محبت کی نہیں تم نے - فاخرہ بتول

عمر سیف

محفلین
اگر تم باوفا ہوتے ۔۔۔

اگر تم باوفا ہوتے ۔۔۔
تو ہم نے خواب کا چہرہ بننا تھا
حیا سے ریشمی پلکوں کو گِرنا تھا، اُٹھانا تھا
ہمیں دھڑکن کے میٹھے تال میں تم کو بسانا تھا
ہتھیلی کے گھنیرے جال میں تم کو لکھانا تھا
تمھیں ماتھے کی بندیا میں چھپانا تھا
لرزتے، کان کے بالے کا تم کو بھید پانا تھا
تمھیں ہاتھوں کا کنگن بھی دکھانا تھا،
مقدر آزمانا تھا،
تمھیں ہونٹوں کے رنگوں کو شرارت سے مٹانا تھا
تمھیں گھونگٹ اٹھانا تھا
ہمیں اپنا بنانا تھا
اگر تم باوفا ہوتے ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
چلو، رستے جُدا کر لیں

چلو، رستے جدا کر لیں
تمھارے اِن رویوں سے بہت تھک کر،
نئے رستے پہ چلنے کا،
مرے دل نے ارادہ کر لیا آخر
مجھے بھی تو ذرا جینے کا حق دو
چلو، رستے جُدا کر لیں
 

عمر سیف

محفلین
کہانی روٹھ جاتی ہے

اگر کچھ پل،
میں آنکھیں موند کر خود میں اُتر جاؤں
جہاں کو چھوڑ کر میں دل کے گھر جاؤں
وہاں پہ ہُو کا عالم دیکھ کے پل بھر کو ڈر جاؤں
مجھے لگتا ہے اُس لمحے
کہانی روٹھ جاتی ہے
 

عمر سیف

محفلین
تری یادوں کی چادر اوڑھ لیتی ہوں

میں تنہا تو نہیں جاناں!
مگر جب بھی پرندوں کو کبھی اُڑتے ہوئے دیکھوں
کبھی تتلی کو پھولوں کے لبوں کو چومتے دیکھوں
ہواؤں پر کبھی بادل کے گورے سے ہیولوں کو،
اچانک جھولتے دیکھوں
میں باہر سے سبھی ناتوں کو اس پل توڑ لیتی ہوں
اور آنکھیں موند لیتی ہوں
اور اپنے سر پہ پل بھی کیلئے جاناں!
تری یادوں کی چادر اُوڑھ لیتی ہوں
 

عمر سیف

محفلین
چلے آؤ

چلے آؤ،
وگرنہ دھوپ کی چادر میں یہ تن من
گھڑی میں راکھ کر دے گا
چلو آؤ،
بھی اُمید کی پلکوں پہ روشن دیپ ہیں جاناں!
اگر یہ بجھ گئے تو تیرگیِ شب خون مارے گی
تمھارا نام دھڑکن میں ابھی تک رقص کرتا ہے
ہواؤں نے تمھارا لمس جو،
تم سے چُرایا تھا۔۔۔ ہمارے پاس لایا تھا
ابھی وہ لمس باقی ہے
بہت بےچین کرتا ہے
لہو میں بین کرتا ہے
چلے آؤ،
ابھی تک چاند میں چہرہ تمھارا مسکراتا ہے
ابھی خوشبو کا قاصد دل پہ دستک دینے آتا ہے
حسیں پیغام لاتا ہے
ابھی تک سب وہی کچھ ہے
وہی چاہت بھری باتیں
وہی لڑنا جھگڑنا پیار میں اور روٹھ جانا بھی
گھڑی بھر میں بہلنا اور آخر مان جانا بھی
تمھیں جو فون کر کے تم سے کہنا ” جلد آ جاؤ،
یہ دل تم بن نہیں لگتا“
تمھارا جلد آنا اور وہ سب کچھ ۔۔۔
محبت اور شرارت سے بھرے لہجے
ابھی تک سب وہی کچھ ہے
چلے آؤ ۔۔۔
کہیں ہم گُم نہ ہوجائیں
 

عمر سیف

محفلین
آنچل کو گھونگٹ کر جانا اب کی بار جو آؤ تم
مانگ میں خود سیندور لگانا اب کی بار جو آؤ تم

کان کا بالا چھیڑ رہا ہے گال کو ہولے ہولے سے
اس کو محبت سے سجانا اب کی بار جو آؤ تم

دیکھ کے اپنی سونی کلائی، مَن میں ہوک سی اُٹھتی ہے
چوڑیاں اور کنگن پہنانا اب کی بار جو آؤ تم

نٹ کھٹ سکھیاں چھیڑتی ہیں کہ ساجن تم کو بھول گیا
دیکھو اُن کو خوب ستانا اب کی بار جو آؤ تم

کاگا چھت پر روز سے بولے، آنگن پھر بھی سُونا ہے
دیکھو اب واپس مت جانا اب کی بار جو آؤ تم

لٹ اُلجھی نے ماتھے کی بندیا کو بھی الجھا ڈالا
جُلمی، اس کو بھی سُلجھانا، اب کی بار جو آؤ تم
 

عمر سیف

محفلین
پیار کے کھیل میں جیون اپنا ہار گئی تو پھر کیا ہوگا
ہجر کی اگنی تجھ کو جلا کر مار گئی تو پھر کیا ہوگا

بھیتر میں تُو ہُوک دبائے پھرتی رہتی ہے پل پل
دیکھ جگر کی کوک ستاروں پار گئی تو پھر کیا ہوگا

جوگی کا یوں گاؤں آنا ٹھیک نہیں ہے سوچ لے تو
اُس کے پیچھے پیچھے بھولی نار گئی تو پھر کیا ہوگا

دل کے ہاتھ سے دھڑکن جائے اور کبھی واپس نہ آئے
روک لے ورنہ دھڑکن اب کی بار گئی تو پھر کیا ہوگا

کہتے ہیں جو پریت کے دیس گیا وہ پتھر بن جاتا ہے
سوچ سکھی، جو تُو بھی اسی سنسار گئی تو پھر کیا ہوگا
 

عمر سیف

محفلین
راجکمار کہاں ملتے ہیں؟

بھولی بھالی ناری سُن لے،
چنچل نین کٹورے تیرے، گال گُلابی کورے تیرے
ہونٹوں پر اک نٹ کھٹ لالی
ناگن زُلف ہے کالی کالی
ماتھے پر بندیا چمکیلی
چال تری ہے چھیل چھبیلی
اور اُس پر یہ قاتل جوبن،
گھائل کر دے جس کا درپن
چاند سے مُکھڑے سے تُو جس پل،
جھٹک کے اپنی لٹ کو ہٹائے
لنگنا تیرا شور مچائے
بھولی بھالی ناری سُن لے
ریت کو پلکوں سے مت چُننا
خواب نہ بُننا ۔۔۔
پریت تو زہر پیالہ دے کر جیون مانگے
سب سنسار ہے پریت کا روگی،
اس میں راجا بن گیا جوگی
اِس میں رام ہے، اِس میں رانجھا
سیتا، ہیر کا روگ ہے سانجھا
پریت کے روگ سے بچنا ناری!
اِس کا وار بڑا ہے کاری
پریت کا رستہ بھول بھُلیاں
اِس میں نہیں ہے وصل کی چھیّاں
ہجر کی دھوپ میں تن من اپنا جھلسائے گی
چلتے چلتے تھک جائے گی
بالآخر تو پچھتائے گی
تُو نے جانا،
جیون گویا راجاؤں کی ایک کتھا ہے
مَن مندر ہے، پریت ہے بھگون، پریت ہے پوجا
پریت دُعا ہے
بھولی بھالی ناری سُن لے!
جس دن پریت کی ہوجائے گی
ماٹی اندر سو جائے گی
سب کو خار یہاں ملتے ہیں
راجکمار کہاں ملتے ہیں؟
 

عمر سیف

محفلین
” انتہا پسند “

انتہا چھونے کی عادت ہے ہماری جاناں!
درمیانی کسی صورت کو کہاں مانتے ہیں؟
ڈوبتا ہوگا تو مُڑ کر نہیں دیکھیں گے کبھی
اور اگر ہم کو کنارے پہ اُترنا ہوگا
کس کی جرات ہے جو روکے گا ہمیں بڑھ کے بتول؟
آر یا پار ازل سے ہے ہماری فطرت
اور فطرت کو بدلتا ہوا کس نے دیکھا؟
تم کو چاہا ہے تو سوچو کہ کوئی بات تو ہے
مرے ہاتوں میں ابھی تک یہ ترا ہات تو ہے
ورنہ یہ ٹوٹتے بنتے ہوئے رشتے ہوتے؟
ہم گناہگار نہ ہوتے تو فرشتے ہوتے
 

عمر سیف

محفلین
گواہی ۔۔۔

تمھاری بیٹھے بیٹھے چونک اُٹھنا،
کھوئے رہنا، کچھ نہ کہنا
اُفق کے پار تکنا، کھوجنا اور کچھ نہ کہنا
ہر اک دستک پہ در کے پاس جا کر پھر پلٹ آنا
کبھی کاغذ پہ کچھ لکھنا اور اس کو پھاڑ بھی دینا
گواہی دے رہا ہے یہ
تمھیں اب بھی یقیں ہے جانے والا لوٹ آئے گا
 

عمر سیف

محفلین
ذرا سی بات تھی

تمھیں اپنا بنانا کس قدر دشوار ہے جاناں !
مگر اس سے بھی مشکل ہے
تمھیں دل سے بھلا دینا
ذرا سی بات تھی جو تم سے کہنی تھی
مگر کہنے کی نوبت ہی نہیں آئی
مقدر نے نہایت ہی سہولت سے
تمھیں میرا بنا ڈالا
بنا مشکل کے پھر میں نے،
تمھیں دل سے بھلا ڈالا
 

عمر سیف

محفلین
محبتوں کا خیال رکھنا

محبتوں کا خیال رکھنا
کہیں نہ ایسا ہو بے دھیانی میں،
تم ہتھیلی کو کھول ڈالو
ہوائیں سازش پہ آن اتریں
تو خشک پتوں سا حال ہوگا
گلاب رُت کا زوال ہوگا
محبتوں کا خیال رکھنا ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
کوئی تو بات ایسی تھی

کوئی تو بات ایسی تھی
جُدائی کا سبب ٹھہری
جو صدیوں کے سفر سے تھی
مگر پلکوں پہ پل بن کر کھٹکتی ہے
نفس میں آ کے چھبتی ہے
جو دل میں چھید کرتی ہے
زمانے پر عیاں سب بھید کرتی ہے
کروں جب یاد تو یہ سانس رکتا ہے
یہ دل تھم تھم کے چلتا ہے
کوئی تو بات ایسی تھی
 

عمر سیف

محفلین
خاک میں گزرا ہوا کل نہیں ڈھونڈا کرتے
وہ جو پلکوں سے گرا پل نہیں ڈھونڈا کرتے

پہلے کچھ رنگ لبوں کو بھی دیئے جاتے ہیں
یونہی آنکھوں میں تو کاجل نہیں ڈھونڈا کرتے

بیخودی چال میں شامل بھی تو کر لو پہلے
یوں تھکے پیروں میں پائل نہیں ڈھونڈا کرتے

جس نے کرنا ہو سوال، آپ چلا آتا ہے
لوگ جا جا کے تو سائل نہیں ڈھونڈا کرتے

یہ ہیں خاموش اگر، اس کو غنیمت جانو
یونہی جذبات میں ہلچل نہیں ڈھونڈا کرتے

پیچھے کھائی ہے تو آگے ہیں سمندر گہرا
مسئلہ ایسا ہو تو پھر حل نہیں ڈھونڈا کرتے

اِن کھلی آنکھوں سے خوابوں کو تلاشو نا بتول
پلکیں ہو جائیں جو بوجھل نہیں ڈھونڈا کرتے
 

عمر سیف

محفلین
اکثر ایسا ہو جاتا ہے
دھوپ کو سایہ ڈھو جاتا ہے

آنکھ میں آنسو کی فصلوں کو
کون ہے آ کر بو جاتا ہے

آس کا پنچھی اُڑتے اُڑتے
دور اُفق میں کھو جاتا ہے

کھویا لمحہ، آکے گلے سے
ملتا ہے اور رو جاتا ہے

دھرتی روند کے چلنے والا
ماٹی اندر سو جاتا ہے
 

عمر سیف

محفلین
وہ دل میں مرے گھات لگا کر ہی رہے گا
جذبات میں ہلچل سی مچا کر ہی رہے گا

ہر بات میں تکرار کی عادت کے سبب وہ
رشتے میں کوئی چھید بنا کر ہی رہے گا

کہتا ہے، مجھے چاند کو چھونے کی ہے خواہش
اک روز زمیں پر اسے لا کر ہی رہے گا

کچا ہے گھروندا مرا، بادل بھی ہے ضد میں
لگتا ہے کوئی کام دکھا کر ہی رہے گا

گرتی ہے تو سو بار گرے، اُس کی بلا سے
وہ ریت کی دیوار بنا کر ہی رہے گا

شک روگ ہے یہ دل کو اگر چھو لے تو سمجھو
بُنیاد وہ اس گھر کی ہلا کر ہی رہے گا
 

عمر سیف

محفلین
Innocence

مرے بچے نے جب مجھ سے کہا، مما!
ذرا جگنو مجھے لا دو
مجھے تتلی کے رنگوں کو بھی چھونا ہے
ستارے آسماں پر ہی اُگے ہیں کیوں؟
زمیں پر کیوں نہیں آتے
مجھے بس چاند لا دو، اس سے کھیلوں گا
میں چونک اُٹھی،
یہی کچھ میں نے اپنی ماں سے پوچھا تھا
مرا معصوم سا بچپن،
جو مٹھی سے پھسل کر کھو گیا شاید
مرا بچّہ، جو مرا “ آج “ ہے
اور آنے والا اک حسیں “ کل “ ہے
لہو‌ میں اس کی باتوں سے ہی ہلچل ہے
یہ میرا قیمتی پل ہے
مرا بچہ حسیں تعبیربن کر سامنے ہے اور
ماضی خواب لگتا ہے
تو کیا میں خواب سے آگے نکل آئی؟
 

عمر سیف

محفلین
ہجوم میں مجھ کو تو نے کھڑا کیا بھی تو کیا
عدو کا کام ترے ہاتھ سے ہوا بھی تو کیا

میں جی رہی ہوں تو یہ کم ہے،غور کرنا کبھی
یہ آسماں مرے سر پہ آ پڑا بھی تو کیا

بہت سے لوگوں نے سینے پہ ہاتھ رکھے ہیں
یہ تیر آج میرے دل میں چبھ گیا بھی تو کیا

گُلاب خاک پہ رکھا تو خار مُٹھی ہیں
ستم شعار! تجھے یہ ہنر ملا بھی تو کیا

وہاں پہ جا کے بھی جب نامراد ہونا ہے
یہ راستہ تیری چوکھٹ پہ لے گیا بھی تو کیا

خوشی ہوئی ہے یہ سن کر مگر بتا تو صحیح
تو ہوگیا جو مرے بعد باوفا بھی تو کیا

نہ دل بچا ہے نہ خواہش، ملے ہو اب جا کے
اب اِس مقام پہ مجھ کو ملے خدا بھی تو کیا

ستارے مل کے بھی یہ تیرگی مٹا نہ سکے
ہے میرے ہاتھ میں مٹی کا دِیا بھی تو کیا

اسے تو قید کی عادت سی ہوگئی تھی بتول
یہ دل ہوا تری یادوں سے اَب رہا بھی تو کیا​
 

عمر سیف

محفلین
طمانچہ

مت تہذیب تمدّن کی تم، ہم سے بات کرو
دل کا درد چھلک جائے گا ورنہ آنکھوں سے
غیرت کے اس نام پہ اب تک جتنے خون ہوئے
ان میں کل اک چار سال کی بچی بھی دیکھی
جس نے ہاتھ میں کپڑے کی اک گُڑیا تھامی تھی
مٹھی میں اک ٹافی تھی جو اس نے کھانی تھی
اُس کی پلکوں پر حیرت تھی،
حیرت میں تھا خوف
گردن پر خنجر کا گھاؤ اتنا گہرا تھا
جیسے اُس کو کاٹنے والا ہاتھ پرایا ہو
گھر کے غیرت مند مردوں سے، پوچھ سکی نہ وہ
بابا، بھّیا، بولو غیرت کس کو کہتے ہیں!!!
مت تہذیب، تمّدن کی تم ہم سے بات کرو
 

عمر سیف

محفلین
محبت حادثہ ہے

محبت حادثہ ہے
حادثے سے بچ نکلنے کی،
کوئی تدبیر کر لو اس سے پہلے خواب ہو جاؤ
جسے ہم حادثہ کہتے ہیں
جیون کو گھڑی بھر میں
مِٹا کر خاک کرتا ہے
کوئی الزام دھرتا ہے
کبھی معذوریوں کے جال میں قیدی،
بنا کر چھوڑ دیتا ہے
یہ بندھن توڑ دیتا ہے
محبت حادثہ ہے
حادثے سے بچ نکلنے کی کوئی تدبیر کر لو،
اس سے پہلے خواب ہو جاؤ
 
Top