محبت کی نہیں تم نے - فاخرہ بتول

عمر سیف

محفلین
میں، مرے بعد ۔۔۔

میں، مرے بعد مٹ نہیں سکتی
میں نے اک لفظ اوڑھ رکھا ہے
جو ہے تجدید زندگانی کی
یہ زمان و مکان کچھ بھی نہیں
یہ زمیں، آسماں کچھ بھی نہیں
کچھ نہیں ہے یہ وصل اور فرقت
اور یقین و گمان کچھ بھی نہیں
آنکھ جھپکی تو گُم ہوا منظر
تیر کیا ہے؟ کمان کچھ بھی نہیں
جب بھی سورج کے تھال پر لمحہ،
موم بن کر پگھل رہا ہوگا
جس میں سایہ بھی جل رہا ہوگا
ہاں، مگر لفظ جی رہے ہونگے
موت لفظوں کو کھا نہیں سکتی
لفظ زندہ رہے گا، رہنا ہے
جس نے کہنا ہے ۔۔۔ اُس نے کہنا ہے
میں نے اک لفظ اوڑھ رکھا ہے
جو ہے تجدید زندگانی کی
میں، مرے بعد مٹ نہیں سکتی
 

عمر سیف

محفلین
کہانی اوڑھ لی میں نے ۔۔۔

زمانہ چاہتا ہے ہر گھڑی بس نِت نئی باتیں
نئے دن اور نئی شامیں، نئی صبحیں نئی راتیں
نئی قسمیں، نئے وعدے، نئے رشتے، نئے ناتے
پُرانے جو بھی قصے تھے وہ اب اس کو نہیں بھاتے
میں خود لفظوں کی مصرعوں کی بہم تکرار سے جاناں!
بہت اُکتا گئی تھی اب
تو میں نے یوں کیا، لفظوں کو مصرعوں کو
لپیٹا سُرخ کاغذ میں
پھر ان کو من میں رقصاں آگ دکھلا دی
ہوا میں راکھ کے اُڑتے ہوئے ذرّوں نے جب پوچھا
کرے گی کیا؟
سُنے گی کیا، کہے گی کیا؟
تیرا دامن تو خالی ہے
کہا میں نے،
مجھے اب کچھ نہیں کرنا
مجھے اب کچھ نہیں سُننا، مجھے اب کچھ نہیں کہنا
کہانی اوڑھ لی میں نے
 

عمر سیف

محفلین
ادھ کھلی آنکھوں میں کچھ خواب جگائے اس نے
خود ہی تعبیر کے امکان مٹائے اس نے

جس کے ہاتھوں نے کماں کو کبھی تھاما ہی نہ تھا
تیر اَن دیکھے مرے دل پہ چلائے اس نے

میرے مٹی کے گھروندے کو گِرا کر پل میں
خود ہواؤں میں کئی محل بنائے اس نے

وہ دیالو ہے مگر اتنا دیالو بھی نہیں
روشنی چھین کے کچھ دے دئیے سائے اس نے

کہکشاں ساری کی ساری ہی چھپا کر گھر میں
کچھ ستارے میری پلکوں پہ سجائے اُس نے

 

عمر سیف

محفلین
زندگی خوابِ پریشاں سے زیادہ تو نہیں
اس میں تعبیر بھی مل جائے یہ وعدہ تو نہیں

بات نے بات اُلجھنے کی یہ خُو کیسی ہے؟
یہ بتا تیرا بچھڑنے کا ارادہ تو نہیں

کون خوشبو کے تعقب میں گیا دور تلک
لوگ سادہ ہیں مگر اتنے بھی سادہ تو نہیں

آپ جائیں گے تو ہم حد سے گزر جائیں گے
شہسوار آپ سہی، ہم بھی پیادہ تو نہیں

کس خوشی میں بھیجا ہے بتا سُرخ گلاب؟
ظلم کا یہ تیری جانب سے ارادہ تو نہیں

بےوفا ہم ہی سہی، خود پہ بھی کچھ غور کرو
بے رُخی آپ کی بھی حد سے زیادہ تو نہیں​
 

عمر سیف

محفلین
“ مسیحا “

خُدا نے جب شفاء تقسیم سارے زمانے میں
تمھاری اُنگلیوں پر اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھا
کسی بیمار کو چُھو لو
شفاء اُس کا مقدر ہے
تم ہر بیمار کو اپنا سمجھتے ہو
مداوہ اس کا کرتے ہو
ہر اک بیمار کے چہرے پہ رونق تم سے قائم ہے
دُعا عیسٰی کی تم کو لگ گئی شاید
تُمھی اُمید ہو اُس کی
شفاء ہاتھوں پہ تم نے رب سے لکھوا لی
مسیحا ہو

[align=left:74a18c99fc](ڈاکٹر حیدر شیرازی کے نام )[/align:74a18c99fc]
 

عمر سیف

محفلین
گھاؤ گہرا بھر جانا تھا
درد کو آخر مر جانا تھا

کون پلٹ کر کس کو دیکھے
سب کو اپنے گھر جانا تھا

اندھیاروں کے اس باسی کو
سُورج دیکھ کے ڈر جانا تھا

اشکوں کی سوغات ہے آخر
دامن اپنا بھر جانا تھا

ایک صلیب کھُبی ہے من میں
اب کی بار تو سر جانا تھا

وصل، کلّی کا صرف تبسّم
ہجر کو دائم کر جانا تھا

جانے والے نے تو ہم پر
ہر الزام کو دھر جانا تھا​
 

عمر سیف

محفلین
محبت خواب جیسی ہے

کسی بھی آنکھ کی پُتلی پہ چُپکے سے
اُترتی ہے، نشاں سا چھوڑ جاتی ہے
یقیں کے رنگ دھندلا کر
گماں سا چھوڑ جاتی ہے
محبت کا کوئی کلیہ، کوئی قانون
لوگوں کی سمجھ میں آ نہیں سکتا
کوئی بھی اس کے گہرے بھید ہرگز پا نہیں سکتا
چمکتی دھوپ کی ان چلچلاتی زرد تاروں سے،
بُنا ہے اس کو فطرت نے
یہ سب رنگوں سے برتر ہے
مگر ہر رنگ اس میں گھل گیا گویا
چھوؤ تو ہاتھ کی پوریں گُلابی ہوں
سماعت میں اُترتی دھیمی دھیمی چاپ جیسی ہے
کتابِ زیست کے بھولے ہوئے سے باب جیسی ہے
محبت خواب جیسی ہے
 

عمر سیف

محفلین
مبارک دو مجھے ۔۔۔

زباں سے زہر میں ڈوبے ہوئے کچھ لفظ نکلے
اِس طرح جیسے کماں سے تیر،
جیسے آنکھ سے آنسو،
بدن کو الوداع کہتی ہوئی اک آخری ہچکی
گھڑی بھر میں ہی منزل چھین کے جس نے
تمھاری واپسی کے راستے مسدور کر ڈالے
جو تم نے ظلم بویا تھا، اب اس کو کاٹنا تو تھا
مبارک دو مجھے، تم سے کوئی رشتہ،
کوئی ناتہ کوئی بندھن نہیں باقی
تمھارے ظلم کی وہ رات آخر ڈھل گئی اور
صبر میرا رنگ لے آیا
میں خوش ہوں سچ کی روشن جیت پر اور جھوٹ کے انجام پر دیکھو
 

عمر سیف

محفلین
سہمے طیّور جو اندر سے ڈرے ہوئے ہیں
قبل آندھی کے ہی لگتا ہے مرے ہوئے ہیں

اِن میں اَن اُترا کوئی چھم سے تو حیرت سی ہوئی
بند آنکھوں سے ستارے بھی پرے ہوئے ہیں​
 

عمر سیف

محفلین
“ سفر “

تھکن سارے ہی چہروں پر،
لکھی تھی اس سفر نے
وہ سر تا پا مسافت میں بندھے تھے
اچانک میٹھی میٹھی دھوپ نے انگڑائی سی لی
یہ صبح کی کرن پہلی
تھکن کو لے گئی تھی
تھکے ہاروں سے سونے کی لگن کو لے گئی تھی
نئی صبح نئی اُمید لے کے آگئی تھی
مسافر کے لیے یہ عید لے کر آگئی تھی
 

عمر سیف

محفلین
“ بچوں کا کھیل “

اُسے کہا تھا کہ گھر بنانا،
نہیں ہے بچوں کا کھیل جاناں!
یہ اپنی تعمیر میں تو صدیاں ہی مانگتا ہے
مگر یہ مٹنے میں دیر کرتا نہیں سمجھ لو
اُسے کہا تھا،
ابھی تو اپنی ہی گوری صبحیں،
یہ سانولی سی حسیں شامیں
یہ دَر، دریچے ہیں آج اپنے
ہے اپنی منزل، ہے اپنی راہیں
اگر یہ سب کچھ نہیں رہا کل، تو کیا کرو گے؟
اُسے کہا تھا کہ گھر بنانا، نہیں ہے بچوں کا کھیل جاناں!
 

عمر سیف

محفلین
خوشیاں کاش غموں سے ہوتیں

خوشیاں کاش غموں سے ہوتیں
بِن پوچھے، بِن مانگے اور بنا چاہے ہی
خالی جھولی میں بھر جاتیں
اور کہیں واپس نہ جاتیں
دل پر گہری چوٹ لگاتیں
ہر پل، ہر ساعت تڑپاتیں
ہم روتے تو یہ بھی روتیں
پلکیں صبح و شام بھگوتیں
خوشیاں کاش غموں سے ہوتیں
 

عمر سیف

محفلین
وقت نے گھاؤ بھر جانا تھا

ہم نے یہ آغاز میں سمجھا
اَب بچھڑے تو مر جائیں گے
تنہائی کے،
قاتل لمحوں کے ہاتھوں سے
آخر کب تک یہ بچ پائیں گے
لیکن جاناں!
جو بھی ہوا ہے
اِس پر سوچو،
کس نے کب تک پچھتانا تھا
وقت نے گھاؤ بھر جانا تھا
 

عمر سیف

محفلین
محبت خاک کر دے گی

کہا تھا ناں ۔۔۔؟
محبت خاک کر دے گی
جلا کر راکھ کر دے گی
کہیں بھی تم چلے جاؤ
کسی کے بھی تم بنو اور جس کسی کو چاہے اپناؤ
ہماری یاد سے پیچھا چُھڑانا،
اِس قدر آساں نہیں ‌جاناں!
کہا تھا ناں؟
محبت خاک کر دے گی
جلا کر راکھ کر دے گی
 

عمر سیف

محفلین
گُلاب پھر سے مہک اُٹھیں گے

گُلاب پھر سے مہک اُٹھیں گے، یقیں رکھو
یقیں رکھو کے جو ہوا وہ خُدا کی جانب سے امتحاں تھا
اور حشر کی کچھ نشانیوں میں سے اِک نشاں تھا
کچھ اپنی اس میں جفائیں بھی ہیں، خطائیں بھی ہیں ‌ضرور شامل
ہمارے اپنے کہیے کی اس میں سزائیں بھی ہیں ضرور شامل
کہ ہم نے قدرت سے جنگ کرنے کو اپنا خق میں سمجھ لیا تھا
ہمیں جو کرنا تھا کب کیا وہ،
نہیں جو کرنا تھا وہ کیا تھا
مگر ابھی بھی سنبھل گئے تو، کوئی بھی مشکل نہیں رہے گی
ہمارے رستے میں گُل کھلیں گے
کہیں بھی دلدل نہیں رہے گی
ہمارے جسموں کے گھاؤ ہم نے ہم آپ بھرنے ہیں یاد رکھو
ہمارے روحوں پہ جو خراشیں سی آگئی ہیں
انہیں مٹانا ہے اب ضروری
ہمیں سنبھلنا ہے اور ہم نے گِرے ہوؤں کو سنبھالنا ہے
غموں سے ان کو نکالنا ہے
یہ زندگی تو ازل سے تجدید مانگتی ہے
یہ دے کے نرگس کا خال کاسہ، عوض میں‌ خورشید مانگتی ہے
ہمیں سجانا ہے اپنے گھر کو نئے سرے سے
ہمیں بنانا ہے اپنے گھر کو نئے سرے سے
ہمیں بچانا ہے اپنے گھر کو نئے سرے سے
یقیں رکھو کہ جو ہوا وہ خُدا کی جانب سے امتحاں تھا
کچھ اس میں اپنی جفائیں بھی ہیں، خطائیں بھی ہیں ضرور شامل
مگر یہ سچ ہے
یقیں خدایا اگر ہے باقی
اور اپنا مضبوط ہے ارادہ
نہیں ہے پت جھڑ کے دن زیادہ
گُلاب پھر سے مہک اُٹھیں گے، یقین رکھو
 

عمر سیف

محفلین
شہزادی ایسی ہوتی ہے؟

اُس نے کہا تم شہزادی ہو
شہزادی بھی وہ کے جس کو
ساتوں رنگوں میں خوشبو کو
گُوندھ کے ڈالا ہوگا رب نے، نورانی پیکر کی صورت
ایک نظر تم ڈالو جس پر
پتھر بھی اِک بار تو بولے،
ہولے ہولے آنکھیں کھولے
وعدہ کرتا ہوں میں تم سے
جو تم چاہو، جو تم سوچو، جس شے کی ہو خواہش تم کو
اپنا تَن مَن بیچ کے بھی میں تم کو دونگا
ایک اشارہ کےکے تو دیکھو
سارا زمانہ وار دوں جاناں!
تم کو جیت کی ڈور تھما کر
اپنا سب کچھ ہار دوں جاناں!
اور اگر یہ وعدہ توڑوں
مجھ کو جیون راس نہ آئے
دوجامجھ کو سانس نہ آئے
اُس نے کہا تم شہزادی ہو
سوچ رہی ہوں،
شہزادی کیسی ہوتی ہے؟
جیسی میں ہوں،
شہزادی ایسی ہوتی ہے؟؟؟
 

عمر سیف

محفلین
خراج ہے یہ محبتوں کا ۔۔۔

خراج ہے یہ محبتوں کا، عداوتوں کا
عذاب لمحوں کی وحشتوں کا
لہو میں نکھری حکائتوں کا
بند سے لپٹی شکائتوں کا
رگوں میں اُتری، اُتر کے بکھری، بکھر کے پھیلی بغاوتوں کا
خراج ہے یہ محبتوں کا، عداوتوں کا
انہیں بھی دیکھو جو سر پہ مٹی کو اوڑھتی ہیں
جو اپنی حُرمت کی کرچیوں کو جگر کے پوروں سے چُن رہی ہیں
جو خواب پلکوں سے بُن رہی ہیں
پھر ان کو خود ہی اُدھیڑتی ہیں
بچی کُھچی سی جو اپنی سانسیں سمیٹتی ہیں
سمیٹ کر خود بکھیرتی ہیں
کوئی تو ان کا جہاں میں ہوگا، مگر کہاں ہے؟
پنہ میں لے لے جو ان کو اپنی، وہ گھر کہاں ہے؟
خراج ہے یہ محبتوں کا، عداوتوں کا
فلک پہ اُگتا ہوا یہ سورج گواہی دے گا
ہوائیں روتی ہیں سُن کے ماؤں ‌کے بین ہر پل
جو کوکتی ہیں، جو ہُوکتی ہیں
سسک سسک کر جو جی رہی ہیں
جو اپنے بیٹوں کی رکھ کے لاشیں
زمیں پہ دیوار چُن رہی‌ ہیں
خراج ہے یہ محبتوں کا، عداوتوں کا
مگر وہ پل دور اب نہیں ہے، ہمیں یقیں ہے
جہاں میں چاروں ہی اور کرنوں کا راج ہوگا
مٹے ہوؤن کے، لُٹے ہوؤں کے سروں پہ خوشیوں کا تاج ہوگا
نقاب اُترے کا دیکھ لینا
جو بھیڑ لگتے تھے، بھیڑیے ہیں
اور اُن کے ابرو کے اک اشارے پہ موت رقصاں تھی،
چاروں جانب
اور آستیوں میں ان کے خنجر چُھپے ہوئے تھے
سمجھ لو یومِ حساب ان کا قریب ہے اب
نقاب اُترے گا دیکھ لینا
 

عمر سیف

محفلین
خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں

جو اپنے ہاتھ سے کچھ کر نہیں سکتے
وہی کہتے ہیں اکثر یہ
خُدا یہ کام کر دے گا ۔۔۔ خُدا ہو کام کر دے گا
گِریں کے جب سنبھالے گا
گلے سے وہ لگا لے گا
ہمیں منزل کی جانب لے کے جائے گا
ہمیں رستے کی ہر مشکل سے وہ خود ہی بچائے گا
ہمیں‌ خود کچھ نہیں کرنا
جو اس نے کر دیا مقسوم وہ تو ہو کے رہنا ہے
تو پھر بےکار کی کوشش کریں ہم کیوں؟
ہمیں تو بس ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ جانا ہے
خُدا نے خود کِھلانا ہے ۔۔ خدا نے خود پلانا ہے
ہر اک منظر دکھانا ہے
گِرانا ہے، اٹھانا ہے
بنانا ہے، مٹانا ہے، مٹا کر پھر بنانا ہے
جو مرضی اس کی کر دے وہ
ہمیں خود کچھ نہیں کرنا
فقیری، بادشاہی اس کی جانب سے
اچھائی اور بُرائی اس کی جانب سے
بنا اس کی اجازت کے کوئی پتّہ نہیں ہلتا
اگر یہ ہی حقیقت ہے
تو پھر ہم “عدل“ کو کس جا پہ رکھیں گے؟
اگر ہر کام میں اس کی ہی بس،
اُس کی رضا کو مان لیں ہم تو
بنا اس کی اجازت کے اگر پتّہ نہیں پلتا
جرائم میں شراکت اس کی ٹھہرے گی
تو ہر مجرم کہے گا یہ،
یہی مرضی خُدا کی ہے
سزا کس بات کی ہوگی؟
اگر نیکی کسی نے کی،
تو اُس مین اُس کی کیا خوبی؟
یہی مرضی خُدا کی ہے
یہاں تک کے جنت اور جہنم کا عقیدہ خام ٹھہرے گا
تو جنت کس کی کس بُنیاد پر دو گے؟
جہنم کی سزا کس کے لیے ہوگی؟
زمیں میں جو بھی بوتا ہے، وہی شے کاٹتا بھی ہے
کسی کو تم نے چاول بو کے گندم کاٹتے دیکھا؟
یہی سچ ہے کہ وہ معبعد ہے اپنا
ہمیں اس کے کرم کی ہر گھڑی، ہر جا ضرورت ہے
اُسے سجدے کریں تو نور پیشانی پہ کھلتا ہے
اور اس کو یاد کرنے سے سکوں سا دل کو ملتا ہے
وہ “کن“ کہہ کر جو چاہے کر دے پل بھر میں
وہی ہے ماؤں کے ارحام کے اندر بھی تصویریں بناتا ہے
وہی اوّل، وہی آخر
وہ کیا ہے اُس کا احاطہ کوئی بھی کر نہیں سکتا
مگر اک پل کو سوچو تو،
یہ سچ ہے پھول، پھل، پتے، شجر سارے
بِنا اس ی رضا کے اُگ نہیں سکتے
مگر مالی کو بھی تو اپنی محنت کرنی پڑتی ہے
زمیں کا چیر کے سینہ ہر اک کونپل نکلتی ہے
مگر ہر بیج بونا ہے کسانوں کو،
پھر اس پر ہل چلانا ہے، پسینہ بھی بہانا ہے
خُدا کے ہی کرم سے بارشیں ہونگی
زمیں میں رزق نکلے گا
جو اس نے لکھ دیا، دے گا مگر اس میں
ہمارے ہاتھ کی محنت بھی شامل ہے
کوئی بیمار ہوتا ہے
خُدا اس کو شفاء دے گا
مگر اس کو معالج کو دکھانے کی ضرورت ہے
وسیلہ جو بھی ہے اس میں کرم قدرت کا شامل ہے
خُدا کے تم خلیفہ ہو،
تمھیں بھی کچھ تو کرنا ہے
خُدا عالم بھی ہے اور علم بھی، اس کو تلاشو تم
عمل ہی علم کی سیڑھی ہے اس سے دور مت جاؤ
خدا پر تم یقیں رکھو
مگر خود کو کبھی بیکار مت جانو
خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں
اُسے وہ کام کرنے دو

(کرسٹینا لیمب کی تصنیف " Waiting for Allah " کے ری ایکشن میں)
 

عمر سیف

محفلین
محبت کی نہیں تم نے ۔۔۔

اگر تم کو محبت تھی
تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں
ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا ۔۔۔
درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟
وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گُلاب اور میں
مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا
چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا
کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا
کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا
تمھیں بھی یاد تو ہوگا؟
اگر تم کو محبت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟
نہیں جاناں!
محبت تم نے دیکھی ہے، محبت تم نے پائی ہے
محبت کی نہیں تم نے ۔۔۔
 
Top