محبت کے موضوع پر اشعار!

شمشاد

لائبریرین
کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے
یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے

وہ نہ آئے تو ستاتی ہے خلش سی دل کو
وہ جو آئے تو خلش اور جواں ہوتی ہے

روح کو شاد کرے دل کو جو پُرنور کرے
ہر نظارے میں یہ تنویر کہاں ہوتی ہے

ضبطِ سیلابِ محبت کو کہاں تک روکے
دل میں جو بات ہو آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے

زندگی اک سلگتی سی چِتا ہے “ساحر“
شعلہ بنتی ہے نہ یہ بجھ کے دھواں ہوتی ہے
(ساحر ہوشیارپوری)
 

الف نظامی

لائبریرین
شایاں نہیں وہ دولتِ دیدار کے لیے
جو آنکھ شاہِ دینﷺ کی محبت میں نم نہیں
زادِ سفر اگرچہ میسر نہیں مگر
مایوس اپنے خواجہ ﷺکی رحمت سے ہم نہیں
مظہر میں تاجدارِ عربﷺ کا غلام ہوں
میرا سرود، نغمہِ سازِ عجم نہیں
از حافظ مظہر الدین مظہر
 

شمشاد

لائبریرین
دور رہ کر بھی تجھ سے محبت کرنا مجھے اچھا لگا
تُو بتا آخر تجھے یہ واقعہ کیسا لگا

اتنے فاصلے میں بھی ہے تیری قربت کے مزے
تجھ سے ملنا، تجھ کو چاہنا، مجھے اچھا لگا
 

الف نظامی

لائبریرین
اسی سے میری محبت کی شام ہے رنگیں
میری سحر کی اذاں لا الہ الااللہ
اسی لیے تو بتوں کی جبیں ہے خاک آلود
ہے میرے وردِ زباں لا الہ الااللہ
وہیں جمالِ رخ یار کی تجلی ہے
جہاں ہے وجد کناں لا الہ الااللہ
جنوں مشاہدہ ذاتِ ذوالجلال میں ہے
خرد ہے وہم و گماں لا الہ الااللہ
از حافظ مظہر الدین مظہر
 

ماوراء

محفلین
محبت کو چلو کسی در پر چھوڑ آئیں
اس سبز سنہری شیشے کو
کسی پتھر پہ توڑ آئیں
چلو اپنی آنکھیں پھوڑ آئیں
اس شہر طلسم کی جانب
دو قدم چلیں،کچھ پل رکیں
کچھ کہہ جائیں کچھ بھول آئیں
چلو باتیں کچھ دہرائیں
کبھی ہر بات سے مکر جائیں
کبھی رستے سے پلٹ آئیں
کبھی در پر گزار عمر آئیں
کچھ دل کے ساتھ چلیں ہم
کسی رات سنگ ڈھلیں ہم
چاہے جتنے موڑ آئیں
ہم اپنی ہستی بھول آئیں
کہیں اپنی انا چھوڑ آئیں
چلو خود کو کسی گلی،کسی نگر چھوڑ آئیں
اس دل کے شیشے کو کسی پتھر پر پھوڑ آئیں۔۔۔۔۔۔



 

ماوراء

محفلین

آنکھیں مصروف ہو جاتی ہیں،بھلا دیتے ہیں لوگ
دور بہت دور نکلتے ہیں،منزلیں گنوا دیتے ہیں لوگ
دست طلب اٹھا کے مانگتے ہیں محبت خدا سے
جو ہو دسترس میں تو خود ہی گنوا دیتے ہیں لوگ
 

شمشاد

لائبریرین
ہونٹوں پے محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پے سمندر کے خزانے نہیں آتے

پلکیں بھی چمک اُٹھتی ہیں سوتے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے
(بشیر بدر)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ کیسی محبت، کہاں کے فسانے
یہ پینے پلانے کے سب ہیں بہانے

وہ دامن ہو ان کا کہ سنساں صحرا
بس ہم کو تو آخر ہیں آنسو بہانے
(سریندر ملک گمنام)
 

تیشہ

محفلین
نظر اَٹھا کے محبت سے تونے دیکھا تھا
وہ وقت ٹھر گیا ہے وہ شام باقی ہے
ھمارے عہد ِ محبت سے کیا رہا باقی
اداس کرنے کو بس ایک نام باقی ہے ،
 

شمشاد

لائبریرین
اک لفظِ محبت کا اتنا سا فسانہ ہے
سمٹِ تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

یہ کس کا تصور ہے، یہ کس کا فسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں‌ میں تسبیح کا دانہ ہے
(جگر مراد آبادی)
 

شمشاد

لائبریرین
نہ محبت نہ دوستی کے لیئے
وقت رُکتا نہیں کسی کے لیئے

دل کو اپنے سزا نہ دے یونہی
اس زمانے کی بے رخی کے لیئے
 

شمشاد

لائبریرین
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بیمار کہ رونے کے بہانے مانگے

اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
(احمد فراز)
 

شمشاد

لائبریرین
ستارے جو دھمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمالِ ابروباراں میں
یہ نہ آباد وقتوں میں
دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یا کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہو گی
(امجد اسلام امجد)
 

شمشاد

لائبریرین
ستارے جو دھمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمالِ ابروباراں میں
یہ نہ آباد وقتوں میں
دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یا کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہو گی
(امجد اسلام امجد)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ رکھ رکھاو محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتار کر ہی راس آتا ہے
 
Top