محفل کے شاعروں کی اصلاح کریں۔۔۔ (گیارہویں سالگرہ)

رانا

محفلین
اس دھاگے میں ہم ان خواتین و حضرات سے مخاطب ہیں جنہیں شاعری سے کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں۔ کبھی زندگی میں کوئی شعر نہیں کہا کبھی عروض کا کوئی سبق نہیں لیا۔ لیکن اس سب کے باوجود ان میں شاعری کی اصلاح کے ایسے جراثیم چھپے ہوئے ہیں جن تک سیف گارڈ کی ابھی تک رسائی نہیں ہوئی۔:) ان سب بھائیوں اور بہنوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ ہم وہ مظلوم طبقہ ہیں جنہیں کوئی اصلاح سخن میں گھسنے نہیں دیتا۔ حالانکہ ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ شاعرحضرات کے کلام کی اصلاح کرکے ادب کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالیں۔:) لہٰذا ہم نے گیارہویں سالگرہ پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ہمیں کوئی اصلاح سخن میں گھسنے نہیں دیتا تو کوئی بات نہیں۔ ہم محفل کے شاعروں کو کھینچ کر اس دھاگے میں لائیں گے اور پھر جیسا دل کرے گا ان کی غزلوں پر من چاہی صلاح دیں گے۔:)
تو وہ سب صاحبان جنہیں شاعری کا کچھ پتہ نہیں وہ اس دھاگے میں آئیں اور اپنی مرضی سے کسی بھی شاعر کی کسی بھی غزل پر اصلاح فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

تو سب سے پہلے اس انجمن اصلاح کاراں کے صدر نشین کی حیثیت سے ہم ہی ایک شاعر کو یہاں پکڑ کر لاتے ہیں۔ وہ ہیں جناب راحیل فاروق صاحب۔ ان کی درج زیل غزل پر ہمیں شدت سے اصلاح کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔

لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں؟
سر پھوڑ کے مر جائیں؟ سرکار، کدھر جائیں؟

بھائی یہ پہلا مصرعہ تو ہر کس و ناکس کو سمجھ میں ہی نہیں آسکتا۔ کس محبت کے ازار کی بات ہورہی ہے۔ یہاں حیدری مارکیٹ میں جو بڑے میاں ازاروں کے بنڈل لئے گھوم رہے ہوتے ہیں ان کا نام تو محبت ہو نہیں سکتا۔ اگر ہو بھی تو آپ کو حیدری مارکیٹ سے کیا سروکار۔ کہاں پنجاب اور کہاں کراچی کی حیدری مارکیٹ۔ اور یہ ازار کے الف پر مد کیوں لگادی۔ کیا سستا ازار لے لیا تھا؟ سستے ازار معمول سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں کہ مد لگانی پڑے۔ اس مصرعے کو ایسے کردیں۔
لے کر یہ سستے سے ازار کدھر جائیں؟
سر پھوڑ کے مرجائیںَ سرکار، کدھر جائیں؟
ہاں یہ ٹھیک ہے۔ سستے سے ازار جب بیچ بازار میں دھوکا دے جائیں تو بندے کو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ سر پھوڑ کے مرجائیں۔۔۔ا ب سمجھ میں بھی آرہا ہے اور پہلے مصرعے کا دوسرے سے لنک بھی بن رہا ہے۔

بیٹھیں تو کہاں بیٹھیں اس کوئے ملامت میں؟
اٹھ جائیں تو ہم اہلِ پندار کدھر جائیں؟

یہ کوئے ملامت کونسی جگہ ہے؟ اور یہ اہل پندار کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ پہلے ان کی وضاحت کریں پھر ہم اس شعر پر اصلاح فرمائیں گے۔

مانا کہ مسیحا کو ہیں اور ہزاروں کام
یہ بھی تو کہو کوئی، بیمار کدھر جائیں؟

بھائی پہلی بات تو یہ کہ عام لوگ مسیحا کا لفظ اب استعمال نہیں کرتے۔ اس کا استعمال متروک ہوچکا ہے۔ اگر آپ نے بڑا شاعرواعر بننا ہے تو متروک الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کیجئے۔ اب لفظ ڈاکٹر استعمال ہوتا ہے۔ کاش آپ کچھ دن ہماری صحبت میں رہے ہوتے تو متروک اور مروج الفاظ ہی سیکھ جاتے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ فاتح بھائی بھی اتنی بڑی عمر میں ہماری شاگردی میں آئے تھے اب دیکھیں کیسے پٹر پٹر شعر کہتے پھرتے ہیں۔ ہاں تو مصرعہ کچھ یوں بنے گا

مانا کہ ڈاکٹر کو ہیں او ر ہزاروں کام
یہ بھی تو کہو کوئی، بیمار کدھر جائیں؟

دوسرا مصرعہ کچھ گڑ بڑ کررہا ہے۔ یہ ایسے ظاہر کررہا ہے جیسے ہمارے لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ڈاکٹر مصروف ہو تو کہاں جایا جائے۔ حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ پھر کمپاؤنڈر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ مصروف ہو تو سیدھا میڈیکل اسٹور والے کو علامات بتا کر دوائی لے لی جاتی ہے۔ اس مصرعے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اب شعر کچھ یوں بنے گا۔

مانا کہ ڈاکٹر کو ہیں اور ہزاروں کام
بیٹا تو پھر کیوں نہ ہم کمپونڈر کے پاس جائیں؟

اب ٹھیک ہے۔ سمجھ میں تو آرہا ہے نا۔ ۔۔ وزن کچھ گڑبڑ کرگیا ہے وہ تو امید ہے آپ ٹھیک کرہی لیں گے۔۔۔ اب ہم اصلاح کے ساتھ وزن بھی ٹھیک کرتے پھریں۔۔۔ کتنی بُری بات ہے۔

یہ کرب، یہ سناٹا، یہ رنگ کی ننگی لاش
لالے تو گئے صاحب! گلزار کدھر جائیں؟

توبہ توبہ توبہ کتنا فحش شعر ہے۔ ننگی لاش وہ بھی رنگ کی اور سناٹے میں۔ اسے بدلیں فورا ۔۔۔ آپ تو منٹو کے قدموں پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چھی چھی ۔۔۔

اندھوں کو بتا دینا، باہر بھی اندھیرے ہیں
بے فائدہ کیا گھومیں؟ بے کار کدھر جائیں؟

ذرا پہلے مصرعے کی فاش غلطی ملاحظہ فرمائیں۔ بھائی جان اندھوں کو یہ بتانے کا کیا فائدہ کہ باہر اندھیرا ہے!!! بھائی اندر باہر جتنی بھی روشنی بھی ہو اس بیچارے کے لئے تو اندھیرا ہی ہےنا۔ آپ کسی اندھے کو یہ بتا کر تو دیکھیں کہ بھائی باہر مت جانا اندھیرا ہے گر پڑو گے۔۔۔ پھر دیکھیں وہ کیسی آپ کی عزت افزائی کرتا ہے۔ ۔۔ بہرحال یہ مصرعہ بدلیں فورا سے پیشتر۔ لوگ کیا کہیں گے اس شاعر کو بنیادی باتیں بھی نہیں پتہ۔۔۔ پہلے آپ مصرعہ نیا بنائیں پھر ہم دوسرےمصرعے کی اصلاح کریں گے۔

کس اینٹ پہ سر پٹکیں؟ کس در پہ کریں گریہ؟
راحیل ؔ بتا، تیرے غم خوار کدھر جائیں؟

یہ شعر بالکل ٹھیک ہے ہمارے جذبات کی مکمل ترجمانی کررہا ہے۔ توبہ توبہ اتنی غلطیاں ایک غزل میں۔ ہم کس در پہ جاکر گریہ کریں۔۔ کس اینٹ سے سر پھوڑیں ۔۔ کہاں تک اصلاح کریں ۔۔۔ بتا اے راحیل تیرا یہ غمخوار صلاح کار کدھر جائے۔ خیر کوئی بات نہیں فاتح بھائی کو بھی نکھارا تھا اب آپ کو بھی نکھاریں گے۔ بس اپنی نئی غزلیں پوسٹ کرنے سے پہلے چھپر میں ہمارے پاس آکراصلاح لے لیا کیجئے ہم کسی کو نہیں بتائیں گے کہ آپ کو نکھارنے میں ہمارا ہاتھ ہے۔ فاتح بھائی سے پوچھ لیں کبھی ہم نے محفل پر بھولے سے بھی ذکر کیا کہ ان کی ہر نئی غزل محفل پر آنے سے پہلے ہمارے زیر غور رہتی ہے۔ آجکل کیوں وہ نئی غزلیں نہیں لکھ رہے؟؟؟ وجہ یہی کہ ہم ذرا مصروف زیادہ ہوگئے ہیں اس لئے ان کی نئی غزلوں کو وقت نہیں دے پارہے ورنہ وہ بےچارے تو پورا پلندہ لئے کتنے ہی چکر لگاچکے ہماری طرف لیکن ہائے ری ہماری مصروفیت۔

اب دیگر محفلین سےگزارش ہے کہ اپنی مرضی کے کسی بھی شاعر کی غزل اٹھا کر یہاں اس علاقہ غیر میں لے آئیں۔ کوئی یہاں دم نہیں مارسکتا۔ پھر جی بھر کر جیسے چاہیں صلاح دیں۔:ROFLMAO:
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
امین بھیا کی موشگافیاں

کتنا رنگیں تھا ہر منظر تیرے بعد​
میں نے دیکھی دنیا اٹھ کر تیرے بعد​

اس شعر میں امین بھیا نے اپنی شوخ و رنگین طبیعت کے بارے میں محفلین کے بتایا ۔ شعر کی تاریخ ان کی پُرانی محبوبہ سے جُڑی ہے ۔ ان کے مطابق پرانی محبوبہ نے بیوی سا روپ اختیار کرلیا تھا ۔ اس لیے وہ روزانہ نماز میں اس کے مرنے کی دُعا مانگا کرتے تھے ۔ مسجد کے ساتھی ، اقرباء پہلے پہل تو ان کے دین کی طرف رغبت پر حیرت کُناں رہے، اسی وجہ سے ان کی آؤ بھگت میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ گھر والے پہلے جو ان کی تھکی تھکی شکل دیکھ کے بیزار سے ہونے لگے تھے ، چہرے پر آئی مسکراہٹ ، روزانہ کی تیاری دیکھتے خوش رہنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔امین بھائی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے کہ اصل دنیا تو ایک محبوب کے اٹھ جانے کے بعد ہی وجود میں آتی ہے اور نئی دنیا کے حسین مناظر ہر سابقہ محبوب کے بعد ایک جداگانہ ، منفرد طرز سے کھلتے ہیں​

سب رستوں کی بھول بھلیاں یاد ہوئیں
گھوم رہا ہوں اختر اختر تیرے بعد

موجودہ دور میں محبوبہ کی وفات خوشی کا عندیہ ہونے کے ساتھ نئے حادثات کے جنم لینے کا باعث بھی ہے ۔ نیا وقوعہ شاعر کی سائنسی و مہم جو طبع کی وجہ سے واقع ہوا ، انقلابی فطرت نے اختر شماری کے بجائے ، سیاحت کو ترجیح دی ہے ۔۔۔ گمان غالب ہے کہ پاکستانی قوم ان کی تقلید میں خلاء میں رہنے کے لیے سامان باندھ رہی ہے ۔ امریکہ تو امریکہ ، بھارت تک حیران ہے کہ پاکستان قوم انتہائی کاہل و سست ہونے کے باوجود خلا میں پہنچ چکی ہے ۔۔اردو محفل کی دسویں سالگرہ کے موقع پر ان کی اس خدمت کو بہتر طور پر خراج تحسین پیش کیا جائے ، محفلین سے درخواست ہے کہ اس کارخیر میں حصے لیتے ان کی خوشی کا اضافہ سامان بنتے ، خلا جانے کے نئے راستے پوچھیے ۔

نوٹ : یہ '' خلا'' نفیساتی مرض ہر گز نہیں جس میں مبتلا ہونے بندہ سوچ میں خلا در خلا تیرتا رہتا ہے ۔۔۔یار دوست کہتے ہیں کہ بندہ تو گیا کام سے


جھیلوں، نہروں، دریاؤں کی بات نہیں
بھاگ رہا تھا مجھ سے سمندر تیرے بعد


اس شعر میں سارا تخییل سائنسی اصولوں کے خلاف ہے ۔ خبردار ! محفل میں سائنسی اصولوں سے ہٹ کے شاعری منع ہے ۔ جس نے ایسا کیا ہے کہ اس پر سائبر کرائم ایکٹ کی'' فلاں فلاں'' دفع لاگو ہوسکتی ہے ۔ خوشی میں لو ! اتنے بڑھ گیے کہ سمندر کو اپنے پیچھے بھگا دیا ۔۔۔ اس لیے ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس شعر کو حذف کردیں

اچھا کیا جو زہروں سے مانوس کیا
مجھ کو ملنا تھا اک اژدر تیرے بعد

مہنگائی کا زور بہت تھا ۔ عام بندہ تو پٹرول ، بجلی اور دوسرے یوٹیلیٹی بلز میں تنخواہ گنوا دیتا ہے ۔۔۔ نیا گھر تعمیر کرنے کا سوچ رہے تھے مگر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں سے لائیں اتنے پیسے ! ایک دن شکار کھیلنے چلے گئے ، وہاں ان کا سامنا ایک بڑے اژدہا سے ہوگیا ، جو کنڈلی مارے بیٹھے تھا ، اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ خزانہ دابے ہوئے ہے ۔ آگے بڑھتے ہی اژدہا کے منہ کی جانب سے پکڑ لیا ، ایک طرف انہوں نے اس اژدہے کا مارا تو دوسری طرف اس نے ڈنک کا وار کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہیروں سے بھرا باکس سانپ کے نیچے سے اٹھایا ، اور ساتھ میں بیٹھے شعر لکھ دیا کہ اچھا کیا مجھے زہر پلایا ، اب میرے اندر اتنا زہر بھرچکا ہے کہ کچھ اثر ہی نہیں کرتا !!!


میخانے کی چوکھٹ پر اک تیرا گدا
روز پٹک کر روتا ہے سر تیرے بعد

اففف ! اب امین بھائی شراب نوشی بھی کرنے لگ گئے ! یہ اعتراف تو رانا صاحب کے دھاگے میں محترم فاتح اور نایاب صاحب نے کیا تھا ۔۔۔ ان کی اس لت کو ان کی والدہ تک مخبری کرنے کی ضرورت ہے ! جو اس کار خیر میں حصہ لے ، اس کو تیس روزوں کا ثواب ملے گا ، بشرطیکہ کہ روزے وہ خود ہی رکھے ۔۔۔ ان کی محبوبہ روز ان کو وائن کی خاص بوتل عنایت کرتی تھی جس سے رات کو نیند بہت اچھی آتی تھی ۔اب نیند کی کمی کے باعث سر پٹخ کے رونا شُروع کردیا ہے ۔خدشہ ہے کہ نشے کی لت میں پڑنے کے بعد کہیں سر دیواروں پہ پٹخ پٹخ کے جانبر ہی نہ ہو جائیں


تیرے نقشِ پا میں سمٹ کر بیٹھیں گے
خاک رہے گی اپنے سر پر تیرے بعد

آخری شعر شاعرانہ ذوق کی مکمل عکاسی کر رہا ہے ۔۔۔۔۔یہ واحد شعر ہے جس میں اصلاح کی کوئی گُنجائش نہیں کہ شعراء بے چارے خاک سر پر ڈال کے ، مست ملنگ رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے شاعرانہ تخیل کے داد دیتے ، آخری شعر کے باعث شاعر کا رتبہ دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

فاتح

لائبریرین

نور وجدان

لائبریرین

رانا

محفلین
نور سعدیہ شیخ ، آپ تو ان دو اولین اور بنیادی شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔۔۔ :unsure:
:laughing::laughing::laughing:
ارے بھائی اگر کوئی ہمارے غیرشاعرانہ گروپ میں شامل ہونا ہی چاہ رہا ہے تو آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ آپ کو ڈر لگ رہا ہے کہ ہماری نفری بڑھ گئی تو آپ شاعر حضرات کہیں کے نہ رہیں گے۔ وہ تو آپ ویسے بھی کہیں کے نہیں رہنے والے مقدس بہنا ابھی آتی ہوں گی آپ کی اصلاح کرنے کو۔:rollingonthefloor:
 

رانا

محفلین
رانا بھائی نے یہ اعلان میرے مشورے پر کیا تھا مگر مجھے سے پوچھے بنا شرائط ڈال دیں ۔۔۔۔۔۔ چونکہ یہ ہمارا خیال ہے ، اس لیے اس میں عملی ترمیم کرنے کی ٹھانی :p:LOL::ROFLMAO:
ہیں جی۔۔۔ چلیں جناب آپ ہماری چھوڑی بہن ہیں اس لئے آپ کو شرائط میں عملی ترمیم کے تمام جملہ حقوق عطا کئے جاتے ہیں۔:rollingonthefloor:
لیکن اب شرط یہ ہے کہ اگلے ایک سال تک سکہ بند شاعروں کی چوپال میں نہیں بیٹھنا۔ اگر کبھی دیکھ لیا نا کہ آپ نے پابند بحور شاعری کے زمرے میں کچھ ارسال ورسال کیا ہے تو خیر نہیں۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

رانا

محفلین
مگر یہ ’گیارویں سالگرہ‘ بریکٹ میں کیوں ہے، اس کو تو سابقہ بنانا تھا۔ اب شاید منتظمین یہ کام کر سکتے ہیں۔ ابن سعید
اصل میں جس زمرے میں یہ ارسال کی ہے اس میں سالگرہ کے سابقے مہیا نہیں تھے۔ اب منتظمین ہی اسے سالگرہ والے زمرے میں منتقل کرسکتے ہیں سابقہ کے ساتھ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
محفل کے کامیاب نو آموز شاعر

ا
ردو محفل میں آئے دن ، شعراء میں اضافہ ہورہا ہے جن میں اکثر وہ حاضرین ہیں جو عروض کی الف ،ب تک نہیں جانتے ، اس ضمن میں تابش نا صرف اس فن میں ماہر ہیں بلکہ ایسے مضامیں لاتے ہیں ، جس کی بدولت اردو کے ماہرینِ لساینات نے نصابی کتب میں نئے شعرا کے منظوم کلام کو بھی شامل کرنے کا ارادہ ہے

کاہلی ۔۔۔۔۔جدید دور کی جدید نظم

یہ سچ ہے کہ قدرت کے کارخانے میں تخلیق شُدہ شے ، خیال بے کار نہیں ۔ اسی خیال کی پرزور تائید محمد تابش صدیقی نے کی ہے ۔ اردو حلقہ انجمن نے اس بیش بہا نظم کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے ، نوبل پرائز کی نامزدگی کے لیے بھیج دی ہے


کسی کو کیسے بتائیں ہم اتنے کاہل ہیں
جو خود ہی بول نہ پائیں ہم اتنے کاہل ہیں


سائنس اور ادب کا انوکھا امتزاج ، آج کل کے مشینی دور میں ہر صنعت اپنی جگہ مکمل شاہکار ہے ۔ نئے جدید طرز کے روبوٹ ، جو صبح کو اٹھاتے ہیں ، تو کچھ برش کراتے ہیں ، کچھ جسم کا مساج کرتے اضافی چربی کا اخراج کرتے ہیں ، کچھ منہ کے پاس چپکائے جاتے ہیں تاکہ ہونٹ کے عضلات حرکت میں آجائیں ، جس سے بندے کئ زبان چھری کی مانند تیز ہوجاتی ہے ۔۔۔ ماہرین نفیسات نے ایسے نادیدہ آلات پہلے گھریلو عورتوں کے لبوں کے پاس ایجاد کیے ہیں مگر آج کل یہ مردوں کے پاس بھی پائے جاتے ہیں ، اس شدت و جذب کو تابش نے انہی الفاظ میں قلمبند کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محفل کے اساتذہ اس لیے ان کی خدمات کے نتیجے میں اس واحد نظم کی ایپ بنانے کی درخواست کر رہے ہیں ۔۔۔۔تابش صاحب سے درخواست ہے کہ اس کی ایپ بناتے محفلین کو شاعری کے رموز و اوقاف کی آگاہی دیں


بجا کہ وقت نہیں ہے ہمارے پاس مگر
ذرا سا اور سو جائیں ہم اتنے کاہل ہیں

رسل کے بعد تابش نے کاہلی کی تعریف کی ہے ۔ رسل کہتے ہیں کہ انسانی زندگی میں کاہلی بھی نعمت ہے ، محنت کرکے سرمایہ داروں کی جیبوں کو مت بھریے ۔ جبکہ تابش کہتے ہیں کہ محنت کرکے نواز شریف کا کیا دینا ہے ، بلکہ جس طرح حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لیتی ہے ، اسی طرح قرض لے کے جیئں اور مقروض مر جائیں ۔۔۔۔۔ یہاں یورپی ایپی کیورن فلاسفی کی جھلک ملتی ہے ۔


رکھا ہے پاس ہی کولر ہمارے کمرے میں
مگر "وہ" پانی پلائیں ہم اتنے کاہل ہیں

ہیں جی۔۔۔ چلیں جناب آپ ہماری چھوڑی بہن ہیں اس لئے آپ کو شرائط میں عملی ترمیم کے تمام جملہ حقوق عطا کئے جاتے ہیں۔:rollingonthefloor:
لیکن اب شرط یہ ہے کہ اگلے ایک سال تک سکہ بند شاعروں کی چوپال میں نہیں بیٹھنا۔ اگر کبھی دیکھ لیا نا کہ آپ نے پابند بحور شاعری کے زمرے میں کچھ ارسال ورسال کیا ہے تو خیر نہیں۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor:

میں تو جناب تابش صدیقی کی اصلاح میں مصروف تھی آپ کے اعلان نے تو ساری توانائیاں کھینچ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب یہ آدھی اصلاح کافی ہے ۔۔۔۔۔ ویسے نوازش ہے ، آپ کی طرف سے مہربانی کی امید ہمیشہ رہی ہے ، شرط پر شرط والا معاملہ رازداری میں طے کرتے ہیں ۔۔۔۔ محفلین کے سامنے ایسی رازدارنہ باتیں شریک کرنا سراسر زیادتی ہے :p:) ویسے ہم پر بھی کاہلی کا ثر ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اصلاح کاہلی پر نہیں کرتے
کاہلی جان! ہم کتنے کاہل ہیں:ROFLMAO:
 

رانا

محفلین
امین بھیا کی موشگافیاں

کتنا رنگیں تھا ہر منظر تیرے بعد
میں نے دیکھی دنیا اٹھ کر تیرے بعد

اس شعر میں امین بھیا نے اپنی شوخ و رنگین طبیعت کے بارے میں محفلین کے بتایا ۔ شعر کی تاریخ ان کی پُرانی محبوبہ سے جُڑی ہے ۔ ان کے مطابق پرانی محبوبہ نے بیوی سا روپ اختیار کرلیا تھا ۔ اس لیے وہ روزانہ نماز میں اس کے مرنے کی دُعا مانگا کرتے تھے ۔ مسجد کے ساتھی ، اقرباء پہلے پہل تو ان کے دین کی طرف رغبت پر حیرت کُناں رہے، اسی وجہ سے ان کی آؤ بھگت میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ گھر والے پہلے جو ان کی تھکی تھکی شکل دیکھ کے بیزار سے ہونے لگے تھے ، چہرے پر آئی مسکراہٹ ، روزانہ کی تیاری دیکھتے خوش رہنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔امین بھائی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے کہ اصل دنیا تو ایک محبوب کے اٹھ جانے کے بعد ہی وجود میں آتی ہے اور نئی دنیا کے حسین مناظر ہر سابقہ محبوب کے بعد ایک جداگانہ ، منفرد طرز سے کھلتے ہیں

سب رستوں کی بھول بھلیاں یاد ہوئیں
گھوم رہا ہوں اختر اختر تیرے بعد


موجودہ دور میں محبوبہ کی وفات خوشی کا عندیہ ہونے کے ساتھ نئے حادثات کے جنم لینے کا باعث بھی ہے ۔ نیا وقوعہ شاعر کی سائنسی و مہم جو طبع کی وجہ سے واقع ہوا ، انقلابی فطرت نے اختر شماری کے بجائے ، سیاحت کو ترجیح دی ہے ۔۔۔ گمان غالب ہے کہ پاکستانی قوم ان کی تقلید میں خلاء میں رہنے کے لیے سامان باندھ رہی ہے ۔ امریکہ تو امریکہ ، بھارت تک حیران ہے کہ پاکستان قوم انتہائی کاہل و سست ہونے کے باوجود خلا میں پہنچ چکی ہے ۔۔اردو محفل کی دسویں سالگرہ کے موقع پر ان کی اس خدمت کو بہتر طور پر خراج تحسین پیش کیا جائے ، محفلین سے درخواست ہے کہ اس کارخیر میں حصے لیتے ان کی خوشی کا اضافہ سامان بنتے ، خلا جانے کے نئے راستے پوچھیے ۔

نوٹ : یہ '' خلا'' نفیساتی مرض ہر گز نہیں جس میں مبتلا ہونے بندہ سوچ میں خلا در خلا تیرتا رہتا ہے ۔۔۔یار دوست کہتے ہیں کہ بندہ تو گیا کام سے


جھیلوں، نہروں، دریاؤں کی بات نہیں
بھاگ رہا تھا مجھ سے سمندر تیرے بعد


اس شعر میں سارا تخییل سائنسی اصولوں کے خلاف ہے ۔ خبردار ! محفل میں سائنسی اصولوں سے ہٹ کے شاعری منع ہے ۔ جس نے ایسا کیا ہے کہ اس پر سائبر کرائم ایکٹ کی'' فلاں فلاں'' دفع لاگو ہوسکتی ہے ۔ خوشی میں لو ! اتنے بڑھ گیے کہ سمندر کو اپنے پیچھے بھگا دیا ۔۔۔ اس لیے ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس شعر کو حذف کردیں

اچھا کیا جو زہروں سے مانوس کیا
مجھ کو ملنا تھا اک اژدر تیرے بعد

مہنگائی کا زور بہت تھا ۔ عام بندہ تو پٹرول ، بجلی اور دوسرے یوٹیلیٹی بلز میں تنخواہ گنوا دیتا ہے ۔۔۔ نیا گھر تعمیر کرنے کا سوچ رہے تھے مگر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں سے لائیں اتنے پیسے ! ایک دن شکار کھیلنے چلے گئے ، وہاں ان کا سامنا ایک بڑے اژدہا سے ہوگیا ، جو کنڈلی مارے بیٹھے تھا ، اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ خزانہ دابے ہوئے ہے ۔ آگے بڑھتے ہی اژدہا کے منہ کی جانب سے پکڑ لیا ، ایک طرف انہوں نے اس اژدہے کا مارا تو دوسری طرف اس نے ڈنک کا وار کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہیروں سے بھرا باکس سانپ کے نیچے سے اٹھایا ، اور ساتھ میں بیٹھے شعر لکھ دیا کہ اچھا کیا مجھے زہر پلایا ، اب میرے اندر اتنا زہر بھرچکا ہے کہ کچھ اثر ہی نہیں کرتا !!!


میخانے کی چوکھٹ پر اک تیرا گدا
روز پٹک کر روتا ہے سر تیرے بعد

اففف ! اب امین بھائی شراب نوشی بھی کرنے لگ گئے ! یہ اعتراف تو رانا صاحب کے دھاگے میں محترم فاتح اور نایاب صاحب نے کیا تھا ۔۔۔ ان کی اس لت کو ان کی والدہ تک مخبری کرنے کی ضرورت ہے ! جو اس کار خیر میں حصہ لے ، اس کو تیس روزوں کا ثواب ملے گا ، بشرطیکہ کہ روزے وہ خود ہی رکھے ۔۔۔ ان کی محبوبہ روز ان کو وائن کی خاص بوتل عنایت کرتی تھی جس سے رات کو نیند بہت اچھی آتی تھی ۔اب نیند کی کمی کے باعث سر پٹخ کے رونا شُروع کردیا ہے ۔خدشہ ہے کہ نشے کی لت میں پڑنے کے بعد کہیں سر دیواروں پہ پٹخ پٹخ کے جانبر ہی نہ ہو جائیں


تیرے نقشِ پا میں سمٹ کر بیٹھیں گے
خاک رہے گی اپنے سر پر تیرے بعد

آخری شعر شاعرانہ ذوق کی مکمل عکاسی کر رہا ہے ۔۔۔۔۔یہ واحد شعر ہے جس میں اصلاح کی کوئی گُنجائش نہیں کہ شعراء بے چارے خاک سر پر ڈال کے ، مست ملنگ رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے شاعرانہ تخیل کے داد دیتے ، آخری شعر کے باعث شاعر کا رتبہ دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
بہت عمدہ نور بہنا۔:) امین بھائی کو بھی اصلاح کی ضرورت تھی ہمیں تو علم ہی نہ تھا۔ اچھا ہوا آپ کے ہتھے چڑھ گئے۔ امین بھائی مفت میں اصلاح آجکل کہیں نہیں ملتی۔ یہ تو رضاکارانہ نور بہنا نے فرض سمجھ کر خدمت انجام دے ڈالی۔ آئندہ اپنی نئی غزلیں شائع کرنے سے پہلے نور بہنا کو ضرور دکھا لیا کیجئے۔:ROFLMAO:
 
نور بہن، آپ کی اصلاح سر آنکھوں پر۔
یہاں پر بطورِ صلاح کار آپ کی اصلاح کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
اردو محفل میں آئے دن ، شعراء میں اضافہ ہورہا ہے
متشاعر کو شاعر کہنے سے شعراء کے دل پر جو گزری ہو گی اس کا علاج کون کرے گا۔ :p
 

رانا

محفلین
محفل کے کامیاب نو آموز شاعر

ا
ردو محفل میں آئے دن ، شعراء میں اضافہ ہورہا ہے جن میں اکثر وہ حاضرین ہیں جو عروض کی الف ،ب تک نہیں جانتے ، اس ضمن میں تابش نا صرف اس فن میں ماہر ہیں بلکہ ایسے مضامیں لاتے ہیں ، جس کی بدولت اردو کے ماہرینِ لساینات نے نصابی کتب میں نئے شعرا کے منظوم کلام کو بھی شامل کرنے کا ارادہ ہے

کاہلی ۔۔۔۔۔جدید دور کی جدید نظم

یہ سچ ہے کہ قدرت کے کارخانے میں تخلیق شُدہ شے ، خیال بے کار نہیں ۔ اسی خیال کی پرزور تائید محمد تابش صدیقی نے کی ہے ۔ اردو حلقہ انجمن نے اس بیش بہا نظم کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے ، نوبل پرائز کی نامزدگی کے لیے بھیج دی ہے


کسی کو کیسے بتائیں ہم اتنے کاہل ہیں
جو خود ہی بول نہ پائیں ہم اتنے کاہل ہیں


سائنس اور ادب کا انوکھا امتزاج ، آج کل کے مشینی دور میں ہر صنعت اپنی جگہ مکمل شاہکار ہے ۔ نئے جدید طرز کے روبوٹ ، جو صبح کو اٹھاتے ہیں ، تو کچھ برش کراتے ہیں ، کچھ جسم کا مساج کرتے اضافی چربی کا اخراج کرتے ہیں ، کچھ منہ کے پاس چپکائے جاتے ہیں تاکہ ہونٹ کے عضلات حرکت میں آجائیں ، جس سے بندے کئ زبان چھری کی مانند تیز ہوجاتی ہے ۔۔۔ ماہرین نفیسات نے ایسے نادیدہ آلات پہلے گھریلو عورتوں کے لبوں کے پاس ایجاد کیے ہیں مگر آج کل یہ مردوں کے پاس بھی پائے جاتے ہیں ، اس شدت و جذب کو تابش نے انہی الفاظ میں قلمبند کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محفل کے اساتذہ اس لیے ان کی خدمات کے نتیجے میں اس واحد نظم کی ایپ بنانے کی درخواست کر رہے ہیں ۔۔۔۔تابش صاحب سے درخواست ہے کہ اس کی ایپ بناتے محفلین کو شاعری کے رموز و اوقاف کی آگاہی دیں


بجا کہ وقت نہیں ہے ہمارے پاس مگر
ذرا سا اور سو جائیں ہم اتنے کاہل ہیں

رسل کے بعد تابش نے کاہلی کی تعریف کی ہے ۔ رسل کہتے ہیں کہ انسانی زندگی میں کاہلی بھی نعمت ہے ، محنت کرکے سرمایہ داروں کی جیبوں کو مت بھریے ۔ جبکہ تابش کہتے ہیں کہ محنت کرکے نواز شریف کا کیا دینا ہے ، بلکہ جس طرح حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لیتی ہے ، اسی طرح قرض لے کے جیئں اور مقروض مر جائیں ۔۔۔۔۔ یہاں یورپی ایپی کیورن فلاسفی کی جھلک ملتی ہے ۔


رکھا ہے پاس ہی کولر ہمارے کمرے میں
مگر "وہ" پانی پلائیں ہم اتنے کاہل ہیں



میں تو جناب تابش صدیقی کی اصلاح میں مصروف تھی آپ کے اعلان نے تو ساری توانائیاں کھینچ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب یہ آدھی اصلاح کافی ہے ۔۔۔۔۔ ویسے نوازش ہے ، آپ کی طرف سے مہربانی کی امید ہمیشہ رہی ہے ، شرط پر شرط والا معاملہ رازداری میں طے کرتے ہیں ۔۔۔۔ محفلین کے سامنے ایسی رازدارنہ باتیں شریک کرنا سراسر زیادتی ہے :p:) ویسے ہم پر بھی کاہلی کا ثر ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اصلاح کاہلی پر نہیں کرتے
کاہلی جان! ہم کتنے کاہل ہیں:ROFLMAO:
نور بہنا ہلکا ہاتھ رکھنے کا تکلف نہیں کرنے کا۔ اس دھاگےمیں کسی شاعر کی مجال نہیں آپ کو کچھ کہہ سکے۔:ROFLMAO:
ہمیں تو افسوس ہورہا ہے کہ راحیل بھائی کے ایک شعر پر ہمارا ہاتھ تھوڑا ہلکا پڑگیا۔ اب دوبارہ دیکھا تو احساس ہوا کہ اس میں تو مزید اٹھاخ پٹاخ کی ابھی بہت گنجائش تھی۔:rollingonthefloor:
 
Top