کچھ مصروفیت کے باعث اب دیکھے اتنے سارے بھاری بھاری سوالات اور اوپر سے تنہا اور نہتا میں ۔
ایسا لگتا ہے مجھے کوئی عالم فاضل سمجھ کر پوچھے گئے ہیں ۔حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ من آنم کہ من
اورصرف من ہی دانم

۔ بہر حال ، اب جب سمجھ ہی لیا گیا ہے تو جواب بھی مختصرا ہی دوں تاکہ غلط فہمی غلط ہی نہ ہو جائے ۔
1) کیا نئی نسل بھی آپ کے والد صاحب کے ادبی ورثے کی امین ہے؟ گھر کا ماحول ادبی ہو مگر اب اداروں کا ماحول اور صحبت ویسی نہ ہو تو بچوں میں کس حد تک نئے سوالات اور جہتیں سر اٹھاتی ہیں؟ نئی نسل کے لیے لٹریچر کا متبادل کچھ ہو سکتا ہے؟
1۔ اسے ففٹی ففٹی کہہ سکتے ہیں ۔بہن بھائیوں میں اکثر شعرو سخن فہمی کاکافی حد تک ذوق رکھتے ہیں ۔ ایک بڑے بھائی شعر گوئی میں بھی اکثر طبع آزمائی کرتے تھے مثلا رسائل میں اپنا کلام بھیجنا وغیرہ اب بھی کبھی کبھار کرتے ہیں ۔میرے بچے ادب شعر اور مطالعے سے کافی دلچسپی رکھتے ہیں بھانجے بھتیجوں میں شعر و سخن کا پڑھنے کا ذوق ففٹی ففٹی نظر آتاہے ۔(میں خود بھی کبھی کچھ شعر کہتا تو خود کو ہی سنا دیتا تھا ہائیلی انٹرورٹ ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کرتا تھا نہ محفوظ کیا کرتا تھا ۔ اس محفل میں ایک سنجیدہ اور بے غرض اور صحتمندانہ ماحول دیکھا تو پیش بھی کیا اور اساتذہ اور دیگر اچھے اچھے کہنے والوں نے سراہا تو ادبی غلط فہمی کا شکار آپ کی طرح میں خود بھی ہو گیا ) ۔
جہاں ادب کا تعلق ہے تو یہ انسان کے شعوری سفر کا ایک لازمہ ہے جو ہر زمانے کے ماحول کے مطابق رنگ بناتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے اوریہ وقت کے تقاضوں سے متاثر ہوتا ہوا ہمیشہ جاری رہے گا۔نئی نسل کو چکا چوند ملٹی میڈیا پر مشتمل ایک وسیع عالم کا سامنا ہے یہی ایک بڑا چیلنج بھی ہے ۔ اگر یہ لٹریچر کی جگہ لے لے گا تو ادب و شعور کی منزلوں سے دور فکر کے خالص احساسات کے فاصلے کا سبب بنے گا اورایسے صحتمندانہ انداز فکر سے جو اعلی انسانی اقدار کا محافظ ہو ، محروم رہے گا تا آنکہ اپنے خارجی افکار کے رخ کو اپنی روح کی داخلی جانب نہ موڑےاور ظاہر و باطن کے اعتدال سے اپنی دنیا بنائے ۔