محفلین کے انٹرویو

@LaAlma

@LaAlma @ خورشید احمد خورشید نوید احمد حماد علی الشفاء الف نظامی محمد عبدالرؤوف فیصل عظیم فیصل آپ سب سے انٹرویو کی اجازت درکار ہے۔ عبداللہ محمد بھائی کا انٹرویو ان کے نہ نہ کرتے کرتے شروع کر لیا اس پہ ان سے تھوڑی سی شرمندہ بھی ہوں مگر ان کو بھائی سمجھا اور ویسی بے تکلفی کا مظاہرہ بھی کیا۔ باقی سب اپنی اپنی availability بتائیں تاکہ اس معاملے میں مزید کچھ کیا جا سکے۔ مزید برآں کچھ اور نام اگر ذہن میں آئیں جو لوگ آج کل محفل پر آ رہے ہیں اور ان کا انٹرویو کبھی نہیں ہوا تو بتائیے۔
محترمہ مریم افتخار صاحبہ!شکریہ کہ آپ نے اس قابل سمجھا۔ یہ آپ کی بڑائی ہے۔
لیکن معذرت کے ساتھ میں اپنی کمزوری کا اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے مرکزِنگاہ بننے پر گھبراہٹ ہوتی ہے۔
البتہ باقی دوستوں کے انٹرویو کا شدت سے منتظر ہوں۔
 
میرا ایک مہینے سے شدت سے دل چاہ رہا ہے کہ یہ انٹرویوز کا سلسلہ پھرسے شروع کروں۔ نئی لڑیاں چاہے نہ بھی بنیں مگر پرانی لڑیوں میں نئے سوالات ضرور ہوں! اسی طرح جن محفلین کے انٹرویو رہ گئے تھے وہ بھی ضرور ہوں۔ کچھ محفلین ہمارے لیے بھی نئے ہیں، ان کو بھی جانیں گے۔
اب آپ سوچیں گے کہ اتنے عرصے سے اتنا کچھ سوچ رکھا ہے تو کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ بس دل چاہتا ہے کہ یہ ذرا منظم سا ہو اور اس کے لیے دوبارہ سے کچھ لوگ ہمارے ساتھ ٹیم اپ ہونے پہ وولنٹئیر کریں کیونکہ پہلے والی ٹیم محفل کے جانے سے پہلے جا چکی۔ جیسےمقولہ مشہور ہے کہ موت سے پہلے مر جاو وغیرہ۔ کون کون ہم سے اتفاق کرتا ہے اور وقت نکال پائے گا انٹرویو دینے یا لینے کے لیے؟ :)
اچھا خیال ہے۔ یہ سلسلسہ چلنا چاہیے۔
 
محفلین کے انٹرویوز کا سلسلہ زور و شور سے چل رہا ہے۔ تاہم یہ بتاتی چلوں کہ انٹرویو ٹیم (ڈیڑھ انچ کی مسجد وغیرہ) کی جانب سے سبھی انٹرویو دینے والوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جس سوال کا جواب نہ دینا چاہیں، اگنور کریں۔ کسی اور کے انٹرویو سے کوئی سوال اٹھا کر اس کا جواب دینا چاہیں تو ہمارا سیروں خون بڑھ جائے گا اور وہ لوگ جن سے ہم انٹرویوز کے لیے پوچھ چکے ہیں اپنی دستیابی سے آگاہ کریں، مزید جو قارئین انٹرویو دینا چاہتے ہیں رابطہ کریں، کیونکہ ہم آپ سب کے انٹرویوز کے لیے بے تاب ہیں! :)
 
مجھے انٹرویوز لینے اور دینے کا شوق ازل سے ہی ہے اور اس کے پیچھے وہی سوچ کارفرما رہی ہے کہ مطالعے کو کتابوں میں درج قصے کہانیوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ آگے بڑھ کر خود حضرت انسان کا مطالعہ کیا جائے۔ کتابوں میں لکھے پر یقین تو ہے مگر وہ اکثر و بیشتر اتنا پراسیسڈ ہوتا ہے کہ میں سمجھتی ہوں بہت کم کتابیں انسان کی وہ خام حالت بیان کر پاتی ہیں جس میں وہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور ہم کتابیں پڑھنے والے بھی کہیں نہ کہیں خدا جانے کن غیر مرئی ہیروز سے محبت کرنے لگتے ہیں جب کہ حقیقت میں انسان اپنی اصل حالت میں ہی محبت و عزت کے لائق ہے۔ اپنے بچپن میں ایک واقعہ پڑھا تھا (اب اس کی صحت پر تحقیق تو نہ کی) مگر اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے یہاں مثال کے طور پر پیش کر رہی ہوں کہ اقبال سے ملنے ایک شخص بہت دور سے آیا۔ آ کر دیکھا تو پسینے میں شرابورایک آدمی فقط تہہ بند باندھے جانوروں کو چارا ڈال رہا تھا۔ اس نے کہا کہ میں بہت دور سے یہاں اقبال صاحب کے درشن کرنے آیا ہوں۔ چارہ ڈالنے والے آدمی نے ہاتھ دونوں جانب پھینک کر فرمایا: "کر لو درشن!"۔ میں اگر کبھی پاکستان میں کسی پاور میں آ پائی تو ایک ایسی لائبریری بنواؤں گی (جو کسی اور ملک میں سنی تھی) جہاں کتابوں کی بجائے انسانوں کو کچھ دیر کے لیے لائبریری کے کسی سٹڈی ٹیبل پر مستعار لیا جاتا تھا اور لوگ انسانوں کو پڑھتے تھے۔ میں اگر تاریخ میں خود کو کبھی لکھوانا چاہوں گی تو اپنی خام ترین حالت میں، جس میں انسان سر تا پا سرکس کا سدھایا ہوا جانور نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا معاشرتی جانور ہوتا ہے جو وہ کرے جو اس کی جبلت کہتی ہے اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو یہ کرنے کا مارجن دے تاہم اس میں بنی نوع انسان یا دوسرے جانوروں کو نقصان پہنچانے کا قصد قطعا نہ ہو۔
 
آخری تدوین:
جیسے جیسے محفل کے جانے کے دن قریب آتے جا رہے ہیں، ہم اپنے انٹرویوز کے سلسلہ کو کلوز کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی چند ایک اہم انٹرویوز رہتے ہیں جن کے لیے میری ٹیم میں یاز اور جاسمن بھی ہیں۔ ہمارے ساتھ جڑے رہیے گا!
 
آخری تدوین:
Top