انٹرویو محترم سید عاطف علی سے ایک مصاحبہ!

سید عاطف علی

لائبریرین
3) جب کچھ آپ سے جدا ہو رہا ہو تو اسے بطریق احسن کیسے جانے دیا جائے؟
کچھ کی وضاحت کے بغیر کوئی رائے ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ جو کچھ کے پیچھے آنے والی ہر نوع کو محیط ہو۔
خیر اجمالی طو پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی نام ہی کچھ کھونے اور کچھ پانے کا ہے۔ اس سلسلے کو شروع ہی سے اپنی عادت بنانی چاہیے کہ ہر چیز کو دوام نہیں ۔ دوام اگر ہے تو صرف تغیر کو ہے ۔ ہر ہاتھ سے جانے والی چیز سے حاصل ہونے والا سبق آپ کو آنے والی چیز کا قدردان بناسکتا ہے بشرطے کہ آپ اپنے تجربات سے اپنی فکر پر پڑنے والے نقوش کے ذریعے بہتر اور روشن راستے تلاش کر سکیں ۔
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے لگا آپ کو یہ چائے پسند آئے گی۔ میں نے کچھ وقت عرب خواتین کے ساتھ فلیٹ شئیر کیا ہے اور ان کے ساتھ روز شام کو یہ چائے پی ہے، دیکھیں تو ذرا کیسی بنی ہے!
بہت اعلی
بھیا اس پر تو انعا م بنتا ہے مریم کا.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
4) اور شاعرات کی تعداد کم، یہ کیا ماجرہ ہے؟
یہ تو سب سے ہی مشکل سوال آگیا ۔ خیر ۔
تعداد کے لحاظ سے دیکھیں تو یہی بات سامنے آئے گی کہ شاعرات کو جس طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مواقع کم میسر آتے ہیں ۔
علم و ادب ، فن و تخلیق کا شعبہ بھی اس سے مختلف نہیں ۔اس کی وجہ تاریخی اور سماجی ہی ہے ۔
4) شاعری میں محبوب مذکر ہے ۔
محبوب کا لفظ لفظی طور پر تو حب سے نکلا ہے جس کے لیے کوئی شرط نہیں ۔ یہ انسان کے شعور کی گہرائی میں بسنے والے جذبات میں سے ایک بنیادی جذبہ ہے ۔
اس بات سے ایک اور بات یاد آئی ۔ نو جوانی میں ڈاکٹر اقبال سے بہت متاثر تھا (اب بھی ہوں)شاید ایک جرمن اورئینٹلسٹ این میری شمل نے کسی بحث میں کہا کہ رابعہ بصریہ معروف صوفی (مسٹک) ہیں لیکن اقبال کے نظر میں وہ مرد مومن (کے تصور کا مصداق) ہیں ۔
یہ محبت کے جذبے کو آفاقی حیثیت دینے کی مثال ہے ۔ انداز بیان سے اپنے اپنے موضوعات تراشنا شعراء کا ازل سے وطیرہ رہا ہے۔ سلیمی اور سعاد عرب شعراء میں معشوقائیں رہی ہیں شاید۔ اور اردو میں
اختر شیرانی صاحب کو پڑھ لیجیے ۔
یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں
بدنام ہو رہا ہوں سلمی سے دل لگا کر
اور
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں وغیرہ وغیرہ
 
آخری تدوین:
Top