محبت کی نہیں تم نے - فاخرہ بتول

عمر سیف

محفلین
" خوابوں کی راہگزر "

تم نے دیکھی ہے وہ خوابوں کی راہگزر
جس کی منزل تھی اُجڑا ہوا نگر
سُر مئی شام تھی جس کے چاروں طرف
جس میں منظر جُدائی کے دے صف بہ صف
وصل کا سربکف!
بن گیا کرچیاں مَن کا نازک صدف
تو نے دیکھی ہے خوابوں کی وہ راہگزر؟؟؟
سنگ ریزوں کی بارش ہوئی تھی جہاں
اور کومل سے جذبے ھدف بن گئے
پائمالی نے ان کو لہو کر دیا
با وُضو کر دیا۔۔۔ سُرخرو کر دیا
آج بھی جو مسافر گیا اس طرف
اس نے پایا نہیں واپسی کا نشاں
اُس کو ڈھونڈا فلک نے یہاں سے وہاں
تم نے دیکھی ہے خوابوں کی وہ راہگزر؟؟؟
 

عمر سیف

محفلین
ہدیہ بحضور سرورِ کونین"ص"

جس کو بھی اسمِ محمد”ص“ کا نگینہ مل گیا
یوں سمجھ لو سارے عالم کا خزینہ مل گیا

مشکلوں میں آپ”ص“ کو جس نے پکارا یانبی”ص“
یوں لگا گرداب میں اس کو سفینہ مل گیا

آبِ کوثر کی سوا توقیر اُس دم ہوگئی
جس گھڑی اُس میں محمد”ص“ کا پسینہ مل گیا

آپ”ص“ کی چوکھٹ پہ سر اپنا جھکایا تو لگا
ہم کو جنت کی طرف اِک اور زینہ مل گیا

جب خیالوں میں ترے روضے کی جالی چوم لی
یوں لگا، ہم کو تو گھر بیٹھے مدینہ مل گیا

بدر کے میداں سے لے کے کربلا کے باب تک
ہم کو جینے اور مرنے کا قرینہ مل گیا

ناز کیوں اپنے مقدر پر نہ ہو ہم کو بتول
پھر گناہوں کی تلافی کا مہینہ مل گیا
 

عمر سیف

محفلین
” خاتونِ جنت کے نام “

چمن ہے دینِ محمد”ص“، بہار ہے زہرا”ع““
حیا کے ملک کی پروردِگار ہے زہرا

وہ جس کے گھر کا فرشتے طواف کرتے تھے
صحابی داڑھی سے گھر جس کا صاف کرتے تھے
خدیجہ”ع“، مریم”ع“ و حّوا”ع“ شعار ہے زہرا”ع“
حیا کے ملک کی پروردِگار ہے زہرا

علی”رض“ کی زرجہ ہے حسنین”رض“ کی ہے ماں دیکھو
رسولِ پاک”ص“ کی دختر ہے اس کی شاں دیکھو
خدا نے خود کہا، ذی وقار ہے زہرا”ع“
حیا کے ملک کی پروردِگار ہے زہرا

وہ جس پہ آیہِ تطہیر ناز کرتی تھی
جو رب سے ہر گھڑی راز و نیاز کرتی تھی
سراپا نور ہے حیدر کا وار ہے زہرا”ع“
حیا کے ملک کی پروردِگار ہے زہرا

بتول ایسی کہ جس کی کنیز حور بنی
خبر ہے موسی کو زہرا ہی وجہِ طور بنی
ہے حق کی جیت تو باطل کی ہار ہے زہرا”ع“
حیا کے ملک کی پروردگار ہے زہرا”ع“

قرآنِ پاک ہے جس کا قصیدہ وہ ہے بتول
ہیں وصف سارے ہی جس کے حمیدہ ہو ہے بتول
حسینیت کا قرنیہ، معیار ہے زہرا”ع“
حیا کے ملک کی پروردگار ہے زہرا”ع“
 

عمر سیف

محفلین
شبیر تیرے غم میں جو پل پھر کو رو گیا
سمجھو وہ عام شخص پھی اب خاص ہوگیا

پوچھا خدایا! اور کوئی امتحان ہے؟
پروردگار پل کو تو ششدر سا ہوگیا

کتنا عظیم تھا وہ محمد”ص“ کا نورِ عین
اپنے لہو سے داغ زمانے کے دھو گیا

حق اس کے باپ دادا کے قدموں کا مقتدی
باطل ہے ان کے آنے سے گھبرا کے جو گیا

عباسِ باوفا کو ہو اپنا سلام جو
قلب و نظر میں بیج وفاؤں کے بو گیا

اے کربلا! تجھ کو بھی وہ مہمان یاد ہیں؟
بے آب جو فرات کے پہلو میں سو گیا
 

عمر سیف

محفلین
یہی اب کام کرنا ہے

ستاروں سے کہو
اب رات بھر ہم ان سے باتیں کر نہیں سکتے
کہ ہم اب تھک گئے جاناں!
ہمیں جی بھر کے سونا ہے
کسی کا راستہ تکنے کا یارا بھی نہیں ہم کو
مسافر آگیا تو ٹھیک ہے لیکن،
نہیں آتا تو نہ آئے
ان آنکھوں میں ذرا بھی روشنی باقی نہیں شاید
وگرنہ تیرگی ہم کو یوں گھیرے میں نہیں لیتی
مگر یہ سب،
ازل سے لکھ دیا تھا لکھنے والے نے
ستاروں سے کہو، بہتر ہے ہم کو بھول ہی جائیں
ہمیں آرام کرنا ہے
ضروری کام کرنا ہے
 

عمر سیف

محفلین
بُت کدے جا کے کسی بت کو بھی سجدہ کرتے
ہم کہاں سوچ بھی سکتے تھے کے ایسا کرتے

عمر بھر کچھ بھی تو اپنے لیے ہم نے کیا!
آج فرصت جو ملی ہم کو تو سوچا، کرتے

ہم تو اس کھیل کا حصہ تھے ازل سے شاید
سو تماشہ جو نہ بنتے تو تماشہ کرتے

دل کو تسکین ہی مل جاتی ذرا سی اس سے
نہ نبھاتے چلو تم کوئی تو وعدہ کرتے

جوڑنے میں تو یہ پوریں بھی لہو کر ڈالیں
کرچیوں کو جو نہ چھوتے تو یہ اچھا کرتے

بھول جانے کا ارادہ بھی ارادہ ہی رہا
جان پر بن ہی تو جاتی جو ہم ایسا کرتے

اس اماوس نے کیے قتل کئی چاند بتول
ہم اُجالے کی کہاں اِس سے تمنا کرتے
 

عمر سیف

محفلین
محبت بھول جاؤ تم

یہ تم نے کیا کیا؟
پتھر کے بُت میں دھڑکنوں کو کھوجنا چاہا
یہ تم نے دل کی دھڑکن میں،
پرایا گیت لکھ ڈالا
خود اپنے ہاتھ سے اپنے ہی ماتھے کو،
سیاہی سے کیا کالا
محبت اس جہاں کی شے نہیں،
میں نے کہا تھا
اب اس شے کی تجارت ہو رہی ہے جس طرف دیکھو
مری باتوں پہ اب وشواس تم کو آگیا ہوگا؟
چلو، اشکوں سے سارے خواب دھو ڈالو
سُنو، جو تمھارا ہاتھ مانگے آج سے تم اس کے ہو جاؤ
محبت بھول جاؤ تم۔۔۔۔ محبت بھول جاؤ تم
 

عمر سیف

محفلین
” انا کی بات جانے دو“

اَنا کی بات جانے دو
اَنا تو اس گھڑی ہم نے گنوا دی تھی
تمھیں جس پل کہا اپنا
ہتھیلی پر تمھارا نام لکھا تھا، حنا سے جس گھڑی ہم نے
تمھیں پلکوں پہ حیرت کی جگہ ہم نے سجایا تھا
ہمیں ہم سے ہی جب تم نے چرایا تھا
تمھیں جب دل نے دھڑکن میں بسایا تھا،
تمھیں اپنا بنایا تھا
” ہمیں تم سے محبت ہے“ تمھیں سرگوشیوں میں جس گھڑی ہم نے بتایا تھا
اَنا کی بات جانے دو
اَنا تو اس گھڑی ہم نے گنوا دی تھی
اَنا کی بات جانے دو
 

عمر سیف

محفلین
مگر اب نہیں ۔۔۔

تمھیں بچھڑے زمانہ ہوگیا جاناں!
مگر اب نہیں
کبھی صبحیں، کبھی شامیں،
تمھاری یاد کی خوشبو میں کھوئی سی مجھے محسوس ہوتی ہیں
 

عمر سیف

محفلین
Deception

مجھے تنہا سمجھتے ہو؟
تمھاری یاد کے روشن ہیولے میں
ہوں جاناں! اس طرح سے میں
کہ جسیے آسماں کو چاند تاروں کے جھڑمٹ میں
مجھے تنہا سمجھتے ہو؟
 

عمر سیف

محفلین
اُس کا خیال ذہن پہ چھایا، چلا گیا
بادل سا کوئی آنکھ میں آیا، چلا گیا

اے رات تو نے اپنا بھروسہ گنوا دیا؟
تُو نے جو خواب آنکھ میں لایا، چلا گیا

ہونٹوں پہ اس تضاد نے پہرے بٹھا دیئے
ہم نے تو جس کسی کو بلایا، چلا گیا

اچھا ہی تھا کہ دھوپ میں جلتے کسی کے سنگ
چھاؤں میں آکے بیٹھے تو سایہ چلا گیا

اُس شہرِ خامشی کا بھی اپنا مزاج تھا
جس نے بھی اس کو آ کے بسایا چلا گیا

جھونکا ہوا کا دل کو مرے چھو گیا بتول
اور اس نے ایک راز چُرایا، چلا گیا
 

عمر سیف

محفلین
ٹوٹے ہوئے لفظوں میں روانی نہیں ملتی
لمحوں میں تو صدیوں کی کہانی نہیں ملتی

دل جل گیا اب اس میں دھواں تک نہیں اُٹھتا
اِس راکھ پہ تصویر پرانی نہیں ملتی

اظہار پہ تالے ہیں تو تالے ہی سمجھنا
ہر لکھی ہوئی بات زبانی نہیں ملتی

جو مانگو مقدر سے، ہمیں وہ نہیں ملتا
اس دور میں راجہ کو بھی رانی نہیں ملتی

باقی نہیں خاروں میں بھی پہلی سی چبھن اب
اور پھولوں پہ پہلی سی جوانی نہیں ملتی

سوچا تھا کسی شام سہانی کو ملیں گے
اور شام ہمیں کوئی سہانی نہیں ملتی
 

عمر سیف

محفلین
محبت کو نہ جانے دو

محبت کو نہ جانے دو
اگر تم چاروں جانب غور سے دیکھو
تو تم کو یہ خبر ہوگی
زمانہ ایک مٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
اگر آنکھوں میں ڈالو گے،
تو بینائی گنواؤ گے
اگر دل میں سنبھالو گے، تو تم جینے سے جاؤ گے
زمانہ ایک مُٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
چھوؤ تو ہاتھ میلے ہوں
چلو اس پر، تو دونوں پیر چھالے ہوں
ہوس نے جال چاروں سمت ڈالے ہیں،
اور اس کے روگ کالے ہیں
سنبھل کر جو چلے، مانو مقدر کا سکندر ہے
زمانہ ایک مٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
مگر اس خاک میں جب دل کی آنکھوں سے کوئی دیکھے
تو اِ انمول ہیرا، سامنے اپنے وہ پائے گا
ہزاروں چاند سے بڑھ کر اُجالے لے کے آئے گا
اُسے حیران کر دے گا
بڑی سےہو بڑی مشکل، اُسے آسان کر دے گا
اُسی انمول ہیرے کا محبت نام ہے جاناں!
محبت دل پہ دستک دے تو آنے دو،
محبت کو نہ جانے دو
مقدر سے اگر تم یہ مل جائے، گنوانا مت
اُسے مٹھی میں بند رکھنا، گِرانا مت
یہ وہ دولت ہے جو اک بار،
گُم ہو کر نہیں ملتی
یہ ہو خوشبو ہے جو ہر پھول کے در پہ نہیں جاتی
محبت جب چلی جائے کبھی واپس نہیں آتی
محبت کو نہ جانے دو
 

عمر سیف

محفلین
اگر تم چاند کی کرنوں کو چھو لیتے

محبت چاند جیسی ہے
جو دیکھو تو، بہت ہی خوبصورت خواب لگتی ہے
سنہرا آب لگتی ہے
اچھوتا باب لگتی ہے، بہت نایاب لگتی ہے
مگر یہ ہے سرابوں سی
اسے چھونے کی خواہش میں،
مسافر گھر کا رستہ بھول جاتا ہے
اگر تم چاند کی کرنوں کو چھو لیتے
تمھارے ہاتھ کی اِن انگلیوں کی ساری پوروں پر
ہزاروں آبلے ہوتے
 

عمر سیف

محفلین
مانگے کے چراغوں سے اُجالا نہیں کرتے
پلکوں سے گِرے اشک سنبھالا نہیں کرتے

تاخیر ہوئی ہے تو کوئی وجہ بھی ہوگی
یوں دل میں کوئی واہمے پالا نہیں کرتے

پھر بعد میں رونا پڑے جس کے لیے، اُس کو
یوں خواب جھروکوں سے نکالا نہیں کرتے

جس شخص کے ہونٹوں سے ہنسی چھین لی تم نے
کیوں آکے تم اب اس کو ازالہ نہیں کرتے

پھر اس کے جنازے کو اٹھانا بھی پڑے گا
عزت سرِ بازار اچھالا نہیں کرتے
 

عمر سیف

محفلین
بھڑکے ہوئے شعلوں کو ہوائیں نہیں دیتے
جاتے ہوئے لمحوں کو صدائیں نہیں دیتے

مانا یہی فطرت ہے مگر اس کو بدل دو
بدلے میں وفاؤں کے جفائیں نہیں دیتے

گر پھول نہیں دیتے تو کاٹتے بھی تو مت دو
مُسکان نہ دینی ہو تو آہیں نہیں دیتے

تم نے جو کیا، اچھا کیا، ہاں یہ گلا ہے
منزل نہ ہو جس کی تو وہ راہیں نہیں دیتے

یہ بار کہیں خود ہی اُٹھانا نہ پڑے کل
اوروں کو بچھڑنے کی دعائیں نہیں دیتے
 

عمر سیف

محفلین
ہوا سے بات کرنے دو

ہوا سے بات کرنے دو
ہمیں اس سے گلہ ہے جو،
اُسے بھی تو بتانا ہے
کبھی آ کر کواڑوں کو بجاتی ہے
ہمیں سوتے ہوئے اکثر جگاتی ہے
کبھی پردیس سے سندیسہ لاتی ہے کہ کوئی آنے والا ہے
مگر آتا نہیں کوئی۔۔۔۔۔
یہ پلکوں پر لرزتے سب چراغوں کو بُجھاتی ہے
کبھی یہ بانسری کے سُر جگاتی ہے
کبھی یہ دھڑکنوں کی تال میں رچ بس سی جاتی ہے
پرانے خشک پتوں کو گراتی ہے
پرندوں کو اُڑاتی ہے۔۔۔۔ انہیں بےگھر بناتی ہے
ہوا سے بات کرنے دو
سمندر کے یہ سینے پر اُتر کے کشتیاں دیکھو چلاتی ہے
یہ چاروں اور کیسی آتی جاتی ہے
یہ کیسے ساحلوں کی ریت کو دھیرے سے چھو کر نت نئے چہرے بناتی ہے
پھر ان کو خود مٹاتی ہے
یہ کیسے بادلوں کو پَر بِنا اُڑنا سکھاتی ہے
پھر اُن سے لے کے بوندیں آ کے دھرتی کو سجاتی ہے
نفس کے تار میں کیسے اُتر کر مسکراتی ہے
یہ کیسے گُنگناتی ہے
یہ کیسے چلتی ہے اور کس طرح سے تھم سی جاتی ہے
ہوا سے بات کرنے دو۔۔۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
”مرد“

کل جو لڑکی ساتھ تھی اُس کے
آج نہیں ہے
آج جو لڑکی ساتھ ہے اُس کے
کل نہ ہوگی
وہ احباب میں بیٹھ کر اکثر
کہتا ہے کہ یارو سوچو،
لڑکیاں پاگل ہوتی ہے سب
ہم کو وقت بتانا ہے بس
اور ہو جیون یار رہی ہیں
خود کو کیسے مار رہی ہیں
 
Top