اور خمیدہ سر دوڑ دھوپ کرتے رہیں۔ شاید وہ کبھی خوش ہو کر کلکتے چلی جائے
اور آپ دن رات بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
:LOL:
صرف کلکتے؟ میں تو اسے عدم میں بھیج دوں لیکن میری ایسی قسمت کہاں! :)
 

وسیم

محفلین
موجودہ دور میں اردو ادب میں ادبی تنقید کی کیا صورتحال ہے اور اس کا مستقبل روشن نظر آتا ہے یا مکمل تاریکی؟
 

وسیم

محفلین
باقی دنیا کی بڑی زبانوں کے مقابلے میں تو اردو ویسے ہی ایک نئی اور جدید زبان ہے جس کا دامن اتنا وسیع نہیں ہے، اور اس لحاظ سے اردو ناول کا دامن بھی کچھ تنگ ہی ہے۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اردو میں اچھے ناول نہیں لکھے گئے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ایک مقصد کے تحت ناولز لکھنے شروع کیے تو بعد میں منشی پریم چند اور کرشن چندر نے ناول لکھے۔ عبداللہ حسین اور قرۃ العین حیدر نے شاہکار ناول لکھے، انتظار حسین اور مستنصر حسین تاررڑ نے عمدہ ناول لکھے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی پیشہ ور ناول نگار نہ ہوتے ہوئے بھی "کئی چاند تھے سر آسمان" جیسا عمدہ ناول لکھا۔

باقی انحطاط تو ہے اور کمیابی بھی۔ اچھے ناول لکھے گئے لیکن خال خال۔ وجہ آپ نے پوچھی تو شاید ہم سب مل جل کر ہی اس کے ذمہ دار ہیں، ایک عمدہ اور بڑا ناول لکھنے کے لیے ناول نگار کو محنت کرنی پڑتی ہے، برس ہا برس تک اپنے موضوع پر ریسرچ کرنی پڑتی ہے، کافی عرصہ اس پر سوچ بچار کے بعد وہ قلم اٹھاتا ہے تو ایک عمدہ تخلیق سامنے آتی ہے اور ادھر کچھ یہ حال ہے کہ پاپولر فکشن کے چکر میں ہر دو مہینوں بعد ایک ضخیم ناول چھپ کر تیار ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے کچھ نوجوان ناول نگاروں کے کریڈٹ پر درجنوں ناولز ہیں۔ مقدار کے چکر میں معیار کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ پھر ہمارے قاری بھی پاپولر فکشن یا بورژوا قسم کا رومانس پسند کرتے تھے، ہماری جوانی کے دنوں میں رضیہ بٹ صاحبہ اس قسم کے ناولوں کے لیے مشہور تھیں، اس سے پہلے ایم اسلم، آج کل شاید عمیرہ احمد اور دیگر۔ جو اس رومانس سے بچ جاتے ہیں وہ نیم پختہ، نیم خوابیدہ، نیم حقیقت نیم افسانہ قسم کے تاریخی ناولوں کو پیارے ہو جاتے ہیں، ایسے بھی کتنے ہی ناول نگار آئے اور چلے گئے۔ ناول نگار سہل پسند بھی ہیں اور معاش کے مارے بھی، سو مارکیٹ میں جو بِکتا ہے وہ بھی اسی قسم کا لکھنا شروع کر دیتے ہیں، بجائے قاری کے ذوق کو پروان چڑھانے اور اسکی تربیت کرنے کے وہ فکر دنیا میں سر کھپاتے ہوئے پاپولر فکشن پر اکتفا کرتے ہیں۔ پھر پائریسی کے مسئلے کی وجہ سے ناشر بھی پریشان ہوتے ہیں۔ ناشرین اگر مصنفین کو خاطر خواہ رائلٹی دے کر کتاب چھاپیں تو مصنفین بھی دل جمعی سے کوئی کام کریں، جب کہ یہاں ناشر رائلٹی کیا دے کہ شائع ہونے کے اگلے دن کتاب کا پی ڈی ایف ورژن ہر جگہ پھیلا ہوتا ہے، سو جواب میں ناشرین بھی کسی کتاب کا "پہلا ایڈیشن" پانچ چھ دفعہ چھاپتے ہیں تا کہ مصنف کو ہر بار نئے ایڈیشن کی رائلٹی نہ دینی پڑی، اور اس طرح اپنا نقصان پورا کرتے ہیں۔ مصنفین کسی اور طرح سے یہ نقصان پورا کرنے کی کوشش کرتے ہونگے۔

سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ناول کا مستقل عام طور پر اردو میں کتابوں کی عمومی صورتحال اور اردو ادب کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے جو کہ اتناحوصلہ افزا تو نہیں لیکن کیا جانیے کب کوئی دوسرا عبداللہ حسین یا قرہ العین حیدر پیدا ہو جائے!

بہت شکریہ۔ کیا اس کی ایک وجہ ہمارا نظام تعلیم بھی ہو سکتا ہے؟ کہ بچوں کو اردو کے سنجیدہ ادب کے متعلق نا کچھ بتایا جاتا ہے اور نا رہنمائی فراہم کی جاتی ہے؟
 

فہیم

لائبریرین
اگر کوئی بڑے سے بڑا نقاد بھی ایسی کوئی کوشش کرے گا تو یقین مانیے سب اس پر متفق نہیں ہونگے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑا شاعر تو میں غالب ہی کو مانتا ہوں، اس سے ظاہر ہے آپ حضرات اختلاف کر سکتے ہیں اور میں اس اختلاف کا احترام کرتا ہوں۔ بس آپ کے سوال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک فہرست حاضر ہے، یعنی پسند اپنی اپنی۔ :)

1۔ غالب
2- میر تقی میر
3- علامہ اقبال
4 - جوش ملیح آبادی
5 - فیض احمد فیض
6 - داغ دہلوی
7- مومن خان مومن
8 - جگر مراد آبادی
9- اصغر گونڈوی
10- احمد فراز

باقی دنیا کی بڑی زبانوں کے مقابلے میں تو اردو ویسے ہی ایک نئی اور جدید زبان ہے جس کا دامن اتنا وسیع نہیں ہے، اور اس لحاظ سے اردو ناول کا دامن بھی کچھ تنگ ہی ہے۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اردو میں اچھے ناول نہیں لکھے گئے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ایک مقصد کے تحت ناولز لکھنے شروع کیے تو بعد میں منشی پریم چند اور کرشن چندر نے ناول لکھے۔ عبداللہ حسین اور قرۃ العین حیدر نے شاہکار ناول لکھے، انتظار حسین اور مستنصر حسین تاررڑ نے عمدہ ناول لکھے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی پیشہ ور ناول نگار نہ ہوتے ہوئے بھی "کئی چاند تھے سر آسمان" جیسا عمدہ ناول لکھا۔

ان دو جوابوں کو دیکھتے ہوئے میرا ایک سوال کہ جس طرح آپ نے اپنی پسند کے شعراء کی درجہ بندی کی اس طرح اگر آپ کے دس پسندیدہ ناول نگاروں کی لسٹ بمع درجہ بندی کے پوچھی جائے تو وہ کیا ہوگی؟

ایک مزید سوال یہ کہ آپ ابن صفی کو اردو ادب میں کچھ جگہ دیتے ہیں کہ نہیں :)
 
بہت شکریہ۔ کیا اس کی ایک وجہ ہمارا نظام تعلیم بھی ہو سکتا ہے؟ کہ بچوں کو اردو کے سنجیدہ ادب کے متعلق نا کچھ بتایا جاتا ہے اور نا رہنمائی فراہم کی جاتی ہے؟
نظام تعلیم کیا ... خود عوام کی کی سطحی سوچ سب سے بڑھ کر ذمہ دار ہے.
آپ کو شاید یاد ہو کہ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ایک رجحان بڑے زور و شور سے جاری تھا کی انٹرمیڈیٹ کے انگریزی کے نصاب سے مسٹر چپس نامی ناول نکال کر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسباق پر مشتمل نصاب ترتیب دیا جائے.
یہ موضوع اتنا حساس ہے کہ کچھ بھی کہتے لکھتے ڈر لگتا ہے مگر یہاں اس رجحان کہ سطحیت کی نشاندہی کیے بغیر چارہ نہیں. کیا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقابل ناول سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کر ناول نگاری کی صنف کی تعلیم دی جا سکتی ہے؟؟؟ اور کیا واقعی ایسا ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائی ہی نہیں جاتی؟
دراصل اس قسم کی باتوں کے پس پردہ یہ ذہنیت ہے کہ ناول، افسانے وغیرہ سب بیکار اور اضاعت وقت پر مشتمل کام ہیں.
اہم بات یہ کہ اس قسم کے ٹرینڈ چلانے والے سکہ بند مذہبی حلقے نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے عام صارفین تھے.
ایسے میں کون ناول لکھنے کے جوکھم میں پڑے؟
پھر شاعری میں ہمیشہ سے ہی نثر کے مقابلے میں گلیمر زیادہ رہا ہے اسی لیے نئے لکھنے والے بھی سریع اور سستی شہرت کے چکر میں اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں... "نثری شاعری" کے رواج نے سہل پسندوں کے کام کو اور آسان کر دیا ہے.
 

وسیم

محفلین
نظام تعلیم کیا ... خود عوام کی کی سطحی سوچ سب سے بڑھ کر ذمہ دار ہے.
آپ کو شاید یاد ہو کہ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ایک رجحان بڑے زور و شور سے جاری تھا کی انٹرمیڈیٹ کے انگریزی کے نصاب سے مسٹر چپس نامی ناول نکال کر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسباق پر مشتمل نصاب ترتیب دیا جائے.
یہ موضوع اتنا حساس ہے کہ کچھ بھی کہتے لکھتے ڈر لگتا ہے مگر یہاں اس رجحان کہ سطحیت کی نشاندہی کیے بغیر چارہ نہیں. کیا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقابل ناول سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کر ناول نگاری کی صنف کی تعلیم دی جا سکتی ہے؟؟؟ اور کیا واقعی ایسا ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائی ہی نہیں جاتی؟
دراصل اس قسم کی باتوں کے پس پردہ یہ ذہنیت ہے کہ ناول، افسانے وغیرہ سب بیکار اور اضاعت وقت پر مشتمل کام ہیں.
اہم بات یہ کہ اس قسم کے ٹرینڈ چلانے والے سکہ بند مذہبی حلقے نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے عام صارفین تھے.
ایسے میں کون ناول لکھنے کے جوکھم میں پڑے؟
پھر شاعری میں ہمیشہ سے ہی نثر کے مقابلے میں گلیمر زیادہ رہا ہے اسی لیے نئے لکھنے والے بھی سریع اور سستی شہرت کے چکر میں اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں... "نثری شاعری" کے رواج نے سہل پسندوں کے کام کو اور آسان کر دیا ہے.

جی سو فیصد متفق۔ اور مجھے مسٹر چپس نکالنے والی بات پہ بلکل یہی خیال آیا تھا جو آپ نے بیان کیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
موجودہ دور میں اردو ادب میں ادبی تنقید کی کیا صورتحال ہے اور اس کا مستقبل روشن نظر آتا ہے یا مکمل تاریکی؟
اردو ادب کی کچھ عمومی صورتحال تو آپ کے ناولز والے سوال کے جواب میں آ گئی۔

باقی رہی تنقید، تو یہ نجانے کیا چیز ہے کہ پہلے کبھی صرف دو گروپس ہوتے تھے، کراچی گروپ اور لاہور گروپ یا احمد ندیم قاسمی کا لاہور گروپ اور ڈاکٹر وزیر آغا کا سرگودہا گروپ کہ ان گروپوں کے ناقدین(بالخصوص اور بالترتیب ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر انور سدید) صرف اپنے اپنے گروپ کے ارکان کی تعریف کرتے تھے اور باقی سب کی تنقیص لیکن کچھ نہ کچھ معیار بہرحال ہوتا تھا۔ اب سوشل میڈیا نے یہ گروپس ہر گلی محلے میں پہنچا دیئے ہیں، ہر کسی کی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔ ستائش باہمی کی انجمنان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور بس۔ پھر یہ گروپنگ سوشل میڈیا کی حد تک ہی نہیں ہے، بلکہ انٹرنیشنل سطح پر بھی ہے۔ برصغیر کے "ڈایا سپورا" نے ملکوں ملکوں اپنی الگ انجمنیں بنائی ہوئی ہیں، مشرق وسطیٰ والے الگ تو یورپ والے الگ، اور امریکہ کینڈا والے الگ و علی ہذا لقیاس۔ ہر کوئی صرف "اپنوں" کی تعریف کرتا ہے، جواب میں"اردو کا سب سے بڑا تنقید نگار" کا خطاب پاتا ہے۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو والا معاملہ بڑھ چڑھ کر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ۔ کیا اس کی ایک وجہ ہمارا نظام تعلیم بھی ہو سکتا ہے؟ کہ بچوں کو اردو کے سنجیدہ ادب کے متعلق نا کچھ بتایا جاتا ہے اور نا رہنمائی فراہم کی جاتی ہے؟
اس کا جواب راحل صاحب نے خوب دے دیا۔ بچے بیچارے تو نمبروں اور داخلوں کی دوڑ میں پسے ہوئے ہیں۔ گھر میں ہر طرف نمبر نمبر پوزیش پوزیشن کا شور ہوتا ہے، کتاب، ادب، شاعری، فنونِ لطیفہ کے لیے عام پاکستانی والدین کے پاس نہ دماغ ہے اور نہ ہی دل۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ان دو جوابوں کو دیکھتے ہوئے میرا ایک سوال کہ جس طرح آپ نے اپنی پسند کے شعراء کی درجہ بندی کی اس طرح اگر آپ کے دس پسندیدہ ناول نگاروں کی لسٹ بمع درجہ بندی کے پوچھی جائے تو وہ کیا ہوگی؟

ایک مزید سوال یہ کہ آپ ابن صفی کو اردو ادب میں کچھ جگہ دیتے ہیں کہ نہیں :)
فہیم، میرا ناولوں کا مطالعہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ میں اس کی درجہ بندی کر سکوں۔ میں نے کچھ ناولز ہی پڑھے ہیں جن کی ادبی حیثیت مسلم ہے جیسے عبداللہ حسین کے ناولز (اداس نسلیں، نشیب، نادار لوگ وغیرہ)، قرۃ العین حیدر (آگ کا دریا)، مستنصر حسین تارڑ (بہاؤ وغیرہ)، انتظار حسین، شمس الرحمٰن فاروقی ، پریم چند، کرشن چندر، عصمت چغتائی وغیرہ یا پھر ڈپٹی نذیر احمد اور بس۔ :)

باقی ابنِ صفی کی ادبی حیثیت سے کون انکار کر سکتا ہے، آج سے تیس چالیس سال پہلے کچھ سکہ بند نقاد ان کے ناولوں کو اردو ادب کا حصہ ہی نہیں سمجھتے تھے لیکن اب ناقدین کے ذہن کا کینوس شاید کچھ وسیع ہوا ہے اور اب اردو "سری ادب" کا باوا آدم ابنِ صفی ہی کو سمجھا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

وسیم

محفلین
اردو ادب کی کچھ عمومی صورتحال تو آپ کے ناولز والے سوال کے جواب میں آ گئی۔

باقی رہی تنقید، تو یہ نجانے کیا چیز ہے کہ پہلے کبھی صرف دو گروپس ہوتے تھے، کراچی گروپ اور لاہور گروپ یا احمد ندیم قاسمی کا لاہور گروپ اور ڈاکٹر وزیر آغا کا سرگودہا گروپ کہ ان گروپوں کے ناقدین(بالخصوص اور بالترتیب ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر انور سدید) صرف اپنے اپنے گروپ کے ارکان کی تعریف کرتے تھے اور باقی سب کی تنقیص لیکن کچھ نہ کچھ معیار بہرحال ہوتا تھا۔ اب سوشل میڈیا نے یہ گروپس ہر گلی محلے میں پہنچا دیئے ہیں، ہر کسی کی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔ ستائش باہمی کی انجمنان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور بس۔ پھر یہ گروپنگ سوشل میڈیا کی حد تک ہی نہیں ہے، بلکہ انٹرنیشنل سطح پر بھی ہے۔ برصغیر کے "ڈایا سپورا" نے ملکوں ملکوں اپنی الگ انجمنیں بنائی ہوئی ہیں، مشرق وسطیٰ والے الگ تو یورپ والے الگ، اور امریکہ کینڈا والے الگ و علی ہذا لقیاس۔ ہر کوئی صرف "اپنوں" کی تعریف کرتا ہے، جواب میں"اردو کا سب سے بڑا تنقید نگار" کا خطاب پاتا ہے۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو والا معاملہ بڑھ چڑھ کر ہے۔
مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے اسی لیے

میں نے اس پہ بھان متی کا کنبہ نامی سیریز طنز و مزاح میں شروع کی ہے :LOL:
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے اسی لیے

میں نے اس پہ بھان متی کا کنبہ نامی سیریز طنز و مزاح میں شروع کی ہے :LOL:
وہ آپ شاید آسٹریلیا کے حوالے سے لکھ رہے ہیں، وہاں آج کل، نوشی گیلانی صاحبہ اور ان کے شوہر سعید خان صاحب خاصے مقبول ہیں، کچھ ادبا و شعرا نیوزی لینڈ میں بھی چھائے ہوئے ہیں۔ :)
 

وسیم

محفلین
وہ آپ شاید آسٹریلیا کے حوالے سے لکھ رہے ہیں، وہاں آج کل، نوشی گیلانی صاحبہ اور ان کے شوہر سعید خان صاحب خاصے مقبول ہیں، کچھ ادبا و شعرا نیوزی لینڈ میں بھی چھائے ہوئے ہیں۔ :)

ملکہ عالیہ اور بادشاہ سلامت تو دربار سجاتے ہیں، اس لیے سنجیدہ حضرات ان کی محفل میں زیادہ نہیں جاتے۔ ان کے علاوہ بھی آسٹریلیا میں اردو کے مزید جنگجو موجود ہیں :)
 
Top